خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ مارچ 2021ء
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد ذوالنّورین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت زید بن ثابت انصاری نے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضرہوکر فرمایا کہ انصار دروازے پر حاضر ہیں اگر آپؓ پسند فرمائیں تو ہم دوسری مرتبہ اللہ کے انصار بننے کو تیار ہیں۔ حضرت عثمانؓ نےفرمایا نہیں! قتال ہرگز نہیں کرنا
چار مرحومین مولوی محمد ادریس تیرو صاحب مبلغِ سلسلہ آئیوری کوسٹ، مکرمہ امینہ نائیگا کارے صاحبہ اہلیہ محمد علی کارے صاحب امیرومشنری انچارج یوگنڈا، مکرم نوحی قزق صاحب آف سیریا اور مکرمہ فرحت نسیم صاحبہ ربوہ اہلیہ مکرم محمد ابراہیم صاحب حنیف کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ مارچ 2021ء بمطابق 12؍امان1400ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 12؍ مارچ 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم عطاء النور ہادی صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
حضرت عثمانؓ کا ذکر چل رہا ہے۔ آپؓ کی وفات سے تقریباً ایک برس پہلے جب فتنہ پردازوں نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا تب حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ حج سے واپسی پرحضرت امیرمعاویہ حضرت عثمانؓ کے ساتھ مدینہ آئے اور عرض کیا کہ آپ میرے ساتھ شام چلیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یکدم کسی قسم کا فساد اٹھے اور اس وقت کوئی انتظام نہ ہوسکے۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ مَیں رسول کریمﷺ کی ہمسائیگی نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر حضرت معاویہؓ نے کہا کہ مَیں شامی فوج کا ایک دستہ آپ کی حفاظت کے لیے بھیج دیتاہوں لیکن آپؓ نے فرمایا کہ مَیں عثمان کی جان کی حفاظت کے لیے بیت المال پر اس قدر بوجھ نہیں ڈال سکتا۔ حضرت معاویہ نے تیسری تجویز دی کہ صحابہ کی موجودگی میں لوگوں کو جرأت ہے کہ اگر عثمان نہ رہے تو ان میں سے کسی کو آگے کھڑا کردیں گے۔ ان لوگوں کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیں۔ حضرت عثمانؓ نے فرمایا یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریمﷺ نے جمع کیا ہے مَیں ان کو پراگندہ کردوں۔ اس پر امیر معاویہ رو پڑے اور عرض کی کہ اتنا تو کیجیے کہ اعلان کردیں کہ اگر میری جان کو کوئی نقصان پہنچا تو معاویہ کو میرے قصاص کا حق ہوگا۔ شاید لوگ خوف کھا کر شرارت سے باز رہیں۔ آپؓ نے فرمایا معاویہ! جو ہونا ہے ہوکر رہے گا مَیں ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ آپ کی طبیعت سخت ہے ایسا نہ ہو کہ آپ مسلمانوں پر سختی کریں۔ یہ سن کر معاویہ روتے ہوئے اٹھے اور کہا شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو۔
حضرت عثمانؓ نے محاصرین کو جھانک کر فرمایا کہ اے میری قوم! مجھے قتل نہ کرو کیونکہ مَیں حاکمِ وقت اور تمہارا مسلمان بھائی ہوں۔ یاد رکھو! اگر تم نے مجھے قتل کیا تو تم لوگ کبھی بھی اکٹھے نماز نہ پڑھ سکو گے اور نہ ہی کبھی اکٹھے جہاد کرسکو گے۔ جب محاصرین پر آپؓ کی تلقین کااثر نہ ہوا تو آپؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! تُو انہیں اچھی طرح گِن لے اور ان سب کو چُن چُن کر ہلاک کر۔ مجاہد کہتے ہیں کہ اس فتنے میں جس جس نے بھی حصّہ لیا اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کردیا۔
حضرت عثمانؓ نے عبداللہ بن سلام کو پیغام دے کر بلوایا انہوں نے حضرت عثمانؓ سے فتنے کے متعلق ان کی رائے پوچھی تو آپؓ نے فرمایا کہ لڑائی سے بچو یہ بات تمہارے حق میں بطور دلیل زیادہ مضبوط ہوگی۔ حضرت زید بن ثابت انصاریؓ نے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضرہوکر فرمایا کہ انصار دروازے پر حاضر ہیں اگر آپؓ پسند فرمائیں تو ہم دوسری مرتبہ اللہ کے انصار بننے کو تیار ہیں۔ حضرت عثمانؓ نےفرمایا نہیں! قتال ہرگز نہیں کرنا۔
حضرت عثمانؓ نےاپنے گھر کے دروازے پر حضرت عبداللہ بن زبیرکو نگران مقرر فرمایا ہوا تھا۔انہیں بھی آپؓ نے یہی نصیحت فرمائی کہ کوئی آدمی میری خاطر اپنا خون نہ بہائے۔ حضرت مصلح موعودؓ حضرت عثمانؓ کے واقعۂ شہادت اور اس سے قبل کے فتنے کے متعلق فرماتے ہیں کہ چونکہ باغیوں کو بظاہر غلبہ حاصل ہوچکا تھا چنانچہ انہوں نے آخری حیلے کے طور پر ایک شخص کوعثمانؓ کے پاس بھیجا کہ وہ خلافت سے دست بردار ہوجائیں۔آپؓ نے اسے صاف اور واضح انکار کردیا۔ اس نے واپس آکر نہایت گھبراہٹ سے اپنے لوگوں کو کہا کہ مسلمانوں کی گرفت سے عثمان کو قتل کرنے کے سوائے ہم بچ نہیں سکتے لیکن اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں ۔ جب فسادی حضرت عثمانؓ کے قتل کا منصوبہ بنا رہے تھے تو حضرت عبداللہ بن سلامؓ نے ان فتنہ پردازوں کواس ظلم سے باز رکھنے کے لیے بڑی پُردرد نصائح کرنے کے بعد فرمایا کہ یادرکھو! اس وقت مدینے کے محافظ ملائکہ ہیں اگر تم عثمان کو قتل کردو گے تو ملائکہ مدینےکو چھوڑ جائیں گے۔ان ظالموں نے اس نصیحت سے فائدہ اٹھانے کےبجائےآپ کو یہودن کا بیٹا ہونے کا طعنہ دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ان ظالموں کو یہ بھول گیا کہ انہیں ورغلانے والا ان کا لیڈر عبداللہ بن سبا بھی یہودن کا بیٹا بلکہ خود یہودی تھا اور صرف ظاہر میں اسلام کا اظہار کررہا تھا۔ جب فسادیوں نے دیکھاکہ حضرت عثمانؓ کے دروازے پر کچھ نہ کچھ لوگ موجود رہتے ہیں تو ان میں سے چند لوگ ایک ہمسائے کی دیوار پھاند کر آپؓ کے کمرے میں گھس گئے۔اس وقت حضرت عثمانؓ قرآن کریم پڑھ رہے تھے۔ سب سے پہلے محمد بن ابی بکر نے عثمانؓ کی داڑھی پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا۔ حضرت عثمانؓ نے اس پر اتنا فرمایا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ اس وقت ہوتا توتُو کبھی ایسا نہ کرتا۔ آپؓ کا اتنا فرمانا تھا کہ محمد بن ابی بکر شرمندہ ہوکر واپس لوٹ گئے۔ ایک دوسرےشخص نے لوہے کی سیخ حضرت عثمانؓ کے سر پر ماری پھر آپؓ کے سامنے جو قرآن کریم تھا اسے لات مار کر پھینک دیا۔ قرآن کریم لڑھک کرآپؓ کے پاس آگیا اور خون کے قطرات اس پرآگرے۔ جس آیت پر آپ کا خون گرا وہ ایک زبردست پیش گوئی
فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ
تھی یعنی اللہ تعالیٰ ضرور ان سے تیرا بدلہ لے گا۔ پھر سودان نامی شخص نے تلوار کا وار کیا جس سے آپؓ کا ہاتھ کٹ گیا۔ اس پر آپؓ نے فرمایا خدا کی قسم! یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن کریم لکھا تھا۔ جب اس نے دوسرا وار کیا تو آپؓ کی زوجہ نائلہ درمیان میں آگئیں ؛تلوار کا وار ہاتھوں پر روکنے سےان کی بھی انگلیاں کٹ گئیں ۔ تیسرے وار سے جب اس ظالم نے عثمانؓ کو بالکل نڈھال اور بےہوش کردیا توآپؓ کا گلا دبانے لگا یہاں تک کہ آپؓ کی روح جسم خاکی سے عالَمِ بالا کو پرواز کر گئی۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ کوئی نیک مدعا لےکر کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ ان میں سے بعض عبداللہ بن سبا یہودی کے فریب خوردہ عجیب و غریب اسلام مخالف تعلیموں کے دل دادہ تھے،کچھ حد سے بڑھی ہوئی سوشلزم بلکہ بالشویزم کے فریفتہ تھے۔ کچھ سزایافتہ مجرم ،لٹیرے اور ڈاکو تھے۔ جب حضرت عثمانؓ تڑپ رہے تھے تو قاتل ان کی بیوی کے جسم کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے تھے۔پھر اس سے بدتر انہوں نے کام کیا یعنی حضرت عائشہؓ کے متعلق باتیں کیں انہیں بےپردہ کیا اور دیکھ کر کہا تھا کہ یہ تو نَو جوان ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کاش مَیں اس وقت ہوتاتو ان لوگوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا۔ فرمایا : حضرت مسیح موعودؑ اسی رنگ میں آئے ہیں جس رنگ میں دوسرے انبیاء مبعوث ہوئے تھے اور آپؑ کے بعد اسی رنگ میں سلسلۂ خلافت شروع ہوا جس طرح پہلے انبیاء کےبعدخلافت کا سلسلہ قائم ہوا تھا۔ خلافت کا سلسلہ ایک عظیم الشان سلسلہ ہے۔ اگر دس ہزار نسلیں بھی اس کے قیام کےلیے قربان کردی جائیں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ جب مَیں حضرت عثمانؓ پرپڑنےوالی مصیبتوں پر نظر کرتا ہوں اور دوسری طرف اس نور اور روحانیت کو دیکھتا ہوں جو رسول کریمﷺ نے آکر ان میں پیدا کیا تو مَیں کہتا ہوں کہ اگردنیامیں میری دس ہزار نسلیں پیدا ہونے والی ہوتیں اور وہ ساری کی ساری ایک ساتھ قربان کردی جاتیں تا وہ فتنہ ٹل سکتا تو مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ جُوں دے کر ہاتھی خریدنے کا سودا ہے۔
حضرت عثمانؓ 17؍ یا 18؍ یا ایک دوسری روایت کے مطابق 12؍ ذوالحجہ 35؍ہجری کو جمعے کےدن بیاسی برس کی عمر میں شہید کیے گئے۔ ایک اَور روایت میں بوقتِ شہادت آپؓ کی عمر75سال بیان ہوئی ہے۔ شہادت کے وقت آپؓ روزے سے تھے۔ مفسدین اور باغیوں نے تین دن تک آپؓ کی تدفین نہیں ہونے دی بالآخر حضرت علیؓ کی مداخلت سے تدفین کی اجازت ملی۔ جب مفسدین نے یہ بات سنی تو وہ پتھر لے کر راستے میں بیٹھ گئے اور جب حضرت عثمانؓ کا جنازہ باہر آیا تو ان لوگوں نے آپؓ کی چارپائی پر پتھر مارے۔حضرت جبیربن مطعمؓ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور تدفین میں چار یا ایک اور روایت کےمطابق سولہ افراد نے شرکت کی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت عثمانؓ کا ابھی تھوڑا ساذکر رہ گیا ہے جو ان شاءاللہ آئندہ بیان ہوگا۔
خطبے کے آخر میں حضورِانور نے درج ذیل مرحومین کاذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔
1۔ مولوی محمد ادریس تیرو صاحب مبلغِ سلسلہ آئیوری کوسٹ جو 28،27 فروری کی درمیانی شب وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحوم نہایت دعاگو، عبادت گزار،سخی دل ،فدائی احمدی ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ماہر مبلغ ومناظر اور علمی شخصیت کے مالک تھے۔
2۔ مکرمہ امینہ نائیگا کارے صاحبہ اہلیہ محمد علی کارے صاحب امیرومشنری انچارج یوگنڈا جو 20؍ فروری کو وفات پاگئیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
مرحومہ بڑی بہادر، اخلاص ووفا رکھنے والی صوم وصلوٰة کی پابند اور دوسروں کے لیے نمونہ رکھنے والی شخصیت تھیں۔
3۔ مکرم نوحی قزق صاحب آف سیریا جو 10؍دسمبر کو اڑتالیس سال کی عمر میں وفات پاگئے تھے۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
4۔ مکرمہ فرحت نسیم صاحبہ ربوہ اہلیہ مکرم محمد ابراہیم صاحب حنیف ۔26؍ دسمبر کو 86سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
حضورِانورنےتمام مرحومین کی مغفرت اور بلندئ درجات کےلیے دعا کی۔