مَیں اسے رسوا کرنے والا ہوں جو تیری اہانت کا ارادہ کرے
اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ
ہر سال ماہ اگست ہمیشہ خدا تعالیٰ کی قہری تجلی کے اظہار کی یاد دلاتا رہے گا
جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زارونزار
ضیاءالحق فرعونِ زمانہ اور اس کا انجام
جولائی1977ء میں مسٹر بھٹو کی پیپلز پارٹی خاصی اکثریت کے ساتھ ایک بار پھر برسراقتدار آگئی تھی۔ مخالف سیاسی جماعتوں کو شکایت تھی کہ الیکشن کے دوران دھاندلی ہوئی ہےچنانچہ وہ سڑکوں پر نکل آئیں۔ ہنگامے ہو رہے تھے۔ مخالف جماعتوں اور مسٹر بھٹو کے درمیان گفت و شنید جاری تھی۔بالآخر باہم ایک معاہدہ طے پاگیا جس کے مطابق بھٹو اس بات پر آمادہ ہوگئے تھے کہ پیپلز پارٹی قومی اسمبلی کی کچھ نشستیں خالی چھوڑ دے۔ اس طرح اس شکایت کا ازالہ بھی مقصود تھا کہ الیکشن میں تصرف ہوا ہے ۔معاہدہ کوضبط تحریر میں لایا جارہا تھا اور جلد اس کا اعلان ہونے والا تھا۔
(5؍ جولائی 1977ء کو)صبح کے چھ بج رہے تھے کہ جنرل ضیاء الحق کمانڈر انچیف بری افواج پاکستان نے اچانک اقتدار پر قبضہ کرلیا اور مسٹر بھٹو، ان کے وزیروں اور نوجماعتی حزب اختلاف کے تمام لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ جنرل ضیاء اور پانچوں علاقائی کمانڈروں نے مارشل لاء کا اعلان کردیا۔ جنرل ضیاء نے اعلان کیا کہ نئے انتخابات 90 دن کے اندر اندر کروا دیے جائیں گے۔ شروع شروع میں تو لوگ پُر امید، تھے وہ سمجھتے تھے کہ جنرل ضیا ءسچ بول رہا ہے اور حقیقتاً چاہتا ہے کہ ملک سے رشوت ستانی اور بددیانتی کا خاتمہ ہو اور پاکستان جلد سے جلد پارلیمانی جمہوریت کی طرف واپس آ جائے۔
سپاہی بالعموم اپنی زندگی سیدھے سادھے ضابطوں اور قواعد کے تحت گزارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ احکامات بجا لاتے ہیں اور ملک کی حفاظت کرتے وقت وہ طاقت کے بل بوتے پر اپنی جیبیں بھرنے میں نہیں لگ جاتے ۔اس لیے یہ چنداں تعجب کی بات نہیں کہ وہ بددیانت اور موقع پرست سیاستدانوں کو بنظرحقارت دیکھیں اور دعویٰ کریں کہ وہ ملک کا نظم و نسق سیاستدانوں کی نسبت بدرجہا بہتر طریق پرچلاسکیں گے۔
کہتے ہیں مطلق طاقت مطلقاََ بددیانت بنا دیتی ہے۔ کم ازکم یہ قول جنرل ضیاءالحق کے متعلق تو حرف بحرف سچا ثابت ہوا۔ نوےدن ختم ہوگئے لیکن انتخابات نہ ہوئے۔ وعدوں پر وعدے ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ جنرل ضیاء کے ساتھی جرنیل بھی بالآخر پکار اٹھے کہ جنرل ضیاء نے انہیں اُلّو بنا دیا ہے۔
جنرل ضیاء نے ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا ۔یہ حکومت کتنی ہی بددیانت کیوں نہ ہو۔ تھی تو جمہوری۔ اس لیے عالمی رائے عامہ نے ضیاء کے فعل کی جی بھر کے مذمت کی ۔ ان حالات میں جنرل ضیاء کی کوشش یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس کی ناجائز حکومت کو جواز کا جامہ پہنایا جاسکے ۔اس نے اس مشکل کا حل بڑی آسانی اور چابک دستی سے یہ ڈھونڈ نکالااور پاکستان میں بقول خود اسلام کا نفاذ کر دیا۔
(ایک مرد خدا صفحہ272تا273 ایڈیشن1996ء)
بدنام زمانہ آرڈیننس
جمعرات کا دن تھا اور 26؍اپریل 1984ءکی تاریخ جب حکومت پاکستان کے گزٹ میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی طرف سے مارشل لاء کا بد نام زمانہ آرڈیننس نمبر 20 جاری کیا گیا تاکہ احمدیوں کو خواہ وہ قادیان کی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا لاہوری جماعت سے ان کی ’’اسلام دشمن سرگرمیوں‘‘ سے باز رکھا جائے ۔اس آرڈیننس کے الفاظ یہ تھے
’’ہر گاہ کہ یہ ضروری ہو گیا ہے … احمدیوں کو خواہ قادیانی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں یا لاہوری جماعت سے انہیں ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں سے روکا جاسکے اور ہر گاہ صدر پاکستان کو اطمینان ہے کہ ایسے وجوہ موجود ہیں جن کی وجہ سے اس بارے میں فوری اقدامات ناگزیر ہو گئے ہیں۔لہٰذا 5؍ جولائی 1977ءکے اعلان اور ان اختیارات کے ماتحت جو صدر پاکستان کو اس اعلان کے ذریعے حاصل ہیں ۔صدر پاکستان مندرجہ ذیل فرمان کا اجراء اور نفاذ کرتے ہوئے خوشی محسوس کرتے ہیں۔
(1)یہ آرڈیننس قادیانی گروپ، لاہوری گروپ اور احمدیوں کی خلاف اسلام سرگرمیوں (امتناع وتعزیر) آرڈیننس 1984ءکے نام سے موسوم ہوگا۔
(2)یہ فی الفور نافذ العمل ہوگا۔
آرڈیننس عدالتوں کے احکام اور فیصلوں پر غالب ہو گا۔ اس آرڈیننس کے احکام کسی عدالت کے کسی حکم یا فیصلے کے باوجود مؤثر ہوں گے۔
ایکٹ نمبر 45 بابت 1860ء میں نئی دفعات
298۔ ب اور 298۔ ج کا اضافہ
مجموعہ تعزیرات پاکستان (ایکٹ نمبر 45۔ 1860ء کے باب 15 میں) دفعہ 298الف کے بعد حسب ذیل نئی دفعات کا اضافہ کیا جائے گا۔
یعنی 298۔ ب بعض مقدس شخصیات یا مقامات کے لیے مخصوص القاب اوصاف یا خطابات وغیرہ کا ناجائز استعمال۔
(1) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو ’’احمدی‘‘ یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہوں) کا کوئی فرد جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نظر آنے والی کسی علامت کے ذریعے،
الف۔ خلفاء راشدین یا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کے علاوہ کسی اور شخص کو امیرالمومنین یا خلیفۃ المسلمین یا صحابی رضی اللہ عنہ کہہ کر پکارے۔
ب۔ (حضرت)محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے علاوہ کسی اور کو ام المومنین کے نام سے یاد کرے یا مخاطب کرے۔
ج۔ اہل بیت کے علاوہ کسی فرد کو اہل بیت کہہ کر یاد کرے یا مخاطب کرےیا۔
د۔ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے نام سے یاد کرے یاپکارے۔
تو اسے کسی ایک قسم کی سزا ئےقید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔
ہ۔ قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہوں) کا کوئی شخص جو زبانی یا تحریری الفاظ کے ذریعے یا کسی مرئی طریقے سے اپنی مذہبی عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یا طرز کو اذان کہہ کر یاد کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان اذان دیتے ہیں تو اسے ایک ہی قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب بھی ہوگا۔
298۔ ج۔ قادیانی گروپ وغیرہ کا کوئی شخص جو خود کو مسلمان کہے یا اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے۔
قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ جو( خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو بالواسطہ یا بلاواسطہ خود کو مسلمان ظاہر کرے یا اپنے مذہب کو اسلام کے طور پر موسوم کرے یا منسوب کرے یا الفاظ کے ذریعہ خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا کسی مرئی طریقے سے اپنے مذہب کی تبلیغ یا تشہیر کرے یا دوسروں کو اپنا مذہب قبول کرنے کی دعوت دے یا کسی بھی طریقے سے مسلمانوں کےمذہبی احساسات کو مجروح کرے تو اس کو کسی ایک قسم کی سزائے قیداتنی مدت کے لئے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔ ‘‘
(ایک مردِ خدا۔ صفحہ283-286)
داغ ہجرت
(الہام 18؍ستمبر 1894ء)
اس آرڈیننس کے بعد جماعت احمدیہ کے افراد پراس قدر سختی شروع کر دی گئی کہ دیکھتے دیکھتے جیلوں میں ہزاروں جماعت احمدیہ کے افراد کو ڈال دیاگیا اور ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو احمدی کہتا اور ’السلام علیکم‘ کہتا، یا اس کے گھر پر کلمہ طیبہ لکھا ہوتا ان کو پکڑا اور ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ایسی صورت میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کا پاکستان میں رہنا مشکل تھا کیونکہ پاکستان میں رہتے ہوئے اس آرڈیننس کے پیشِ نظر ان کے لیے بطور خلیفۃ المسیح اپنے فرائض منصبی ادا کرنا ممکنات میں سے نظر نہیں آتا تھا۔ چنانچہ حضورؒ نے خدائی اشارات و بشارات کے ماتحت پاکستان سے ہجرت کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے فرشتوں کےجلو میں خیریت سے لندن رونق افروز ہو گئے۔
فرعونِ زمانہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس کا غصہ اَور زیادہ بڑھا اور اس نے افراد جماعت احمدیہ پر زندگی تنگ کرنا شروع کردی۔
حضورؒکی بروقت ہجرت نہایت ہی بابرکت ثابت ہوئی۔ اس کی وجہ سے جماعت احمدیہ نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی اوریوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا الہام ’’داغ ہجرت‘‘ ایک بار پھر بڑی شان سے پورا ہوا۔
ہجرت کے چند سال بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ائمۃ التکفیر کو مباہلہ کا چیلنج دیا جس کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والی الٰہی تائید کے نشانات میں سے ایک اس فرعون پاکستان کا پاکستان کی فضاؤں میں جل کر راکھ ہونا بھی شامل تھا۔
ائمۃ التکفیر والمکذبین کو مباہلہ کا چیلنج
حضورؒنے یکے بعد دیگرےتین چار خطبات پاکستان کے حالات کے متعلق ارشاد فرمائے۔ چنانچہ 10؍جون 1988ء کا خطبہ جمعہ وہ تھاجس میں حضورؒ نے مباہلہ کا اعلان فرمایا۔حضورؒ نے خطبہ جمعہ کے آغاز میں سورۂ آل عمران آیت 62کی تلاوت فرمائی اور فرمایا:
’’گزشتہ دو خطبات میں مَیں یہ مضمون بیان کر رہا ہوں کہ گزشتہ چند سالوں میں جماعت احمدیہ کے معاندین اور مخالفین اورمکذبین خصوصاََ علماء کے اس گروہ نے جوائمہ تکفیر کہلانے کے مستحق ہیں ظلم اور افتراء اور تکذیب اور استہزاء اور تخفیف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تذلیل کرنے کی کوشش میں تمام حدیں توڑ دی ہیں۔ اور انسانی تصور میں جتنی بھی حدیں ممکن ہیں شرافت ونجابت کی ان سب سے تجاوز کرگئے ہیں اور مسلسل پاکستان میں ہر روز کوئی نہ کوئی جھوٹ اور افتراءحضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت پرگھڑاجاتا ہے …یہ معاملہ اب اس قدر حدسے تجاوز کر گیا ہے اور اس طرح جماعت احمدیہ کے سینے چھلنی اور اس طرح ان کی روحیں اس کذب و افتراء کی تعفن سے بیزار ہیں اور متلاء رہی ہیں اور اس طرح اپنی بےبسی پر وہ خدا کے حضور گریہ کناں ہیں اور کوئی دنیا کے لحاظ سے ان کی پیش نہیں جاتی ان کے دلوں کی آواز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس مصرع کی مصداق ہے
حیلے سب جاتے رہے ایک حضرت تواب ہے
پس اب ظلم کی اس انتہا کے بعد باوجود اس کے بار بار اس قوم کو ہر رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی اب میں مجبور ہو گیا ہوں کے مکفرین اور مکذبین اور ان کے سر براہوں اور ان کے ائمہ کو قرآن کریم کے الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج دوں یا کہنا چاہیے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق حق و صداقت میں امتیاز کرنے کی خاطر مباہلہ کا چیلنج دو ں۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍جون1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ409تا410)
حضورؒنے اس خطبہ میں اپنے گزشتہ خطبات جمعہ کے حوالے سے بطور یاددہانی حکومت پاکستان کو کی جانے والی نصیحتوں کا اعادہ فرمایا۔ پھر اخبارات میں شائع ہونے والی غلط بیانیوں اور جماعت احمدیہ کے خلاف کذب بیانی کا ذکر فرمایا۔
’’میرے متعلق جو امت کے بزرگ کہلانے والوں نے ہرزہ سرائیاں کی ہیں ان کی بڑی لمبی فہرست ہے…‘‘ پھر اس کے چند نمونے پیش کیے۔
پھر فرمایا کہ
’’اوجڑی کیمپ میںجونہایت دردناک بلاٹوٹی اور خطرناک آسمانی عذاب کی صورت میں خدا تعالیٰ کی تقدیر بڑی بھیانک طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ اُس پر بھی ان علماء کو ہوش نہیں آرہی اور استغفار کی طرف توجہ مائل نہیں ہو رہی۔ …اور بے باکی کا یہ عالم ہے کہ اخباروں میں فوراً یہ اعلان دینے شروع کر دیئے کہ راولپنڈی کا سانحہ قادیانیوں کے منظم سازش کا نتیجہ ہے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍جون1988ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ418تا419)
اس کے بعد حضورؒ نے وہ مباہلےکی تحریر پڑھ کرسنائی اور بڑی تفصیل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کو پیش کیا۔ آخر پر فرمایا:
’’اے خدا تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہے اس پر اپنا غضب نازل فرما اور اس کو ذلت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلیوں کا نشانہ بنااور اس طور سے اس کو اپنے عذاب کی چکی میں پیس اور مصیبتوں پر مصیبتیں ان پر نازل کر اور بلاؤں پر بلائیں ڈال دے کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور بغض کا دخل نہیں ہے بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ ہے (جو) یہ سب عجائب کا کام دکھلا رہا ہے۔ اس رنگ میں جھوٹے گروہ کو سزا دے کے اس سزامیں انسانی مکروفریب کے ہاتھ کا کوئی دخل نہ ہو… آمین یا رب العالمین ہم ہیں فریق اول جماعت احمدیہ کے سربراہ تمام دنیا کے ہر مرد و زن کی نمائندگی میں ہر چھوٹے بڑے کی نمائندگی میں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍جون1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ425تا426)
’’یہ آخری چیلنج ہے اس کے بعد ہماری حجت کی ساری راہیں بند ہوجاتی ہے پھر خدا کی تقدیر کے فیصلے کے انتظار کے دن باقی رہ جاتے ہیں جو اس صدی کے آخر کے دن ہیں میں جماعت کو تلقین کرتا ہوں تقویٰ کے ساتھ، خدا خوفی کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے گریہ وزاری کرتے ہوئے یہ دعائیں کرتے ہوئے گزاریں کہ اگر خدا نے غضب ظاہر کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے تو محض مکذبین کے سرداروں اور ان گروہوں کے نمایاں کرداروں پر خدا کا غضب ٹوٹےاور عوام الناس بچارے جو پہلے ہی ظلموں کی چکی میں طرح طرح سے پیسے جا رہے ہیں ان کو خدا تعالیٰ اس غضب سےبچا لے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍جون1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ426)
آخر میں حضورؒ نے روحانی خزائن جلد 3صفحہ 191،190 کا حوالہ بیان فرمایا ہے جس کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’سو میں سچ مچ کہتا ہوں یہی حال اس زمانے کے جفا کار منکروں کا ہوگا ہر ایک شخص اپنی زبان اور قلم اور ہاتھ کی شامت سے پکڑا جائے گا جس کے کان سننے کے ہیں سنے‘‘۔
حضورؒکی نظم کے اشعار
مرد حق کی دعا
دو گھڑی صبر سے کام لو ساتھیو!
آفت ظلمت و جور ٹل جائے گی
آہ مومن سے ٹکرا کے طوفان کا
رخ پلٹ جائے گا، رت بدل جائے گی
تم دعائیں کرو یہ دعا ہی تو تھی
جس نے توڑا تھا سر کبر نمرود کا
ہے ازل سے یہ تقدیر نمرودیت
آپ ہی آگ میں اپنی جل جائے گی
یہ دعا ہی کا تھا معجزہ کہ عصا،
ساحروں کے مقابل بنا اژدھا
آج بھی دیکھنا مرد حق کی دعا،
سحر کی ناگنوں کو نگل جائے گی
خوں شہیدان امت کا اے کم نظر
رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائے گا
ہر شہادت تیرے دیکھتے دیکھتے
پھول پھل لائے گی پھول پھل جائے گی
ہے تیرے پاس کیا گالیوں کے سوا،
ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ
کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دعا،
آج بھی اذن ہوگا تو چل جائے گی
دیر اگر ہو تو اندھیر ہرگز نہیں
قول اُمْلِیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِی مَتِیْنْ
سنت اللہ ہے، لاجرم بالیقیں،
بات ایسی نہیں جو بدل جائے گی
یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا
پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا
تیری آواز اے دشمن بد نوا،
دو قدم دور دو تین پل جائے گی
عصر بیمار کا ہے مرض لا دوا
کوئی چارہ نہیں اب دعا کے سوا
اے غلام مسیح الزماں ہاتھ اٹھا،
موت بھی آ گئی ہو تو ٹل جائے گی
اس نظم کا ایک ایک لفظ پیشگوئی کا رنگ رکھتا ہے احمدیوں کے دل جواں ہو گئے اور امیدیں بلند ہو گئیں خدا کی راہ میں تکالیف اٹھانے میں مزے آنے لگے اور اللہ کی تقدیر کا انتظار کرنے لگے۔
مباہلے کےنشانات کا آغاز اور دعا کی تحریک
خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍اگست 1988ءبمقام مسجد فضل لندن میںفرمایا:
’’گزشتہ کچھ عرصہ سے مباہلے کے مضمون کی گرم بازاری ہے ہر طرف اس کا چرچہ ہے اور اسی کی باتیں ہو رہی ہیں دنیا بھر کےمعاند علماء کی طرف سے اس سلسلے میں کئی قسم کے تبصرے شائع ہو چکے ہیں۔ کئی قسم کی تعلی کی باتیں وہ کہہ رہے ہیں اور اپنے رنگ میں یہ اعلان بھی کر رہے ہیں کہ انہوں نے مباہلہ کاچیلنج قبول کر لیا ہے لیکن جب آپ ان کے بیانات کا جائزہ لیتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ عنوان یہ لگایا مباہلہ منظور لیکن بیان میں فرار کے راستے کھول دیتے ہیں اور ایسی عبارتیں داخل کر دی جاتی ہیں جن کی راہ سے وہ بعد میں یہ کہہ سکیں کہ ہم نے مباہلہ منظورتو کیا تھا مگر شرط کے ساتھ کیا تھا اور چونکہ یہ شرط موجود نہیں اس لئے مباہلہ ابھی وہ مباہلہ قرار نہیں دیا جاسکتا‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍اگست1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد 7صفحہ531)
خطبہ کے آخر میں فرمایا:
’’حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مباہلےکا چیلنج دیا تھا تو بعض علماء مرے لیکن ان کے متعلق یہ باتیں بعد میں پتا چلیں کہ اُس وقت موت آئی جب وہ اپنے ہاتھ سے مباہلے کے چیلنج کی منظوری کو لکھ کراس پر دستخط کر رہے تھے۔ تو اس قسم کی باتیں اللہ تعالیٰ کی تقدیر بعد میں کھولے گی لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ خدا کی چکی حرکت میں آ چکی ہےاور جب خدا کی تقدیر کی چکی حرکت میں آ جائے تو کوئی نہیں جو اس کو روک سکے اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہےکہ جب خدا چاہے کہ اس چکی میں پیسا جائے تو اس چکی کے عذاب سے بچا سکے۔ اس لئے استغفار کا وقت ہے، دعاؤں کا وقت ہے، ابتہال کا وقت ہےاورہمیشہ خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی بھی بخشش مانگیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قوم کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی اکثریت کو ہدایت دے اور اپنے عذاب سے بچائے۔ ‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍اگست1988ء مطبوعہ خطبات طاہر جلد7صفحہ543)
خدا کی چکی چل گئی
17؍اگست 1988ء کو جنرل ضیاءالحق اپنے نو جنرلوں کے ساتھ بہاولپور سے اسلام آباد جاتے ہوئے(سی ون 30)خدا کی قہری تجلی کا نشانہ بن گیا اور طیارےکو فضا میں آگ لگ گئی اور تما م لوگ جل کر راکھ ہو گئے اور آج تک 32؍سال گزرنے پر بھی طیارے کے تباہ ہونے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی۔ یہ وہ فرعون تھا جس نے بھٹو کو پھانسی دی اور کسی کی نہ سنی لیکن جب اپنی موت آئی تو اللہ نے اس کی بھی ایک نہ سنی اور خلیفۃ المسیح کی ساری دعائیں سنی گئیں۔
جب سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بیرون ملک تشریف لے گئے اس وقت سے جماعت کی ترقی کو پر لگ گئے اور دیکھتے دیکھتے اللہ تعالیٰ نے ترقی کی ایسی راہیں پیدا فرما دیں جس کے بارے میں چند دہائیاں پہلے سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ خلافت رابعہ کے کامیاب دَور کے بعد اب خلافت خامسہ کے مبارک دَورمیں جماعت احمدیہ دنیا کے213؍ممالک میں قائم ہو چکی ہے۔ حال ہی میں ایم ٹی اے انٹرنیشنل اپنی نشریات کے ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے جہاں 8 مختلف چینلز پر دنیا بھر میں اسلام احمدیت کی اشاعت ہو رہی ہے۔ اسی طرح ہر سال لاکھوں افراد احمدیت یعنی حقیقی اسلام میںداخل ہوتے ہیں۔ مساجد، مشن ہاؤسز، جامعات کا قیام، قرآن کریم اور دیگر کتب کی اشاعت الغرض گویا ہر لحاظ سے خلافت حقہ اسلامیہ کی قیادت میں احمدیت اپنی ترقیات کی منازل کی طرف رواںدواں ہے۔
اب ذرا سوچو دیانت سے کہ یہ کیا بات ہے
ہاتھ کس کا ہے کہ ردّ کرتا ہے وہ دشمن کا وار
پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر
ورنہ اُٹھ جائے اماں پھر سچے ہوویں شرمسار
٭…٭…٭