امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں ’’قول بلیٰ‘‘ کی بصیرت افروز تفسیر
نورقلب اس بات کو مانتا ہے کہ وہ کشش جو اس کی طرف جھکنے کے لئے تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے وہ بلا شبہ اسی کی طرف سے ہے
روزنامہ الفضل آن لائن کی ایک گذشتہ اشاعت کو قمرالانبیاءحضرت مرزا بشیر احمد(ایم اے) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے منظوم عارفانہ کلام نے زینت بخشی۔ اس کا مقطع ایک ازلی ابدی پیغام کی یاددہانی پرمبنی، اور ایک بنیادی نوعیت کی اہم نصیحت لیے ہوئے ہے۔ فرماتے ہیں :
اب ترانہ ہو چکا روزِ جزا بھی یاد کر
اے بشیرؔ خستہ جاں قولِ بلیٰ بھی یاد کر
اس شعر میں جس قولِ ‘‘بلٰی’’ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کا کچھ ذکر مقصود ہے۔ قرآن کریم فرقانِ حمید کی درج ذیل آیت کے الفاظ میں ارشاد خداوندی ہے:
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَاۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ۔
(سورۃ الاعراف : 173)
‘‘اور (یاد کرو) جب تیرے ربّ نے بنی آدم کی صُلب سے ان کی نسلوں (کے مادّۂ تخلیق) کو پکڑا اور خود انہیں اپنے نُفوس پر گواہ بنادیا (اور پوچھا) کہ کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ! ہم گواہی دیتے ہیں۔ مبادا تم قیامت کے دن یہ کہو کہ ہم تو اس سے یقیناً بے خبر تھے۔ ’’
(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ)
اس آیت کریمہ میں بنی آدم کی نسلوں اور ان کے پیدا کرنے والے ربّ کے مابین ہونے والے جس مکالمہ کا ذکرکیا گیا ہے اسے کبھی تو ‘‘عہدِ اَلَسْتُ’’ کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور کبھی ‘‘قولِ بلٰی’’کی اصطلاح کے ذریعہ اس کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے۔
مکالمہ ایک تمثیل کے طورپر ہے
یہاں یہ بیان کرنا مناسب ہوگا کہ بعض مفسرین اس خیال کے حامی ہیں کہ بنی آدم کی نسلوں سے مذکورہ شہادت لینے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے پیداہونے والے انسانوں کی روحوں اور ان کے وجود کو ظاہری طورپرحاضرکرکے ان سے یہ مکالمہ کیا تھا جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ خارجی تو ہے لیکن عالم ارواح سے تعلق رکھتا ہے جب کہ جملہ بنی نوع انسان کی روحیں اپنے اپنے بدنی وجودوں سے متوصل نہیں ہوئی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان تمام روحوں کو حاضر کرکے ان سے مذکورہ عہد لیا تھا۔
لیکن حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام نےاس آیت کریمہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ ایک تمثیلی بیان ہے (نہ کہ کسی خارجی وظاہری واقعہ کاذکر)۔ چنانچہ فرمایا:
‘‘ایک اور دلیل اپنی ہستی پر قرآن شریف میں پیش کرتا ہے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی یعنی میں نے روحوں کو کہا کہ کیا میں تمہارارب نہیں ؟انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ اس آیت میں خدا ئے تعالیٰ قصّہ کے رنگ میں روحوں کی اس خاصیت کو بیان فرماتا ہے جو ان کی فطرت میں اس نے رکھی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی روح فطرت کی روسے خدائے تعالیٰ کا انکارنہیں کرسکتی صرف منکروں کو اپنی خیال میں دلیل نہ ملنے کی وجہ سے انکارہے۔ ’’
(تقریر جلسہ مذاہب۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، صفحہ 208)
اسی طرح حضرت الحاج حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
‘‘اصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ عادل، رحیم وقدوس خدا نے تمام بنی آدم میں ان کی بدءِ فطرت میں ایک قوت ایمانیہ اور نورفراست ودیعت رکھا ہے جو ہمیشہ وجودِ الٰہی اور اس کی ربوبیت کا اقرار یاددلاتا رہتا ہے یا اقلّا، یوں کہو کہ اگر مثلاً کسی عارض کے باعث غافل بھی ہوجاوے تو بھی چونکہ اصل فطرت میں وہ قوت مجہول کی گئی ہے، کسی بیرونی محرّک کے سبب سے حرکت میں آجاتی ہے۔
ہاں اگر کسی بے ایمان کے اندر کسی باعث وہ قوت بالکل مرگئی ہو اور وہ کم بخت اتھاہ کنویں میں جاپڑا ہواور شیطان کا فرزند بن کر آسمانی دفتر سے اس نے اپنا نام کٹوا لیا ہو تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ عادل خدا کی ذات اس سے منزّہ ہے۔ ’’
(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 241)
نیز فرمایا:‘‘اس آیت شریف سے کوئی روح کا قبل الجسد موجودہونا نہ سمجھ لے۔ ’’
(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ 242)
روحیں فطرتی طورپر اپنی مخلوقیت کا علم رکھتی ہیں
مذکورہ آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کا سوال پوچھا تو روحوں نے جو جواب دیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ روحوں کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ وہ ایک مخلوق ہیں اور ان کا خالق ان کا ربّ ہے اور پھر یہ کہ ان کا رب اللہ تعالیٰ ہے، اسی لیے انہوں نے فوراً جواب میں کہا کہ بَلٰی، یعنی ہاں ہاں کیوں نہیں، ہم اس کی گواہی دیتی ہیں ۔ (تم ہی ہمارے ربّ ہو)۔
قرآن کریم کے بیان کردہ اس لطیف نکتہ کی خبر امام آخرالزماں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دی ہے۔ چنانچہ فرمایا:
‘‘…دوسری چیزوں کو اپنی مخلوقیت کا علم نہیں مگر روحیں فطرتی طورپر اپنی مخلوقیت کا علم رکھتی ہیں۔ ایک جنگلی آدمی کی روح بھی اس بات پر راضی نہیں ہوسکتی کہ وہ خودبخود ہے۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی یعنی روحوں سے میں نے سوال کیا کہ کیامیں تمہارا ربّ (پیداکنندہ) نہیں ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں۔ یہ سوال وجواب حقیقت میں اس پیوند کی طرف اشارہ ہے جو مخلوق کو اپنے خالق سے قدرتی طورپر متحقق ہے جس کی شہادت روحوں کی فطرت میں نقش کی گئی ہے۔ ’’
(سرمہ چشم آریہ۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صفحہ 207)
خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے کی کشش سے ایک ذرّہ بھی خالی نہیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مذکورہ آیت کریمہ سے استنباط کرتے ہوئے کل عالم کے ذرّہ ذرّہ کے اپنے خالق کے ساتھ پیوند اور کشش رکھنے کے عالمگیر دائرہ کار اور عمل کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:
‘‘وہ خدا جس کا پتہ قرآن شریف بتلاتا ہے اپنی موجودات پر فقط قہری حکومت نہیں رکھتا بلکہ موافق آیت کریمہ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی کے ہریک ذرہ ذرہ اپنی طبیعت اور روحانیت سے اس کا حکم بردار ہے۔ اس کی طرف جھکنے کے لئے ہریک طبیعت میں ایک کشش پائی جاتی ہے اس کشش سے ایک ذرہ بھی خالی نہیں اور یہ ایک بڑی دلیل اس بات پر ہے کہ وہ ہریک چیز کا خالق ہے۔ کیونکہ نورقلب اس بات کو مانتا ہے کہ وہ کشش جو اس کی طرف جھکنے کے لئے تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے وہ بلا شبہ اسی کی طرف سے ہے جیسا کہ قرآن شریف میں اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ یعنی ہریک چیز اس کی پاکی اور اس کے محامد بیان کر رہی ہے۔ ’’
(رسالہ معیارالمذاہب۔ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود صفحہ 207)
قول بلٰی کہنے میں
اوّل : روحِ پیمبر صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہٖ وسلم
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدی معہود علیہ السلام اپنے آقا و مطاع پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کا ایک اعلیٰ اورارفع ترین روحانی پہلوبیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
روحِ اُو در گفتنِ قولِ بلیٰ اول کسے
آدمِ توحید وپیش ازآدمش پیوندِ یار
ترجمہ: قول بلٰی کہنے میں اس کی روح سب سے اوّل ہے۔ وہ توحید کا آدم ہے اورآدم سے بھی پہلے یار سے اس کا تعلق ہے۔
اس شعرکی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
‘‘اشارہ سوئے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی۔ یعنی پیدا کنندہ توحیدبعد از گمشدن آن’’
(ترجمہ:یہاں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی کی طرف اشارہ ہے۔ آپﷺ نے توحید کے ناپید ہوجانے کے بعد پھر سے اسے قائم کردیا)۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 24)
ایک اَورجگہ آپؑ نے فرمایا:
‘‘میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے(ہزارہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہوسکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا…ہم کافرِ نعمت ہونگے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحیدِ حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی۔ ’’
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 119)
رَبُّنَااللّٰہُ کہنے کے بعد استقامت شرط ہے
بے شک سید الکونین خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے قیام کی غرض سے قول بلٰیکو اپنی ساری زندگی میں آخردم تک نبھایا۔ اس سے یہی درس ملتا ہے کہ خالق حقیقی کو اپنا ربّ تسلیم کرنے اور قول بلٰیکی صورت میں اس کی گواہی دینے کا مطلب یہی ہے کہ شرک کی باریک در باریک راہوں سے بھی بچتے ہوئے توحید خالص کے اقرار اور عہد پروفا کے ساتھ استقامت اور مداومت اختیار کی جائے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کی جنت میں داخلے کی یہی کنجی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ
(سورۃ حم السجدۃ :31)
ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے، پھر استقامت اختیار کی، اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے) سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ العیاذباللہ یہ دِل اور یہ رُوح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس شعر کا مصداق بن جائیں کہ
ہائے وہ دل کہ جسے طرزِ وفا یاد نہیں
وائے وہ روح جسے قول بلیٰ یاد نہیں
(مرسلہ:طارق احمد مرزا۔ آسٹریلیا)
٭…٭…٭