سیرت النبی ﷺ

ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رسل (قسط اوّل)

(باسل احمد بشارت)

تعلیمات کے لحاظ سے امت محمدیہ کا دیگر امتوں سے تقابلی جائزہ۔ سب سے بڑا فرق، الہام آج بھی جاری ہے

آپﷺ کو دیگر تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح آپ پر نازل ہونے والی وحی صرف ایک زمانہ کےلیے نہ تھی بلکہ اب تاقیامت شریعت محمدیؐ کا ہی سکہ چلے گا

انسانی فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کائنات کے خالق حقیقی کے وجود کا اقرار کرے اور اس پر ایمان لاکر حق بندگی ادا کرے۔ چنانچہ خدائےرحمٰن نے جہاں انسان کو جسمانی بقا کے لیے ہر چیز مہیا فرمائی وہاں اس کی روحانی بقاکا بھی انتظام فرمایا اور اپنی مخلوق کی رہ نمائی کےلیےاپنے چنیدہ برگزیدہ بندوں انبیاء و رسل پر اپنی خاص وحی نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو خدائے واحد کی شناخت کروائیں اور الٰہی پاک تعلیمات کی طرف لاکر راہ ہدایت پر گامزن کریں۔

سعید فطرت لوگ تو توحید پر قائم رہتے ہوئے الٰہی تعلیمات پرعمل کرکے اس کی عبادات بجالاتے ہیں جبکہ بعض ایسے دہریت پرست بھی ہوتے ہیں جو نہ صرف کفر و الحاد پر مُصر رہتے ہیں بلکہ اللہ کے نیک بندوں کوبہکانے اورپھسلانے کی کوششیں کرتے ہیں۔اس لیےاللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت و رہ نمائی کےلیے وقتاً فوقتاً اپنے برگزیدہ انبیاء و رسل مبعوث فرماتا رہا تاکہ وہ خالق و مخلوق کے رشتہ کو مضبوط بنیادوں پراستوار کرکےگمراہ کن روشوں سے محفوظ رکھ سکیں اور مرور زمانہ سے الٰہی تعلیمات میں جو بگاڑ پیدا ہوگیاہواس کی اصلاح کرسکیں۔

چنانچہ رب العالمین نے دنیا کی ہر قوم کی طرف اپنے چنیدہ بندے نبی اور رسول بنا کربھیجے جن کے ذریعہ تمام ایسےمذاہب وجود میں آئے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی رہ نمائی کے لیے قائم کیے۔ وہ تمام انبیاء و رسل اپنے اپنے دائرے میں لوگوں کی ہدایت و رہ نمائی کا موجب تھے۔ لیکن ازمنہ ماضیہ میں اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کو مبعوث فرمایا وہ صرف خاص علاقوں اور ممالک تک محدود تھے اور ان کی تعلیم ایک خاص زمانہ کے لیے ایک خاص وقت تک تھی۔ جس سے کل عالم تاقیامت مستفیض نہیں ہوسکتا تھا اورنہ ہی وہ ہر زمانہ کی ضروریات کو پورا کرسکتی تھی۔

مستزاد یہ کہ اس وقت دنیاوی حالات بھی ایسے نہ تھے کہ ایک ایسا رسول مبعوث ہوتا جو تمام عالم انسانیت کا رہ نما اور ہادی ہو اور اس کی شریعت تمام انسانوں تک پہنچ کر سب کےلیے قابل عمل ہو۔ اسی لیے مختص الزمان اور مختص القوم انبیاء بھیجے گئے جن کی تعلیم اس زمانہ اور قوم کی ضروریات کے عین مطابق تھی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کی طرف ایسے وقت میں مبعوث ہوئے جب کہ وہ فراعین کے ظلم و ستم اور غلامی کی وجہ سے پست ہمت اور بزدل ہوچکے تھے۔ اس لیے موسوی شریعت میں سختی اور انصاف پر زیادہ زور ہے۔ پھر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی صرف بنی اسرائیل کےلیے ہی تشریف لائے تو انہوں نے متشددانہ خیالات کو ترک کرکے رحم و عفو کی تاکید کی۔ اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کی برائی کے پیش نظرانہیں بددیانتی سے اجتناب برتنےپرزوردیاوغیرہ۔ غرضیکہ ہرنبی نے اپنی امت کی حالت اور ان میں پیدا شدہ قومی برائیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کاکام کیا۔

ہمارے ہادیٔ کامل محمد مصطفیٰﷺ کے عہد مبارک میں جہاں انسانی استعدادات اپنی معراج کو پہنچ گئیں وہاں دنیا کے حالات میں بھی کمال انقلاب پیدا ہوچکا تھا۔ علاقائی باہمی تعلقات قائم ہوئے۔ ذرائع آمد و رفت اور تجارت میں ترقی کے باعث ممالک کے تعلقات استوار ہوگئےاور پیغام ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کا اچھا انتظام ہوگیا۔

تب اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے لیے ایک رسول مبعوث فرماتے ہوئے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو مخاطب کرکے حکم دیا:

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعًا (الاعراف:159)

تُو کہہ دے کہ اے انسانو! ىقىناً مىں تم سب کى طرف اللہ کا رسول ہوں۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تواپنی قوم سے فرمایاتھا کہ

’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘

(متی باب 15آیت24)

لیکن رسول اللہﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ (الانبياء:108)

اور ہم نے تجھے نہىں بھىجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رسول اللہﷺ کی آمد کی خبر آپؐ سےدو ہزار سال قبل دیتے ہوئےفرمایا:

’’خداوند سیناء سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا۔ وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ میں ان کے لئے ایک آتشی شریعت تھی۔‘‘

(استثناءبات33آیت2)

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خیر الرسلﷺ کی آمد سے چھ سو سال قبل بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے۔ مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آئےگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائےگا …اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔‘‘

(یوحنا باب 16آیت 12تا13)

پس ان پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نےرسول  اللہﷺکو ایک اکمل کتاب اوراتم شریعت عطا فرمائی جو تاقیامت تمام انسانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے اور اس میں موجود تعلیمات ہر زمانہ کی ضروریات کو پورا کرنے والی ہیں جن میں افراط ہے نہ تفریط۔ بلکہ میانہ روی کی تعلیم ہے۔ جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا (المائدة:4)

آج کے دن مىں نے تمہارے لئے تمہارا دىن کامل کر دىا اور تم پر مىں نے اپنى نعمت تمام کر دى ہے اور مىں نے اسلام کو تمہارے لئے دىن کے طور پر پسند کر لىا ہے۔

اکمال دین اور اتمام نعمت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد یہ بھی بیان فرمایا کہ

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ (الصف:10)

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے دین (کے ہر شعبہ) پر کلیّۃً غالب کردے خواہ مشرک برا منائیں۔

پس خیر الرسلﷺ کے اسوۂ کامل اوراس پر نازل شدہ اکمل ترین شریعت کی تعلیمات پر عمل کرکےآپؐ کی امت خیر امم کہلائی اورآپؐ کی شریعت کی کامل اتباع کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے خیر الامم کا خطاب عطا فرمایا:

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ (آل عمران:111)

تم بہترىن امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالى گئى ہو تم اچھى باتوں کا حکم دىتے ہو اور برى باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر اىمان لاتے ہو۔

ہادیٔ کامل حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے الٰہی وحی پاکر جو اسلامی تعلیمات پیش کیں ان کی دیگر ادیان پر برتری ثابت کرنے کے لیے ملّتوں، فرقوں اور عقیدوں اور تعلیمات کا مطالعہ ضروری ہے۔ کیونکہ مشہور مقولہ ہے: و بضدھا تتبین الاشیاء کہ اضداد کے تذکرہ سے اشیاء کے حقائق زیادہ کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہم اسلامی تعلیمات کا گذشتہ مذاہب کی تعلیمات سے موازنہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ اسلام ہی ایسی مکمل و متمم اور ممتازشریعت ہے جو انسانی فطرت کے عین مطابق اور ہردور اور زمانہ کی ضروریات کوپورا کرنےوالی اورتمام بنی نوع انسان کے لیے تاقیامت قابل عمل اور موجب ہدایت ہے۔

اسلامی تعلیمات کے عظیم الشان امتیازات میں سے وحی و الہام ایک ایسا امتیاز ہے جو اسے دوسرے مذاہب پر اعلیٰ و برترثابت کرتا ہے۔ دنیا کے قریباً تمام بڑے مذاہب نےاس حقیقت کو تسلیم کیا کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جو اپنے چنیدہ بندوں سے ہم کلام ہوتی ہے۔ لیکن مرور زمانہ کے ساتھ گذشتہ مذاہب نے نزول وحی و الہام کا یہ باب ہی بند کردیا۔

جہاں تک ہندوازم کا تعلق ہے تو ان میں الہام کا تصور دیگر مذاہب کے مقابل پریک سر مختلف ہے کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا بنی نوع انسان کی ہدایت کےلیے خود انسانی شکل میں متمثل ہوکردنیا میں آیا، اس لیے کسی وحی یا الہام کی ضرورت نہ تھی۔ پھر تاؤازم، بدھ ازم، کنفیوشس ازم وغیرہ میں وجدان کو ہی الہام سے منسوب کردیا گیا۔ یہود ونصاریٰ نے وحی و الہام کو اپنے تک محدود کرکے صرف اپنے اپنے مذہب کونجات کا ذریعہ قرار دیاجیساکہ قرآن کریم میں ذکر ہے کہ

وَ قَالُوۡا لَنۡ یَّدۡخُلَ الۡجَنَّۃَ اِلَّا مَنۡ کَانَ ہُوۡدًا اَوۡ نَصٰرٰی (البقرة:112)

اور وہ کہتے ہىں کہ ہرگز جنت مىں کوئى داخل نہىں ہو گا سوائے ان کے جو ىہودى ىا عىسائى ہوں۔

غرضیکہ اسلام سے قبل تمام مذاہب نے وحی و الہام کا دروازہ بندکردیا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں :

’’حضرت موسیٰ کے پیرو یہ کہتے ہیں کہ جب سے حضرت موسیٰ اس دنیا سے کوچ کرگئے تو ساتھ ہی ان کا عصا بھی کوچ کرگیا کہ جو سانپ بنا کرتا تھا اور جو لوگ حضرت عیسیٰ کے اتباع کے مدعی ہیں۔ ان کا یہ بیان ہے کہ جب حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھائے گئے تو ساتھ ہی ان کے وہ برکت بھی اٹھائی گئی جس سے حضرت ممدوح مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے۔ ہاں عیسائی یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے باراں حواری بھی کچھ کچھ روحانی برکتوں کو ظاہر کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کا یہ بھی تو قول ہے کہ وہی عیسائی مذہب کے باراں امام آسمانی نوروں اور الہاموں کو اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے بعد آسمان کے دروازوں پر پکے قفل لگ گئے اور پھر کسی عیسائی پر وہ کبوتر نازل نہ ہوا کہ جو اول حضرت مسیح پر نازل ہوکر پھر آگ کے شعلوں کا بہروپ بدل کر حواریوں پر نازل ہوا تھا۔ گویا ایمان کا وہ نورانی دانہ کہ جس کے شوق میں وہ آسمانی کبوتر اترا کرتا تھا انہیں کے ہاتھ میں تھا اور پھر بجائے اس دانہ کے عیسائیوں کے ہاتھ میں دنیا کمانے کی پھائی رہ گئی جس کو دیکھ کر وہ کبوتر آسمان کی طرف اڑ گیا۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد1صفحہ292حاشیہ در حاشیہ نمبر1)

اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نےحضرت بانیٔ اسلامﷺ کے ذریعہ وحی و الہام کا ایسا بے بہا فیضان جاری فرمایا جو تاقیامت ہر سعید فطرت، نیک اور برگزیدہ کو روحانی طور پر فیضیاب کرتا رہے گا۔

وحی والہام

لفظ وحی، وَحْیٌ، وَحَی اور اوحیٰ کا مصدر ہے وحَی یَحیِ وَحْیًا الی فلانٍ کے معنی ہیں : اشار الیہ ارسل الیہ رسولا یعنی کسی کو اشارہ کرنا، پیغام بھیجنا۔ وَحَیاور اوحیٰ الیہ کلامًا کے معنی ہیں : کلّمہ سرًّا اوکلّمہ بما یخفیہِ عن غیرہٖ کسی سے پوشیدہ بات کہنااور رازداری میں بات کرنا۔ وحی اللّٰہ فی قلبہ کذا: الھمہ ایاہ یعنی اللہ کا کسی کے دل میں کوئی بات ڈالنا یا الہام کرنا۔

(المنجدزیر لفظ وحی صفحہ892)

پس وحی کے لغوی معنی ایسے کلام کے ہیں جس میں سرعت، اخفاءہویادل میں کوئی خیال یا بات ڈالنے کے ہیں۔

لفظ الہام باب افعال سے ہے اس کامصدر لھْمًا و لَھَمًا ہے۔ لغت میں لہم الشیٔ کے معنی ہیں ابتلعہ بمرّۃ کسی چیز کو ایک ہی مرتبہ نگل جانا۔ ہڑپ کرجانا لہم الماءجرعہ: پانی کا ایک گھونٹ میں پی جانا۔ الھمہ الشیٔ کے معنی ہیں ابلعہ ایاہ کہ اسے کوئی چیز نگلوا دی۔ الھم اللّٰہ فلانًا خیرًا کا مطلب ہے کہ اللہ نے کسی کو وحی کی، اسے سکھایا اور اسے توفیق دی۔

(المنجد زیرمادہ لھمصفحہ736)

امام راغب مفردات میں لکھتے ہیں :

’’وحی کے اصل معنی جلدی اشارہ کے ہیں اور چونکہ اس لفظ میں ‘‘سرعت‘‘ کے معنے پائے جاتے ہیں اس لیے کہاجاتا ہے ’’امروحی‘‘ اور یہ وحی کبھی کلام کے ذریعہ بطور اشارہ اور تعریض کے ہوتی ہے اور کبھی ایسی آواز کے ذریعہ ہوتی ہے جو مرکب الفاظ سے خالی ہو اور کبھی بعض جوارح(اعضاء) کے اشارہ کے ذریعہ ہوتی ہے اور کبھی کتابت کے ذریعہ…اور وہ الٰہی کلام جو خدا تعالیٰ کے انبیاء اور اولیاء کی طرف پہنچایا جائے وحی کہلاتا ہے۔‘‘

(المفردات فی غريب القرآن جزء1صفحہ 858)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ مندرجہ بالاحوالے کے متعلق فرماتے ہیں کہ

’’ان الفاظ میں مفردات والوں نے ایک بہت بڑے مسئلہ کا حل کردیاہے جو موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے لیے ٹھوکر کا موجب بنا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق ہماری جماعت کی طرف سے یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر وحی نازل فرمائی تو مسلمان شور مچادیتے ہیں کہ یہ بالکل غلط ہے۔ رسول کریمؐ کے بعد وحی الٰہی کہاں نازل ہوسکتی ہے۔ حالانکہ مفردات والے لکھتے ہیں ویقال للکلمۃ الالہیۃ تلقی الی انبیاءہ و اولیاءہ وحی۔ اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور اس کے اولیاء کی طرف جو کلام نازل ہوتا ہے اسے وحی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبی تسلیم کرتے اور آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم آپ کے الہامات کو وحی قرار دیں۔ لیکن مفردات والوں نے تو اللہ تعالیٰ کے اس کلام کو بھی جو ولی پر نازل ہوتا ہے وحی قرار دیا ہے اور درحقیقت یہی بات صحیح اور درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کلام نازل ہو خواہ وہ نبی پر نازل ہو یا ولی پر بہرحال وحی ہوتاہے۔ ‘‘

(تفسیر کبیر جلد 9صفحہ423)

علامہ ابن اثیر بیان کرتے ہیں :

’’وَقَدْ تَكَرَّرَ ذِكْرُ الْوَحْيِ فِي الْحَدِيثِ۔ ويَقَع عَلَى الكِتابة، وَالْإِشَارَةِ، والرِّسالة، والإلْهام، وَالْكَلَامِ الخفِيِّ۔ يُقال: وَحَيْتُ إِلَيْهِ الكلامَ وأَوْحَيْتُ.‘‘

(النهاية في غريب الحديث والأثرجزء5صفحہ163)

حدیث میں وحی کا ذکر بتکرار ہوا ہے اور یہ کتابت، اشارہ، پیغام، الہام اور مخفی کلام کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

پس وحی و الہام کا لغت میں مفہوم مختلف ہے لیکن جب ان کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو تو دونوں مترادف المعانی الفاظ ہیں۔

علمائے امت کے نزدیک وحی شریعت پر مشتمل علوم کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے اور الہام غیر تشریعی وحی کےلیے تاکہ دونوں میں مابہ الامتیاز رہے۔ انبیاء پر نازل ہونےوالے کلام الٰہی کو وحی سے موسوم کیا جاتا ہے اور غیر انبیاء یعنی اولیاء وغیرہ کی وحی کے لیے الہام کا لفظ وحی کے مقابل پر محض غلط فہمی سے بچانے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔

حضرت سید اسماعیل شہیدؒ فرماتے ہیں کہ

’’ان تمام امور(انعامات) میں سے ایک تو الہام ہے اور الہام وہی ہے جو انبیاء علیھم السلام سے ثابت ہے اور اس کو وحی کہتے ہیں اور اگر ان کے بغیر کسی اور(غیر انبیاء) سے ثابت ہوتو اسے تحدیث کہتے ہیں اور کہیں کتاب اللہ میں مطلق الہام کو وحی کہا گیا ہے خواہ انبیاء سے ثابت ہو خواہ اولیاء سے۔‘‘

(منصب امامت از سید اسماعیل شہیدؒ مترجم: حکیم محمد حسین علوی صفحہ 58)

حضرت مسیح موعودؑ الہام کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تردد اور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس سے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلاتکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اٹھاتا ہے۔ غرض یہ ایک منجانب اللہ اعلام لذیذ ہے کہ جس کو نفث فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں۔‘‘

(پرانی تحریریں، روحانی خزائن جلد2صفحہ20)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ وحی و الہام کے متعلق بیان فرماتے ہیں کہ

’’اصل بات یہ ہے کہ الہام کے معنے سمجھنے میں پہلے علماء کو بہت غلط فہمی ہوئی ہے اور اسی بناء پر وہ الہام کی تعریف یہ کرتے رہے ہیں کہ در دل انداختن۔ ایسی بات جو دل میں ڈال دی جائے اس کو الہام کہتے ہیں۔ حالانکہ الہام اور وحی دونوں ایک ہی چیزیں ہیں اور ان میں کسی قسم کا فرق نہیں۔ یہ صرف صوفیاء کی اصطلاح تھی کہ انہوں نے اس کلام کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہوتا تھا الہام کہنا شروع کردیا تاکہ لوگ کسی فتنہ میں نہ پڑیں ورنہ الہام اور وحی میں کوئی فرق نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی کئی جگہ الہام کا لفظ استعمال کیا ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے کہ میں اس کلام کو الہام صرف اس لئے کہتا ہوں کہ صوفیاء نے ایک اصطلاح قائم کردی ہے اور لوگوں میں اس اصطلاح کا رواج ہوگیا ہے۔ ورنہ میں اس بات کا قائل نہیں کہ الہام اور چیز ہے اور وحی اور چیز۔ جس چیز کا نام لوگ الہام رکھتے ہیں اسی چیز کا نام وحی ہے۔ پس الہام و ہ اصطلاح ہے جو لفظی کلام کے متعلق صوفیاء نے قائم کی ہے ورنہ قرآن کریم میں ہر جگہ وحی کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے الہام کا لفظ صرف ایک جگہ استعمال ہوا ہے اور وہ بھی وحی کے معنوں میں نہیں بلکہ میلانِ طبیعت کے معنوں میں جیسا کہ فرماتا ہے

فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھَا (الشمس 16ع1)

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو برائیوں اور نیکیوں کے متعلق الہام کیا ہے۔ اب اس کے معنے کسی خارجی الہام کے نہیں بلکہ صرف میلانِ طبع کے معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیرجلد 9صفحہ 430)

نزول وحی کے تین طرق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ

(الشورىٰ:52)

اور کسى انسان کے لئے ممکن نہىں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحى کے ذرىعہ ىا پردے کے پىچھے سے ىا کوئى پىغام رساں بھىجے جو اُس کے اِذن سے جو وہ چاہے وحى کرے ىقىناً وہ بہت بلند شان (اور) حکمت والا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں امام رازیؒ نے ’’وحیًا‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئےفرمایا کہ

’’وهو الإلهام والقذف في القلب أو المنام كما أوحى اللّٰه إلى أم موسى وإبراهيم عليه السلام في ذبح ولده‘‘

(تفسير الرازي، مفاتيح الغيب أو التفسير الكبيرجزء27صفحہ611)

یعنی وحی سے مراد الہام ہے اور بات کا دل میں ڈالنا یا خواب میں اس کا علم حاصل ہونا جیساکہ اللہ نے ام موسیٰؑ کی طرف وحی کی اور حضرت ابراہیمؑ کو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کا خواب میں حکم فرمایا۔

دوسرا طریق من وراء حجاب یعنی پس پردہ کلام ہے اور تیسرا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوئی پیغام رساں فرشتہ بھیج کر اپنا کلام رسول اور اولیاء تک پہنچائے۔

وحی کی علماء نے کئی اقسام بیان کی ہیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے تفسیر کبیر میں وحی کی 23اقسام بیان فرمائی ہیں۔

(تفسیر کبیر جلد9صفحہ445)

وحی کی اقسام میں سے پہلی قسم رؤیا صادقہ ہے جسے رسول اللہﷺ نے نبوت کا چھیالیسواں حصہ بھی قرار دیا ہے۔

(صحیح بخاری کتاب التعبیر باب المبشرات)

افضل الرسلﷺ کو گذشتہ تمام انبیاء و رسل پر وحی و الہام کے سلسلہ میں بھی ایک فضیلت و برتری حاصل ہے جس کا مختصر ذکر درج ذیل ہے۔

بلحاظ طریق نزول وحی افضلیت

سیدالانبیاء و خیر الرسل حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر نزول وحی ہر لحاظ سے گذشتہ تمام انبیاء سے اعلیٰ و افضل طریق پر ہوئی۔ مثلاً باعتبار طریق نزول جائزہ لیا جائے تو پہلے انبیاء پر حضرت جبرئیلؑ انسانی صورت میں وحی لے کر نازل نہ ہوئے مثلاًحضرت موسیٰ علیہ السلام پر آگ کی شکل میں ظاہر ہوئے جیساکہ بائبل میں ہے :

’’موسیٰ اپنے سسر یتروکی جو مدیان کا کاہن تھا، بھیڑبکریاں چرارہا تھا اور وہ اس گلہ کو ہانک کر دور بیابان کی دوسری طرف خدا کے پہاڑ حورب تک لے گیا۔ وہاں خداوند کا فرشتہ ایک جھاڑی کے اندر آگ کے شعلوں میں اس پر ظاہر ہوا۔‘‘

(عہدنامہ قدیم، خروج باب 3آیات1-2)

اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کبوتر کی صورت میں حضرت جبرئیلؑ وحی لے کرنازل ہوئے۔ چنانچہ انجیل متی میں لکھا ہے کہ

’’یسوع بپتسمہ لینے کے بعد جوں ہی پانی سے باہر نکلا تو آسمان کھل گیا اور اس نے خداکے روح کو کبوتر کی مانند اپنے اوپر اترتے دیکھا ساتھ ہی آسمان سے یہ آواز سنائی دی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں بہت خوش ہوں۔‘‘

(متی باب 3آیات16-17)

جبکہ ہمارے سیدو مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰﷺ پردیگرطرق کے علاوہ حضرت جبرئیل علیہ السلام انسانی شکل میں بھی نزول وحی کیا کرتے تھے:

عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، أَنَّ الحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الجَرَسِ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ، فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ المَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ‘‘ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الوَحْيُ فِي اليَوْمِ الشَّدِيدِ البَرْدِ، فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا

(بخاری کتاب بدء الوحی كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الوَحْيِ إِلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟)

ہشام بن عروہ اپنے والد سے، ان کے والدنےحضرت عائشہ ام المومنینؓ سے روایت کرتےہیںکہ حضرت حارث بن ہشامؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: یارسول اللہﷺ ! آپؐ کے پاس وحی کس طرح آیا کرتی ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے جواب دیا: کبھی تو گھنٹی کی چھنکار کی مانند وہ میرے پاس آتی ہے اور یہ(وحی) مجھ پر سخت ترین ہوتی ہے اور وہ مجھ سے ایسی حالت میں الگ ہوتی ہے کہ جو اس نے کہا ہوتا ہے میں اسے ذہن نشین کرچکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ آدمی کی شکل میں میرے سامنے آکھڑا ہوتا ہے اور مجھ سے باتیں کرتا ہے اور جو وہ کہتا ہے میں اسے ذہن نشین کیے جاتا ہوں۔ حضرت عائشہؓ کہتی تھیں : میں نے آپؐ کو دیکھا کہ آپؐ پر وحی سخت سردی کے دن نازل ہوتی اور پھر آپؐ سے ایسی حالت میں جدا ہوتی کہ آپؐ کی پیشانی سے پسینہ پھوٹ رہا ہوتا۔

پس سید الانبیاءﷺ پر وحی کا نزول کامل صورت میں ہوا۔ حضرت جبرئیلؑ حضرت دحیہ کلبیؓ کی صورت میں بھی تشریف لاتے رہے۔ بعض دفعہ خود اپنی ہی صورت میں رسول اللہﷺ کے سامنے جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں :

’’بعض لوگ اسلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ تم کہتے ہو اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے کیا اس کی زبان ہے جس سے وہ بولتا ہے۔ ہم کہتے ہیں اس کی زبان تو نہیں مگر اس میں قدرت موجود ہے اور وہ اپنی قدرت سے بغیر زبان کے کلام پیدا کردیتا ہے۔ یہی حال جبریل کا ہے وہ ملک ہے مگر ہر موقع کے مناسب حال مختلف شکلیں بدل لیتا ہے۔ کبھی ماں کی شکل اختیارکرلیتا ہے، کبھی بیٹی کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی بیٹے کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی بیوی کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی مرد کی شکل اختیار کرلیتا ہے، کبھی انسانی شکل کے علاوہ کبوتر یا کسی اور جانور کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اور شکلوں کے اس اختلاف سے یہ بیان کرنا مقصود ہوتا ہے کہ تم پر اللہ تعالیٰ کا جو کلام نازل ہورہا ہے اس کی کیا شان ہے یا تمہارے دوستوں کے لیے اس کی کیا شان ہے یا تمہارے دشمنوں کے لیے اس کی کیا شان ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو صورتوں میں الہام نازل ہوتا ہے۔ ایک الہام ان فقرات کی صورت میں نازل ہوتا ہے جو جبریل کی زبان سے بندہ سنتا ہے اور ایک الہام خود جبریل کی شکل میں ہوتا ہے۔ اگر وہ مہیب اور خوفناک شکل میں آسمان اور زمین کے درمیان ایک بہت بڑی کرسی پر بیٹھا ہوا رسول کریمؐ کو نظر آیا تو اس کے معنے یہ تھے کہ وہ کلام جو محمد رسول اللہؐ پر نازل ہونے والا ہے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اب ساری زمین پر قضا جاری کرنے والا ہے۔ ساری دنیا کی قضا اب اس کلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہی عمل خداتعالیٰ کے ہاں مقبول ہوگا جو اس کلام کے مطابق ہوگا۔ اور وہ عمل جو اس کلام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انسان بجالائے گا اسے ردّ کردیا جائے گا۔‘‘

(تفسیر کبیرجلد 9صفحہ426)

نزول وحی کے مختلف طریق کی حکمت کے بارے میں حضر ت بانیٔ جماعت احمدیہ فرماتے ہیں :

’’انجیل کے لانے والا وہ روح القدس تھا جو کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا جو ایک ضعیف اور کمزور جانور ہے جس کو بلّی بھی پکڑ سکتی ہے اسی لئے عیسائی دن بدن کمزوری کے گڑھے میں پڑتے گئے اور روحانیت ان میں باقی نہ رہی۔ کیونکہ تمام ان کے ایمان کا مدار کبوتر پر تھا مگر قرآن کا روح القدس اس عظیم الشان شکل میں ظاہر ہوا تھا جس نے زمین سے لے کر آسمان تک اپنے وجود سے تمام ارض و سما کو بھر دیا تھا۔ پس کجا وہ کبوتر اور کجا یہ تجلی عظیم جس کا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے قرآن ایک ہفتہ میں انسان کو پاک کر سکتا ہے اگر صوری یا معنوی اعراض نہ ہو قرآن تم کو نبیوں کی طرح کر سکتا ہے اگر تم خود اس سے نہ بھاگو۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ27)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ

’’غرض ایک کامل قوتوں والے انسان کے اندر جس قدر اوصاف پائے جانے چاہئیں وہ سارے کے سارے اپنی پوری شان اور عظمت کے ساتھ محمد رسو ل اللہؐ میں پائے جاتے تھے۔ آپ کے اندر شجاعت بھی پائی جاتی تھی سخاوت بھی پائی جاتی تھی احسان بھی پایا جاتا تھا، وفاداری بھی پائی جاتی تھی، تحمل بھی پایا جاتا تھا اور رحم بھی پایا جاتاتھا، حلم بھی پایاجاتاتھا، ایثار بھی پایا جاتاتھا، دیانت بھی پائی جاتی تھی، اخوت بھی پائی جاتی تھی، تواضع بھی پائی جاتی تھی، غیرت بھی پائی جاتی تھی، شکر بھی پایا جاتاتھا، استقلال بھی پایا جاتاتھا، وقاربھی پایا جاتا تھا، بنی نوع انسان کی خیر خواہی بھی پائی جاتی تھی، بلند ہمتی بھی پائی جاتی تھی، صبر بھی پایا جاتاتھا، رافت بھی پائی جاتی تھی، بدی کے مقابلہ کی طاقت بھی پائی جاتی تھی۔ قوت برداشت بھی پائی جاتی تھی، جفاکشی بھی پائی جاتی تھی، سادگی بھی پائی جاتی تھی، صلہ رحمی بھی پائی جا تی تھی سچائی بھی پائی جاتی تھی، غرباء پروری بھی پائی جاتی تھی، مصیبت زدوں کی مدد کی خواہش بھی پائی جاتی تھی، مہمان نوازی بھی پائی جاتی تھی، بزرگوں کاادب اور چھوٹوں پر شفقت بھی پائی جاتی تھی، محبت الٰہی بھی پائی جاتی تھی، توکل بھی پایا جاتاتھا۔ عبادات کی محافظت بھی پائی جاتی تھی۔ غرض کونسی خوبی تھی جو آپ میں نہ پائی جاتی ہو۔ اور کونساکمال تھا جو آپ میں موجود نہ ہو یہی حکمت ہے جس کے ماتحت سورۂ مریم کے بعد اس سورۃ کو رکھا گیا ہے اور ایک لطیف پیرایہ میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ جب حضرت مریمؑ کے پیٹ میں حضرت عیسیٰؑ پڑے تھے تو گو جس فرشتے نے آپ کوحضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کی خبر دی تھی وہ بَشَرًا سَوِيًّا کی شکل میں آیا تھا۔ یعنی ایک تندرست مرد کی شکل میں ظاہر ہوا تھا جیسا کہ سورۂ مریم میں آتاہے:

فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا (مريم 18)

لیکن رسول کریمؐ کی پیدائش کی خبر کسی فرشتے نے ایک تندرست بشر کی شکل میں ظاہر ہوکر نہیں دی بلکہ آپ خود ایک کامل القویٰ مرد تھے جن کے اندر تمام مردانہ صفات اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر تھیں۔ گویا حضرت عیسیٰ کو تو یہ صفت بالواسطہ اوروہ بھی نامکمل شکل میں ملیں کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑکی خبر دینے والا فرشتہ بشر کہلاتا تھا رجل نہیں۔ اوربشر کا وجود متمدن انسان کے دورسے پہلے تھا یعنی بشر انسان کا پہلا درجہ تھا لیکن رجل انسان کاآخری درجہ ہے۔ پس محمد رسول اللہؐ کامل قوائے انسانی کے ظہور تھے اس وجہ سے بقول انجیل جب ان پر جبریل نازل ہوا تووہ ایک کبوتر کی شکل میں نازل ہوا (متی باب 3آیت16) جو ایک کمزور اور نحیف جانور ہے اور بلی بھی اس کوکھا جاتی ہے۔ مگر جب وہی جبریل رسول کریمؐ پرنازل ہوا تو ایک قوی ہیکل انسان کی صور ت میں نازل ہوا جس نے اپنی پوری طاقت سے رسو ل کریمؐ کو بھینچا۔ چنانچہ رسو ل کریمؐ غارحراوالے واقعہ کی تفاصیل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب فرشتہ میرے پاس آیااور میں نے ’’مَا أَنَا بِقَارِئٍ‘‘ کہا تو

’’فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ(بخاری باب بدء الوحی)‘‘

اس نے مجھے ایسا بھینچا کہ میری مقابلہ کی طاقت بالکل جاتی رہی۔

یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آنحضورؐ پر نازل ہونے والا فرشتہ ایک قوی ہیکل انسان کی صورت میں ظاہر ہوا تھا جبکہ مسیحؑ پر نازل ہونے والا فرشتہ ایک کبوتر کی شکل میں ظاہر ہوا کیونکہ محمد رسول اللہؐ خود کامل قوائے انسانی کے ظہور تھے اور یہی وہ خصوصیت ہے جسکی طرف طٰہٰ میں اشارہ کیاگیا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد5صفحہ400تا401)

بلحاظ زمان و مکان فوقیت

جیساکہ قبل ازیں بھی ذکر ہوچکا ہے کہ گذشتہ انبیاء پر وحی ان کی قوم کی ضروریات کے مد نظر نازل کی گئی لیکن رسول اللہﷺ جو خیر الرسلؐ اور خاتم النبیینﷺ تمام دنیا کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے اس لیے آپؐ پر نازل ہونے والی وحی بھی عالیشان اور اپنے اندرعالمگیریت رکھتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی آپﷺ کو دیگر تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح آپ پر نازل ہونے والی وحی صرف ایک زمانہ کےلیے نہ تھی بلکہ اب تاقیامت شریعت محمدیؐ کا ہی سکہ چلے گا۔ (جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button