31؍اگست 1924ء: مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی دردناک شہادت
’’شہید کی شہادت کا سچا جواب اس کام کو جاری رکھنا ہے جس کے لئے وہ شہید ہؤا‘‘(حضرت مصلح موعودؓ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ابھی (دورۂ یورپ کے دوران) لندن میں ہی تشریف رکھتے تھے کہ یہ دردناک اطلاع پہنچی کہ امیر امان اللہ خاں شاہ افغانستان کے حکم سے کابل میں احمدی مبلغ مولوی نعمت اللہ خان صاحب 31؍اگست 1924ء کو 34سال کی عمر میں محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار کر دیئے گئے۔ (انا للّٰہ و انا الیہ راجعون)
مولوی نعمت اللہ خاں صاحب (ابن امان اللہ) کابل کے پاس ایک گاؤں خوجہ تحصیل رخہ ضلع پنج شیرکے رہنے والے تھے۔ احمدی ہونے کے بعد وہ سلسلہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان چلے گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ 1919ء میں جبکہ وہ ابھی تعلیم پارہے تھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ان کو کابل کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے افغانستان بھجوا دیا اور چونکہ احمدیوں کے لئے وہاں امن نہیں تھا۔ اس لئے آپ نے انفرادی رنگ میں اپنے بھائیوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی دوران میں 20؍ فروری 1919ء کو امیر حبیب اللہ خاں شاہ افغانستان قتل ہو گئے تو امیر امان اللہ خاں نے تخت حکومت پر بیٹھنے کے بعد اپنی سلطنت میں کامل مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا۔
اس اعلان پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اگست 1919ء میں نیک محمد خاں صاحب غزنوی (سابق گورنر غزنی امیر احمد خاں کے فرزند) اور بعض دوسرے اصحاب کو افغانستان سے آمدہ ایک نمائندہ وفد سے ملاقات کے لئے منصوری بھجوایا۔ جو محمود طرزی صاحب (وزیر خارجہ افغانستان) کی قیادت میں انگریزوں سے معاہدہ صلح طے کرنے کے لئے آیا تھا۔ حضور کا مقصد یہ تھا کہ افغان حکومت کی موجودہ پالیسی کا علم ہو جائے کہ کیا احمدیوں کے لئے بھی مذہبی آزادی ہے اور وہ احمدی افغان جو مذہب میں مداخلت کی وجہ سے اپنے وطن سےہجرت کرکے قادیان آگئے ہیں واپس اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔ اس افغان وفد میں ایک ہندو وزیر خزانہ افغانستان بھی شامل تھے۔ انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ امیر احمد خاں (رئیس و سابق گورنر غزنی) کا لڑکا ہے اور چودہ سال کی عمر میں احمدیت کے اظہار کی آزادی نہ پا کر قادیان آگیا ہے تو انہوں نے روتے ہوئے گلے لگا لیا اور کہا کہ تمہارا باپ تو میرا بھائی تھا۔ تم اپنے وطن میں واپس آجاؤ۔ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ یہی وعدہ محمود طرزی صاحب نے کیا اور یہ بھی یقین دلایا کہ افغانستان میں کسی احمدی کو قطعاً کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ کیونکہ ظلم کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔
وفد کے دوسرے ممبروں کے دل پر بھی نیک محمد خاں صاحب کی حالت زار دیکھ کر بہت اثر ہوا اور ان کی آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ایسے معزز خاندان کے بچے اس عمر میں اپنے عزیزوں سے جدا ہو کر دوسرے وطنوں کو جانے پر مجبور ہوں۔ موجودہ شاہ افغانستان امیر امان اللہ خان کے وقت میں نہ ہو گا۔
احمدی وفد اپنے نزدیک بہت کامیاب واپس آیا۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مزید احتیاط کرتے ہوئے مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ محمود طرزی صاحب سے ان کی واپسی پر ملیں اور ان سے احمدیوں پر ہونے والے ظلم کا تذکرہ کریں اور شاہ کابل کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کی بھی اجازت لیں۔ محمود طرزی صاحب نے ملاقات کے بعد ان احمدیوں کی تکلیف کا ازالہ کر دیا۔ لیکن چونکہ افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں برابر آرہی تھیں کہ احمدیوں پر برابر ظلم ہو رہا ہے۔ اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حکم سے وزیر خارجہ افغانستان اور مشہور ترکی جنرل جمال پاشا (مقیم افغانستان) کو بذریعہ خط توجہ دلائی گئی۔ اس کے جواب میں کابل کی وزارت خارجہ کی طرف سے سردار محمود طرزی صاحب نے لکھا۔
’’دو قطعہ مکتوب شما تاریخ ۳۰/ ماہ اپریل ۱۹۲۱ء عیسوی بعنوان جناب جلالت ماب جمال پاشا و بنام ایں خدمتگار عالم اسلام رسیدہ۔ مضامین و مطالب آنرا مطالعہ کردہ الیٰ آخرہ دانستہ شدیم۔ جواباً مے نگاریم کہ درسلطنت اعلیٰ حضرت غازی پادشاہ معظم افغانستان ہیچ یک زحمت یا تکلیفےاز طرف حکومت دربارہ تابعین و متعلقین شمادر خاک فغانستان ابراز نیافتہ۔‘‘
’’اگر سیاہہ اشخاص تابعین خودرا کہ درخاک افغانستان سکونت دارند برائے ما بفر ستید‘ممکن است اگر تکلیفے دربارہ شاں وارد شدہ باشد رفع شود۔‘‘
یعنی آپ کے دو خط مورخہ 30؍ اپریل 1921ء جناب جلالت ماب جمال پاشا اور عالم اسلام کے اس خدمت گار کے نام پہنچے جن کے تمام مطالب و مضامین سے آگاہی ہوئی۔ جواباً لکھا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت غازی (امان اللہ خاں) کے عہد حکومت میں کابل کی سرزمین میں رہنے والے آپ کے متبعین اور متعلقین کو کسی قسم کی زحمت یا تکلیف حکومت کی طرف سے نہیں پہنچائی گئی اور اگر ملک افغانستان میں سکونت رکھنے والے احمدیوں کی فہرست ہمارے پاس بھیج دیں تو ممکن ہے کہ اگر انہیں کوئی تکلیف ہوئی ہو تو اس کا ازالہ کر دیا جائے۔
اس مراسلہ کے کچھ عرصہ بعد علاقہ خوست کے بعض احمدیوں کو پھر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تو جماعت احمدیہ شملہ نے سفیر افغانستان (متعین ہندوستان) کی معرفت حکومت افغانستان کو ایک درخواست بھیجی۔ 24؍ مئی 1923ء کو سفیر افغانستان کی معرفت جواب ملا کہ احمدی امن کے ساتھ حکومت کے ماتحت رہ سکتے ہیں ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا۔ باقی وفادار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی۔ جواب میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ یہ معاملہ حضرت شاہ معظم کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور آپ کے مشورہ سے لکھا جا رہا ہے۔
اب جماعت احمدیہ پوری طرح مطمئن تھی کہ افغانستان میں مذہبی آزادی کا دور دورہ ہے مگر 1923ء کے آخر میں اطلاع ملی کہ دو احمدیوں کو حکومت افغانستان نے قید کر لیا ہے۔ اس اطلاع کے چند ماہ بعد شروع جولائی 1924ء میں مولوی نعمت اللہ صاحب کو بھی حکام نے بلایا اور بیان لیا کہ وہ احمدی ہیں؟ پہلے تو ان کو یہ صحیح بیان دینے پر کہ وہ احمدی ہیں رہا کر دیا گیا۔ مگر پھر جلدی ہی آپ جیل میں ڈال دیئے گئے۔
۲۸/ ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ (مطابق یکم اگست 1924ء) کو مولوی نعمت اللہ صاحب نے قید خانہ سے فضل کریم صاحب بھیروی (مقیم کابل) کے نام ایک مفصل خط لکھا۔( اصل خط جو فارسی زبان میں ہے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے اور اس کا عکس الفضل 11؍ ستمبر 1924ء صفحہ 4 پر چھپ چکا ہے۔) جس میں اپنے حالات ان الفاظ میں بتائے کہ
’’یہ کمینہ داعی اسلام تیس روز سے ایسے قید خانہ میں ہے جس کا دروازہ اور روشندان بھی بند رہتے ہیں اور صرف ایک حصہ دروازہ کھلتا ہے کسی کے ساتھ بات کرنے کی بھی ممانعت ہے جب میں وضو وغیرہ کے لئے جاتا ہوں تو ساتھ پہرہ ہوتا ہے خادم کو قید خانہ میں آنے کے دن سے لے کر اس وقت تک چار کوٹھڑیوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے لیکن جس قدر بھی زیادہ اندھیرا ہوتا ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے روشنی اور اطمینان قلب دیا جاتا ہے ……۔ یہ خط لے کر حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور بھیج دیں۔ علاوہ ازیں بذریعہ تار یا خط میرے احمدی بھائیوں کو میرے حال سے اطلاع دے دیں تا وہ دعا فرماویں کہ خدا تعالیٰ مجھے دین متین کی خدمت میں کامیاب کرے۔ میں ہر وقت قید خانہ میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ ’’الٰہی اس نالائق بندہ کو دین کی خدمت میں کامیاب کر میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے قید خانہ سے رہائی بخشے اور قتل ہونے سے نجات دے بلکہ میں یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ الٰہی اس بندہ نالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ اسلام پر قربان کر‘‘۔ (ترجمہ از فارسی)
الغرض مولوی نعمت اللہ خاں محکمہ شرعیہ ابتدائیہ(یعنی پہلی شرعی عدالت۔) میں پیش کئے گئے۔ جس نے 11؍ اگست 1924ء کو آپ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ 16؍اگست 1924ء کو آپ عدالت مرافعہ کابل کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس نے آپ کے دوبارہ بیانات لئے اور ارتداد سے متعلق پہلے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے مزید حکم یہ دیا کہ نعمت اللہ خان کو قتل کرنے کی بجائے ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے۔( اخبار حقیقت کابل جلد 1شمارہ 11 صفحہ4، بحوالہ الفضل 18 ستمبر 1924ء صفحہ 5) عدالت عالیہ کے فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی لکھا کہ ملزم چونکہ اہل السنت و الجماعت کے ان علماء کو جنہوں نے مسئلہ نزول مسیح کو جسمانی صورت میں بتایا ہے غلطی خوردہ سمجھتا ہے اس لئے یہ خادم شرع شریف اس فیصلہ کا حکم درست سمجھتا ہوا اس کی تصدیق کرتا ہے‘‘۔ (ترجمہ)
اس فیصلہ کے مطابق 31؍ اگست 1924ء کو پولیس نے مولوی صاحب کو ساتھ لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھیرایا اور ہر جگہ منادی کی کہ یہ شخص آج ارتداد کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا لوگ اس موقعہ پر حاضر ہو کر اس میں شامل ہوں۔ دیکھنے والوں کی شہادت ہے جس وقت آپ کو گلیوں میں پھیرایا جا رہا تھا اور سنگساری کا اعلان کیا جا رہا تھا تو آپ گھبرانے کی بجائے مسکرا رہے تھے۔ گویا آپ کی موت کا فتویٰ نہیں دیا جارہا تھا بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جا رہی تھی۔
آخر عصر کے وقت ان کو کابل کی چھاؤنی کے میدان میں (جسے شیر پور کہا جاتا ہے) سنگسار کرنے کے لئے لے جایا گیا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس دنیا کی زندگی ختم ہونے سے پہلے ان کو اپنے رب کی عبادت کرنے کا آخری موقعہ دیا جائے حکام کی اجازت ملنے پر انہوں نے نماز پڑھی اور اس کے بعد کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چاہو سو کرو۔
چنانچہ آپ کمر تک گاڑ دیئے گئے اور پہلا پتھر کابل کے سب سے بڑے عالم نے پھینکا۔ اس کے بعد ان پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ آپ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے اور خدا تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولوی نعمت اللہ خان صاحب نے شہادت کے وقت جس جذبہ فدائیت اور ایمانی جرأت کا نمونہ دکھایا۔ اس کا اقرار کرتے ہوئے کابل کے ایک نیم سرکاری اخبار نے 6؍ستمبر1924ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’مولوی نعمت اللہ بڑے زور سے احمدیت پر پختگی سے مصر رہا اور جس وقت تک اس کا دم نہیں نکل گیا سنگساری کے وقت بھی اپنے عقیدہ کو بآواز بلند ظاہر کرتا رہا۔‘‘
اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ کے کابلی نامہ نگار نے بتایا:
’’ایک بہت بڑا مجمع یہ فتویٰ عمل میں لانے کا نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گیا تھا مگر اپنے نہایت ہی خوفناک انجام کے باوجود (جو اس کا انتظار کر رہا تھا) وہ شخص نہایت مضبوط اور پختگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اظہار کرتا رہا اور اپنے آخری سانس تک اپنے عقیدہ پر قائم رہا۔ اسی حالت میں کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کر رہا تھا اس کثرت سے پتھروں کی بوچھاڑ ہونی شروع ہو گئی کہ چند لمحوں میں اس کا جسم کلی طور پر پتھروں کے بہت بڑے تودے کے نیچے دب گیا‘‘۔ (ترجمہ)
اسی طرح ایک آریہ اخبار ’’پرکاش‘‘ نے 21؍ستمبر 1924ء کے پرچہ میں لکھا:
’’ہمارا احمدیوں سے سخت اختلاف ہے …لیکن باوجود اس کے ہم انہیں مبارک باد دیتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ایک فرد نے اپنے مذہب کے لئے شہید ہونا منظور کیا ہے۔ اگرچہ کابل کی عدالت نے کہہ دیا تھا کہ مولوی نعمت اللہ کے لئے بروئے شرع توبہ بھی نہیں ہے تاہم ان کے لئے باعث فخر ہے کہ انہوں نے آخری وقت تک توبہ نہیں کی۔ پتھر کھا کھا کر مرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی ایذا کی موت ہے باوجود اس کے انہوں نے اسے منظور کیا لیکن احمدی ہونے سے انکار نہیں کیا۔‘‘
حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے بعد ان کی لاش پر پہرہ لگا دیا گیا۔ ان کے بوڑھے غیر احمدی باپ نے حکام سے لاش لینے کی درخواست کی مگر حکومت نے صاف انکار کر دیا۔
انصاف پسند دنیا کا زبردست احتجاج
اس دردناک حادثہ کی خبر شائع ہونے پر ہر ملک میں شہید کی مظلومیت پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا گیا اور تمام متمدن اور انصاف پسند دنیا نے اس کارروائی کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا چنانچہ جہاں یورپ کے اخباروں مثلاً ’’ٹائمز‘‘۔ ’’آبزرور‘‘۔ ’’فنانشل ٹائمز‘‘۔ ’’نیئرایسٹ‘‘۔ ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘۔ ’’مارننگ پوسٹ‘‘۔ ’’ڈیلی نیوز‘‘۔ ’’ڈیلی میل‘‘نےاس کے خلاف سخت احتجاج کیا اور نوٹ لکھے وہاں ہندوستان کے مسلم اور غیر مسلم پریس نے بھی اس کے خلاف زبردست آواز اٹھائی۔(بعض متعصب اخباروں نے اس فعل پر پردہ ڈالنے کے لئے شہید احمدیت مولوی نعمت اللہ خاں کو سیاسی مجرم گرداننے کی کوشش کی۔ مگر افغان عدالت کے فیصلہ نے اس کی تغلیط کر دی۔ اخبار ڈیلی میل کے نامہ نگار نے کابل سے اطلاع دی کہ مولوی نعمت اللہ کی سنگساری کے عدالتی فیصلہ کے بعد امیر نے ملکی دستور کے مطابق اس فیصلہ کی بذات خود تصدیق کی جس کے بعد یہ عمل میں لایا گیا۔ (الفضل 28؍ اکتوبر1924ء) چنانچہ بطور نمونہ چند اخباروں کے اقتباس درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
1: مشہور شیعہ اخبار ’’ذوالفقار‘‘ نے 8؍ستمبر1924ء کی اشاعت میں لکھا:۔
’’نہایت افسوس ہے کہ مولوی صاحب مرحوم ایک احمدی مسلمان تھے۔ قرآن ایک ہے۔ خدا ایک ہے۔ رسول ایک،کعبہ ایک۔ پانچ وقت کی نماز پڑھتا اور روزے رکھتا تھا صرف اس کا یہ جرم تھا کہ وہ امیر افغانستان کے مذہب کا مسلمان نہیں تھا۔ جو پہلے گرفتار کر لیا گیا اور اس کو اپنے مذہب پر پھیرنے کی بہت کوشش کی گئی مگر اس نے قبول نہیں کیا۔ اس لئے ظالمانہ سزا سے ایک غریب الوطن کو قتل کر دیا گیا۔ خدا مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ اس رنج میں ہمیں احمدی صاحبان سے دلی ہمدردی ہے اور امیر کے اس فعل ظالمانہ سے سخت نفرت ہے جس حکومت میں یہ ظلم اور ستم روا رکھا گیا ہے اس کا کاسہ عمر جلد ٹوٹ جائے گا۔ ایسی حکومت دیرپا نہیں رہتی۔‘‘
2: صوبہ بنگال کے بااثر ہندو اخبار ’’بنگالی‘‘ (کلکتہ) نے 9؍ستمبر 1924ء کی اشاعت میں لکھا:
’’یہ فعل ہر رنگ میں بالکل خلاف انسانیت اور وحشیانہ ہے مگر اس معاملہ میں جو دھوکہ بازی دی اور بدعہدی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس حکومت نے ضمیر کی کامل آزادی کا اعلان کیا تھا۔‘‘
3: اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور (15؍ستمبر 1924ء) نے لکھا۔
’’افغان عدالتوں کا … سارا فیصلہ ایک ایسے جاہلانہ مذہبی تعصب سے لبریز نظر آتا ہے کہ جس کے امکان کا تصور بھی بیسویں صدی میں مشکل سے ہو سکتا ہے یہ بات بے شک باور کی جا سکتی ہے کہ اس مقدمہ کی تہہ میں ایک پولیٹکل تحریک تھی یعنی درحقیقت اس کا موجب وہ عنصر ہوا جس کو خوش کرنے اور جس کی مخالفت کو موافقت سے بدلنے کا امیر کو خاص فکر ہے کیونکہ اس کی اصلاحات پر ان بے حد متعصب لوگوں کی طرف سے خلاف شرع اسلام ہونے کا الزام لگایا گیا ہے ہم کہتے ہیں کہ اگر امیر کا منشا اپنی سلطنت کے ان بڑھتے ہوئے متعصب لوگوں کو خوش کرنا ہی تھا تو یہ بات اس نے اس نیک نامی پر قربان کرکے حاصل کی ہے جو اس کی گورنمنٹ کو ترقی یافتہ ہونے اور مذہبی رواداری کے لئے حاصل ہو سکتی تھی‘‘
4:۔ اخبار ’’مسلم‘‘ لاہور نے 17؍ستمبر 1924ء کو لکھا:
’’حکومت افغانستان کا یہ فعل کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو محض مرزا صاحب کا پیرو ہونے کی وجہ سے مرتد قرار دیا اور پھر اس خام خیالی پر سنگسار کر دیا مسلمان کہلانے والوں کے لئے باعث شرم ہے۔‘‘
5:۔ ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور (18؍ستمبر 1924ء) نے لکھا:
’’گو ابھی تک اس واقعہ کی مزید تفصیل دستیاب نہیں ہوئی۔ لیکن اب پاؤنیر سے معلوم ہوا کہ حکومت نے متعصب عقیدہ کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اس سزا کی اجازت دے دی ہو گی۔ چونکہ افغانستان میں اسلام سلطنت کا مذہب ہے اور اسی کے استحکام پر سلطنت کے استحکام کا مدار ہے۔ اس لئے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے لیکن احمدی صاحبان کا یہ اعتراض بھی بجا ہے کہ امیر صاحب نے سال گزشتہ میں مذہبی حریت کا اعلان کر دیا تھا …حضرت خلیفۃ المسلمین معزول سلطان عبدالمجید خاں نے بھی سوئٹزرلینڈ سے کابل کے اس مذہبی قتل پر سخت صدائے احتجاج بلند کی ہے اور وول یورپ کو اس پر توجہ دلائی ہے۔ معلوم نہیں وول یورپ افغانستان کے اس مذہبی معاملہ میں کیا مداخلت کر سکتی ہے بہرحال واقعہ افسوسناک ہے۔‘‘
۶۔ ’’آریہ پتر‘‘ (24؍ستمبر 1924ء) نے لکھا:
’’غیر مسلم مذہب کے لوگ اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا انحصار زیادہ تر جبر و تشدد اور تلوار پر ہے۔ لیکن مسلم اصحاب اس کی تردید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام کی عالمگیر اخوت اور اس کے عقائد کی خوبیاں ہی اس کی اشاعت کا خاص سبب ہیں۔ جو ہو ابھی حال میں کابل کی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ ہزمیجسٹی امیر کابل نے ایک احمدی بھائی نعمت اللہ خاں کو اس لئے نہایت بے رحمانہ اور وحشیانہ طریق پر ہلاک کر دیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود مانتا تھا… اس ایک واقعہ سے مذہبی معاملات میں اسلامی اسپرٹ کا اچھی طرح اندازہ ہو سکتا ہے۔‘‘
7:۔ الہ آباد کے انگریزی اخبار ’’لیڈر‘‘ نے 25؍ستمبر 1924ء کو لکھا:
’’نعمت اللہ خان کی ہلاکت کے لئے جو خلاف انسانیت اور انتہائی درجہ کا سفاکانہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ یقیناً ساری دنیا کی مہذب اقوام کے دل کو ہلا دے گا۔ ایک احمدی نامہ نگار کا بیان ہے کہ اس غریب کو کابل کی تمام گلیوں میں پھرایا گیا۔ اور پولیس اس کے ساتھ ساتھ اعلان کرتی گئی کہ اسے کفر کے جرم میں سنگسار کیا جائے گا۔ لوگ اکٹھے ہو کر اس کی خوفناک ہلاکت کا مشاہدہ کریں۔ پھر اسے کابل چھاؤنی میں ایک کھلی جگہ لے جا کر کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا۔ تب کابل کے مفتی نے اس پر پہلا پتھر پھینکا۔ اس کے بعد چاروں طرف سے اس بےچارے پر پتھروں کی بارش ہونے لگی جو اس وقت تک برابر جاری رہی جب تک وہ پتھروں کے ایک بڑے ڈھیر کے نیچے دب نہ گیا۔ قتل کا یہ وحشیانہ طریقہ کابل کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم سے عمل میں لایا گیا جس نے حکم دیا تھا کہ عوام الناس کی موجودگی میں اسے سنگساری سے ہلاک کیا جائے۔‘‘
8:۔ کلکتہ کے انگریزی اخبار ’’مسلمان‘‘نے 26؍ستمبر 1924ء کی اشاعت میں لکھا:
’’گورنمنٹ کابل نے مولوی نعمت اللہ خاں کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے فتویٰ موت صادر کرنے میں جس بےجا تعصب کا اظہار کیا ہے اور جس وحشیانہ طریق سے ان کا قتل عمل میں لایا گیا ہے ہماری حقیر رائے میں اسلام اور انسانیت کے لئے باعث ننگ وعار ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور فرقہ حنفیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی والیٔ افغانستان کا مذہب ہے۔ ہم احمدی فرقہ کے بعض عقائد سے متفق نہیں اور گو ہم مذہبی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتے لیکن یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ ہماری شریعت میں ایسی نارواداری ہے کہ محض اختلاف عقائد کی وجہ سے حکومت ہونے کی صورت میں قتل کو روا رکھتی ہو۔ عیسائی اور یہودی تو رسولﷺ کی نبوت کے ہی قائل نہیں کیا انہیں بھی سنگسار کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں عدالت ہائے افغانستان نے ان عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف جو مملکت افغانستان میں بستے ہیں فتویٰ موت صادر نہیں کیا …..۔ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ نعمت اللہ خاں پر فتویٰ اور اس پر طریق عمل نے ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے ….۔ یہ اسلام کے خوبصورت چہرہ پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ مہذب دنیا میں یہ فعل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناپسندیدہ خیالات پیدا کرے گا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ اس غلطی کا اعادہ نہ ہو گا اور آئندہ افغانستان اس امر کو گوارا نہ کرے گا کہ اسے تعصب اور نارواداری کا مجسمہ سمجھا جائے۔‘‘
9:۔ اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر نے اپنی 27؍ستمبر 1924ء کی اشاعت میں لکھا:
’’یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ افغانستان کے اس فیصلے سے پہلے ہمارے مسلم معاصرین فرقہ احمدیہ کو ایک اسلامی فرقہ تسلیم کرتے تھے اور فتنہ ارتداد کے متعلق اس کے افراد کی مساعی حسنہ کو اپنے کالموں میں انتہائی استحسان کے ساتھ درج کیا کرتے تھے۔ ممالک غیر میں اشاعت اسلام کے متعلق ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان اختلافات کو فرعی قرار دیتے تھے جو احمدی و غیر احمدی مسلمانوں کے عقائد میں موجود ہیں۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کونسا نیا تغیر فرقہ احمدیہ کے عقائد میں رونما ہو گیا ہے کہ وہ ایک احمدی کو مرتد قرار دینے لگے ہیں …۔ اگر حکومت افغانستان نے کسی سیاسی امر کی بناء پر ایک احمدی کا قتل مناسب خیال کیا تھا تو اسلام کے دامن کو اس سیاہ دھبے سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وہ اپنے فیصلہ میں صاف لکھ سکتی تھی کہ اس شخص کو کسی سیاسی امر کی بناء پر قتل یا سنگسار کیا جاتا ہے۔ اس نے محض ارتداد کو موجب رجم قرار دینے میں غلطی کی اور شریعت سے منسوب کرکے اس غلطی کو اور بھی غلیظ بنا دیا۔ ہمارے بعض علماء و معاصرین نے اس غلطی کی تائید کرنے میں اسلام کی نہیں بلکہ اپنے معاندانہ جذبات کی ترجمانی کی ہے۔‘‘
10:۔ لکھنؤ کے مشہور روزانہ اخبار ’’اودھ‘‘ (5؍ اکتوبر 1924ء) نے لکھا:
’’یہ معاملہ محض ایک قادیانی کی سنگساری کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کابل کی سلطنت میں کوئی شخص ایسے اعتقادات و خیالات رکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا جو وہاں کے بااقتدار علماء و حکام کے خلاف ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام متمدن دنیا اب اس تاریک حد سے بہت دور چلی گئی ہے۔ جبکہ آزادی رائے و خیال پر بھی پابندیاں عائد تھیں۔ اب کسی متمدن ملک میں دلوں پر حکومت کرنے کی کوشش ویسی نہیں ہو رہی ہے جیسی کہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ہوتی ہو گی۔ اس وجہ سے اس متمدن دنیا میں اور اس آزادی کے دور میں کابل کا واقعہ تمام دنیا کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۔‘‘
11:۔ اخبار ’’تہذیب نسواں‘‘ (لاہور) نے 14؍ اکتوبر 1924ء میں لکھا:
’’اعلیٰ حضرت امیر کابل نے تخت نشینی کے موقع پر اپنی سلطنت میں ہر قوم کو پوری مذہبی آزادی دینے کا بڑے زور سے اعلان فرمایا تھا۔ ایسے اعلان کے بعد اس قسم کے دردناک واقعہ کا ظہور میں آنا بے انتہا افسوس کی بات ہے۔ احمدی فرقے کے مسلمان بالعموم دیندار امن پسند مرنجان مرنج لوگ ہیں۔ عقائد میں ان کا ہم سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ مگر اسلام کی خدمت جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خدمت ہم مسلمانوں کے کسی اور فرقہ سے نہیں ہو سکتی۔ ملکانہ راجپوتوں میں فرائض تبلیغ جس خوبی سے ان خادمان دین نے ادا کئے ہیں وہ اب تک کسی دوسرے فرقے سے ادا نہیں ہو سکے۔ پھر ان خدمات کے علاوہ انگلستان اور امریکہ میں احمدی فرقے کے مبلغین خدمات اشاعت اسلام کے باب میں بالکل منفرد ہیں۔ یہ خدمات مسلمانوں کے اور کسی فرقے سے نہیں ہو سکیں اور اب کوئی کرے گا تو انہیں کی تقلید کرنے والا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ثواب ان نیک بندوں کی مساعی جمیلہ کے لئے لکھا گیا ہوگا وہ اب دوسروں کو ملنا مشکل ہو گا۔
حریفاں بادہ با خوردند و رفتند
تہی خمخانہ ہا کردند و رفتند
ایسے مفید و نیک دل گروہ کے مبلغ کو یوں بے دردی سے پتھراؤ کرکے ہلاک کر دیا جائے کتنے شدید اور خوفناک ظلم کی بات ہے۔ اس واقعہ جانکاہ کا ذرا تصور دل میں لاؤ کہ جس وقت ایسے بے گناہ مظلوم کو میدان میں کھڑا کرکے اس پر پتھر مارنے شروع کئے ہوں گے اور وہ اس کے منہ، سر اور آنکھوں پر لگے ہوں گے اور سر کی ہڈیاں ٹوٹ کر ہر طرف خون کی دھاریں چل رہی ہوں گی۔ اس وقت اس عاجز، بے بس و بےکس کا کیا حال ہوا ہو گا۔ لکھا ہے کہ اس شدید عذاب سے ان کی روح جسم سے مفارقت کر گئی اور ان کے دلفگار رفیقوں نے پتھروں میں ان کی نعش نکالنی چاہی تو اشقیاء نے انہیں اس کی بھی اجازت نہ دی۔‘‘
’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے صدر آنریبل سید رضا علی صاحب نے مولوی نعمت اللہ خان کی سنگساری کے دلخراش واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’اگر کسی سیاسی جرم میں انہیں سزا دی گئی ہوتی تو ہمیں کوئی سروکار نہ ہوتا۔ لیکن اخباروں میں جو فیصلے شائع ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں بعّلتِ ارتداد سنگسار کیا گیا اور یہی باعث ہے جو مسلمان بے تعلق نہیں رہ سکتے۔ مذہبی اختلافات پر بحث کرنے کی مجھ میں اہلیت نہیں۔ یہ کہہ سکتا ہوں کہ کسی اسلامی حکومت کو یہ حق نہیں کہ محض کسی روحانی عقیدہ کے لئے وہ اپنی کسی رعایا کو قتل کرے۔ اگر یہ خیال پھیلا کہ اسلامی حکومتیں رواداری نہیں برت سکیں تو اسلام کی اخلاقی قوت بہت کمزور ہو جائے گی۔‘‘
13۔ اخبار ’’ذوالفقار‘‘ نے8؍اکتوبر 1924ء کے پرچہ میں دوبارہ لکھا۔
’’ہمیں احمدی صاحبان سے مذہباً کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ مگر انسانی ہمدردی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم امیر افغانستان کے اس ظالمانہ اور بے رحمانہ فعل پر اظہار رنج و نفرین کریں اور اس کو متعصب اور مذہبی دیوانہ اور ناقابل حکومت اور سلطنت کہیں۔ کسی والیٔ ملک کا یہ فرض منصبی نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب سے اختلاف رائے رکھنے والے کمزور کسی فرقہ یا شخص کو موت کے گھاٹ اتارتا جائے اور زبردست قوم کے دباؤ سے دبتا رہے۔‘‘
جمعیۃ العلماء ہند کی طرف سے امان اللہ خاں کو مبارکباد
متمدن اور مہذب دنیا کے اس احتجاج عام کے مقابل ہندوستان کے متعصب اور سنگدل علماء نے اس خبر پر خوشی کے شادیانے بجائے چنانچہ ’’جمعیۃ العلماء ہند‘‘ کی طرف سے مولوی حبیب اللہ صاحب ناظم دارالعلوم دیو بند نے امیر امان اللہ خاں کو مبارکباد کا تار دیا اور لکھا کہ۔
’’مرکزی جماعت دارالعلوم دیو بند دلی مسرت و اطمینان کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ اعلیٰ حضرت امیر غازی نے ایک مرتد پر حسب قواعد شرعیہ حد و تعزیر جاری کرکے امیر شہید رحمۃ اللہ علیہ کے اسوۂ حسنہ پر عمل اور خلفاء راشدین کے مبارک عہد اور ملوک عادلہ اسلام کے طریق کو زندہ کیا ہے۔ یہ ایک فیصلہ ہے جس نے ہندوستان کی فضا میں ایسے وقت جبکہ قادیانی رہزن نام نہاد مذہبی آزادی کی آڑ لے کر غارتگری میں مصروف تھے۔ سکون و اطمینان پیدا کر دیا ہے اور نہایت قبولیت کی نگاہ سے دیکھا ہے …۔ اعلیٰ حضرت امیر غازی اپنے اس غیر متزلزل اتباع شریعت پر صد ہزار مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اور یہی وہ امر ہے جو ہم کو دولت خداداد کی ترقی و استحکام اور ملت افغانیہ کے عروج کی غیبی بشارت سناتا ہے‘‘
’’حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایّدہ اللہ کا تار برقی پیغام
مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے متعلق
شہید کی شہادت کا سچا جواب اس کام کو جاری رکھنا ہے جس کے لئے وہ شہید ہؤا‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے سانحہ شہادت پر جماعت احمدیہ کے نام پیغام دیا ۔ اس پیغام کو رپورٹ کرتے ہوئے الفضل لکھتا ہے:
’’لنڈن سے ۴؍ستمبر کو ۷بجکر ۵ منٹ کا چلا ہؤا تار بنام مولانا شیر علی صاحب ۷ستمبر ۱۰ بجے صبح بٹالہ پہنچا۔ اور مغرب کے وقت قادیان ایک آدمی لایا۔
حضور اس تار میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’ظالم امیر کے مولوی نعمت اللہ خان کو بےرحمانہ قتل کرنے کی افسوسناک خبر پہنچی۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کو اپنا قرب عطاء فرمائے۔ اور ہمیں اس بڑی مصیبت پر صبر کرنے کی توفیق بخشے امیر نےہمارے بہادر بھائی کو قتل کیا ہے۔ لیکن وہ اس کی روح کو قتل نہیں کر سکتا۔ وہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ کیونکہ کوئی شخص ایک سچے مسلمان کو قتل نہیں کر سکتا۔
برادران! غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے فرض کو نہیں بھلانا چاہئے۔ جو ہمارے اس مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے۔ جس نے اپنی جان خدا کے لئے قربانی کر دی ہے اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے آؤ ہم اس لمحہ سے یہ مصمم ارادہ کر لیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہیدوں کی زمین کو فتح نہیں کر لیں گے (یعنی وہاں احمدیت نہیں پھیلا لیں گے)۔
صاحبزادہ عبداللطیف صاحب۔ نعمت اللہ خان صاحب اور عبدالرحمٰن صاحب کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یاد دلارہی ہیں اور میں یقین کرتا ہوں کہ احمدیہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی۔
امیر کے اس قابلِ نفرت فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے متعلق جو کچھ تم ضروری خیال کرتےہو ، کرو۔ لیکن ایک ہی سچا جواب جو احمدی دے سکتے ہیں یہ ہے کہ وہ اس کام کو جاری رکھیں جس کے لئے نعمت اللہ خان شہید کیا گیا ہے۔
براہِ مہربانی مقبرہ بہشتی کے خاص احاطہ میں صاحبزادہ عبد اللطیف اور نعمت اللہ خان کے لئے کتبے لگا دیں اور تمام احمدیوں سے درخواست کریں کہ وہ شہید مرحوم کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعا کریں۔ ‘‘
محمود احمدؐ‘‘
(روزنامہ الفضل قادیان۔ 11؍ستمبر 1924ءصفحہ 2)
اس پیغام پر جماعت کے بہت سے مخلصین نے حضور کی خدمت میں اپنے نام پیش کئے کہ وہ کابل میں جا کر تبلیغ کرنے اور مولوی نعمت اللہ خاں کی طرح جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔
٭…چنانچہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لکھا۔
سیدنا و امامنا۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
میری زندگی اب تک ایسی ہی گزری ہے کہ سوائے اندوہ و ندامت کے اور کچھ حاصل نہیں۔ میں اکثر غور کرتا ہوں کہ یہ بھی کیسی زندگی ہے کہ سوائے روزی کمانے کے کسی اور کام کی فرصت نہ ملے اور دنیا کے دھندوں میں پھنسا انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا رہے۔ آج جو ایک خوش قسمت کے محبوب حقیقی کے ساتھ وصال کی خبر آئی تو جہاں دل میں ایک شدید درد پیدا ہوا وہاں یہ بھی تحریک ہوئی کہ تمہارے لئے یہ موقع ہے کہ اپنی ناکارہ زندگی کو کسی کام میں لاؤ اور اپنے تئیں افغانستان کی سرزمین میں حق کی خدمت کے لئے پیش کرو۔ پھر میں اچانک رکا کہ کیا یہ محض میرے نفس کی خواہش نمائش تو نہیں کہ اس یقین پر کہ مجھے نہیں بھیجا جائے گا اپنے تئیں پیش کرتا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ کیا جو اس رستہ میں پیش آئیں گی اور اپنے تئیں سمجھایا کہ فوری شہادت ایک ایسی سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیا تم محض اس لئے اپنے تئیں پیش کرتے ہو کہ شہادت کا درجہ حاصل کرو اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کرو یا تمہارے اندر یہ ہمت ہے کہ ایک لمبا عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ نہ موڑو۔ حضور انور میں کمزور ہوں، سست ہوں، آرام طلب ہوں لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں، فوری شہادت کے لئے نہیں، دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لئے توبہ کا موقعہ میسر کرنے کے لئے، اپنی عاقبت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اگر مجھ جیسے نابکار گنہگار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور مجھے یہ توفیق عطا فرمائے کہ میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام اس کی رضا کے حصول میں صرف کر دوں تو اس سے بڑھ کر میں کسی نعمت اور کسی خوشی کا طلب گار نہیں۔
حضور میں مضمون نویس نہیں اور حضور کی بارگاہ میں تو نہ زبان یاری دیتی ہے نہ قلم جیسے کسی نے کہا ہے۔
بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو پھر
ورنہ پیش یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں
اس لئے اس پر بس کرتا ہوں کہ میں جس وقت حضور حکم فرماویں افغانستان کے لئے روانہ ہونے کو تیار ہوں اور فقط حضور کی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلبگار ہوں۔
والسلام
حضور کا ادنیٰ ترین خادم
خاکسار ظفر اللہ
٭…سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا:
’’میرا نام بھی ان مجاہدین کی فہرست میں داخل فرمائیں۔ جو جام شہادت کے پینے کے لئے تیار ہو رہے ہیں۔‘‘
٭…مولوی عبدالمغنی خان صاحب نے درخواست دی کہ
’’حضرت نعمت اللہ خاں شہید کے واقعہ پر اگر حضور پسند فرمائیں تو میں اس امر کے لئے تیار ہوں کہ کابل جا کر شہید موصوف کے قدم بقدم چل کر سنگسار کیا جاؤں۔‘‘
٭…مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل نے درخواست پیش کی کہ
’’حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھ گناہگار کو اس خدمت کے لئے قبول فرمایا جاوے اور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ کامل ایمان،استقامت اور ثبات عطا فرمائے۔‘‘
٭…منشی عبدالخالق صاحب کپورتھلوی نے لکھا:
’’خادم کو مکرم برادرم مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے شہادت پانے سے جدائی کا سخت صدمہ پہنچا ہے ….۔ اب وہ جگہ شہید کی کابل میں خالی ہے۔ لہذا امیدوار ہوں کہ اس جگہ پر کمترین کی پرورش فرمائی جائے اور کابل بھیج دیا جائے۔ شاید اسی راستہ سے اس نابکار کو وصال الٰہی ہو۔ خادم حضور انور نے فارسی کی مشق شروع کر دی اور قرآن مجید کا ترجمہ فارسی میں دیکھنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
ان کے علاوہ کئی اور مخلصین نے اپنے تئیں اس خدمت کے لئے پیش کیا۔ مثلاً مولانا غلام رسول صاحب راجیکی۔ ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب (سابق مہر سنگھ)۔ ملک صلاح الدین صاحب۔ نذیر احمد علی صاحب۔ چوہدری بدر الدین صاحب مبلغ ملکانہ۔ غلام رسول صاحب افغان۔ احمد نور صاحب کابلی۔ میاں عطاء اللہ صاحب (بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ)۔ مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی۔ سید لال شاہ صاحب (اول مدرس لوئر مڈل سکول شرقپور ضلع شیخوپورہ)۔ ماسٹر نذیر احمد صاحب چغتائی۔ مولوی محمد شاہزادہ خاں صاحب۔ شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس کراچی۔ حافظ محمد ابراہیم صاحب قادیان۔ مولوی محمد حسین صاحب مبلغ ملکانہ۔
(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ476-487)
٭…٭…٭