اپنی بچیوں کو شادی سے پہلے کی اہم نصائح
حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ اپنی بیٹیوں اور خاندان کی بچیوں کو شادی سے پہلے نصیحتیں فرماتیں۔اور یوں بھی روز مرہ ان کے کانوں میں تربیتی باتیں ڈالتی رہتیں اور یہی باتیں کامیاب شادی کے لیے سنہرے اصول ہیں اور قرآن و حدیث کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ بہترین رفیقہ حیات وہ ہے جس کی طرف دیکھنے سے اس کے شوہر کی طبیعت خوش ہو۔ میاں جس کام کو کر نے کے لیے کہے اسے بجا لائے اور جس بات کو اس کا خاوند پسند نہ کرے اس سے بچے۔‘‘
(نسائی بیہقی فی شعب الایمان مشکوٰۃ بحوالہ حدیقۃ الصالحین مرتبہ حضرت ملک سیف الرحمٰن صاحب صفحہ 90)
کاش احمدی مائیں اپنی بچیوں کو یہ نصائح گھول کر پلادیں تو تمام گھر جنت نظیر بن جائیں۔مکرمہ آصفہ مسعود بیگم صاحبہ (بے بی) نے انٹرویو میں بتایا اور درج ذیل باتیں لکھ کر بھی دیں۔
٭…بچیوں کو بچپن سے یہ دعا کرنی سکھائی کہ اللہ میاں میرا نصیب اچھا کردے۔
٭…حضرت اماں جان ؓ کو ان کی امی جان اور ان کی والدہ نے ہمیشہ یہ نصیحت کی کہ شادی کے بعد پہلے بیوی، میاں کی لونڈی بنتی ہے تو پھر میاں، بیوی کا غلام بنتا ہے۔ حضرت اماں جان ؓنے یہ نصیحت میری والدہ کو کی اور میری والدہ نے اپنی بیٹیوں کو کی اور یہ سلسلہ چل رہا ہے۔
(کتنی حکمت اور عقل کی بات ہے کہ بیوی، پہلے میاں کی فرمانبردار اور مطیع بنے گی تو میاں کا دل جیتے گی،پھر میاں، بیوی سے محبت اور پیار کرے گا )
٭…پھر آپ ایک اصولی بات بتاتیں کہ میاں بیوی کی پرائیویٹ باتیں کبھی کسی سے نہ کرو۔عورتیں اپنی سہیلیوں سے اور مرد اپنے دوستوں سے ایسی باتیں کرتے اور اپنی شیخی بگھارتے ہیں جو نہایت بری اور نامناسب ہیں۔
٭…خاوندکو خوش رکھنا ہر لحاظ سے عورت پر فرض ہے۔
٭…میاں جب باہر سے آئے تو تیار رہو۔ جب باہر جائے تب بھی تمہارا حلیہ درست ہو تاکہ جب وہ تمہارا تصور کرے تو خوشکن ہو نہ کہ بال پھیلائے ایک بد بو دار عورت کا۔
٭…غصےکے وقت میاں سے زبان نہ چلاؤ۔ بعد میں غصہ ٹھنڈا ہونے پر اس کی زیادتی پر آرام سے شرمندہ کرو۔
٭…باہرسے آنے پر کبھی لڑائی نہ کرو۔خواہ تمہیں کتنا ہی غصہ ہو۔ہر لحاظ سے آرام پہنچا کر بیشک بھڑاس نکالو۔
٭…میاں بیوی جب کمرے میں ہوں تو کبھی کسی بات پر چیخ نہ مارو سننے والے کچھ کا کچھ سوچیں گے۔
٭…میاں بیوی کے رشتے میں جھوٹی انا نہیں ہونی چاہیے۔ اگر اپنی غلطی ہے تو بیوی، میاں کو منالے اس میں کوئی بےعزتی نہیں ہے۔
٭…لڑ کر کبھی گھر سے جانے کی دھمکی نہیں دو۔ اگر مرد غصہ میں آکر کہہ دے اچھا جاؤ، چلی جاؤ تو کتنی بے عزتی ہے۔ اور میکہ جا کر بیٹھنا تو اس وقت ہی ہے جب خدانخواستہ واقعی نہ جانا ہو۔ ورنہ ایسی بات قدر کی بجائے بے عزتی کرواتی ہے۔
٭…حضرت اماں جان ؓ نے امی جان کو نصیحت کی تھی کہ کوئی کام میاں سے چھپ کر نہ کرنا جو بات چھپانے کو جی چاہے وہ ہر گز نہ کرنا۔اگر میاں کو پتہ چل جائے تو ساری عمر کے لیے بےاعتباری ہو جائے گی اور بے عزتی الگ۔
٭…آپ فرماتیں کہ میکہ کی بات سسرال، اور سسرال کی بات میکہ میں نہ کرنا تمہارے دل سے تو وہ بات مِٹ جائے گی لیکن بڑوں کے دل میں گرہ پڑ جائے گی۔ (کتنی سنہری باتیں بتائیں آج کل شادی کے بعد لڑکیاں میکے کی بڑائیاں اور عیش و آرام بڑھا چڑھا کر سسرال میں بیان کرتی ہیں اور سسرال کی برائیاں اور نقص میکے میں بیان کرتی ہیں لہٰذا جلدی ہی لڑائیاں جھگڑے خاندانوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔)
٭…امی جان خود بھی نہیں پوچھتی تھیں کہ سسرال میں فلاں کا تمہارے ساتھ کیا سلوک ہے۔ ہاں اگر کسی کے چہرے پر کوئی فکر پریشانی بھانپ لیتیں تو اظہار پھر بھی نہیں کرتی تھیں۔ ہاں دعاؤں پر زور دیتی تھیں۔
٭…اگر ہم میاں بیوی میں کوئی چھوٹی موٹی نوک جھونک امی جان کے سامنے ہو جاتی تو امی جان فوراً اپنے داماد کا ساتھ دیتی تھیں اور مجھے نصیحت کرتیں اور اس میں بھی حکمت تھی کہ اپنی بچی تو اپنی ہے داماد کا دل میلا نہ ہو۔
٭…ہم نے امی سے اگر کبھی کسی کی شکایت بھی کی تو امی ایسی بن گئیں کہ گویا سنا ہی نہیں یا ظاہر کرتیں کہ مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ مجھے بعض اوقات غصہ بھی بہت آتا تھا کہ آخر کس سے بات کریں۔کس سے بھڑاس نکالیں۔مگر اب سمجھ میں آتا ہے جب میں اپنے بچوں سے یہ ہی حرکت کرتی ہوں۔ویسے خدا کے فضل سے میرے بچے خود کسی کی شکایت کرنے کے عادی نہیں۔ (ذاتی تحریر)
(سیرت وسوانح حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ، لجنہ اماء اللہ بھارت، صفحہ 253۔255)