مرد و عورت کے حقوق و فرائض سے متعلق اسلامی تعلیم
سوال: ۔ ایک خاتون نے اسلام میں مرد اور عورت میں برابری کے ضمن میں اپنی بعض الجھنوں کا ذکر کر کے اسلام کے مختلف حکموں کے بارے میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں رہ نمائی کی درخواست کی۔ جس کے جواب میں حضور انور نے اپنے مکتوب مورخہ 11؍اپریل 2016ء میں ان امور کے بارے میں درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: ۔ آپ کے خط میں مذکور آپ کی الجھنیں اسلامی تعلیمات اور فطرت انسانی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔ اسلام نے یہ کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ مرد اور عورت ہر معاملہ میں برابر ہیں۔ اسلام کیا خود فطرت انسانی بھی اس بات کا انکار کرتی ہے کہ مرد اور عورت کو ہر لحاظ سے برابر قرار دیا جائے۔
ہاں اسلام نے یہ تعلیم ضرور دی ہے کہ نیکیوں کے بجالانے کے نتیجہ میں جس طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو انعامات اور اپنے فضلوں سے نوازتا ہے اسی طرح وہ عورتوں کو بھی اپنے انعامات اور فضلوں کا وارث بناتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّيْ لَا أُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثٰى بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ فَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا وَأُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوْذُوْا فِيْ سَبِيْلِيْ وَقَاتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الثَّوَابِ۔
(سورۃ آل عمران: 196)
ترجمہ: ۔ پس اُن کے ربّ نے اُن کی دعا قبول کرلی (اور کہا) کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہرگز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم میں سے بعض، بعض سے نسبت رکھتے ہیں۔ پس وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں دُکھ دئیے گئے اور انہوں نے قتال کیا اور وہ قتل کئے گئے، میں ضرور ان سے ان کی بدیاں دور کردوں گا اور ضرور انہیں ایسی جنتوں میں داخل کروں گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ (یہ) اللہ کی جناب سے ثواب کے طور پر (ہے) اور اللہ ہی کے پاس بہترین ثواب ہے۔
جہاں تک مرد اور عورت کی گواہی کا تعلق ہے تو ایسے معاملات جن کامردوں سے تعلق ہے اور عورتوں سے براہ راست تعلق نہیں ان میں اگر گواہی کے لیے مقررہ مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو اس لیے رکھا گیا ہے کہ چونکہ ان معاملات کا عورتوں سے براہ راست تعلق نہیں لہٰذا اگر گواہی دینے والی عورت اپنی گواہی بھول جائے تو دوسری عورت اسے یاد دلا دے۔ گویا اس میں بھی گواہی ایک عورت کی ہی ہے، صرف اس کے ایسے معاملات سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اس کے بھول جانے کے اندیشہ کے پیش نظر احتیاطاً دوسری عورت اس کی مدد کے لیے اور اسے بات یاد کرانے کے لیے رکھ دی گئی ہے۔ قرآن کریم کا منطوق بھی اسی مفہوم کی تائید فرما رہا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
يَآ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلٰى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاکْتُبُوْہُ…وَاسْتَشْهِدُوْا شَهِيْدَيْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ فَإِنْ لَّمْ يَكُوْنَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَٓاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرٰى۔
(سورۃالبقرۃ: 283)
ترجمہ: ۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم ایک معیّن مدت تک کے لئے قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو… اور اپنے مردوں میں سے دو کو گواہ ٹھہرا لیا کرو۔ اور اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں (ایسے) گواہوں میں سے جن پر تم راضی ہو۔ (یہ) اس لئے (ہے) کہ ان دو عورتوں میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد کروا دے۔
اور جہاں تک عورتوں سے براہ راست متعلقہ معاملات کا تعلق ہے تو حدیث سے ثابت ہے کہ حضورﷺ نے صرف ایک عورت کی گواہی پر کہ اس نے اس شادی شدہ جوڑے میں سے لڑکے اور لڑکی دونوں کو دودھ پلایا تھا، علیحدگی کروا دی۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن حارثؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوا ہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا۔ اس کے بعد ایک عورت نے آکر بیان کیا کہ میں نے عقبہ کو اور اس عورت کو جس سے عقبہ نے نکاح کیا ہے دودھ پلایا ہے (پس یہ دونوں رضاعی بہن بھائی ہیں، ان میں نکاح درست نہیں) عقبہ نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے (اس سے) پہلے کبھی اس بات کی اطلاع دی ہے۔ پھر عقبہ سواری پر سوار ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ گئے اور آپؐ سے (یہ مسئلہ) پوچھا تو نبیﷺ نے فرمایا کہ اب جبکہ یہ بات کہہ دی گئی ہے تم کس طرح اسے اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو۔ پس عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا۔ اور اس نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا۔
(صحیح بخاری کتاب العلم بَاب الرِّحْلَةِ فِي الْمَسْأَلَةِ النَّازِلَةِ وَتَعْلِيمِ أَهْلِهِ)
جہاں تک طلاق اور خلع کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی فرق نہیں۔ بلکہ یہ اسلام کا احسان ہے کہ اس نے مرد کو طلاق کا حق دینے کے ساتھ ساتھ عورت کو خلع لینے کا حق دیا۔ اور اس میں بھی مرد اور عورت کو برابر کے حقوق دیے گئے ہیں۔ جب مرد طلاق دیتا ہے تو اسے عورت کو ہر قسم کے مالی حقوق دینے پڑتے ہیں اور مزید یہ کہ جو کچھ وہ بیوی کو پہلے مالی مفادات پہنچا چکا ہے اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا۔ اسی طرح جب عورت اپنی مرضی سے خاوند کے کسی قصور کے بغیر خلع لیتی ہے تو اسے بھی مرد کے بعض مالی حقوق از قسم حق مہر وغیرہ واپس کرنا پڑتا ہے، لیکن اگر عورت کے خلع لینے میں مرد کی زیادتی ثابت ہو تو اس صورت میں عورت کو یہ زائد فائدہ دیا گیا ہے کہ اسے مہر کا بھی حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ جس کا فیصلہ بہرحال قضاء تمام حالات دیکھ کر کرتی ہے۔
اہل کتاب سے شادی کرنے، ولی کی ضرورت اور مرد کے ایک سے زائد شادیاں کرسکنے کے معاملات میں دراصل عورت کی حفاظت، وقار اور عزت کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے مرد کی نسبت عموماً نازک بنایا اور اس کی فطرت میں اثر قبول کرنے کا مادہ رکھا ہے۔ پس ایک مسلمان عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کرنے سے روک کر اس کے دین کی حفاظت کی گئی ہے۔
شادی کے معاملہ میں لڑکی کی رضامندی کے ساتھ اس کے ولی کی رضامندی رکھ کر دیگر بہت سے فوائد میں سے ایک فائدہ عورت کو ایک مدد گار اور محافظ مہیا کرنا بھی ہے کہ عورت کے بیاہے جانے کے بعد اس کے سسرال والے اس بات سے باخبر رہیں کہ عورت اکیلی نہیں بلکہ اس کی خبر رکھنے والے موجود ہیں۔
عورت کو ایک وقت میں ایک ہی شادی کی اجازت دے کر اسلام نے اس کی عصمت کی حفاظت کی ہے اور انسانی غیرت اور انسانی جبلت کے عین مطابق یہ حکم دیا ہے۔
جس حدیث میں عورتوں کے جہنم میں زیادہ ہونے کا ذکر ہے، وہاں لوگوں نے اس حدیث کا ترجمہ سمجھنے میں غلطی کھائی ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جہنم میں عورتوں کی کثرت ہوگی۔ بلکہ حضورﷺ نے فرمایا
أُرِيْتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ۔
یعنی مجھے جہنم دکھائی جہاں میں نے دیکھا کہ اس میں ایسی عورتوں کی کثرت ہے جو اپنے خاوندوں کی ناشکرگزار ہیں۔ یعنی جو عورتیں اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم میں موجود تھیں ان میں سے زیادہ وہ عورتیں تھیں جو اپنے خاوندوں کی ناشکر گزار تھیں۔
پس ایک تو اس حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ جہنم میں عورتیں مردوں سے زیادہ ہوں گی۔ دوسرا یہاں ان عورتوں کے جہنم میں جانے کی وجہ بھی بتا دی کہ وہ ایسی عورتیں ہے جوبات بات پر خدا تعالیٰ کے ان احسانات کی ناشکری کرنے والی ہیں، جو ان کے خاوندوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کیے ہیں۔
پھر اس کے بالمقابل احادیث میں نیک اور پاک باز خواتین کے پاؤں کے نیچے جنت ہونے کی بھی تو نوید سنائی گئی ہے جو کسی مرد کے بارہ میں بیان نہیں ہوئی۔
علاوہ ازیں اسلام نے مردوں اور عورتوں کے بعض حقوق و فرائض ان کے طبائع کے مطابق الگ الگ بیان فرمائے ہیں۔ مرد کو پابند کیا کہ وہ محنت مزدوری کرے اور گھر کی تمام ضروریات پوری کرے اور عورت کو کہا کہ وہ گھر اور بچوں کی حفاظت اور تربیت کرے۔ گویا باہر کی دوڑ دھوپ کے لیے مرد کو اس کی صلاحیتوں کے پیش نظر منتخب کیا اور عورت کی فطرت کے مطابق اور اس کے وقار کے پیش نظر گھر کی سربراہی اس کے سپرد کر دی۔
آنحضورﷺ کا ارشاد کہ عورت میں دین اور عقل کے لحاظ سے ایک طرح کی کمی ہے۔ اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ بھی عورت کی فطرت کے عین مطابق کہی گئی بات ہے۔ دین کی کمی تو آنحضورﷺ نے خود بیان فرما دی کہ اس کی عمر کے ایک بڑے عرصہ میں اس پر ہر ماہ کچھ ایسے ایام آتے ہیں جن میں اسے ہر قسم کی عبادات سے رخصت ہوتی ہے۔ اور دیکھا جائے تو یہ بھی ایک طرح سے اس پر خدا تعالیٰ کا احسان ہے۔ جبکہ عقل کی کمی کی بات میں بھی عورت کی تحقیر نہیں کی گئی بلکہ اس سے مراد عورت کی سادگی ہے، جس کا ثبوت آج کی دنیا میں عورت نے خود مہیا کر دیا ہے کہ وہ بہت سادہ ہے۔ کیونکہ مغربی دنیا کے مرد نے اسے آزادی کا جھانسہ دے کر جس طرح اپنے فائدہ کے لیے استعمال کیا ہے وہ اصدق الصادقین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اس قول کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مرد نے اپنی ہوس کی خاطر اسے گھر کی چار دیواری سے نکال کر باہر بازار میں لا کھڑا کیا ہے۔ اور اسلام نے روزی روٹی کی جو ذمہ داری مرد پر ڈالی تھی اس میں بھی مرد نے عورت کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی یہ ذمہ داری اسے بانٹ کر اسے اپنے فائدہ کے لیے استعمال کیا ہے۔ جہاں اسے مردوں کی طرح محنت کے ساتھ ساتھ مختلف الانواع مردوں سے واسطہ پڑتا ہے جو بسا اوقات اپنی نظروں کی ہوس پوری کرنے کے لیے مختلف زاویوں سے اس پر نظریں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پھر اگر غور کیا جائے تو مغربی دنیا کا عورت اور مرد کی برابری کا اعلان صرف ایک کھوکھلا دعویٰ ہی ہے۔ اسی مغربی دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جس کی حکومتی مشینری چلانے والے پارلیمانی نظام میں مردوں کے برابر عورتیں موجود ہوں۔ انہیں مغربی ممالک میں بیسیوں جگہوں پر کسی ملازمت کے لیے جو پیکیج ایک مرد کو دیا جاتا ہے وہ عموماً اسی ملازمت کے لیے عورت کو نہیں دیا جاتا۔ اور یہ ساری باتیں عورت کی سادگی کی شاہد ناطق ہیں۔
جہاں تک قرآن کریم کے مرد کو قوّامقرار دینے کی بات ہے تو خود قرآن کریم نے اس کی وجوہات بھی بیان فرمائی ہیں۔ ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ گھریلو نظام چلانے کے لیے ایک فریق کو دوسرے پر کسی قدر فضیلت دی گئی ہے اور دوسری وجہ یہ بیان فرمائی کہ وہ اپنے اموال عورت پر خرچ کرتا ہے۔
ایک فریق کو دوسرے پر فضیلت کی وجہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے کیونکہ اگر ہم دنیا کے نظام پر نظر ڈالیں تو ہر جگہ ایک فریق اوپر اور ایک نسبتاً نیچے ہوتا ہے۔ اگر دنیا میں سب لوگ برابر ہوتے یا یوں کہیں کہ اگر سب لوگ بادشاہ بن جاتے تو دنیا ایک دن بھی نہ چل سکتی اس لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ لوگوں کو بڑا اور کچھ کو چھوٹا، کچھ کو امیر اور کچھ کو غریب بنایا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہر ملک میں نظام حکومت کو چلانے کے لیے ایک کابینہ ہوتی ہے اگر اس ملک کے سارے لوگ ہی کابینہ کا حصہ بن جائیں تو وہ ملک چل ہی نہیں سکتا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گھریلونظام کو چلانے کے لیے مرد کو نسبتاً زیادہ اختیارات دیے لیکن جس طرح ایک سربراہ حکومت اور ملک کی کابینہ کے زائد اختیارات کے ساتھ ساتھ اسی نسبت سے زائد فرائض بھی ہوتے ہیں اسی طرح اسلام نے مرد پرعورت کی نسبت زائد ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں۔
پس مرد و عورت کے حقوق و فرائض کے اعتبار سے اسلامی نظام فطرت کے عین مطابق ہے اور اس میں کسی قسم کا رخنہ نہیں۔