نیک اعمال کے لئے صحبت ِصادقین کی ضرورت ہے
خد اکے فضل کے سوا تبدیلی نہیں ہوتی۔ اعمالِ نیک کے واسطے صحبت ِصادقین کا نصیب ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ خدا کی سنت ہے ورنہ اگر چاہتا تو آسمان سے قرآن یو نہی بھیج دیتا اور کوئی رسول نہ آتا۔ مگر انسان کو عمل در آمد کے لئے نمونہ کی ضرورت ہے۔ پس اگر وہ نمونہ نہ بھیجتا رہتا تو حق مشتبہ ہو جاتا۔
مقام مسیح موعود
اب اس وقت علماء مخالف ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ تمہارے عقیدے وغیرہ سب خلافِ اسلام ہیں۔ اس میں میرا کیا گناہ ہے؟ مجھے تو خدا نے مامور کیا ہے اور بتلایا ہے کہ ان غلطیوں کو نکال دیا جاوے اور منہاجِ نبوت کو قائم کیا جاوے۔ اب لوگ میرے مقابل پر قصّہ کہانیاں پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ مجھے خود ہر ایک امر بذریعہ وحی والہام بتلایا جاتا ہے۔ ان کے کہنے سے میں اسے کیسے چھوڑ دوں؟ ان کا عقیدہ ہے کہ جب مسیح آوے گا تو جس قدر غلطیاں ہوں گی ان کو نکال دے گا۔ اگر اس نے سب کچھ انہیں کا قبول کرنا ہے اور اپنی طرف سے کچھ نہیں کہنا تو بتلائو کہ پھر اس کا کام کیا ہوگا؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں بھی یہی طریق ایسے لوگوں کا تھا کہ دور سے بیٹھے شور مچاتے اور پاس آکر نہ دیکھتے۔ ابو جہل نے مخالفت تو سالہاسال کی مگر پیغمبر خدا کی صحبت میں ایک دن بھی نہ بیٹھا حتی کہ مر گیا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ (بنیٓ اسـرآئیل:37)
اب ان سے پوچھا جاوے کہ بلا تحقیق کے کیوں فتوے لگاتے ہو؟
علامات ظہور مہدی ومسیح کا پورا ہونا
یہ خود کہتے تھے کہ صدی کے سر پر آنے والا ہے۔ پھر انہیں کی کتابوں میں لکھا ہوا تھا کہ کسوف و خسوف ہوگا، طاعون پڑے گی، حج بند ہوگا، ایک ستارہ جو مسیح کے وقت نکلا تھا نکل چکاہے، اونٹوں کی سواری بیکار ہو گئی ہے۔ اسی طرح سب علامتیں پوری ہو گئی ہیں۔ مگر ان لوگوں کا یہ کہنا کہ ابھی مسیح نہیں آیا یہ معنے رکھتا ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پیشگوئی پوری نہ ہو۔ یہ سب اندرونی نشان ہیں۔ اب بیرونی دیکھئے کہ صلیب کا غلبہ کس قدر ہے۔ نصاریٰ نے تردید اسلام میں کیا کیا کوششیں کی ہیں اور خود اندرونی طور پر تقویٰ، زہد، ریاضت میں فرق آگیا ہے۔ برائے نام مسلمان ہیں۔ جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں۔ خیانتیں کرتے ہیں۔ قرضہ لے کر دبا لیتے ہیں۔
اگر خدا کو یہ منظور ہوتا کہ اسلام ہلاک ہو جاوے اور اندرونی اور بیرونی بلائیں اسے کھا جائیں تو وہ کسی کو پیدا نہ کرتا۔ اس کا وعدہ
اِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الـحجر:10)
کا کہاں گیا؟ اوّل تو تاڑ تاڑ مجدد آئے مگر جب مسلمانوں کی حالت تنزل میں ہوئی۔ بد اطواری ترقی کرتی جاتی ہے۔ سعادت کا مادہ ان میں نہ رہا اور اسلام غرق ہونے لگا تو خدا نے ہاتھ اُٹھا لیا۔ جب کہو تو یہی جواب ہے کہ حدیثوں میں لکھا ہے کہ 30 دجّال آئیں گے۔ یہ بھی ایک دجّال ہے۔ او کمبختو ! تمہاری قسمت میں دجّال ہی لکھے ہیں۔ غرض کہ یہ باتیں غور کے قابل ہیں مگر دل کے کھولنے کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک وہ نہ کھولے دل میں اثر نہیں ہوتا۔ ابو جہل بھی تو چودہ برس تک باتیں سنتاہی رہا۔ یہی ہماری جماعت ہے اس کی کونسی عقل زیادہ ہے کہ انہوں نے حقیقت کو سمجھ لیا اور بعضوں نے نہ سمجھا۔ ایسے ہی دماغ اعضاء وغیرہ باقی سب مخالفوں کے ہیں مگر وہ اس حقیقت کو نہیں پہنچے۔ ان کے دلوں کو قفل لگے ہیں۔
(ملفوظات جلد 5صفحہ 165۔ 167۔ ایڈیشن 1984ء)