خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ اگست 2020ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابیحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
23ہجری میں قاتلانہ حملے کےبعد حضرت عمرؓ نے انتخابِ خلافت کےلیے جو بورڈ مقرر فرمایا تھا سعدؓ اس کا حصّہ تھے
مکرم صفدر علی گجر صاحب(رضاکار شعبہ ضیافت یوکے،الفضل انٹرنیشنل و اخبار احمدیہ)،مکرمہ عفت نصیر صاحبہ اہلیہ پروفیسر نصیر احمد خان صاحب، مکرم عبدالرحیم ساقی صاحب(کارکن جنرل سیکرٹری آفس یوکے)اور مکرم سعید احمد سہگل صاحب (رضاکار دفتر پرائیویٹ سیکرٹری شعبہ ڈسپیچ)کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ اگست 2020ء بمطابق 14؍ ظہور 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےمورخہ 14؍ اگست 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم سفیر احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
دوہفتے پیشتر حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا ذکر ہورہا تھا آج ان ہی کے بارے میں کچھ مزید باتیں ہیں۔ ایک قیدی ابو محجن ثقفی شراب پینے کے جرم میں بطور سزا زنجیروں میں قید کیا گیا تھا۔ جنگ کے دوران ابو محجن نے حضرت سعدؓ کی اہلیہ حضرت سلمیٰ بنت حفصہ سےدرخواست کی کہ اسے آزاد کردیا جائے تاکہ وہ جنگ میں شامل ہوسکے۔اس نے کہا کہ اگر مَیں زندہ بچ گیا تو واپس آکر دوبارہ زنجیریں پہن لوں گا۔ابو محجن حضرت سعدؓ کے گھوڑے پر سوار میدانِ جنگ میں جا پہنچا اور بڑی بےجگری سے لڑا۔حضرت سعدؓ جو بوجہ بیماری لڑائی میں براہِ راست شریک نہ ہوسکے تھے دُور سے نگرانی کر رہے تھے۔ آپؓ نے اپنا گھوڑا پہچان لیا اور کہا کہ گھوڑا تو میرا ہے اور اس پرسوار ابو محجن معلوم ہوتا ہے۔ لڑائی تین روز جاری رہی اور اس کے بعد ابو محجن نے واپس آکر اپنی زنجیریں دوبارہ پہن لیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے لجنہ سے ایک تقریر میں اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے عورتوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ خواتین کو آج بھی حضرت سعدؓ کی اہلیہ کی اس بہادرانہ مثال کو سامنے رکھنا چاہیے۔اسی طرح قبیلہ بنو سلیم کی مشہور شاعرہ صحابیہ حضرت خنساء ؓکے چار بیٹے آپؓ کی وصیت پر عمل کرتےہوئےجنگِ قادسیہ میں نہایت جاں نثاری سے لڑے اور شہید ہوگئے۔اس روز شام سے پہلے قادسیہ پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھا۔حضرت خنساء ؓنے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس نے آپؓ کے چار فرزندوں کو شہادت سے سرفراز فرمایا۔
قادسیہ کی فتح کے بعد اسلامی لشکرنے بابل اور پھر تاریخی شہر کوثٰی کو فتح کیا۔یہاں سے اسلامی افواج بہرہ شِیر مقام پر پہنچیں جہاں کسریٰ کا شکاری شیر رہتا تھا۔ حضرت سعدؓ کا لشکر قریب پہنچا تو ایرانیوں نے اس درندے کو لشکر پر چھوڑ دیا۔ شیر گرجتا ہوا لشکر پر حملہ آور ہوا تو حضرت سعدؓ کے بھائی ہاشم بن ابی وقاص نے شیر پر تلوار سے ایسا وار کیا کہ شیر وہیں ڈھیر ہوگیا۔
اسی جنگ کے دوران مدائن کا معرکہ پیش آیا۔ مدائن کسریٰ کا پایۂ تخت تھا جہاں اس کے سفید محلات تھے۔ایرانیوں نے مسلمانوں اور مدائن کے درمیان حائل دریائے دجلہ کے تمام پُل توڑ دیے۔حضرت سعد نے اسلامی افواج کو تیر کر دریا عُبور کرنے کا حکم دیا اور اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ حضرت سعدؓ کے سپاہیوں نے آپؓ کی پیروی میں گھوڑے دریا میں ڈال دیے۔ اس تحیر انگیز منظرسے ایرانیوں پر ایسا خوف چھایا کہ وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔ مسلمانوں نے آگے بڑھ کرشہر اور کسریٰ کے محلات پر قبضہ کرلیا اور یوں آنحضرتﷺ کی ایک پیش گوئی پوری ہوئی۔
مدائن کی فتح کے بعد حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ سے مزید پیش قدمی کی اجازت چاہی جس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ سرِدست اسی پر اکتفا کیا جائے اور مفتوحہ علاقے کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی جائے۔ حضرت سعدؓ نے اس کام کو بھی بخوبی نبھایا۔ آپؓ نے عراق میں مردم شماری اور پیمائش کروائی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے علاقے فتح تو کیے لیکن رعایا کا خیال نہیں رکھا جبکہ ایسا نہیں۔ مسلمانوں نے جب شہر فتح کیے تو وہاں کے رہنےوالوں کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھا۔ حضرت سعدؓ نے حضرت عمرؓ کی اجازت سے کوفہ شہر تعمیر کیا جو ایک فوجی چھاؤنی تھی اور اس میں ایک لاکھ سپاہی بسائے گئے تھے۔اس شہر میں عرب قبائل کو الگ الگ محلوں میں آباد کیا گیا اور شہر کے بیچوں بیچ ایک بڑی مسجد بنوائی گئی جس میں چالیس ہزار نمازی بیک وقت نماز پڑھ سکتے تھے۔مسجد کے قریب ہی بیت المال کی عمارت اور اپنا محل تعمیر کرایا جو ‘قصرِ سعد’ کے نام سے مشہور تھا۔
21؍ہجری میں فارسیوں کے ڈیڑھ لاکھ لشکر کے ساتھ اسلامی افواج کو معرکہ نہاوند پیش آیا ۔اس معرکے میں حضرت عمرؓ کی ہدایت پر تیس ہزار کے اسلامی لشکر کی کمان حضرت نعمان بن مقرن مزنی نے کی۔ حضرت عمر ؓکے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ بنو اسد کے بعض لوگوں نے حضرت سعدؓ پر اعتراض کیا کہ آپؓ صحیح طرح نماز نہیں پڑھاتے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت محمد بن مسلمہ ؓکو تحقیق کے لیے بھجوایا تو معلوم ہوا کہ شکایات غلط تھیں تاہم آپؓ کو بعض حکمتوں کے پیش نظر واپس مدینے بلوالیا گیا۔ 23؍ہجری میں قاتلانہ حملے کےبعد حضرت عمرؓ نے انتخابِ خلافت کےلیے جو بورڈ مقرر فرمایا تھا سعدؓ اس کا حصّہ تھے۔حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر سعد منتخب ہوں تو وہی خلیفہ ہوں گے ورنہ جو بھی خلیفہ بنے وہ سعدؓ سے مدد لیتا رہے۔
حضرت عثمان ؓنے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد آپؓ کو دوبارہ کوفے کا والی مقرر فرمایا جہاں آپؓ تین سال خدمات انجام دیتے رہے۔اس کے بعد آپؓ کا بیت المال کے انچارج حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اختلاف ہوا جس پر حضرت عثمانؓ نے آپؓ کو معزول کردیا۔ معزولی کے بعد سعدؓ مدینے میں گوشہ نشین ہوگئے اور ہمیشہ فتنہ و فساد سے دُوررہے۔
جب آپؓ کی وفات کا وقت نزدیک آیا تو آپؓ کا سر اپنے بیٹے مصعب بن سعد کی گود میں تھا ۔ مصعب کی آنکھوں سے آنسو رواں دیکھ کر سعدؓ نے فرمایا کہ اللہ مجھے کبھی عذاب نہیں دے گا اور مَیں جنتیوں میں سے ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت سعدؓ کے بیٹے نے پوچھا کہ آپؓ گروہِ انصار کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ نہیں کرتے تو آپؓ نے فرمایا کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ مومن ان کو دوست رکھتا ہے اور منافق ان سے دُور رہتا ہے۔
حضرت سعدؓ کی وفات کی نسبت مختلف روایات ملتی ہیں جن کے مطابق آپؓ نے 51سے لے کر 58 ہجری کے دوران ستّر سے اسّی برس کی عمر کے درمیان وفات پائی۔وفات کے وقت آپؓ نے اڑھائی لاکھ درہم ترکے میں چھوڑے۔ مروان بن حکم نے جنازہ پڑھایا، اور جنت البقیع میں تدفین عمل میں آئی۔ آپؓ کی نمازِ جنازہ میں ازاوجِ مطہرات نے بھی شرکت فرمائی۔ آپؓ نے مہاجرین میں سب سے آخر میں وفات پائی۔مشہور مستشرق ولیم میور لکھتے ہیں کہ بدری صحابی اسلامی سوسائٹی کے اعلیٰ ترین رکن سمجھے جاتے تھے چنانچہ بوقتِ وفات سعد بن ابی وقاص نے کہا کہ مجھےوہ چوغہ لادو جو مَیں نے بدر کے دن پہنا تھا ۔ سعد بدر کے وقت بالکل نوجوان تھے بعد میں ان کے ہاتھ پر ایران فتح ہوا۔ وہ کوفہ کے بانی اور عراق کے گورنر بنے مگر اُ ن کی نظر میں یہ تمام عزتیں اور فخر جنگِ بدر میں شرکت کی عزت و فخر کے مقابلے میں بالکل ہیچ تھیں۔حضرت سعد نے مختلف اوقات میں نَو شادیاں کیں اوران سے اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو چونتیس بچوں سے نوازا جن میں سترہ لڑکے اور سترہ لڑکیاں تھیں۔
خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانور نے چار مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
پہلا ذکرِ خیر مکرم صفدر علی گجر صاحب کا تھا۔ مرحوم 25؍ جولائی کو اناسی سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ خدا کے فضل سے موصی تھے اور تیس سال تک شعبہ ضیافت یوکے میں رضا کار کے طور پر خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ لمبا عرصہ الفضل انٹرنیشنل اور اخبار احمدیہ کی پیکنگ اور پوسٹنگ میں خدمات سر انجام دیں۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مرحوم خلافت کے مثالی شیدائی تھے اور ہمیشہ اسی در پر فدا رہے۔مرحوم نے اہلیہ کے علاوہ چار بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔
اگلا جنازہ مکرمہ عفت نصیر صاحبہ اہلیہ پروفیسر نصیر احمد خان صاحب کا تھا۔ آپ 3؍ مئی کو نوے برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحومہ بڑی دعاگو، عبادت گزار اور تہجد گزار خاتون تھیں۔ لجنہ اماء اللہ میں لمبا عرصہ مختلف حیثیتوں میں خدمات کی توفیق ملی۔ لواحقین میں ایک بیٹی اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔
تیسرا جنازہ مکرم عبدالرحیم ساقی صاحب کا تھاجو31؍ مارچ کو وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم جنرل سیکرٹری آفس یوکے میں بطور کارکن خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ آپ بڑے دعا گو ، قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے عبادت گزار وجود تھے۔ خلافت کے ساتھ بڑی گہری عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔
آج کے خطبے میں آخری ذکرِ خیر مکرم سعید احمد سہگل صاحب کا تھا جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں شعبہ ڈسپیچ میں خدمت کی توفیق پارہے تھے۔ آپ 12؍ اپریل کو نوے سال کی عمر میں وفات پاگئے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ بڑے پڑھے لکھے،عِلم دوست شخصیت تھے۔ نمازوں کے پابند اور خلافت کے شیدائی تھے۔ مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو فرماتے خصوصاً عیسائیت اور یہودیت کا بڑا گہرا عِلْم تھا۔
حضورِانور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کی اولادوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭