الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت شیخ عبدالرحیم صاحبؓ سیالکوٹی
ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ ربوہ اگست 2012ء میں حضرت شیخ عبدالرحیم صاحبؓ سیالکوٹی کا ذکرخیر مکرم عطاءالحئی منصور صاحب کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ قبل ازیں الفضل انٹرنیشنل 8؍دسمبر 1995ء ، 2؍جولائی 1999ء اور 10؍جون 2016ء کے شماروں کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں بھی آپؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہوچکا ہے۔
حضرت شیخ صاحبؓ 1873ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام جگت سنگھ تھا۔ بچپن میں ایک کتاب ’’رسومِ ہند‘‘ میں انبیاء سے متعلق ایک باب نے آپ کے دل میں اسلام کا بیج بودیا تھا۔ پھر آپؓ کو فوج میں ملازمت کے دوران جب حضرت مسیح موعودؑ کے الہام و کشوف اور پیشگوئیاں پوری ہونے کا علم ہوا تو آپ نے حضورؑ کی چند کتب پڑھیں اور آخر زیارت کے لیے قادیان آئے۔ یہاں درد دل سے دعا کی تو اس خیال نے زور پکڑا کہ حضرت مرزا صاحب سے کوئی تعلق پیدا کرلو۔ چنانچہ آپ نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ کے ذریعے حضورؑ سے پوچھا کہ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ حضرت صاحب سے بیعت کرلوں مگر بالفعل سکھ مذہب میں ہی رہوں۔ حضورؑ نے فرمایا کہ ہاں، ہم اُن کی بیعت لے لیں گے۔ آپؓ کی بیعت اسی طرح لے لی گئی جس طرح احمدی ہونے کے وقت لی جاتی ہے۔آپؓ نے 1894ء میں بیعت کی۔آپؓ کا اسلامی نام عبدالرحیم رکھا گیا۔ ایک سال بعد 1895ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر آپؓ قادیان آگئے۔ چار سال تک حضورعلیہ السلام کی صحبت میں رہے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے صرف و نحو اور طب کی تعلیم حاصل کی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی سے ترجمہ قرآن پڑھا۔ پھر مدرسہ تعلیم الاسلام کے ٹیوٹر اور بعد میں مدرس رہے اور حضورؑ کے تینوں بیٹوں کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ 29؍سال تک ہائی سکول میں پڑھایا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی موجودگی میں آپؓ کو نماز کی امامت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔سفرِ جہلم 1903ء ، سفر دہلی 1905ء میں حضورؑ کے ساتھ رہے۔ حدیث بخاری کا درس بھی دیتے رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ بھی سفروں میں رفاقت رہی۔ حضور علیہ السلام نے’’نورالقرآن نمبر2‘‘ میں فرمایا: ’’شیخ عبدالرحیم جوان صالح اور متقی شخص ہیں۔ ان کے ایمان اور اسلام پر ہمیں بھی رشک پیدا ہوتا ہے۔ ان کو اسلام لانے کے وقت کئی ایک سخت ابتلاء پیش آئے لیکن انہوں نے ایسے سخت ابتلاء کے وقت بڑی ثابت قدمی اور استقامت دکھائی، محض اِبْتِغَاءً لِمَرْضَاتِ اللّٰہ دفعہ داری چھوڑ کر قادیان میں امام کامل کے ہاتھ پر اسلام و بیعت سے مشرف ہوئے۔قرآن شریف سے کامل الفت ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے معہ ترجمہ اور تفسیر قرآن چند ماہ میں پڑھا ہے۔‘‘
تقسیمِ ہند تک آپؓ قادیان میں مقیم رہے۔ پھر پاکستان آگئے لیکن دیار حبیب کی تڑپ 1948ء میں ہی واپس قادیان لے گئی جہاں 1952ء تک قیام پذیر رہے۔ ناظر تعلیم و تربیت اور امیرمقامی قادیان بھی رہے۔
آپؓ کی وفات 9؍جولائی 1957ء میں ہوئی۔ مکرم میجر ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحب آپؓ کے اکلوتے فرزند تھے۔
………٭………٭………٭………
حضرت امام محی الدین ابوزکریاؒ
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 2012ء میں ساتویں صدی عیسوی کے بزرگ عالم حضرت یحییٰ بن شرف کے بارے میں مکرم آصف گلزیب صاحب کے قلم سے مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپ کا لقب محی الدین اور کنیت ابوزکریا تھی۔ دمشق کے مقام نَوِی میں محرم الحرام 631ہجری میں پیدا ہوئے۔ بچپن یہیں گزارا اور قرآن کریم حفظ کیا۔ کھیل کُود سے کتراتے تھے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنا پسند تھا۔ آپؒ کی قرآن کریم سے محبت دیکھ کر لوگ کہا کرتے کہ یہ بڑا ہوکر بہت بڑا عالم بنے گا۔ آپ کے والد لوگوں کی رائے کے مطابق آپ کو پروان چڑھانے کے لیے آپ کو دمشق لے گئے جو علوم و فنون کا گہوارہ تھا۔ وہاں مدرسہ واحیہ میں آپ کو داخل کرلیا گیا اور دو سال کے اندر آپ نے ’’کتاب التنبیہ‘‘ حفظ کرلی۔ مطالعہ کتب کا آپ کو جنون تھا اور نہایت ذہین تھے۔ روزانہ اپنے اساتذہ سے کئی کئی اسباق لیتے۔ اساتذہ میں ابوابراہیم اسحٰق بن احمدی مغربیؒ، ابی محمد عبدالرحمٰن اور ابو محمد عبدالعزیز شامل ہیں۔
آپ علم و فضل میں بلند مقام رکھتے تھے اور زاہدومتّقی اور صاحب فضل و کمال بزرگ تھے۔ آپؒ دمشق کے پھل نوش نہیں فرماتے تھے۔ دریافت کرنے پر فرمایا کہ یہاں کے اکثر باغات اوقاف ہیں اور بہت سوں کے مالک یتیم ہیں جو معاملات کو درست طریق پر انجام نہیں دے سکتے۔ ایسی حالت میں کیسے اُن کا استعمال کروں۔
آپؒ نے 650ہجری میں حج ادا کیا۔ 676ہجری میں آپؒ واپس اپنے آبائی وطن نَوِی لَوٹ آئے اور اسی سال 14رجب کو رحلت فرمائی۔ اگرچہ آپؒ نے صرف 46 سال عمر پائی لیکن اس مختصر عمر میں تصنیف و تالیف کا قابل قدر ذخیرہ لکھ کر غیرمعمولی خدمات سرانجام دیں۔ صحیح بخاری کی کتاب الایمان تک شرح لکھی ۔ صحیح مسلم کی شرح المنہاج، شرح مہذب، کتاب الاذکار، اربعین۔ مشہور تصنیف ’’ریاض الصالحین‘‘ بھی آپؒ ہی کا شاہکار ہے جس کے بارے میں آپؒ فرماتے ہیں کہ مَیں نے یہ کتاب عام مسلمانوں کی زندگی سنوارنے کے لیے لکھی ہے، میری خواہش ہے کہ عام مسلمان اس کو پڑھ کر اپنے شعبہ ہائے زندگی میں ایسی تبدیلیاں لے آئیں جو اُن کی حیاتِ آخرت کے لیے مفید اور نجات کا باعث ہوں۔
………٭………٭………٭………
سَبْعَۃ مُعَلَّقَات
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اگست 2012ء میں مکرم عطاءالرحیم صاحب کے قلم سے ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں سَبْعَۃ مُعَلَّقَات کا تاریخی پس منظر بیان کیا گیا ہے۔
عربی زبان کے وہ منظوم شاہکار جو سَبْعَۃ مُعَلَّقَات کہلاتے ہیں اپنی فنّی خوبیوں، لسانی رعنائیوں اور غیرمعمولی اثرات کے باعث عربی زبان اور ادب کی تاریخ میں اس قابل سمجھے گئے تھے کہ خانہ کعبہ کے اندر آویزاں کیے جائیں۔ یہ سات قصائد امرؤالقیس، زہیر بن ابی سلمیٰ، عمر بن کلثوم، طرفہ بن العبدالبکری، عنترۃ بن شداد، لبید بن ربیعہ العامری اور حارث بن حلزۃالیشکری ہیں۔ امرؤالقیس کا قصیدہ سب سے پہلے خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا۔
عربوں کو شاعری کا ذوق فطری تھا۔ وہ اپنے تاریخی حالات، اخلاق و عادت، فضائل و مفاخر ہر چیز کا اظہار اشعار کے ذریعے کرتے تھے۔ رؤسا اور قبائلی سردار بھی شاعری کے دلدادہ تھے۔شعراء کو قبائل کی عزت کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ مکّہ کے اطراف میں تین بڑے میلے لگتے تھے جو مَجنہ، ذوالمجاز اور عکاظ میں لگاکرتے تھے۔ عکاظ کا میلہ سب سے بڑا اور اہم تھا جس میں تمام قبائل کے شعراء شامل ہوتے اور کئی کئی دن یہ محفل چلتی رہتی۔جس شاعر کا کلام لوگوں کو سب سے زیادہ پسند آتا اُسے اُس سال کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا اور اُس کا قصیدہ سونے کے پانی سے ایک خاص قسم کے ریشمی کپڑے پر لکھواکر خانہ کعبہ میں لٹکایا جاتا۔اگرچہ ان قصائد کی تعداد میں اختلاف ہے۔ کسی نے دس لکھا ہے اور کسی نے نو۔ لیکن اکثر نے سات لکھا ہے۔ چنانچہ سَبْعَۃ مُعَلَّقَات سے مراد وہ سات کلام ہیں جو خانہ کعبہ میں مختلف اوقات میں لٹکائے گئے۔
………٭………٭………٭………
ہوائی جہاز
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ اکتوبر 2012ء میں ہوائی جہاز کے بارے میں مکرم عطاءالودود احمد صاحب کا معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔
ہوائی جہاز وہ مشین ہے جو ہوا سے بھاری ہونے کے باوجود ہوا میں اُٹھان اور پرواز کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کے لیے اس کے جسم یا پروں میں ہونے والی اضافی حرکت کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔یہ تعریف جہاز کو ہیلی کاپٹر سے ممتاز کرتی ہے جسے اٹھان کی قوّت پنکھا مہیا کرتا ہے۔جبکہ جہاز کو ہوا میں بلند ہونے اور اُڑتے وقت لگنے والی قوّت کا زیادہ تر حصہ پَر فراہم کرتے ہیں۔ زمین سے اُٹھنے اور ہوا میں پرواز کرنے کے لیے جہاز پر لگائی گئی قوّت تھرسٹ کہلاتی ہے۔ یہ قوّت مختلف جہازوں کو پروپیلر یا جیٹ انجن کے ذریعے مہیا کی جاتی ہے۔
گلائیڈر جہاز کی وہ قسم ہے جس میں پرواز کے لیے انجن استعمال نہیں ہوتا بلکہ ہوا کی قدرتی طاقت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ اب انجن والے گلائیڈروں کا رواج بڑھ رہا ہے۔
پنکھوں والے جہاز میں پروپیلر استعمال ہوتے ہیں جو تیل سے چلتے ہیں۔ یہ جہاز سستے پڑتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی آسان ہے لیکن یہ زیادہ بلند پرواز نہیں کرسکتے اور وزن بھی نسبتاً کم اٹھاتے ہیں۔نجی ملکیت میں عموماً یہی جہاز ہوتے ہیں۔
جیٹ جہازوں میں تھرسٹ پیدا کرنے کے لیے ٹربائن استعمال ہوتی ہے۔یہ دیگرجہازوں کے مقابلے میں اونچا اُڑتے ہیں اور وزن بھی زیادہ اٹھاتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور ایندھن کا خرچ کہیں زیادہ ہے۔ یہ اُترتے اور چڑھتے وقت بہت زیادہ شور کرتے ہیں اور آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔پہلا جیٹ جہاز جرمنی اور انگلینڈ نے 1931ء میں بنایا تھا۔ پہلا لڑاکا جیٹ جرمنی نے اپنی فوج میں 1943ء میں شامل کیا۔ ایئر بس A-380 اور بوئنگ707 بڑے جیٹ جہاز ہیں جو سینکڑوں مسافروں اور ٹنوں سامان کے ساتھ ہزاروں میل مسلسل پرواز کرسکتے ہیں۔
بعض فوجی اور کنکارڈ مسافر بردار جہاز آواز کی رفتار سے زیادہ تیز اُڑتے ہیں۔ ان کی ساخت اور ڈیزائن کے مسائل دیگر جہازوں سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ Sonic Boom کی وجہ سے یہ جہاز دیگر جہازوں کے مقابلے میں بہت زیادہ شور کرتے ہیں۔ اسی لیے آبادی والے علاقوں میں ان جہازوں کی رفتارمحدود رکھی جاتی ہے۔ کم طلبی کے باعث مسافر بردار کمپنیوں نے یہ جہاز اپنے بیڑے سے نکال دیےہیں۔ کنکارڈ نے بھی اپنی آخری پرواز 25؍نومبر 2003ء کو کی تھی۔
………٭………٭………٭………