بنیادی مسائل کے جوابات (نمبر 3)
(امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے پوچھے جانےوالے بنیادی مسائل پر مبنی سوالات کے بصیرت افروزجوابات)
[سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف وقتوں میں اپنے مکتوبات اور ایم ٹی اے کے مختلف پروگراموں میں بنیادی مسائل کے بارہ میں جو ارشادات مبارکہ فرماتے ہیں، ان میں سے کچھ افادۂ عام کےلیےالفضل انٹرنیشنل میں شائع کیے جا رہے ہیں۔ ]
٭…اس حدیث کی وضاحت کہ ’’ آنحضورﷺ نے حضرت قتادہ بن نعمان کو ایک چھڑی عطافرما کر ارشاد فرمایا تھا کہ اس سے اپنے گھر میں موجود جن کو مار کر بھگا دینا‘‘
٭…کاروباروں میں مختلف قسم کے مفادات کے حصول نیز حادثاتی نقصانات سے بچنے کےلیے انشورنس کروانے کے بارے میں اسلامی حکم کا بیان
٭…کتب احادیث میں مذکور والد کی اپنی اولاد کے حق میں دعا اور اولاد کے خلاف بد دعا دونوں کے قبول ہونےکے متعلق
مختلف روایات میں سے کون سی روایات اور ان کے ترجمہ کو اختیار کیا جائے؟
٭…ہمیں اللہ تعالیٰ کیوں نظر نہیں آتا؟
٭…واقفاتِ نو لجنہ کی جب شادی ہوتی ہے اور ہمارے اوپر گھر کی، فیملی کی اور بچوں کی ذمہ داری آتی ہے تو اس وقت ہم اپنے وقف نو ہونے کا Roleصحیح طریقہ سے کیسے ادا کر سکتی ہیں ؟
٭…لوگ اسلام اور Terrorismکو کیوں ملاتے ہیں ؟
سوال:۔ ایک خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بیان فرمودہ ایک واقعہ کہ’’ آنحضورﷺ نے حضرت قتادہ بن نعمان کو ایک چھڑی عطافرما کر ارشاد فرمایا تھا کہ اس سے اپنے گھر میں موجود جن کو مار کر بھگا دینا‘‘ کے بارے میں ایک خاتون نے حضور انور کی خدمت اقدس میں اس واقعہ کی مزید وضاحت کی درخواست کی۔ جس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 29؍ اگست 2019ء میں اس واقعہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:۔ حضورﷺ کی یہ حدیث اور ایسی دوسری احادیث جن میں حضورﷺ یا آپ کے صحابہ کےلیےروشنی کے نمودار ہونے کے واقعات کا ذکر ہے، دراصل حضورﷺ کے معجزات پر مشتمل ہیں۔ اور اس قسم کے معجزات اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے انبیاء کی صداقت کےلیے دکھاتا رہا ہے۔ چنانچہ آنحضورﷺ سے پہلے کے انبیاء کی زندگیوں میں بھی ایسے واقعات ملتے ہیں اور حضورﷺ کے غلام صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کےلیے بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے کئی واقعات کو ظاہر فرمایا۔
جہاں تک اس حدیث میں جن یا شیطان کو چھڑی سے مارنے کا تعلق ہے تو اس سے یہ استدلال کرنا کہ جن انسانوں کے جسم میں گھس جاتے ہیں اور انہیں اس طرح مارنے سے انسانوں کے جسموں سے نکالا جا سکتا ہے، بالکل لغو بات ہے۔
اس حدیث میں جن سے مراد کوئی چور یا نقصان پہنچانے والا کوئی جانور مراد ہے جو رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر حضرت قتادہ بن نعمان کے گھر گھس گیا تھا۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کو غیر معمولی طور پر علم غیب سے نوازتا ہے، اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو پہلے سے خبر دے دی تھی کہ حضرت قتادہ بن نعمان کے گھر کوئی چور یا نقصان دینے والا جانور چھپا ہوا ہے، اس لیے حضورﷺ نے حضرت قتادہ بن نعمان کو اس خطرہ سے آگاہ فرماتے ہوئے انہیں نصیحت کی کہ جب وہ گھر پہنچیں تو اس چھڑی کے ساتھ اس چور یا اس جانور کو مار کر بھگا دیں۔ چنانچہ بعض دوسری کتب میں اس واقعہ کی تشریح میں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ جب حضرت قتادہ بن نعمانؓ گھر پہنچے تو ان کے گھر والے سب سوئے ہوئے تھے اور گھر کے ایک کونہ میں ایک سیہہچھپا ہوا تھاجسے انہوں نے اس چھڑی سے مار کر بھگا دیا۔
سوال:۔ ایک دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں استفسار کیا کہ کاروباروں میں مختلف قسم کے مفادات کے حصول نیز حادثاتی نقصانات سے بچنے کےلیے انشورنس کروانے کے بارے میں اسلامی حکم کیا ہے؟ اس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 11؍اپریل 2016ء میں جو جواب عطا فرمایا، اسے ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
جواب:۔ انشورنس صرف وہ جائز ہے جس پر ملنے والی رقم نفع و نقصان میں شرکت کی شرط کے ساتھ ہواور اس میں جوئے کی صورت نہ پائی جاتی ہو۔ اگر صرف نفع کی شراکت کی شرط کے ساتھ ملے تو سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
اسی طرح اگر پالیسی ہولڈرکمپنی کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے کہ وہ صرف اپنی جمع شدہ رقم وصول کرے گا اور اس پر سود نہ لے گا تو ایسی انشورنس کروانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
حضرت مسیح موعو د علیہ السلام نے انشورنس اور بیمہ کے سوال پر فرمایا :
’’سود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے۔ قمار بازی میں ذمہ داری نہیں ہوتی۔ دنیا کے کاروبار میں ذمہ داری کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(اخبار بدر نمبر 10 جلد 2 مؤرخہ27؍مارچ 1903ء صفحہ 76)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا :
’’اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدے اور نقصان میں شامل ہو گا تو پھر بیمہ کرانا جائز ہو سکتا ہے۔ ‘‘
(الفضل7؍جنوری1930ء)
’’ایک خط کے جواب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لکھایاکہ یہ بات درست نہیں کہ ہم انشورنس کو سود کی ملونی کی وجہ سے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ کم از کم میں تو اسے اس وجہ سےناجائز قرار نہیں دیتا۔ اس کے ناجائز ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ انشورنس کے کاروبارکی بنیاد سود پر ہے۔ اور کسی چیز کی بنیاد سو د پر ہونا اور کسی چیز میں ملونی سود کی ہونا ان میں بہت بڑا فرق ہے۔ گورنمنٹ کے قانون کے مطابق کوئی انشورنس کمپنی ملک میں جاری نہیں ہو سکتی جب تک ایک لاکھ کی سیکوریٹیز گورنمنٹ نہ خریدے۔ پس اس جگہ آمیزش کا سوال نہیں بلکہ لزوم کا سوال ہے۔
۲۔ دوسرے انشورنس کا اصول سود ہے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ کے مطابق اسلامی اصول یہ ہے کہ جو کوئی رقم کسی کو دیتا ہے یا وہ ہدیہ ہے یا امانت ہے یا شراکت ہے یا قرض ہے۔ ہدیہ یہ ہے نہیں۔ امانت بھی نہیں، کیونکہ امانت میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی۔ یہ شراکت بھی نہیں، کیونکہ کمپنی کے نفع ونقصان کی ذمہ داری اور اس کے چلانے کے اختیار میں پالیسی ہولڈر شریک نہیں۔ ہم اسے قرض ہی قرار دے سکتے ہیں اور حقیقتاً یہ ہوتا بھی قرض ہی ہے۔ کیونکہ اس روپیہ کو انشورنس والے اپنے ارادہ اور تصرف سے کام پر لگاتے ہیں اور انشورنس کے کام میں گھاٹا ہونے کی صورت میں روپیہ دینے والے پر کوئی ذمہ واری نہیں ڈالتے۔ پس یہ قرض ہے اور جس قرض کے بدلہ میں کسی قبل از وقت سمجھوتہ کے ماتحت کوئی نفع حاصل ہو اسے شریعت اسلامیہ کی رو سے سود کہا جا تا ہے۔ پس انشورنس کا اصول ہی سود پر مبنی ہے۔
۳۔ تیسرے انشورنس کا اصول ان تمام اصولوں کو جن پر اسلام سوسائٹی کی بنیاد رکھنا چاہتا ہے باطل کرتا ہے۔ انشورنس کو کلی طور پر رائج کر دینے کے بعد تعاون باہمی، ہمدردی اور اخوت کا مادہ دنیا سے مفقود ہو جاتا ہے۔ ‘‘
(اخبار الفضل قادیان مؤرخہ 18؍ستمبر1934ءصفحہ5)
بعض ملکوں میں حکومتی قانون کے تحت انشورنس کروانا لازمی امر ہوتا ہے۔ ایسی انشورنس کروانا جائز ہے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ سے ایک دوست نے25؍جون 1942ء کو سوال کیا کہ یو۔ پی گورنمنٹ نے حکم دیا ہے کہ ہر شخص جس کے پاس کوئی موٹر ہے وہ اس کا بیمہ کرائے کیا یہ جائز ہے؟حضور نے فرمایا :
’’اس کے متعلق بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ حکم صرف یوپی گورنمنٹ کا ہی نہیں بلکہ پنجاب میں بھی گورنمنٹ کا یہی حکم ہے۔ یہ بیمہ چونکہ قانون کے ماتحت کیا جاتا ہے اور حکومت کی طرف سے اسے جبری قرار دیا گیاہے اس لئے اپنے کسی ذاتی فائدہ کے لئے نہیں بلکہ حکومت کی اطاعت کی وجہ سے یہ بیمہ جائز ہے۔ ‘‘
(الفضل 4؍نومبر 1961ء فرمودہ 25؍جون 1942ء)
انشورنس کے متعلق مجلس افتاء نے درج ذیل سفارش حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی خدمت اقدس میں پیش کی جسے حضور انورنے 23؍جون 1980ء کو منظور فرمایا:
’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ کے مطابق جب تک معاہدات سود اور قمار بازی سے پاک نہ ہوں بیمہ کمپنیوں سے کسی قسم کا بیمہ کرواناجائز نہیں ہے۔ یہ فتاوی مستقل نوعیت کے اور غیر مبدل ہیں البتہ وقتاً فوقتاً اس امر کی چھان بین ہوسکتی ہے کہ بیمہ کمپنیاں اپنے بدلتے ہوئے قوانین اور طریق کار کے نتیجہ میں قمار بازی اور سود کے عناصر سے کس حد تک مبراہو چکی ہیں۔
مجلس افتاء نے اس پہلو سے بیمہ کمپنیوں کے موجودہ طریق کار پر نظر کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اگرچہ رائج الوقت عالمی مالیاتی نظام کی وجہ سے کسی کمپنی کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے کاروبار میں کلیۃًسود سے دامن بچا سکے لیکن اب کمپنی اور پالیسی ہولڈر کے درمیا ن ایسا معاہدہ ہونا ممکن ہے جو سود اور قمار بازی کے عناصر سے پاک ہو۔ اس لئے اس شرط کے ساتھ بیمہ کروانے میں حرج نہیں کہ بیمہ کروانے والا کمپنی سے اپنی جمع شدہ رقم پر کوئی سود وصول نہ کرے۔ ‘‘
(رجسٹر فیصلہ جات مجلس افتاء صفحہ60غیر مطبوعہ)
سوال:۔ نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ ربوہ نے کتب احادیث میں مروی والد کی اپنی اولاد کے حق میں دعا اور اولاد کے خلاف بد دعا دونوں کے قبول ہونےکے متعلق روایات اور ان کے عربی الفاظ کی مختلف لغات سے تشریح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے رہ نمائی چاہی کہ ان میں سے کونسی روایت اورکس ترجمہ کو اختیار کیا جائے؟حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 25؍فروری 2015ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:۔
جواب:۔ اگر’’والد کی اپنی اولاد کےلیے دعا‘‘ ترجمہ کر دیا جائے تو حدیث کا ترجمہ واضح ہو جاتا ہے۔ لیکن کتب احادیث میں مروی دونوں قسم کی احادیث اپنی اپنی جگہ پر درست اور ہماری رہ نمائی کررہی ہیں۔ دونوں احادیث کو سامنے رکھیں تو مضمون یہ بنے گا کہ جس شخص کی دعا قبولیت کا درجہ رکھتی ہے اس کی بد دعا بھی قبول ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ دعا تو قبول کروں گا اور بد دعا قبول نہیں کروں گا۔
والد کو اللہ تعالیٰ نے جو مقام عطا فرمایا ہےاس لحاظ سےاللہ تعالیٰ اس کی دعائیں بھی قبول کرتا ہےاور بد دعا بھی سنتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں والدین کے متعلق خاص طور پر فرمایا ہے کہ
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًاؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا۔وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا۔(بنی اسرائیل:24-25)
یعنی تیرے رب نے (اس بات کا) تا کیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور (نیز یہ کہ اپنے) ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔ اگر ان میں سے کسی ایک پر یا ان دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آجائےتو انہیں (ان کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے) اُف تک نہ کہہ اور نہ انہیں جھڑک اور ان سے (ہمیشہ) نرمی سے بات کر۔ اور رحم کے جذبہ کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور (ان کے لئے دعا کرتے وقت) کہا کر (کہ اے) میرے رب! ان پر مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی۔
پس ان احادیث میں حضورﷺ نے ہمیں نصیحت فرمائی کہ والد کی دعاؤں سے فائدہ اٹھاؤ اور اس کی بد دعا سے بچو۔
سوال:۔ گلشن وقف نو لجنہ و ناصرات میلبرن آسٹریلیا مؤرخہ 12؍اکتوبر 2013ء میں ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کیوں نظر نہیں آتا؟اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔
جواب:۔ اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی ہے جونظر نہیں آسکتی۔ (حضور انور نے سوال کرنے والی بچی کو مخاطب کرتے ہوئے چھت پر لگے بلب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) تمہیں یہ بلب نظر آ رہا ہے ناں ؟ اور بلب کی روشنی (حضور انور نے اپنے سامنے پڑے میز کی طرف اشارہ کر کے فرمایا) یہاں پڑ رہی نظر آ رہی ہے۔ یہ کس طرح چل کے آرہی ہے؟یہ روشنی تمہیں وہاں سے یہاں تک آتے ہوئے چلتی ہوئی نظر آ رہی ہے؟(حضور انور نے دوبارہ بچی سے پوچھا)وہ بلب کی روشنی ہے، وہ تو چمک رہا ہے اور یہاں (میز پر) روشنی پڑ گئی۔ لیکن جو بیچ کا فاصلہ ہے اس میں بھی تو کوئی چیز نظر آنی چاہیے۔ جو وہاں سے چلی، یہاں پہنچی۔ درمیان میں نظر آ رہی ہے؟ (بچی نے عرض کیا کہ نظر نہیں آرہی۔ تو حضور نے فرمایا) نہیں نظر آ رہی ناں؟ تو اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ روشن ہے اور اس کی روشنی ایسی روشنی ہے جو نظر نہیں آتی۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی قدرتیں نظر آتی ہیں۔ تم دعا کرو تو تمہاری دعا کبھی قبول ہوئی ہے؟تم نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا کی ہے؟وہ پوری ہوئی؟(بچی نے عرض کی کہ جی پوری ہوئی۔ حضور نے فرمایا)بس یہی اللہ تعالیٰ کا نظر آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جو زمین ہے، Planet ہے، Universeہے، پھر یہاں جو ساری Creationہے، پودے ہیں، Vegetationہے۔ آسٹریلیا تو Flora & Faunaکی بڑی مشہور جگہ کہلاتی ہے۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ ہر چیز میں دیکھو۔ ایک Plant یہاں نکلتا ہے۔ ویسے کہتے ہیں کہ Plant کے اگر پتے نہ ہوں تو جو Chlorophyll ہے، اس کے ساتھ Plantکی زندگی بنتی ہے۔ اور پتے جو ہیں اس میں اپنا Role Playکر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں میں نے ایسے Plantsبھی دیکھے ہیں جو صرف ایک Stick ہے اور وہ Stem جو ہے وہی پتوں کا بھی Role ادا کر رہا ہے اور اس کے Topکے اوپر ایک خوبصورت سا بڑا Colourful قسم کا پھول لگا ہوا ہے۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔ ہر چیز جو اللہ تعالیٰ نےبنائی ہے، اسے دیکھو اور اس پر غور کرو تو وہیں اللہ تعالیٰ نظر آتا ہے۔
سوال:۔ گلشن وقف نو لجنہ و ناصرات میلبرن آسٹریلیا مؤرخہ 12؍اکتوبر 2013ء میں ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے حضور انور سے دریافت کیا کہ واقفات نو لجنہ کی جب شادی ہوتی ہے اور ہمارے اوپر گھر کی، فیملی کی اور بچوں کی ذمہ داری آتی ہے تو اس وقت ہم اپنے وقف نو ہونے کا Roleصحیح طریقہ سے کیسے ادا کر سکتی ہیں ؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا جواب درج ذیل الفاظ میں عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:۔
جواب:۔ وقف نو ہونے کا Roleصحیح طریقہ سے ادا کرنے کےلیے پہلے توجو پانچ نمازیں فرض ہیں ان کو اچھی طرح پڑھو۔ اگر تہجد پڑھ سکتی ہو تو وہ پڑھو۔ قرآن شریف پڑھو اور اس کا ترجمہ پڑھو۔ اگر لجنہ کا کوئی کام تمہارے سپرد ہوتا ہے تو وہ جس حد تک ہوتا ہے وہ کرو۔ پھر سب سے بڑی ذمہ واری یہ ہے کہ جو بچے ہیں ان کی ایسی تربیت کرو کہ ان کا اللہ سے تعلق پیدا ہو جائے۔ خاوند کو یہ Realiseکرواؤ کہ میں وقف نو ہوں اور میرا کام یہ ہے کہ اپنی بھی تربیت کرنا اور اپنے گھر کی بھی تربیت کرنا، اپنے بچوں کی تربیت کرنا۔ اس لیے تم بھی اس میں میرا ساتھ دو۔ کیونکہ اگر باپ اپنا Role Play نہ کر رہا ہو تو پھر بچوں کی تربیت صحیح نہیں ہوتی۔ تو سب سے بڑی ذمہ داری گھر کی ہے۔ اور تم لوگوں کےلیے یہی بڑا ثواب ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک عورت آنحضرتﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ ہمارے جو خاوند ہیں جہاد پر بھی جاتے ہیں اور کماتے ہیں اور چندے بھی دیتے ہیں اور مرد باہر بہت سارے ایسے کام کرتے ہیں جو ہم عورتیں گھروں میں نہیں کر سکتیں۔ تو ہمیں جو جہاد کا اور چندے دینے کا یہ ثواب ہے، یہ سارا ہمیں بھی ملے گا؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ہاں کیونکہ تم ان کے گھر کی اچھی طرح نگرانی کرتی ہو، ان کے بچوں کی تربیت کرتی ہو، ان کے پیچھے ان کے گھروں کو Look after کرتی ہو۔ اور پھر جو اس وجہ سے نیک نسل پیدا ہو رہی ہے، تمہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا۔ اور پھر یہ بھی برداشت کرتی ہو کہ اپنے خاوندوں کو بھیجتی ہو کہ جاؤ دینی خدمت کرو۔ اگر تمہارا خاوند دنیا کی خدمت بھی کر رہا ہے، دین کی نہیں بھی کر رہا تو یہ بھی حدیث میں ہے کہ عورت جو ہے وہ اپنے گھر کی نگران ہے۔ تو وقف نو کی جو ذمہ داری ہے وہ یہ ہے کہ اپنی نئی نسل کو احمدیت پہ قائم کرو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق جوڑو۔
سوال:۔ گلشن وقف نو لجنہ و ناصرات سڈنی آسٹریلیا مؤرخہ 07؍اکتوبر 2013ء میں ایک بچی نے حضو انور سے دریافت کیا کہ لوگ اسلام اور Terrorismکو کیوں ملاتے ہیں ؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:۔
جواب:۔ اس لیے کہ آجکل جتنے Terroristگروپ ہیں القاعدہ، طالبان، بوکو حرام اور دوسرے یہاں جو نئے نئے روزانہ نکل رہے ہیں ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ تو لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلام اور Terrorismایک ہی چیز ہے۔ اسی غلط فہمی کو ہم نے Removeکرنا ہے۔ اسی لیے یہاں بک سٹال پرایک کتابPathway to Peace پڑی ہوئی ہے۔ میرے مختلف لیکچرز ہیں، جو میں مختلف لوگوں کو جا کر دیتا رہتا ہوں کہ اسلام اور Terrorismکو نہ ملاؤ۔ یہ مختلف چیزیں ہیں۔ وہ ان کے Vested Interest ہیں جن کو وہ کر رہے ہیں۔ وہ کتاب خریدو (حضور نے اس کتاب کی قیمت کے بارہ میں ضمناً فرمایا کہ ویسے یہاں مہنگی بیچ رہے ہیں، ان کو دو ڈالر میں بیچنی چاہیے، پانچ ڈالر میں سنا ہے بیچ رہے ہیں، واقف نوکو تو بہرحال دو ڈالر میں دینی چاہیے) تو وہ خریدو اور پڑھو۔ اس میں تمہیں میرے سارے لکھے ہوئے مختلف جواب مل جائیں گے کہ یہ تصور غلط ہے۔ اسلام تو بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ اسلام نے تو جنگوں میں کبھی پہل کی نہیں۔ نہ کبھی Terrorismکیا ہے۔ جب مکہ بھی فتح ہوا تو آنحضرتﷺ نے سب کو معاف کر دیا۔ اپنے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا۔ قرآن کریم نے ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی کو بلا وجہ قتل نہ کرو۔ اگر ایک کو قتل کرو گے تو اس کا مطلب ہے کہ تم نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا۔ اور یہ مسلمان جو ہیں وہ کس کو مار رہے ہیں ؟ عیسائیوں کو تو نہیں مارتے زیادہ۔ زیادہ تر تو مسلمان مسلمانوں کو مار رہے ہیں، پاکستان میں روز جو حملے ہوتے ہیں یا عراق میں شیعوں کو مارتے ہیں یا شیعہ سنیوں کو ماردیتے ہیں۔ یا جوہر جگہ Suicide Bombing ہو رہی ہے، وہ مسلمان ہی مر رہے ہیں۔ چرچ پر تو اب حملہ ہوا ہے جس میں سو دو سو عیسائی چرچ میں مر گئے۔ لیکن باقی تو مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔ ہم احمدیوں کو مارتے ہیں۔ یا باقی جگہ جو بم پھٹتے رہتے ہیں۔ تویہ سب Terroristہیں، خود ہی ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ جس کی کہیں بھی اجازت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نےتو قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے پر بہت زیادہ رحم کرو۔ اور یہ مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔ اور ایک مسلمان کو بلا وجہ مارنا جو ہے، اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ جہنم میں ڈالوں گا۔ تو یہ سارے جہنمی بننے جانے جا رہے ہیں۔ پس اسلام کا اورTerrorismکا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ اسی لفظ سے دیکھ لو، اسلام کا مطلب Peace ہے۔ تم لوگ اگر ایم ٹی اے سنتے ہو اورکم از کم واقفین نو کو تو ضرور سننا چاہیے۔ یوکے کے جلسہ کی جو میری آخری تقریر تھی وہ یہی تھی کہ اسلام کیا چیز ہے اور مسلمان کیا چیز ہے۔ اور پھر یہ کتاب لےکر پڑھو، یہ تو انگلش میں ہے، تم پڑھ لو گی۔
(مرتبہ: ظہیر احمد خان۔ شعبہ ریکارڈد فترپرائیویٹ سیکرٹری لندن)
٭…٭…٭