ڈاکٹربشیر احمد ناصر صاحب مرحوم (درویش قادیان)
تاریخ احمدیت جاںنثاری اور سرفروشی کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔313درویشانِ قادیان کو بھی یہ امتیاز حاصل ہے کہ قیامت تک تاریخ احمدیت میں ان کے نام جگمگاتے رہیں گے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 11؍مئی 1948ء کو اپنے ایک تاریخی پیغام میں درویشانِ کرام قادیان کو مخاطب کر کے فرمایا تھاکہ
’’آپ لوگ وہ ہیں جو ہزاروں سال تک احمدی تاریخ میں خوشی اور فخر کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے اور آپ کی اولادیں عزت کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی اور خدا کی برکات کی وارث ہوں گی کیونکہ خدا کا فضل بلاوجہ کسی کو نہیں چنتا۔‘‘
(درویشان کرام نمبر الفرقان ربوہ۔ اگست، ستمبر1963ء صفحہ5)
ہمارے والد صاحب ڈاکٹر ملک بشیر احمد ناصر درویش قادیان اپنے والدین خورشید بی بی صاحبہ اور ملک عبدالکریم صاحب آف ترگڑی ضلع گوجرانوالہ کے اکلوتے بیٹے اور ملک محمد جمال صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے۔ آپ کی والدہ آپ کے بچپن کے زمانہ میں جبکہ آپ کی عمر 7سال کی تھی وفات پاگئی تھیں اور ان کے بعد دادی نے آپ کی پرورش کی۔
1937ءمیں تعلیم کی غرض سے قادیان آئےاور1942ء میں میٹرک پاس کیا۔ آپ کی خواہش تھی کہ آگے تعلیم جاری رکھیں لیکن مالی حالات نے اس کی اجازت نہ دی۔ ان دنوں جنگ عظیم دوم جاری تھی اور نوجوان فوج میں بھرتی کیے جارہے تھے۔ آپ بھی NAVY میں بطور WIRELESS OPERATORبھرتی ہوگئے اور اس غرض سے آپ کو BOMBAY بھیج دیا گیا۔ جب آپ کی دادی کو اس ملازمت کا علم ہوا تو وہ بہت پریشان ہوئیں اور بہت اصرار کیا کہ آپ واپس آجائیں۔ اس پر کچھ عرصے میں ہی NAVY کی ملازمت چھوڑ کر واپس اپنے گھر آگئے۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد MILITARY میں SUPPLY DEPARTMENT میں بھرتی ہوگئے۔ وہاں سے آپ کو BARODA بھیجا گیا اور BARODA میں کمیشنڈ آفیسر کے طور پر ٹریننگ کے بعد چٹاگانگ بھیجا گیاپھر آسام اور برما گئے۔بحری جہاز میں سامان لے جایا جاتا تھا اور آپ اس کے انچارج ہوتے تھے۔ جنگ ختم ہونے پرBARODAسے فارغ ہو کر ترگڑی آگئے۔ 1946ء میں پٹواری کی ٹریننگ لینی شروع کی۔ ٹریننگ مکمل ہوگئی تھی اورملازمت ملنے والی تھی کہ انڈیا اور پاکستان کی تقسیم کا زمانہ آگیا۔ ہندو سکھ جگہ چھوڑ کر جارہے تھے۔ اور ابا جی کی بھی ان میں سے ایک جگہ تقرری کی جارہی تھی۔ چنانچہ اسی اثنا میں جب آپ کی عمر تقریباً 23سال تھی۔ حضرت مصلح موعود ؓکا ایک نمائندہ آپ کے گاؤں آیا اور تحریک کی کہ نوجوان اپنے آپ کو حفاظتِ مرکز کے لیے پیش کریں۔
مسجد میں جب یہ تحریک کی گئی تو بھری مسجد کے ایک کونہ میں باپ بیٹھا تھا اور دوسری جانب بیٹا۔ دونوں نے اپنے نام پیش کر دیے۔ دونوں میں سے ایک جاسکتا تھا۔ بیٹا کسی طرح ہار ماننے والا نہ تھا۔ آخر اس نوجوان کی دادی نے اس کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بشیر احمد نوجوان ہے اور پُھرتیلا ہے اس لیے اس کو قادیان جانا چاہیے۔ اس طرح باپ اپنے بیٹے کو حفاظتِ مرکز کے واسطے بھیجنے کےلیے تیار ہوگیا۔ یہ وہ دن تھا جب اس نوجوان نے اپنی زندگی اپنے خدا کے در پر ڈال کر ابدی خوشی حاصل کر لی اور پھر کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اور آخری سانس تک اس کے در سے نہیں ہٹا۔
وہ ہے خوش اموال پر، یہ طالب دیدار ہے
بادشاہوں سے بھی افضل ہے گدائے قادیاں
ان کی زندگی کا ہر دن اس بات پر گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے در پر آئے ہوئے بندے پر ہر آن رحمتیں نازل فرمائیں اور اپنے فضلوں سے مالا مال کر دیا۔ حفاظت مقاماتِ مقدسہ کے ذکر میں ایک دفعہ میرے ابا جی نے مجھے بتایا کہ یہ قادیان تو تخت گاہِ مسیح ہے ہم نے اس کی کیا حفاظت کرنی تھی۔ خدا تو خود اس تخت گاہِ مسیح کی وجہ سے ہماری حفاظت کر رہا تھا۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میرے اللہ نے مجھ نالائق کو اس خدمت کے لیے چن لیا۔ آپ نے مجھے بتایا کہ شروع کے دن بہت بدامنی کے دن تھے۔ ہر وقت سکھوں کے حملےکا خطرہ رہتا تھا۔ ہم بہشتی مقبرہ اور سب مقدس مقامات پر پہرہ دیا کرتے تھے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہی تھا کہ غیر مسلموں پر احمدیوں کا بڑا رعب تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے پاس بہت اسلحہ ہے۔ حالانکہ ہمارے پاس کو ئی اسلحہ نہ تھا۔ ایک رات ایک سکھ جتھہ نے ارادہ کیا کہ احمدیوں پر حملہ کیا جائے۔ حملہ سے پہلے بہشتی مقبرہ کی چار دیواری (جو اس زمانہ میں کچی مٹی سے بنی ہوئی تھی۔) پھلانگ کر انہوں نے ایک ساتھی کو اندر بھیجا کہ اندازہ لگاؤ کہ اندر کتنے لوگ ہیں اور کتنا اسلحہ ہے۔ وہ اندر آیا تو باہر والے سکھ بے چینی سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ لیکن وہ سخت گھبراہٹ میں دیوار پھلانگ کر واپس چلا گیا کہ میں تو اندر جا کر اندھا ہوگیا تھا۔ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اس کےساتھی اس کی اس بات پر ہنسنے لگے اور دوسرے آدمی کو اندر بھیجا تھوڑی دیر میں وہ بھی سخت گھبراہٹ میں واپس لوٹا۔ یہ کہتا ہوا کہ ساتھیو! یہ سچ کہتا ہے میں بھی اندر جاکر اندھا ہوگیا تھا۔یہاں سے بھاگ چلو۔ یہاں کوئی بہت کرنی والا بزرگ دفن ہے۔ اندر جا کر کچھ نظر نہیں آتا۔ یہاں حملے کا خیال دل سے نکال دو۔ بعدمیں جب امن ہوگیا تو انہی سکھوں نے یہ واقعہ خود آکر بہت سے درویشوں کو سنایا۔
وقت گزرتا رہا اور حالات بہتر ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے خوف کی حالت کو امن میں بدل دیا۔ ابا جی کو محاسب میں کیشئر کے طور پر ڈیوٹی سپرد کی گئی۔ پھر شعبہ تعلیم میںبھی کام کیا۔ 1950ء میں احمدیہ ہسپتال کھلا جس کے انچارج اس وقت کیپٹن ڈاکٹر بشیر احمد صاحب تھے۔ ہسپتال میں مدد کےلیے ایک کوالیفائیڈ آدمی کی ضرورت تھی اور اس غرض کے لیے ابا جی کو کمپاؤنڈر کے طور پر رکھ لیا گیا۔ جہاں ضرورت ہوتی آپ پڑھاتے اور میڈیکل پریکٹس میں بھی مدد کرتے۔ اس طرح اس فیلڈ میں آپ کا علم اور تجربہ بڑھتا گیا اور ڈاکٹر بشیر احمد صاحب نے امراض چشم کا شعبہ آپ کے سپرد کردیا۔
غالباً 1953ء میں ڈاکٹر بشیر احمد صاحب پاکستان واپس چلے گئے۔ حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ابا جی کو ازراہ شفقت فرمایا کہ آپ میڈیکل پریکٹیشنر کے طور پر اپنی رجسٹری کروالیں۔ اس پر ابا جی نے چندی گڑھ(CHANDIGARH)میں اپنے آپ کو MEDICAL PRACTITIONERکے طور پر رجسٹرڈ کروالیا۔
اُن دنوں جبکہ ڈاکٹر غلام ربانی صاحب ہسپتال کے انچارج تھے انجمن نے تجویز کیا کہ ایک دواخانہ قادیان سے باہر کھولا جائے تاکہ محصوریت کم ہو اور جماعت کے تعلقات بڑھیں۔ قادیان سے مشرق کی طرف 6-7میل دور بھرت کے مقام پر ایک دواخانہ کھولا گیا اور ابا جی کو اس کا انچارج بنا دیا گیا۔ وہاں روز جاتے اور کبھی کبھی رات کے بارہ اور ایک بجے تک واپس آتے۔کبھی کوئی مریض خطرے میں ہوتا تو رات وہیں رہ جاتے۔ اور امی گھر میں ان کا انتظار کرتیں۔ کوئی فون کی سہولت تو ہوتی نہیں تھی کہ پتہ لگے کہ اباجان کہاں ہیں۔ 1954ء میں بھرت میں کام کیا۔
ملکی حالات بہتر ہونے پر جو نوجوان شادی شدہ تھے انہوں نے اپنی فیملیزکو قادیان بلا لیا اور جو غیر شادی شدہ تھے ان کی شادیاں ہونے لگیں۔ نومبر1953ء میں میرے والد صاحب کی شادی میری والدہ امۃ الحفیظ صاحبہ بنت خواجہ عبدالواحد صاحب سے ہوئی اور ابا جی کو ایک ایسی رفیقۂ حیات ملیںجو اپنے خاوند کے ساتھ ہرحال میں قدم بقدم چلنے کو تیار تھیں۔ ان کی بہترین دوست، ہمدرد، مشیر اور ان کے بچوں کے لیے بہترین ماں ثابت ہوئیں۔ والدہ صاحبہ بتاتی تھیں کہ شروع درویشی کا زمانہ سخت مالی تنگی سے گزرا۔ کئی کئی دن صرف نمک مرچ کے ساتھ روٹی کھاتے اور خدا کا شکر ادا کرتے۔ شروع میں صرف 5روپے ماہانہ الاؤنس ملتا تھا۔
1956ء میں اخبار میں اعلان پڑھا کہCENTRAL COLLEGE OF OCULIST /OPHTHALMOLOGY. LUDHIANAمیں داخلہ شروع ہے۔ ابا جی نے بہت شوق سے وہاں داخلہ لینے کے لیے APPLYکردیا۔ لیکن ان کی REQUIREMENTS پر پورے نہیں اُترے اور وہاں سے جواب آگیا کہ آپ کو داخلہ نہیں مل سکتا کیونکہ یہاں داخلے کے لیے MBBSہونا ضروری ہے۔ ابا جی کو اس کا دکھ ہوا لیکن کثرت سے دعاؤں میں لگے رہے۔ ابھی تین چار ماہ ہی گزرے تھے کہ اسی کالج سے خط آگیا کہ آپ کا داخلہ منظور ہے اس لیے آپ یہاں پہنچ جائیں۔ یہ داخلہ ملنا خدا کا غیر معمولی فضل تھا اور معجزے سے کچھ کم نہ تھا۔ لیکن وہاں جانے کے لیے ان کے پاس کوئی پیسہ نہ تھا۔ امی احمدیہ سکول میں بطور استانی ملازمت کر رہی تھیں۔ انہوں نے ابا جی کی فیس اور اخراجات کے لیے خاموشی سے جا کر اپنا زیور بیچا اور یہ رقم ابا جی کو دیتے ہوئے کہا کہ آپ اطمینان سے جا کر اپنی تعلیم مکمل کریں اور میری اور دونوں بچیوں کی بالکل فکر نہ کریں۔ ابا جی کو رخصت کرنے کے بعد چند سال بڑے حوصلے اور ذمہ داری سنبھالتے ہوئے گزارے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ابا جی 1959ء میں واپس آئے THEORY & PRACTICALمیں TOPکیا اور GOLD MEDALحاصل کیا۔ کالج کے PRINCIPALنے 6000؍روپے ماہانہ ملازمت کی OFFERکی لیکن انکار کردیا اور واپس قادیان آکر اپنی پرائیویٹ پریکٹس کا آغاز کر دیا۔ آنکھوں کے علاج اور CATARACT SURGERYکے لیے دُور دُور سے لوگ ابا جی کے پاس آتے اور خدا کے فضل سے شفا پا کر جاتے۔ بے شمار مریضوں کی آنکھوں کے کامیاب آپریشن کیے۔ 20-25سال تک صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے فیملی ڈاکٹر کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔
ابا جی کی زندگی بے حد منظّم تھی۔ صبح ناشتہ کے بعد ساڑھےآٹھ بجے کے قریب گھر سے نکلنا اور ظہر کے وقت مسجد پہنچنا ان کا معمول تھا۔ اکثر اوقات غیر مسلم مریض مسجد کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ان کی واپسی کا انتظار کیا کرتے اور کہتے کہ ڈاکٹر صاحب نماز پڑھنے اور دعا کرنے گئے ہیں۔دوپہر کے کھانے کے لیے گھر آتے اور تھوڑا آرام کر کے پھر کلینک چلے جاتے اور شام کو مغرب کی نماز کے بعد سیر کے لیے جاتے۔ گھر واپس آنے پر امی، ابا جی اور ہم پانچوں بہنیں اکٹھے کھانا کھاتے اور بے تکلف باتیں ہوتیں۔ یہ روز کا معمول تھا اور چھٹی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ جب امی بہت بیمار ہوگئیں اور امرتسر ہسپتال میں داخل تھیں تو پندرہ دن امی کے ساتھ امرتسر ہی رہے۔ امی کہتی رہیں کہ آپ واپس قادیان چلے جائیں لیکن جواب میں یہی کہتے کہ تمہیں ساتھ لے کر ہی جاؤں گا۔ امی اور ابا جی کا آپس میں بہت محبت اور احترام کا تعلق تھا۔ کسی بات پرآکر غصے میں کوئی سخت رویہ دکھاتے تو امی کے خاموش چہرے پر اُداسی کا اظہار نظر آتا۔ کلینک جانے سے پہلے صلح کرنا چاہتے اور امی کو مخاطب کر کے کہتے کہ حفیظ! میں جارہا ہوں۔اور السلام علیکم کہتے۔ جواب میں امی کے چہرے پر ناراضگی دیکھ کر امی کو منانے کے لیے پاس بیٹھ جاتے اور کہتے کہ میں کلینک پر نہیں جاؤں گا جب تک تم مجھے معاف نہ کر دو گی۔ ہر وقت خدا کا خوف دل میں رہتا کہ میرا خدا مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ اُدھر کلینک سے بار بار پیغام آتے کہ مریض انتظار میں بیٹھے ہیں جلدی آئیں۔ تو کہتے تھے جتنے بھی پیغام آئیں آنے دو۔ جب تک حفیظ معاف نہیں کرے گی میں نہیں جاؤں گا۔ اس پر امی کی ہنسی نکل جاتی اور یوں ابا جی خوشی خوشی کلینک چلے جاتے۔ یہ تھی ہماری قادیان میں معاشرتی جنت کی ایک جھلک۔ اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو پانچ بیٹیوں سے نوازا۔ بیٹیوں سے بے انتہا محبت تھی۔ ہر بیٹی یہی سمجھتی کہ مجھ سے سب سے زیادہ محبت ہے۔
اپنی زندگی پانچ روپے میں (شروع میں جو درویشوں کو وظیفہ ملتا تھا) اللہ کے حضور بیچ کر ایسا بہترین سودا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ا پنے اس بندےکو کبھی کسی کا محتاج نہیں کیا۔ ہمیشہ اس کی جھولی اپنی نعمتوں سے بھر کر رکھی اور اپنے اس درویش کا ہاتھ ہمیشہ اوپر رکھا اور بے حساب رزق سے نوازا۔ اپنے سارے خاندان کی مالی امداد بے غرض اوربےانتہاکی۔ قادیان کے درویشوں کے لیے بھی بہت نافع الناس شخصیت کے حامل تھے۔ اکثر لوگ زمینیں خریدتے وقت یا دیگر ضرورتوں کے وقت ابا جی سے قرض لیا کرتے تھے۔ اس طرح ایک بڑی رقم مالی امداد یا قرض کی صورت میں گردش میں رہتی تھی۔ ابا جی کہا کرتے تھے کہ جب کوئی مجھ سے قرض لینے آتا ہے تو مجھے انکار کرنے میں سخت شرم آتی ہے۔ وعدے کے مطابق قرض واپس ادا کرنے والوں کی بہت قدر کرتے تھے۔
جلسے پر آنے والے بعض مہمان اگر دعا کی درخواست کے ساتھ محبت اور عقیدت سے کچھ نذرانہ چھوڑ جاتے تو بہت شرم محسوس کرتے۔ خود بھی درویش فنڈ میں رقم ادا کرتے تھے۔ ایک دیکھنے والا یہ دیکھ سکتا تھاکہ یہ شخص دنیا کی دولتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود اُن دولتوں سے بے نیاز بھی ہے۔ غریب اور ذہین طلباء کی حوصلہ افزائی اور مالی امداد کا خاص خیال رہتا تھا۔ اور تعلیم فنڈ میں باقاعدہ رقم ادا کیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ قوم کے بچوں کی جسمانی صحت کا بہت دھیان رہتا۔ کبڈی اور ہاکی وغیرہ کھیلوں میں جیتنے والی ٹیم کے لڑکوں کو پیسوں کی صورت میں انعام دے کر اور بعض اوقات لوکل ہوٹل سے دودھ پلوا کر خوشی کا اظہار کرتے۔
اللہ تعالیٰ پر کامل توکل اور شکر گزاری آپ کی زندگی کے نمایاں اوصاف تھے۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے۔ درزی سے اپنے لیے جو شرٹ سلواتے اس میں دو جیبیں (POCKETS)رکھواتے۔ ایک جیب میں روزانہ کی آمد رکھتے اور دوسری جیب میں ہر روز کی آمد کا دسواں حصہ چندہ کے لیے رکھتے۔ اکثر ہفتے کے بعد سیکرٹری مال کو چندہ ادا کر دیتے۔ ان دنوں جبکہ محترم عبدالرشید صاحب نیاز سیکرٹری مال ہوا کرتے تھےکئی بار محبت سے مزاحیہ انداز میں کہتے تھے کہ رسید بک ڈاکٹر صاحب کی رسیدوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ اس ذکر پر کہا کرتے تھےاللہ تعالیٰ مجھ جیسے نالائق کو دے کر یوں کہتا ہے ’’لے بشیر احمد، یہ اللہ کی راہ میں دے کر خوش ہو جا‘‘۔ سو اللہ مجھے دیتا ہے اور میں وہی اس کی راہ میں دے دیتا ہوں۔ اکثر یہ مصرع پڑھا کرتے تھے۔
سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے
خلیفۂ وقت کی طرف سے جو بھی تحریک ہوتی آپ کی کوشش ہوتی کہ اولین لبیک کہنے والوں میں سے ہوں۔ اور یہ انداز آخری وقت تک قائم رہا۔ الحمدللہ۔
نظمیں بہت خوبصورت انداز میں پڑھتے تھے۔ آوازمترنم اور لہجے میں درد اور گہرائی تھی۔ درّثمین، کلام محمود اور درِّ عدن کی اکثر نظمیں زبانی یاد تھیں۔ اکثر دعائیہ نظمیں گنگنایا کرتے تھے۔ سالہا سال تک قادیان کے جلسہ پر ابا جی کی نظم ضرور ہوتی تھی جو بہت شوق سے سنی جاتی تھی۔ 1948ء میں امیر جماعت قادیان (مولوی عبدالرحمان صاحب جٹؓ) کی درخواست پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے ایک نظم لکھ کر بھیجی۔ اس نظم کا ذکر کرتے ہوئے چودھری فیض احمد صاحب گجراتی درویش قادیان اپنی کتاب’’اردو ادب کا احمدیہ دبستان‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’کتنی حسرت بھری ہوئی ہے۔ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا کے ان قیمتی اور تاریخی اشعار میں جو آپ نے اہلِ قادیان (درویشوں) کے نام اپنے پیغام میں فرمائے تھے۔
خوشا نصیب کہ تم قادیاں میں رہتے ہو
دیارِ مہدیٔ آخر زماں میں رہتے ہو
قدم مسیح کے جس کو بنا چکے ہیں حرم
تم اس زمین کرامت نشاں میں رہتے ہو
خدا نے بخشی ہے الدَّار کی نگہبانی
اسی کے حفظ اسی کی اماں میں رہتے ہو
کتنا درد اور سوز ہے ان الفاظ میں۔ یہ اشعار کیا ہیں خون دل سے لکھی ہوئی ایک اہم تاریخی دستاویز ہے۔ یہ الفاظ ایک مقدس دل کی گہرائیوں سے نکلے اور لاکھوں افرادِ جماعت کے قلوب کی گہرائیوں میں بیٹھ گئے۔
فرشتے ناز کریں جس کی پہرہ داری پر
ہم اس سے دور ہیں تم اس مکاں میں رہتے ہو
مجھے یاد ہے کہ جب تقسیم ملک کے بعد 1949ء کے جلسہ سالانہ پر حضرت موصوفہ کی یہ نظم میرے درویش بھائی مکرم ملک بشیر احمد صاحب ناصر نے پہلی بار ترنم کے ساتھ پڑھی تھی تو ہر درویش اور حاضرین جلسہ کی آنکھیں اشکبار تھیں اور دبی دبی سسکیاں سینوں سے نکل رہی تھیں۔ لیکن جب یہ شعر پڑھا گیا۔
شبیں جہاں کی شبِ قدر اور دن عیدیں
جو ہم سے چھوٹ گیا، اس جہاں میں رہتے ہو
تو صبر و ضبط کا دامن چھوٹ گیا اور بے اختیار چیخوں سے ایک حشر سا بپا ہو گیا تھا۔
یوں تو ہم پہلے بھی اپنی درویشی کو ایک قیمتی متاع سمجھتے تھے لیکن اس نظم نے تو ایک اَور ہی رنگ میں ہمیں اپنی درویشی سے متعارف کروایا اور درویشی کی قدر و قیمت ہماری بلکہ جماعت کی نگاہوں میں اَور بھی بڑھ گئی۔ یہ نظم رہتی دنیا تک ہمارے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے سرمایۂ فخررہے گی۔‘‘
(اردو ادب کا احمدیہ دبستان صفحہ 182-183)
یہ ترنم محض نظموں تک ہی محدود نہ تھا بلکہ قرآن کریم کی تلاوت میں تو بہت ہی دلکش سنائی دیتا تھا۔ اپنے کلینک میں ڈیسک کے داہنی طرف قرآن کریم کا ایک نسخہ ہر وقت رکھتے تھے۔ جونہی مریضوں سے فرصت ملتی قرآن کریم کھول کر دھیمی آواز میں پڑھا کرتے تھے۔ اس طرح قرآن کریم کا بہت سا حصہ حفظ کر لیا تھا۔ تلفظ بہت اچھا تھا۔ دوسروں کی تلاوت میں صحیح تلفظ کی ادائیگی سن کر بہت محظوظ ہوتے اور ان کی بہت قدر کیا کرتے تھے۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے تعلیم القرآن کی تحریک کی تو ہر روز عشاء کی نماز کے بعد باقاعدگی سے مسجد میں قرآن کریم کی کلاس میں شامل ہوتے جو مولوی حفیظ صاحب بقا پوری درویش قادیان پڑھایا کرتے تھے۔ بہت ذہین تھے اور ترجمہ بہت شوق سے اور بہت اچھی طرح سیکھا۔ تفسیر کبیر کا گہرا مطالعہ رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ کی ذہانت اور معرفت سے مرعوب اپنی بیٹیوں کو اس خزانے کی طرف بارہا متوجہ کیا کرتے تھے۔ بیٹیوں کی شادی پر سب کو تفسیر کبیر کے سیٹ دے کر رخصت کیا۔
ابا جی کا اللہ تعالیٰ سے محبت اور یقین کا تعلق ایک خاص رنگ رکھتا تھا۔ وفات سے قریباً چار سال قبل جب آپ کو فالج کا شدید حملہ ہوا اور جسم کا ایک حصہ تقریباً مفلوج ہوگیا۔ سخت پریشانی کا عالم تھا۔ سب دعائیں کر رہے تھے۔ خود بھی ہر وقت دعا کرتے رہتے تھے اور حضرت مصلح موعودؓ کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
گر زندگی دینی ہے تو دے ہاتھ سے اپنے
کیا جینا ہے یہ، جیتے ہیں غیروں کے سہارے
ایک دن بیماری کے ایام میں کہنے لگےمجھے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہے کہ وہ مجھےکامل شفا دے گا اور مرے جسم کا کوئی حصہ اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے اس بندہ سے پیار کا سلوک دیکھ کر دل سجدۂ شکر بجا لاتا ہے کہ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ آپ کے جسم پر فالج کا کوئی اثر باقی نہ رہا اور آپ بالکل نارمل چلنے پھرنے لگ گئے۔ الحمدللہ۔
اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی محبت کے سلوک کی ایک اور جھلک اس واقعہ میں بھی نظر آتی ہے کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل جبکہ جلسہ سالانہ قادیان پر گھر میں دیگر مہمانوں کے علاوہ دو بیٹیاں بھی بیرونِ ملک سے آئی ہوئی تھیں۔ ابا جی کمزوری کی وجہ سے گھر پر ہی رہتے تھے۔ ایک دن فجر کی نماز پڑھ کر بہشتی مقبرہ سے واپس آنے میں قدرے تاخیر ہوگئی۔ واپس آتے ہی بیٹیوں نے ابا جی سے کہا ابا جی آج کچھ دیر ہوگئی ہے ہم ابھی آپ کے لیے ناشتہ لاتے ہیں۔ ابا جی بڑے اطمینان سے کہنے لگےکہ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ٹرے میں میرے لیے کھانا لے کر آئے تھے۔ وہ میں نے سیر ہو کر کھایا ہے۔ الحمدللہ۔
ابا جی کی عادت تھی کہ گھر میں چلتے پھرتے قدرے اونچی آواز میں دعائیں اور درود شریف کا وِرد کرتے رہتے۔
یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ
تو بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔ سورۂ آل عمران کی یہ دعا اکثر زیرِ لب رہتی۔
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ
اے ہمارے رب ! یقیناً ہم نے ایک منادی کرنے والے کو سنا جو ایمان کی منادی کر رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ۔ پس ہم ایمان لے آئے۔ اے ہمارے رب پس ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ موت دے۔
(سورۂ آل عمران آیت 194)
میرے پیارے ابا جی کا وجود ہمارے سروں پر ایسا ٹھنڈا اور گھنا سایہ تھا کہ بیمار اور کمزور ہونے کے باوجود ان کے سینے سے لگ کر ایسا لگتا کہ ہم ہر غم و فکر سے آزاد ہوگئے ہیں۔
خدا گواہ ہے کہ اس درویش نے اپنی پوری صلاحیت، ہمت اور طاقت کے ساتھ اس عہد کو نبھایا اور خدا اور رسولؐ اور اس کے پیارے مسیح اور خلافت کے ساتھ اخلاص، وفا، محبت اور عقیدت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہوئے کسی قسم کی قربانی سے کبھی گریز نہ کیا اور 13؍مئی 2013ء کو اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگئے۔ خدا تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے۔ آمین۔
رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً۔
آمین
زہے قسمت کہ دنیا میں فدائے قادیاں تم ہو
مسیحائے محمدؐ کے نشانوں میں نشاں تم ہو
نہیں سمجھی تو آخر ایک دن دنیا یہ سمجھے گی!
کہ ایک قطرہ نہیں ہو بلکہ بحرِبے کراں تم ہو
(کلامِ قدسیؓ۔ بابت درویشان قادیان)
٭…٭…٭