متفرق مضامین

خواتین میں ڈپریشن کا پھیلاؤ

(نائلہ نسرین)

سماجی میل جو ل کی کمی، سوشل میڈیا کا بے جا استعمال اور گھریلو تناؤ خواتین میں ڈپریشن پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں

ڈپریشن ایک ایسی بیمار ی ہے جس میں انسان منفی خیالات پر مبنی دنیا میں گھر تاچلا جاتا ہے۔ یہ خطرناک بیماری ہے جسے اکثر ہمارے معاشرہ میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ڈپریشن ذہنی اور جسمانی بیماریوں کو بڑھانے کا موجب ہے۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا میں 16.71 فیصد نوجوان نسل اس بیماری کا شکار ہے۔ اور اس بات کو قبو ل کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ وہ کسی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ ہمارے معاشرہ میں اکثر و بیشتر ڈپریشن کے شکار افراد کو ’’پاگل‘‘ کہہ کر یا تو الگ کر دیا جاتا ہے یا بر وقت علاج سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ ڈپریشن کے مریض کو اخلاقی سہارے کی ضرورت در پیش ہوتی ہے جو صرف اس کے قریبی لوگ بن سکتے ہیں۔ اگر ڈپریشن کے مریض کو فیملی اور دوستوں کا تعاون میسر نہ آئے تواس کا صحت یاب ہونا مشکل ترین ہو جاتا ہے۔

دنیا کی 3/1 خواتین اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلہ میں ڈپریشن کا شکار ہوتی ہیں۔ ڈپریشن مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر لڑکیوں میں ڈپریشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بلوغت سے پہلے لڑکوں اور لڑکیوں میں ڈپریشن ہونے کا خطرہ برابر ہوتا ہے۔ڈپریشن کی علامت میں بے چینی، اداسی و مایوسی کی کیفیت طاری ہونا جو کافی دیر تک چلتی رہے، ناامیدی وبے بسی کا احساس، خود کو کمتر محسوس کرنا، روز مرہ کے کاموں سے توجہ ہٹ جانا، وزن میں بے حد کمی یا زیادتی، تھکاوٹ کا احساس، سر درد اورخودکشی کرنے کے خیا لات شامل ہیں۔اگر پاکستانی طبقے کی بات کی جائے تو ڈپریشن نہ صرف ان پڑھ طبقے بلکہ تعلیم یافتہ خواتین میں بھی خاصا پھیلتا جا رہا ہے۔ اگر ڈپریشن کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو مختلف وجوہات سامنے آتی ہیں جس میں گھریلو تناؤ کی شکار خواتین کا پلڑا سب سے بھاری ہے اور کام کرنے والی خواتین میں سب سے بڑی وجہ کام کی جگہ پر ہراساں کیا جانا ہے۔ اس کے باعث خواتین نہ صرف ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات خود کشی جیسا قدم بھی اٹھا لیتی ہیں۔

ڈپریشن کی وجوہات میں ایک وجہ انٹر نیٹ بھی ہے۔ تیرہ سے انیس سال کی کمسن لڑکیاں سوشل میڈیا کے بے انتہا اور غیر ضروری استعمال کے باعث اپنے لیے مسائل کھڑے کر لیتی ہیں اور شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا ایک اور طرح سے بھی خواتین میں ڈپریشن کے اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ اکثر خواتین سوشل میڈیا کے بے جا استعمال کی وجہ سے دوسری خواتین کی زندگی سے متاثر ہو جاتی ہیں اور بڑھتی خواہشات،اور کم آمدن کے با عث انہیں نتیجتاً ڈپریشن سے گزرنا پڑتا ہے۔ خواتین میں ڈپریشن کے پھیلاؤ کے کئی عناصر ہیں۔ موجودہ دور میں ٹیکنالوجی کے آنے کے باعث سماجی میل جول کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔

خواتین کے ہر طبقہ اور عموماً ہر عمر میں ڈپریشن کا پھیلاؤ اس بات کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے کہ ذہنی تناؤ معاشرے کا ناسور بن چکا ہے۔ ڈپریشن کے پھیلاؤ کے باعث مختلف محققین نے خواتین میں ڈپریشن کے حوالے سے تحقیقات کیں اور وہ اسباب ڈھونڈنے کی کوشش کی جو خواتین کو ڈپریشن جیسے اندھے کنویں میں دھکیلتے ہیں۔محققین کے مطابق حاملہ خواتین میں بڑھتے ہو ئے ڈپریشن کی وجوہا ت میں ایک وجہ حمل کے دوران ہونے والی پیچیدگیاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکیوں میں ڈپریشن کی وجوہات میں سکول، کالجز اور یو نیورسٹیوں کا ماحول بہت بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ 5سے 6 فیصد کالج جانے والی لڑکیاں ڈپریشن کے مختلف مراحل کا شکار ہوتی ہیں اور پاکستان میں یونیورسٹی جانے والی 8.6فیصد لڑکیاں نامناسب ماحول کے باعث پڑھائی کے دوران ڈپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔

حالیہ تحقیقات خواتین میں ڈپریشن کا ایک اَور پہلو سامنے لارہی ہیں، تحقیق سے عیاں ہوا ہے کہ مالی تناؤ کا شکار خواتین ڈپریشن جیسی بیماری میں دیر تک مبتلا رہتی ہیں۔ غربت ڈپریشن جیسے مرض کی ایک وجہ بن جاتی ہے۔ خواتین میں ڈپریشن کا تیزی سے پھیلاؤ، ارد گرد کے لوگوں اور دوستوں کے سخت رویہ کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ نیز اکیلا پن اور تنہائی ڈپریشن کو بڑھانے کی وجوہات میں سے ہیں۔ متعدد تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ ڈپریشن میں مبتلا خواتین اپنی زندگی میں ہر وقت کسی دکھ یا صدمہ سے گزر رہی ہوتی ہیں۔ڈپریشن کے پھیلاؤ میں بات چیت کی کمی بھی کردار ادا کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کے استعمال کے باعث اکثر لڑکیاں انٹر نیٹ پر اپنی روز مرہ زندگی کے واقعات کو شیئر کر لیتی ہیں مگر اپنے ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ کم بات چیت کرتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے اندر ایسی تنہائی محسوس کرتی ہیں جو انہیں ڈپریشن کی طرف لے جاتی ہے۔

ڈپریشن پر قابو پانے کے لیے خواتین کو خصوصاً چند عوامل کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ ڈپریشن کے مریض کو ہر روز گھر سے باہر سیر کے لیے جانا چاہیے۔ نیز سماجی میل جو ل کو بڑھانا اور سوشل میڈیا کا کم سے کم استعمال ڈپریشن کو ختم کرنے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈپریشن کے مریض کو اکثر اوقات روز مرہ کے کاموں میں دل لگا نا چاہیے۔ حاملہ خواتین کو ہر روز سیر پر جانے کے ساتھ ساتھ مختلف کاموں میں وقت گزارنا چاہیے۔ بڑی عمر کی خواتین کو اخبار، رسائل اور کتب پڑھنی چاہئیں۔

ڈپریشن کے خاتمہ کے لیے ہمیں انفرادی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ سوشل میڈیا پر بے جا وقت ضائع کرنے کی بجائے گھر میں لوگوں سے بات چیت کر کے انہیں ڈپریشن سے نکا لا جا سکتا ہے۔ خواتین زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کر کے اچھے ماحول میں روزگار تلاش کریں۔ اس سے نہ صرف معاشی حالات بہتر ہوں گے بلکہ میل جول بھی بڑھے گا۔ الغرض معاشی استحکام، خوشگوار زندگی، نئی نسل کی بہترین پرورش کے لیے لازمی ہے کہ ہم ڈپریشن جیسی بیماری کو اس معاشرہ میں جڑیں مضبوط کرنے سے پہلے ہی روک لیں۔ ڈپریشن کے مریض کو بھر پور تعاون پیش کر کے ہی ہم اپنے معاشرہ کو اس سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر سکتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button