حاصل مطالعہ

حاصل مطالعہ

٭…دیوبندی مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والی لیکن جداگانہ طرزعمل کی حامل ’’تبلیغی جماعت‘‘نے قریباً 90 برس قبل میوات (ہندوستان) میں جنم لیا۔ اس کی شاخیں پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں قائم ہو چکی ہیں جن میں اسرائیل بھی شامل ہے۔

چنانچہ مفتی محمود بن مولاناسلیمان حافظ جی بارڈولی استاذ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل،گجرات۔(انڈیا) اپنے سفرنامہ ’’دیکھی ہوئی دنیا‘‘،(حصہ سوم) میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل کی سیرکے دوران:

’’… 16تاریخ کودعوت وتبلیغ سے جڑے ہوئے ایک ساتھی سے ملاقات ہوئی جو ہمارے حضرت شیخ الحدیث مفتی احمد صاحب خانپوری دامت برکاتہم سے عقیدت وتعلق رکھتے ہیں۔وہ مدینہ منورہ میں ملے تھے،ہم ان کے مہمان بنے انہوں نے کہا کہ آج میں آپ لوگوں کو زیارت کرواؤں گا۔

یہ شیخ ریاض العجوتھے،وہاں ان کی ’’فلافل العجو‘‘کے نام سے ایک شاندار ریسٹورنٹ ہے،وہاں لے جا کر ہم سے دعا بھی کروائی۔

وہ ہمیں لے کر اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب گئے۔ یہ 14 مئی 1948ءکو عمل میں آنے والی حکومت اسرائیل کا یہ ایک شہر ہے،یہ شہرسمندرکے کنارے پر واقع ہے،اس شہرکاکشادہ اور عالی شان ائرپورٹ ہے۔ سب سے پہلے ہم تل ابیب میں دعوت و تبلیغ کے مرکز پر پہنچے۔

الحمدللہ ! تل ابیب میں دعوت وتبلیغ کامرکز قائم ہو چکا ہے،بالکل ہندوستانی اندازکا سیدھا سادھا مرکز ہے،بستر لگے ہوئے ہیں،مطبخ بھی ہے،اور یہاں سے تل ابیب کاائرپورٹ بالکل قریب ہے۔تل ابیب میں اس طرح کا مرکز دیکھ کربہت خوشی ہوئی،اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حفاظت میں رکھے۔

جب وہاں گئےتوبتایاگیا کہ چند دن پہلے یہاں بہت بڑا اجتماع ہوا تھاجس میں دنیا بھر سے چھ ہزارلوگوں نے شرکت کی تھی اور تقریباً چھیاسی جماعتیں چلہ اور چارمہینے کے لیے روانہ ہوئیں۔

ہم نے شیخ ریاض سے پوچھا کہ:آپ نے تل ابیب جیسی جگہ سے اتنی جماعتیں روانہ کیں،کوئی روکنے والانہیں؟

فرمایا:اللّٰہ ھوالمانعُ،روکنے والا تو اللہ ہے، جب اس نے نہیں روکا تو اب کون روکے گا؟اس مرکز پر ہم نے ظہروعصرپڑھی۔‘‘

(دیکھی ہوئی دنیا۔حصہ سوم۔ مصنفہ مفتی محمود بن مولاناسلیمان حافظجی بارڈولی استاذ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل،گجرات۔(انڈیا) ۔ طبع اول رجب المرجب 1439 ھجری، ناشر نورانی مکاتب www.noorani makaatib.comصفحات269-270)

یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’روکنے والا تو اللہ ہے،جب اس نے نہیں روکا تواب کون روکے گا‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے موجودہ اسرائیل کے وجود میں آنے سے قبل ہی ارض فلسطین میں جماعت احمدیہ مسلمہ کا قیام عمل میں آگیا تھااوراسرائیل کے قیام کے بعد یہاں عرب احمدی مسلمانوں کی ایک مستحکم جماعت قائم ہے۔ کبابیر(حیفا) میں تاریخی احمدیہ دارالتبلیغ مرکز بھی ہے اورپہاڑی کی چوٹی پہ بنی ہوئی نہایت خوبصورت مسجد شیخ محمود بھی،جہاں سے پانچ وقت اذان بلند ہوتی ہے۔

افسوس صرف اس بات کا ہے کہ جب بات جماعت احمدیہ کی ہو تو انہیں اسرائیل اور یہودکا ایجنٹ قراردے دیا جاتا ہے،صرف اس بنا پر کہ اس کی شاخ اسرائیل میں بھی قائم ہے۔مخالفین اس الزام کے ذریعہ ایک طرف سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں جماعت کے خلاف تشکیک اورنفرت کے جذبات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کرتےہیں تو دوسری جانب جماعت احمدیہ مسلمہ کی اکناف عالم میں اعلائے کلمۃ الحق کے سلسلہ میں تبلیغی وتربیتی مساعی کو اپنے تئیں روکنا چاہتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود 140برس قبل اس حقیقت کی یاددہانی کرواچکے ہیں کہ

غرض رُکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے

بھلا خالِق کے آگے خَلْق کی کچھ پیش جاتی ہے

(براہین احمدیہ حصہ دوم صفحہ 114 ۔مطبوعہ 1880ء)

تبلیغی جماعت کا یروشلم میں مرکز قائم نہ کرنے کی وجہ

اسرائیل نیشنل نیوز(ArutzSheva7) کی نامہ نگار اور مصنفہ Rebecca Abrahamson نے تحقیق کی غرض سے اسرائیل میں تبلیغی جماعت کے ایک رکن شیخ ابراہیم سے ملاقات کی۔ایک سوال کےجواب میں شیخ صاحب نے بتایاکہ تبلیغی جماعت نے اپنا ہیڈکوارٹر یروشلم میں کھولنے سے انکارکردیا تھا جس کی سادہ وجہ یہ ہے کہ ’’یروشلم کویہودی اپنا دائمی دارالخلافہ گردانتےہیں اس لئے ہمارے لئے مناسب نہ تھا کہ ہم اپنا ہیڈ کوارٹروہاں قائم کرتے۔‘‘

اختلافات کو مہدی ومسیحؑ آکر ختم کریں گے

شیخ ابراہیم صاحب نے بات جاری رکھتے ہو ئے کہا کہ ’’جب مہدی (مسیحMeshiach) آئیں گے تو وہ ہمارے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو ٹھیک کر دیں گے۔ اس لئے ہمیں ایسا کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں جسے جارحیت پرمحمول کیا جا سکے۔‘‘

جہاد بالسیف کی اجازت خلیفہ ہی دے سکتاہے

مضمون نگار کے مطابق شیخ ابراہیم نے جہاد کے حوالےسے کہا :

’’اگرکوئی ملک تبلیغ کی اجازت دیتا ہے تو اس کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت بالکل نہیں۔امریکہ اور اسرائیل دو ایسی مثالیں ہیں جو دعوۃ کی اجازت دیتے ہیں۔اسی لئے وہاں ہمارے مراکز ہیں۔اسرائیل میں ہمارے مراکز لُدّ،غزہ،ہیبرون (Hebron) اور ویسٹ بینک کے کچھ حصوں میں ہیں۔ ان حالات میں غیرمسلموں کے ساتھ جنگ کرنے کے (شرعی) احکامات کی کوئی وقعت نہیں رہتی… مزید برآں یہ کہ خلافت کی غیرموجودگی میں تو جہاد بالسیف (Military Jihad) قطعاً ممنوع قراردیا گیاہے۔‘‘

برٹش کی پروان یافتہ جماعت؟

مضمون نگارنے لکھا ہے کہ تبلیغی جماعت کے اس جہادی فلسفہ کے حوالے سے اس پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ تبلیغی جماعت کوبرٹش دَورمیں خوب پروان چڑھایاگیا کیونکہ انگریزوں نے محسوس کیا کہ یہ جماعت مسلمانوں کو ’’کافروں‘‘ کے خلاف جہادپر نہیں اکساتی بلکہ اپنی توانائیاں مسلمانوں پر ہی خرچ کرتی ہے اوریہ کہ’’ یہ تحریک ’’جہاد‘‘ کے تصورسے کلیتاً عاری ہے‘‘۔

یہودی بے فکر رہیں

مضمون نگارربیکہ ابراہامسن تبلیغی جماعت کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتی ہیں کہ جماعت کو محمدالیاس الکاندھلوی نے انڈیا میں 1927ء میں قائم کیاتھا۔ وجہ یہ بنی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں میں روزافزوں اخلاقی انحطاط کو محسوس کیاتو اس نتیجہ پر پہنچے اور اس نظریہ کی ترویج کی کہ اپنی انفرادی حالت سدھارے بغیر کوئی مسلمان غیروں کو مؤثرتبلیغ نہیں کرسکتا۔اس لیے ان کا ماٹو’’اے مسلمانو،مسلمان بن جاؤ‘‘ تھا۔

تبلیغی جماعت کے کسی بھی رکن کے لیے غیرمسلموں کو تبلیغ کی اجازت اس وقت تک نہیں جب تک وہ خود اعلیٰ صفات کا حامل نہیں ہوجاتا۔

مضمون نگارنے یہودیوں کو اسرائیل میں تبلیغی جماعت کا رابطہ نمبردیتے ہوئے تسلی دی کہ بے فکر ہوکر ان سے رابطہ کریں یہ آپ کو تبلیغ نہیں کریںگے !

مضمون نگارکے مطابق ایک معروف مسلم ویب سائٹ نے تبلیغی جماعت پر اعتراض کرتےہوئے لکھا ہے کہ حضرت محمدﷺ نے تو اپنے صحابہ کو دوسرے ممالک بھیجا تھا کہ وہاں جاکر تبلیغ کریں۔ اُن ﷺ کی تبلیغ کیا صرف مسلمانوں کے لئے ہوتی تھی؟۔

http://www.israelnationalnews.com/Articles/Article.aspx/17030#_ftn6

حضرت مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام فرماتے ہیں:

ہرطرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج

جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار

(مرسلہ : ڈاکٹر طارق مرزا ۔ آسٹریلیا)

عاجزی وانکساری کی انتہا

٭…مکرم ومحترم مولانا بشیر احمد رفیق صاحب سابق امام مسجدفضل لندن اپنی کتاب’’ چند خوشگوار یادیں ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:

’’میں نے زندگی میں جس شخص سے تربیت حاصل کی اور جن کے مدرسۂ معرفت سے سیکھا ہے ، ان کانام نامی حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب ؓہے ۔ ان کا ایک واقعہ میرے دل پر نقش ہوچکا ہے ۔ اگر حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب ؓ جوکہ صفات حسنہ کا مجموعہ تھے ، کا اپنی عظیم زندگی کے بارہ میں یہ خیال ہوسکتا ہے تو میری کیا حیثیت ہے ! میں تو ایک ذرۂ خاک سے بھی کمتر ہوں ۔

ایک مرتبہ حضرت چوہدری صاحب ؓ کو یورپ کے ایک مخلص مگر نادان دوست نے خط لکھا اور اس بات پر شکوہ کیا کہ آپؓ ان کے ملک تشریف نہیں لے جاتے ۔ خط کے آخر میں انہوں نے اپنی نادانی سے لکھا کہ شاید آپ اس وجہ سے ہمارے پاس تشریف نہیں لاتے کہ آپ ایک بڑے آدمی ہیں اور ہم کم حیثیت لوگ ہیں ، وغیرہ۔ حضرت چوہدری صاحب کو خط کے اس آخری فقرہ سے بے حد تکلیف ہوئی ۔ اگلے دن آپ نے ان صاحب کے نام ایک خط لکھ کر مجھے دیا کہ پڑھنے کے بعد اسے پوسٹ کردوں ۔ خاکسار نے خط پڑھا تو میرے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا ، میں سر سے پائوں تک کانپ گیا۔ آج بھی اس خط کے مضمون سے میرے بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے ۔ حضرت چوہدری صاحب نے ان کے پا س حاضر نہ ہوسکنے کی معذرت کے بعد تحریر فرمایا تھا کہ جب میں آپ کے خط کے اس فقرہ پر پہنچا کہ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہوں تو میں نے آپ کا خط ایک طرف رکھ کر اپنے آپ سے سوال کیا کہ ظفراللہ خان ! تم اپنے نفس کو اچھی طرح ٹٹول کر جواب دو کہ تمہاری اپنی نظروں میں کیا حیثیت ہے ؟ میں نے اپنے نفس کا جواب جاننے تک آپ کے خط کے جواب کو ملتوی کردیا اور اس سوال پر پورا ایک دن اور ایک رات غور کرتا رہا اور اپنے نفس کو ٹٹولتا رہا ۔ بالآخر مجھے میرے نفس کا جواب مل گیا ۔ تو اب میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔

اب سنئے ، میرے نفس نے مجھے کیا جواب دیا ! میرے نفس نے مجھے مخاطب کرکے کہا کہ ظفراللہ خان ! تمہاری حیثیت تو ایک مرے ہوئے کتے سے بھی بدتر ہے ۔ تم میں کوئی بڑائی نہیں ، کوئی عظمت نہیں ۔ تمہیں جو کچھ بھی ملا ہے وہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں !!! ‘‘

(چند خوشگوار یادیں صفحہ 10-11۔سن اشاعت 2009ء )

(مرسلہ : ظہیر احمد طاہر۔جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button