احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا
حضرت اقدس علیہ السلام کا پاکیزہ بچپن
ہمجولیوں کےساتھ شکار(حصہ دوم)
اسی طرح ایک دوسری روایت میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں :
’’بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ تمہاری دادی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھیں۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم اپنی والدہ کیساتھ بچپن میں کئی دفعہ ایمہ گئے ہیں۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ وہاں حضرت صاحب بچپن میں چڑیاں پکڑا کرتے تھے اور چاقو نہیں ملتا تھا تو سر کنڈے سے ذبح کر لیتے تھے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ ایک دفعہ ایمہ سے چند بوڑھی عورتیں آئیں تو انہوں نے باتوں باتوں میں کہاکہ سندھی ہمارے گاؤں میں چڑیاں پکڑا کرتا تھا…(اس روایت میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام بچپن میں کبھی کبھی شکار کی ہوئی چڑیا کو سرکنڈے سے ذبح کر لیتے تھے اس کے متعلق یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس جگہ سرکنڈے سے پورا گول سرکنڈا مراد نہیں ہے بلکہ سرکنڈے کا کٹا ہوا ٹکڑا مراد ہے۔ جو بعض اوقات اتنا تیز ہوتا ہے کہ معمولی چاقو کی تیزی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ خود خاکسار راقم الحروف کو کئی دفعہ بچپن میں سرکنڈے سے اپنے ہاتھوں کو زخمی کرنے کا اتفاق ہوا ہے اور پھر ایک چڑیا جیسے جانور کا چمڑا تو اس قدر نرم ہوتا ہے کہ ذرا سے اشارے سے کٹ جاتا ہے۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 51)
آپؑ کے ننھیال ’’اَیمہ‘‘ ضلع ہوشیارپور میں تھے۔
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہم بچپن میں والدہ کے ساتھ ہوشیار پور جاتے تھے تو ہوشیار پور کے چوہوں میں پھرا کرتے تھے۔ خاکسارعرض کرتا ہے کہ ضلع ہوشیار پور میں کئی برساتی نالے ہیں جن میں بارش کے وقت پانی بہتا ہے اور ویسے وہ خشک رہتے ہیں۔ یہ نالے گہرے نہیں ہوتے قریباً اردگرد کے کھیتوں کے ساتھ ہموار ہی ہوتے ہیں۔ ہوشیار پور کا سارا ضلع ان برساتی نالوں سے چھدا پڑا ہے۔ ان نالوں کو پنجابی میں چوہ کہتے ہیں۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر252)
تیراکی اور گھڑسواری
یہ تو آپؑ کے بچپن کے چند ایک واقعات ہیں جو ہمیں معلوم ہوسکے۔ لیکن آپؑ کے بچپن اور لڑکپن کے صرف یہی معمولات ہی نہ تھے۔ اور نہ ہی اس زمانے میں صرف یہی کھیل ہواکرتے تھے۔ اس زمانے میں بھی عام زمانوں کی طرح مختلف قسم کی عیاشیاں اور لہوولعب کے سینکڑوں کھیل تماشے تھے۔ اور نوابوں اور رئیس زادوں کے لئے تو یہ نہ صرف کوئی مشکل کام نہ تھا بلکہ ان کی زندگیوں کا ایک حصہ بن چکاتھا۔ بٹیر بازی، مرغ بازی، کنکوے اور جؤا اور شراب تو ان کی گھٹی میں پڑاہواتھااوران کی ’تہذیب وثقافت‘ کا ایک لازمی جزو تھا۔ لیکن باوجود ’رسمِ زمانہ اور دستور‘ کے اور باوجود اس کے کہ ریاستی اور مالی آسائشیں آپ کو میسر اور حاصل تھیں لیکن آپؑ نے بچپن یا جوانی میں کسی بھی قسم کی لغواورفضول باتوں کو نہ کیا نہ اپنایا۔ سوائے شکار کے اور وہ بھی بچپن میں چڑیوں وغیرہ کو جنگل میں جاکر پکڑنا اور ہاں جب لڑکپن اورجوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو صحتمندانہ ورزش اور معمولات کو ضرور اختیار کیا جیسے تیراکی، گھڑسواری، پیدل چلنااور سیر وغیرہ۔ سیر کرنے کی عادت تو آپؑ کی زندگی کا ایک لازمی جزرہی جو آخرتک آپ جاری رکھے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل میں ریفری کے فرائض بھی سرانجام دیتے۔ جس سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ بچپن میں بھی آپؑ کے ساتھی یقین رکھتے تھے کہ ہمارا یہ ساتھی امین اوردیانتدارہے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب بیان فرماتے ہیں :
“He seldom took an active part in any of them, although it is said that on several occasions he acted as an Umpire or a Referee.”
(Life of Ahmad ,by A.R.Dard page;30 )
قادیان کے تعارف میں ذکرہوا ہے کہ قادیان کے گردا گرد ایک ڈھاب تھی جو برسات کے موسم میں بعض اوقات دریا کی سی صورت اختیار کرجاتی۔ دوسرے لوگوں کی طرح آپؑ بھی اس میں تیراکی کرتے اور خوب تیراکی کرتے۔ اس ضمن میں ایک روایت ہمیں ملی ہے جس میں حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’میں بچپن میں اتنا تیرتا تھاکہ ایک وقت میں ساری قادیان کے ارد گرد تیر جاتا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ برسات کے موسم میں قادیان کے ارد گرد اتنا پانی جمع ہو جاتا ہے کہ سارا گاوٴں ایک جزیرہ بن جاتا ہے۔ ‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 288)
گودمیں تیری رہا…… حفاظت الٰہی کے نظارے
اس میں بھی ہم حفاظت الٰہی کے ایسے نظارے دیکھتے ہیں کہ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ خداکا ایک غیبی ہاتھ تھا جو آپؑ کی مدد اور حفاظت کے لئے ہمیشہ سے ساتھ رہا۔
حضرت اقدس علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب تیرنا اور سواری خوب جانتے تھے۔ اور سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بچپن میں مَیں ڈوب چلا تھا۔ تو ایک اجنبی بڈھے سے شخص نے مجھے نکالا تھا۔ اس شخص کو میں نے اس سے قبل یا بعد کبھی نہیں دیکھا۔ نیز فرماتے تھے کہ میں ایک دفعہ ایک گھوڑے پر سوار ہوا۔ اس نے شوخی کی اور بے قابو ہو گیا۔ میں نے بہت روکنا چاہا مگر وہ شرارت پر آمادہ تھا نہ رکا۔ چنانچہ وہ اپنے پورے زور میں ایک درخت یا دیوار کی طرف بھاگا۔ (اَلشَّکُّ مِنّی)اور پھر اس زور کے ساتھ اس سے ٹکرایا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ وہیں مر گیا۔ مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بہت نصیحت کیا کرتے تھے کہ سر کش اور شریر گھوڑے پر ہرگز نہیں چڑھنا چاہیے۔ اور یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اس گھوڑے کا مجھے مارنے کا ارادہ تھا۔ مگر میں ایک طرف گر کربچ گیا اور وہ مرگیا۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر 188)
ابتدائی تدریس و تعلیم
آپؑ کے بچپن اورجوانی کے واقعات اور حالات کو بیان کرتے کرتے ہم اب آپؑ کے حصول تعلیم کے بارہ میں بیان کرتے ہیں۔ آپؑ کے آباؤاجدادکے تذکرہ میں بیان ہوچکاہے کہ آپؑ کے والد بزرگوار خود ایک عالم فاضل شخص تھے اور انہوں نے اپنے بچوں کو بھی زیورتعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے اس وقت کے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین طریق تعلیم کواختیارکیا۔ اس زمانے میں مدارس کا سلسلہ ابھی جاری نہ ہوا تھا اورتعلیم کے لئے عام دستور یہی تھا کہ بڑے بڑے رئیس اور صاحب استطاعت لوگ اپنے گھروں پر استاد بطوراتالیق رکھ لیتے تھے۔ اور خاندانی لوگوں میں تو یہ رواج بہت مدت تک جاری رہا۔ چنانچہ اسی طرح پر حضرت اقدسؑ کی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ آپؑ کی عمر چھ یا سات سال کی ہوگی جب سب سے پہلے آپؑ کی تعلیم کے لئے قادیان ہی کے ایک فارسی خواں استاد کو مقرر کیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے سوانح بیان فرماتے ہوئے خود اپنی تعلیم کے متعلق بھی بہت وضاحت سے لکھاہے۔ چنانچہ حضورؑ اپنے ذاتی سوانح میں لکھتے ہیں :
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لئے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے۔ اور میں نے صَرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے۔ اور بعد اس کے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہواتو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کانام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لئے مقرر کیا تھا۔ اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔ اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔ ‘‘
(کتاب البریہ:روحانی خزائن جلد13ص179تا181حاشیہ)
جیساکہ مندرجہ بالا اقتباس سے ظاہر ہورہاہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی عمر چھ یا سات سال کی تھی جب تدریس کا یہ باقاعدہ آغاز ہوا۔ یعنی 1842-43ء میں، آپؑ کے یہ پہلے استاد فضل الٰہی صاحب قادیان کے باشندے اور حنفی المذہب تھے۔
دس برس کی عمر میں یعنی 1845ء میں دوسرے استاد مولوی فضل احمد صاحب تدریس کے فرائض کی سعادت پانے لگے۔ یہ بزرگ فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ کے رہنے والے اور اہلحدیث تھے۔ مولوی مبارک علی صاحب جو ابتدا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں شامل ہوئے اور پھر غیر مبائعین کی رو میں بہ گئے، آپ ہی کے بیٹے تھے۔ حضرت اقدسؑ نے اپنے اس استاد کا تذکرہ ایک اور جگہ یوں فرمایاہے:
’’حضرت مولوی فضل احمدصاحب مرحوم ایک بزرگوار عالم باعمل تھے مجھ کو ان سے از حد محبت تھی۔ کیونکہ علاوہ استاد ہونے کے وہ ایک باخدا اور صاف باطن اور زندہ دل اور متقی اور پرہیزگار تھے۔ ‘‘
(ازالۂ اوہام : روحانی خزائن جلد3صفحہ 542)
(باقی آئندہ)