مومن وہ ہے جو درحقیقت دین کو مقدم سمجھے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا۔
(سورۃ الکہف آیت نمبر:47)
اس آیت کا ترجمہ ہے۔ مال اور اولادنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ثواب کے طور پر بہتر اور امنگ کے لحاظ سے بہت اچھی ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ مال و دولت، جائیدادیں، فیکٹریاں، بڑے بڑے فارمز جو ہزاروں ایکڑ پہ پھیلے ہوئے ہوں، جن پر جاگیردار بڑے فخر سے پھر رہا ہوتا ہے اور دوسرے کو اپنے مقابلے پہ یا عام آدمی کو اپنے مقابلے پہ بہت نیچ اور ہیچ سمجھ رہا ہوتا ہے اور پھر اولاد جو اس کا ساتھ دینے والی ہو، نوکر چاکر ہوں یہ سب باتیں ایک دنیا دار کے دل میں بڑائی پیدا کر رہی ہوتی ہیں۔ اور اس کے نزدیک اگر یہ سب کچھ مل جائے تو ایک دنیادار کی نظر میں یہی سب کچھ اور یہی اس کا مقصود ہے جو اس نے حاصل کر لیا ہے۔ اور اس وجہ سے ایک دنیادار آدمی اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی بھلا بیٹھتا ہے۔ اس کی عبادت کرنے کی طرف اس کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ اپنے زعم میں وہ سمجھ رہا ہوتا ہے یہ سب کچھ میں نے اپنے زور بازو سے حاصل کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احساس دلانے کا کوئی خانہ اس کے دل میں نہیں ہوتا۔ حقوق العباد ادا کرنے کی طرف اس کی ذرا بھی توجہ نہیں ہوتی اور اپنے کام کرنے والوں، اپنے کارندوں، اپنے ملازمین کی خوشی، غمی، بیماری، میں کام آنے کا خیال بھی اس کے ذہن میں نہیں آتا۔ تو یہ سب اس لئے ہے کہ اس کے نزدیک اس زندگی کا سب مقصد دنیا ہی دنیا ہے اور ایک دنیادار کو شیطان اس دنیا کی خوبصورتی اور اس کی زینت اور زیادہ ابھار کر دکھاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ باقی رہنے والی چیز نیکی ہے، نیک اعمال ہیں، اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے، اس کی عبادت کرنا ہے۔ اس لئے تم اس کے عبادت گزار بندے بنو اگر اس کی رضا حاصل کرنی ہے۔ یہ دنیا تو چند روزہ ہے، کوئی زیادہ سے زیادہ سو سال زندہ رہ لے گا اس کے بعد انسان نے مرکر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اس لئے آخرت کے لئے دولت اکٹھی کرو بجائے اس دنیا میں دولت بنانے کے۔ فرمایا کہ اگر یہ سوچ پیدا کر لو گے تو یہی مال اور دولت اور بیٹے اور وسیع کاروبار تمہارے لئے ایک بہترین اثاثہ بن جائیں گے۔ کیونکہ جو شخص اپنے مال و دولت کے ساتھ خدمت دین بھی کر رہا ہو اپنے ملک و قوم کی خدمت بھی کر رہا ہو، انسانیت کی خدمت بھی کر رہا ہو تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے رب سے بہترین چیز حاصل کر لی اور ایسی چیزیں حاصل کر لیں جو مرنے کے بعد بھی تمہارے کام آئیں گی۔ اور اگر یہی وصف اپنی اولادمیں پیدا کردو تو پھر دنیا نہ صرف تمہاری تعریف کر رہی ہو گی بلکہ تمہارے آباء و اجداد کے لئے بھی دعا کر رہی ہو گی، تمہارے لئے بھی دعا کرے گی اور تمہاری اولادوں کے لئے بھی دعا کرے گی۔ اس سے تمہاری نیکیوں میں اور اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور تمہاری آخرت مزید سنورتی چلی جائے گی۔ تو یہ سوچ اور کوشش ہر مومن کی ہونی چاہئے، جس کو نہ صرف اپنی فکر رہے بلکہ اپنی نسلوں کی بھی فکر رہے۔ یہ سوچو کہ دنیا بھی کماؤ لیکن مقصد صرف اور صرف دنیا نہ ہو بلکہ جہاں اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کا سوال پیدا ہوتا ہو تو اس وقت دنیا سے مکمل بے رغبتی ہو۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں تھوڑا سا اقتباس میں پیش کرتا ہوں :
’’اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مال اور اولاد بے شک دنیا کی زینت ہیں لیکن اگر انہیں صحیح طور پر استعمال کیا جائے یعنی دین میں مال خرچ ہوں اور دین کی خدمت کے لئے اولاد لگا دی جائے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو بھی دوام بخش دیتا ہے۔ روپیہ خرچ ہو جاتا ہے لیکن اس کا نیک اثر باقی رہ جاتا ہے۔ اولاد مر جاتی ہے لیکن اس کا ذکر خیر باقی رہ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے ماں باپ کا ذکر خیر بھی زندہ رہتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ الْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ اور اچھے کام باقیات صالحات کہلاتے ہیں۔ خَیْرٌ عِنْدَرَبِّکَ ثَوَابًا وَ خَیْرٌاَمَلًا، اس کے دو معانی ہیں۔ ایک یہ کہ نیک کام کا دنیا میں نیک نتیجہ نکلتا ہے اور اس کے متعلق آئندہ بھی اچھی نیتیں ہوتی ہیں گویا ثوابًا دنیا کے نتیجہ کے متعلق ہے اور اَمَلًا آخرت کے متعلق ہے۔ ثوابًا سے مراد خود اس عمل کرنے والے کی ذات کے متعلق بہتر نتائج کا پیدا ہونا ہے اور اَمَلًاسے مراد آئندہ نسل کے لئے بہترین امیدوں کا ہونا ہے۔ مطلب یہ کہ نیک کاموں کا نتیجہ بھی تم کو نیک ملے گا اور تمہاری اولاد کو بھی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نیک کی اولاد کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ754)
(خطبہ جمعہ فرمودہ 07؍مئی 2004ء)