ایک ہی وقت میں دی جانے والی تین طلاقوں کا اطلاق
سوال: ایک دوست نے ایک وقت میں دی جانے والی تین طلاقوں، غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق اور طلاق کےلیے گواہی کے مسائل کی بابت بعض استفسار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں عرض کیے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ یکم جون 2019ءمیں ان سوالات کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:
جواب:جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پورے ہوش و حواس سے طلاق دے تو طلاق خواہ زبانی ہو یا تحریری، ہر دو صورت میں مؤثر ہو گی۔ البتہ ایک نشست میں تین مرتبہ دی جانے والی طلاق صرف ایک ہی طلاق شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ کتب احادیث میں حضرت رکانہؓ بن عبد یزید کا واقعہ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو ایک وقت میں تین طلاقیں دےدیں۔ جس کا انہیں بعد میں افسوس ہوا۔ جب یہ معاملہ آنحضرتﷺ کے پاس پہنچا تو آپؐ نے فرمایا کہ اس طرح ایک طلاق واقع ہوتی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کرسکتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے اپنی طلاق سے رجوع کر لیا اور پھر اس بیوی کو حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں دوسری اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں تیسری طلاق دی۔
(سنن ابی داؤد کتاب الطلاق باب فِي الْبَتَّةِ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں :
’’طلاق ایک وقت میں کامل نہیں ہو سکتی۔ طلاق میں تین طہر ہونے ضروری ہیں۔ فقہاء نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دےدینی جائز رکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کر سکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کر سکتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ17۔ مطبوعہ 2016ء)
اسی طرح جب کوئی شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے تو اس کی کسی ناقابل برداشت اور فضول حرکت پر ناراض ہو کر یہ قدم اٹھاتا ہے۔ بیوی سے خوش ہو کر تو کوئی انسان اپنی بیوی کو طلاق نہیں دیتا۔ اس لیے ایسے غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی مؤثر ہو گی۔ البتہ اگر کوئی انسان ایسے طیش میں تھا کہ اس پر جنون کی کیفیت طاری تھی اور اس نے نتائج پر غور کیے بغیر جلد بازی میں اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس جنون کی کیفیت کے ختم ہونے پر نادم ہوا اور اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو اسی قسم کی کیفیت کےلیے قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ
لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا کَسَبَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ۔ (سورۃالبقرۃ:226)
یعنی اللہ تمہاری قسموں میں (سے) لغو (قسموں ) پر تم سے مؤاخذہ نہیں کرے گا۔ ہاں جو (گناہ) تمہارے دلوں نے (بالارادہ) کمایا اس پر تم سے مؤاخذہ کرے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بردبار ہے۔
جہاں تک طلاق کےلیے گواہی کا مسئلہ ہے تو یہ اس لیے ہے کہ تنازعہ کی صورت میں فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔ لیکن اگر میاں بیوی طلاق کےاجرا پر متفق ہوں اور ان میں کوئی اختلاف نہ ہو تو پھر گواہی کے بغیر بھی ایسی طلاق مؤثر شمار ہو گی۔ پس طلاق کےلیے گواہی کا ہونا مستحب ہے لازمی نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم نے طلاق اور رجوع کے سلسلہ میں جہاں گواہی کا ذکر کیا ہے وہاں اسے نصیحت قرار دیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّ اَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِؕ ذٰلِکُمۡ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔(سورۃ الطلاق:3)
یعنی پھر جب عورتیں عدت کی آخری حد کو پہنچ جائیں تو انہیں مناسب طریق پر روک لو یا انہیں مناسب طریق پر فارغ کردو۔ اور اپنے میں سے دو منصف گواہ مقرر کرو۔ اور خدا کےلئے سچی گواہی دو۔ تم میں سے جو کوئی اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتا ہے اس کو یہ نصیحت کی جاتی ہے اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا اللہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال دے گا۔
چنانچہ فقہاء اربعہ بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص بغیر گواہوں کے طلاق دےدے یا رجوع کر لے تو اس کی طلاق یا رجوع پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔