حاصل مطالعہ
شرک اور اس کی اقسام
شرائط بیعت میں سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ
’’بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کاکرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہوجائے شرک سے مجتنب رہے گا۔ ‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ189)
شرک کی دس اقسام بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :
’’…شرک کا مسٔلہ ایسا سیدھا سادہ نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ نہایت باریک مسٔلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر قومیں جو بظاہر شرک کی مخالف ہیں عملاً شرک میں مبتلا پائی جاتی ہیں اور اس کا سبب یہی ہے کہ وہ شرک کی حقیقت سمجھنے سے قاصر رہی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ شرک کی کوئی ایک تعریف نہیں ہے بلکہ مختلف نقطہ ہائے نگاہ سے اس مرض کی حقیقت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جب تک اُسے ایک تعریف کے اندر لانے کی کوشش کی جائے اُس وقت تک یہ مسٔلہ ایک عقدۂ لاینحل ہی رہتا ہے۔ میرے نزدیک شرک مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے :
اوّل : یہ خیال کرنا کہ ایک سے زیادہ ہستیاں ہیں جو یکساں طاقتیں رکھتی ہیں اور سب کی سب دنیا کی حاکم اور سردار ہیں۔ یہ شرک فی الذات ہے۔
دوسرے :یہ خیال کرنا کہ دنیا کی مدبّر ہستیاں ایک سے زیادہ ہیں جن میں کمالات تقسیم ہیں کسی میں کوئی کمال ہے اور کسی میں کوئی۔ یہ شرک بھی شرک فی الذات میں ہی داخل ہے۔
تیسرے :وہ اعمال جو مختلف قوموں میں عاجزی اور انکساری کیلئے اختیار کئے گئے ہیں۔ اُن میں سے جو درجہ کے انتہائی عاجزی کے اعمال ہیں اُن کو خدا کے سوا کسی اور کیلئے اختیار کرنا مثلاً سجدہ انتہائی ادب اور تذلّل کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ پس یہ عمل صرف خدا کیلئے جائز ہے کسی اور کیلئے نہیں لیکن سجدہ کے علاوہ بھی مختلف اقوام میں مختلف حرکاتِ بدن انتہائی تذلّل کیلئے قرار دے دی گئی ہیں۔ جیسے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، یا رکوع وغیرہ کرنا۔ ان سب امور کو خدا تعالیٰ نے عبادتِ الٰہی کا حصّہ بنا دیا ہے۔ پس اب یہ عمل کسی اور کیلئے جائز نہیں۔
چہارم :شرک کی چوتھی قسم یہ ہے کہ انسان اسباب ظاہری کے متعلق یہ سمجھے کہ ان سے میری سب ضروریات پوری ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کے تصرّف کا خیال دل سے ہٹا دے اور یہ خیال کرے کہ صرف مادی اسباب ہی ضرورت کو پورا کرنے والے ہیں۔ یہ بھی شرک ہے۔ ہاں اگر یہ خیال کرے کہ ان سامانوں میں خداتعالیٰ نے فلاں طاقت رکھی ہے اور اُس کے ارادہ کے ماتحت ان کے نتائج پیدا ہوں گے تو یہ شرک نہیں ہو گا۔
پنجم:شرک کی پانچویں قسم یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی وہ مخصوص صفات جو اُس نے بندوں کو نہیں دیں جیسے مردہ کو زندہ کرنا یا کوئی چیز پیدا کرنا یا خداتعالیٰ کا ازلی اور غیر فانی ہونا ایسے امور میں خداتعالیٰ کی خصوصیّت کو مٹا دیا جائے۔ اور ان صفات میں کسی غیر کو شریک کر لیا جائے خواہ اس عقیدہ کی بنا پر ہی شریک کیا جائے کہ خدا نے اپنی مرضی اور اپنے اذن کے ساتھ یہ صفات یا ان کا کچھ حصّہ کسی خاص شخص کو دیدیا ہے۔ یہ بھی شرک ہی ہو گا۔
ششم : شرک کی چھٹی قسم یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے اور یہ سمجھے کہ کسی شخص یا کسی چیز نےبلا ان اسباب کے استعمال کرنے کے جو خداتعالیٰ نے کسی خاص کام کیلئے مقرر کئے ہیں اپنی خاص طاقت کے ذریعہ سے اس کام کو پورا کر دیا ہے۔ مثلاً خداتعالیٰ نے آگ کو جلانے کیلئے پیدا کیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص یہ خیال کرے کہ کسی شخص نے اپنی ذاتی طاقت سے بلا دوسرے ذرائع استعمال کرنے کے جو قانونِ قدرت میں رکھے گئے ہیں آگ لگا دی تو یہ شرک ہو گا لیکن اس میں مسمریزم وغیرہ شامل نہیں کیونکہ یہ طاقتیں خود قانون قدرت کے اندر شامل ہیں کسی شخص کے ذاتی کمالات نہیں۔
ہفتم : شرک کی ساتویں قسم یہ ہے کہ یہ خیال کیا جائے کہ خدا کو کسی بندہ سے ایسی محبّت ہے کہ وہ اس کی ہر ایک بات مان لیتا ہے کیونکہ اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ وہ بندہ خدائی طاقتیں رکھتا ہے۔
ہشتم : شرک کی آٹھویں قسم یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے خداتعالیٰ کے قانونِ قدرت نے کسی کام کے کرنے کی کوئی طاقت نہیں دی۔ اس کے متعلق یہ خیال کر لیا جائے کہ وہ فلاں کام کر لے گی۔ مثلاً خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے آپ کو اَلسَّمِیْع قرار دیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ کامل طور پر لوگوں کی دعائوں کو سنتا اور اُن کی حاجات کو پورا فرماتا ہے۔ یعنی فاصلہ اور وقت کا اُس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اب اگر کوئی شخص خداتعالیٰ سے دُعا کرنے کی بجائے مُردوں کی قبروں پر جاتا اور اُن سے اپنی مرادیں مانگتا ہے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ اس نے خداتعالیٰ کے اَلسَّمِیْعُ ہونے میں مُردوں کوبھی شریک کر لیا۔ حالانکہ قرآن کریم اس کی صراحتاً تردید کر تا ہے اور فرماتا ہے کہ
وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخۡلُقُوۡنَ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ۔ اَمۡوَاتٌ غَیۡرُ اَحۡیَآءٍ ۚ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ ۙاَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ ( النحل ع ۲)
یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا جن معبود انِ باطلہ کو لوگ اپنی مدد کیلئے پکارتے ہیں وہ کچھ بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ وہ خود پیدا کئے جاتے ہیں اور وہ سب کے سب مردہ ہیں نہ کہ زندہ۔ اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے اس خیال کی تردید فرمائی ہے کہ ہمارے معبود بھی دلوں کے بھید جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ جو خالق ہو وہی اپنی مخلوق کی اندرونی طاقتوں اور اُس کی ضروریات سے آگاہ ہو سکتا ہے مگر جن کو تم پکارتے ہو وہ تو خود سب کے سب مخلوق ہیں انہوں نے تمہارے حالات کو کیا جاننا ہے۔ اور پھر وہ مُردہ ہیں زندہ نہیں۔ انہوں نے تمہاری مدد کیا کرنی ہے۔ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کب اُٹھائے جائیں گے گویا اُن کا انجام بھی دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی شخص کسی قبر پر جاتا اور مردہ کوکسی تصرّف کیلئے کہتا ہے تو وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔ اسی طرح بتوں ، دریائوں ، سمندروں اور سورج اور چاند وغیرہ سے مُراد یں مانگنا اور دُعائیں کرنا بھی شرک میں ہی شامل ہے۔
نہم : شرک کی نویں قسم یہ ہے کہ ایسے اعمال جو مشرکانہ رسوم کا نشان ہیں گو اَب شرک کی مشابہت نہیں رکھتے ان کا بلاضرورتِ طبعی ارتکاب کیا جائے مثلاً کوئی شخص کسی قبر پر دیا جلا کر رکھ آئے تو خواہ وہ صاحب قبر سے دُعا کرے یا نہ کرے یا صاحبِ قبر کو خدا سمجھے یا نہ سمجھے یہ فعل بھی شرک کے اندر آجائیگا کیونکہ یہ عمل پہلے زمانہ کے مشرکانہ اعمال کا بقیہ ہے۔ وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ مُردے قبروں پر واپس آتے ہیں اور جن لوگوں کی نسبت معلوم کرتے ہیں کہ انہوں نے اُن کی قبروں کا احترام کیا ہے اُن کی مدد کرتے اور ان کے کاموں کو تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔ اسی لئے لوگ قبروں پر دیے یا پھول وغیرہ رکھ آتے تھے۔ ان یاد گار وں کو تازہ رکھنا بھی چونکہ شرک کی مدد کرنا ہے۔ ا س لئے یہ بھی شرک میں ہی داخل ہے اسی طرح درختوں پر رسیّاں وغیرہ باندھنی یا قبروں پر چڑھاوے چڑھانے اور ٹونے کرنے سب اسی قسم میں شامل ہیں۔ میں نے جو یہ کہا ہے کہ بلا ضرورت طبعی ایسے کام کرنے منع ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کہیں جا رہا ہو اور راستہ میں رات آجائے اور مجبوراً کسی مقبرہ میں ٹھہرنا پڑے تو یہ ضروری نہیں کہ وہاں انسان اندھیرے میں ہی بیٹھا رہے بلکہ اگر دیا جلا کر روشنی کا انتظام کرلے تو یہ جائز ہوگا۔
دہم : شرک کی دسویں قسم یہ ہے کہ خواہ عمل نہ ہو۔ مگر دل میں محبت، ادب، خوف اور اُمید کے جذبات اور لوگوں کے متعلق خداتعالیٰ سے زیادہ یا اُس کے برابر رکھے جائیں۔
کامل مؤحد وہی ہے جو شرک کی ان تمام اقسام سے بچے اور اللہ تعالیٰ کی احدیت پر سچّے دل سے ایمان لائے۔ حق یہ ہے کہ شرک انسان کا نقطۂ نگاہ بہت ہی محدود کر دیتا ہے اور اس کی ہمت کو گِرا دیتا ہے۔ اور اس کے مقصد کو ادنیٰ کر دیتا ہے۔ مشرک انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ براہ راست خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور اُسے کسی واسطہ کی ضرورت ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اور انسانوں کے درمیان کوئی واسطہ نہیں رکھا اور سب انسانوں کے لئے اُس نے اپنے قرب کے دروازے کھلے رکھے ہیں جو چاہے اُن میں داخل ہو جائے۔ بے شک ایک دنیوی بادشاہ کیلئے سب رعایا سے تعلق رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی طاقتیں محدود نہیں ہیں۔ اُ س کی طاقت اور قدرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ سب سے براہِ راست تعلق رکھے اور انہیں اپنے قرب میں جگہ دے۔
(تفسیر کبیر جلد 6صفحہ 43تا46)
(مرسلہ:سید احسان احمد۔ لندن)
علماء دیوبندکے دلوں میں آر ایس ایس کے لیے نرم گوشے
بھارت کے اہل مدارس میں سب سے بڑانام علماء دارالعلوم دیوبند کاآتاہے۔ موجودہ نازک حالات میں ان کی پراسرار سرگرمیوں پہ دہائی دیتے ہوئے بھارت کے معروف صحافی اور دانشور مکرم آغا ظفر صاحب لکھتے ہیں :
’’لیجیے جو بچی کھچی کسر تھی وہ حضرت مولانا ارشد مدنی نے پوری کر دی! جی ہاں ، آپ خبر سے واقف ہی ہوں گے کہ مولانا ارشد مدنی آر ایس ایس کے دہلی ہیڈ کوارٹر کیشو کنج پر سنگھ سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کے لیے حاضری دے آئے ہیں۔ مولانا مدنی اور بھاگوت ایک پبلک پلیٹ فارم پر آنے کے بارے میں غور کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس خبر کے آتے ہی چہ مہ گوئیاں شروع ہو گئیں۔ مسلم حلقوں میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ آخر مولانا کو ایسی کیا ضرورت پڑ گئی کہ وہ بہ نفس نفیس خود چل کر سنگھ کے آستانے پر حاضری دیں ! اس کی ابھی تک نہ تو مولانا ارشد مدنی اور نہ ہی ان کی تنظیم جمعیۃ العلمائے ہند کی طرف سے کوئی خاطر خواہ وضاحت ہوئی ہے اور نہ ہی سنگھ نے کوئی بیان دیا ہے۔ بہر کیف طرح طرح کی اٹکلیں اور قیاس آرائیاں جاری ہیں جن کا کوئی واضح جواب نہیں ہے۔
لیکن جس طرح یہ معاملہ سامنے آیا ہے وہ بات اپنے میں پریشان کن ہے… میٹنگ کے بارے میں جمعیت کی طرف سے پہلے کوئی اعلان نہیں ہوا۔ غالباً جمعیت اور مولانا اس میٹنگ کو صیغۂ راز میں رکھنا چاہتے ہوں …۔
ظاہر ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ کوئی چھوٹاموٹا واقعہ نہیں ہے۔ کیونکہ جمعیت علماء ہند کوئی معمولی جماعت نہیں ہے۔ اس کا تعلق مدرسہ دارالعلوم دیوبند سے بھی ہے اور دارالعلوم دیوبند مغلوں کے زوال کے بعد سے مسلمانوں کے شرعی معاملات میں مرکزی حیثیت کا اس حد تک حامل ہے کہ اس سے عقیدت رکھنے والے عموماً دیوبندی مسلمان کہلاتے ہیں۔ جمعیت علماء ہند اس کی ایک نیم سیاسی و سماجی تنظیم ہے جو جنگ آزادی کے دور سے سرگرم ہے۔ یہ وہ تنظیم ہے کہ جس نے جنگ آزادی کے خلاف کھل کر قیام پاکستان اور محمد علی جناح کی مخالفت کی تھی۔ مدرسہ دارالعلوم اور جمعیت سے تعلق رکھنے والے علماء نے انگریزوں کی اس حد تک مخالفت کی کہ قیدو بند کی صعوبتیں اٹھائیں لیکن کبھی انگریزوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے…۔
سوال یہ ہے کہ آخر دارالعلوم دیوبند اور جمعیت پر ایسا کون سا وقت آن پڑا ہے کہ الیکشن کے بعد سے ان کے دلوں میں آر ایس ایس کے لئے یکایک نرم گوشہ پیدا ہو گیا ہے۔
مولانا ارشد مدنی کوئی پہلی شخصیت نہیں ہیں جن کا رابطہ حال میں سَنگھ یا مودی سے ہوا ہے۔ اس سے قبل جب نریندر مودی دوسری بار ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ان کی پہلی تقریر، جس میں انہوں نے مسلمانوں کے سلسلے میں بھی کچھ باتیں کہی تھیں ، اس کا استقبال مولانا ارشد مدنی کے بھتیجے اور جمعیت کے دوسرے سربراہ مولانا محمود مدنی نے مودی کو ایک خط لکھ کر کیا تھا۔ پھر اس کے بعد یہ خبر آئی تھی کہ سنگھ کے ایک سربراہ عید کے بعد یکایک دارالعلوم دیوبند پہنچ گئے تھے جہاں ان سے دارالعلوم کے علماء کی گفتگو ہوئی۔ یعنی یہ واضح ہے کہ نریندر مودی اور سنگھ و دارالعلوم اور جمعیت علمائے ہند کے درمیان کوئی کھچڑی پک رہی ہے…۔
اب ذرا غور فرمائیے وہ سَنگھ جو مسلمانوں کی شریعت سے متعلق پرسنل لا، ختم کرنے کو کوشاں ہے، جس سنگھ نے ایودھیا میں بابری مسجد کی مخالفت کی اور جس کی ایک تنظیم وشو ہندو پریشد نے ایودھیا سے بابری مسجد ہٹانے کی تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں بابری مسجد ڈھا دی گئی، اور ہزاروں مسلمان مارے گئے، وہ سنگھ جس کی ایما پر مسلمانوں سے تین طلاق کا شرعی حق ختم کر دیا گیا، وہ سنگھ جس نے گجرات فسادات کی مذمت میں آج تک ایک لفظ نہیں کہا، اور وہ سنگھ جو مسلمانوں کو اس ملک میں دوسرے درجے کا شہری گردانتی ہو، اسی سنگھ کو اب ہندو۔ مسلم امن و آشتی کی اتنی فکر ہو گئی ہے کہ وہ مولانا ارشد مدنی کے ساتھ مل کر ایک پلیٹ فارم سے کام کرنے کو کوشاں ہے۔ یہ بات مولانا ارشد مدنی کے گلے سے تو اتر سکتی ہے لیکن عام مسلمان کی سمجھ سے باہر ہے۔ ‘‘
(روزنامہ سیاست حیدرآباد بھارت۔ اشاعت 8 ستمبر 2019ء)
(مرسلہ:طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)