متفرق مضامین

تذکرہ امام الزمانؑ کی تصاویرِ مبارکہ کا

(’م م محمود‘)

رسولِ کریمﷺنےآنےوالےموعودمسیح کی متعدد علامات میں سےایک علامت ظاہری حلیہ کی صورت میں بھی بیان فرمائی تھی کہ اُس موعودمسیح کے بال لمبے اور رنگ گندمی ہوگا (بخاری کتاب اللباس باب الجعد)جبکہ پیشانی کشادہ اور ناک اونچی ہوگی۔ (ابو داؤد کتاب المہدی حدیث نمبر7) لہٰذا سیدنا و امامنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی اس ظاہری علامت کی شناخت کے مشیتِ ایزدی سے ایسے وسائل اورسامان پیداہوئے کہ آنحضرتﷺ کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے معیارِ صداقت کوخداتعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصاویرکے ذریعہ حق کے متلاشیوں کی خاطرقیامت تک محفوظ فرمادیا۔ فالحمدللہ تعالیٰ۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ تصویرکشی کی خاطر جدیدکیمرہ کی ایجادکے لیے امام الزمان حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے زمانہ کو ہی مقدرٹھہرایا بلکہ یہی وہ زمانہ تھاجس میں کیمرہ اورفوٹوگرافی کے فن نے نہایت سرعت کے ساتھ جدّت کے مراحل طے کیے۔ حضرت اقدس علیہ االصلوٰۃ والسلام کی پیدائش سے قریباً ایک دہائی قبل 1826ء میں فرانس کے جوزف نیپس (Joseph Nicéphore Niépce) نے دنیا کی پہلی تصویر کھینچی۔مختلف مراحل کو طے کرتے ہوئے 1839ء میں فرانس ہی کا لوئس ڈیگوؤر(Louis Jacques Mandé Daguerre)فوٹوگرافی میں جدت لےکرآیااورڈیگورو فوٹوگرافی کاعمل متعارف کروایا۔ فوٹوگرافی کی تاریخ میں 1888ءکاسال اس طورسے نہایت تاریخی اوراہمیت کا حامل سال کہلاتاہے کیونکہ اس سال پہلی مرتبہ ایک امریکی موجد جارج ایسٹ مین(George Eastman)نے عوام الناس کے عام استعمال کے لیے کوڈک نامی کیمرہ مارکیٹ میں متعارف کروایا۔

ایک دہائی کےبعد وہ تاریخی دن آیاجب تاریخِ عالم میں پہلی مرتبہ خداتعالیٰ نے اس ایجادکے ذریعہ اپنےکسی فرستادہ اورنبی کی تصویر آئندہ زمانوں کے لیے حق کی شناخت وحصولِ برکت کی خاطرمحفوظ فرمادی۔

کیاتصویرکھنچواناشرعاًجائزہے

تصویرکی حلت وحرمت کےبارے میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ سے ایک شخص نے سوال کیاتو آپؑ نے فرمایا:

’’اصل با ت یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضرور ی ہے کہ آیااس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں۔ اگر یوں ہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَالَّذِینَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (المومنون : 4)

لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعے سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘

(ملفوظات جلدسوم صفحہ32، ایڈیشن2016ء)

اسی طرح ایک اورموقع پرآپؑ نے اسی نوعیت کے سوال پرجواباًارشادفرمایا:

’’یہ ایک نئی ایجادہے پہلی کتب میں اِس کاذکرنہیں۔ بعض اشیاء میں ایک منجانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویراترآتی ہے۔ اگراِس فن کوخادمِ شریعت بنایاجاوے توجائزہے۔ ‘‘

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ479، ایڈیشن 1988ء)

پھرآپؑ نےمولوی سیدمحمدعبدالواحدصاحب مدرس وقاضی برہمن بڑیہ کے بعض شبہات کا صراحت کے ساتھ ازالہ فرماتے ہوئے تصویر کسی سے متعلق مسئلہ تفصیلا تحریر فرمایا:

’’مَیں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اور اس کو بُت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے۔ مَیں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بُت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہو گا۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ آج کل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اوّل خواہشمند ہوتے ہیں جواُس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے۔ اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کر سکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔ اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک پہنچ نہیں سکتے اور نہ میرا چہرہ دیکھ سکتے ہیں لہٰذا اُس ملک کے اہلِ فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علمِ فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے۔ اور ایک امریکہ کی عورت نے میری تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ یسوع یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی تصویر ہے۔ پس اس غرض سے اور اس حد تک مَیں نے اس طریق کے جاری ہونے میں مصلحتاً خاموشی اختیار کی۔

وانَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔

اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جِنّ حضرت سلیمان کے لئے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدّت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تصویر تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلائی تھی۔ اور پانی میں بعض پتھروں پر جانوروں کی تصویریں قدرتی طور پر چھپ جاتی ہیں۔ اور یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ چنانچہ بعض انگریزوں نے فوٹو کے ذریعہ سے دنیا کے کل جانداروں یہاں تک کہ طرح طرح کی ٹڈ یوں کی تصویریں اور ہر ایک قسم کے پرند اور چرند کی تصویریں اپنی کتابوں میں چھاپ دی ہیں۔ جس سے علمی ترقی ہوئی ہے۔ پس کیا گمان ہو سکتا ہے کہ وہ خدا جو علم کی ترغیب دیتا ہے وہ ایسے آلہ کا استعمال کرنا حرام قرار دے جس کے ذریعہ سے بڑے بڑے مشکل امراض کی تشخیص ہوتی ہے اور اہلِ فراست کے لئے ہدایت پانے کا ایک ذریعہ ہو جاتا ہے۔ یہ تمام جہالتیں ہیں جو پھیل گئی ہیں۔ ہمارے ملک کے مولوی چہرہ شاہی سکّہ کے روپیہ اور دونّیاں اور چونّیاں اور اٹھنّیاں اپنی جیبوں اور گھروں میں سے کیوں باہر نہیں پھینکتے۔ کیا اُن سکّوں پر تصویریں نہیں، افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کر کے مخالفوں کو اسلام پر ہنسی کا موقع دیتے ہیں۔ اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے مؤید ہیں حرام کئے ہیں نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ ٹھہرتے اور اہلِ فراست کو ہدایت سے قریب کر دیتے ہیں۔ لیکن بایں ہمہ مَیں ہر گز پسند نہیں کرتا کہ میری جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مُضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنا لیں۔ کیونکہ اِسی طرح رفتہ رفتہ بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور شرک تک پہنچتی ہیں۔ اس لئے مَیں اپنی جماعت کو اس جگہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک اُن کے لئے ممکن ہو ایسے کاموں سے دستکش رہیں۔ بعض صاحبوں کے مَیں نے کارڈ دیکھے ہیں اور ان کی پُشت کے کنارہ پر اپنی تصویر دیکھی ہے۔ مَیں ایسی اشاعت کا سخت مخالف ہوں اور مَیں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو۔ ایک صحیح اور مفید غرض کے لئے کام کرنا اور امر ہے اور ہندوؤں کی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویریں جا بجا در و دیوار پر نصب کرتے ہیں یہ اور بات ہے۔ ‘‘

(براہینِ احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21صفحہ365تا367)

حضرت مسیح موعودؑ کافوٹوکھنچوانے کاسبب

حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شخص کے سوال کاجواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’ہم نے اپنی تصویرمحض اِس لئے اتروائی تھی کہ یورپ کوتبلیغ کرتے وقت ساتھ تصویربھیج دیں کیونکہ اُن لوگوں کاعام مذاق اس قسم کاہوگیاہے کہ وہ جس چیزکاذکرکرتے ہیں ساتھ ہی اُس کی تصویردیتے ہیں جس سے وہ قیافہ کی مددسے بہت سے صحیح نتائج نکال لیتے ہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد7صفحہ24-25، ایڈیشن 1984ء)

چنانچہ جیساکہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے ذکرفرمایا، انہی اغراض یعنی تبلیغِ دین اوراشاعتِ اسلام کومدنظررکھتے ہوئےحضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فوٹولینے کی اجازت عطافرمائی۔

عہدِ ماموریت کاپہلا باقاعدہ فوٹو

جون 1899ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کاپہلافوٹولینے کی غرض سےلاہورسے تعلق رکھنے والے صحابی حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ انارکلی بازارلاہورسےگردھر لعل نامی ایک فوٹوگرافرلے کرآئے۔ اس فوٹوگرافرنے حضورؑ کے تین فوٹولئے۔ خداتعالیٰ کے اس فرستادہ کاایک فوٹو [پورے قد کا] جبکہ دوفوٹو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کرسی پرتشریف فرماہونے کی حالت میں بعض خوش قسمت اصحاب کے ہم راہ لیےگئے۔ اس موقع پرفوٹوگرافرنے حضورؑ سے لباس اورنشست سے متعلق بھی معروضات کیں۔ مگرحضورنے انتہائی سادگی اوربے تکلفی سے فوٹوکھنچوایا۔

(تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ57وتاریخ احمدیت لاہور مصنفہ شیخ عبدالقادرصاحب سابق سوداگرمل لاہورصفحہ107)

حضرت مفتی محمدصادق صاحبؓ اس پہلے فوٹوکے متعلق تحریرفرماتے ہیں :

’’سب سے پہلا فوٹو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیا گیا…اِس ضرورت کے لئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یورپ میں اشاعت کے واسطے ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ جس کا ترجمہ مولوی محمدعلی صاحب نے انگریزی میں کرنا تھا۔ اور تجویز ہوئی کہ چونکہ یورپ میں ایسے قیافہ شناس اور مصوران تصاویر بھی ہیں۔ جو صرف تصویر کو دیکھ کر کسی شخص کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرتے ہیں۔ اس واسطے ضروری ہو گا کہ اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگا دی جائیں۔ اس غرض کے لئے لاہور سے ایک فوٹو گرافر منگوایا گیا۔ ‘‘

(ذکرِ حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمدصادق صاحب صفحہ299))

امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

قادیان میں پہلی مرتبہ باقاعدہ فوٹولینے کے لئے آنے والے فوٹوگرافرکانام

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی تصویرکھینچنے کی غرض سے جو فوٹوگرافرقادیان آئے اُن کے نام سے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں۔تاریخِ احمدیت لاہورمیں محترم شیخ عبدالقادر صاحب نے مکرم مولوی محب الرحمان صاحب کی جو روایت تحریرکی ہے اُس روایت میں اس فوٹوگرافر کا نام گردھرلال بیان کیاجاتاہے۔(تاریخ احمدیت لاہورمصنفہ شیخ عبدالقادرصاحب سابق سوداگرمل لاہورصفحہ107)اسی طرح حضرت شیخ محمدنصیب صاحبؓ نے اپنی ایک روایت میں اس فوٹوگرافرکانام لالہ شنکرداس درج کیاہے۔(الفضل21جولائی1942ءصفحہ3-4)۔ سیرۃ المہدی کی ایک روایت کےمطابق (تفصیلی روایت مضمون ھٰذامیں شامل ہے)حضورؑ کی ابتدائی تصویرجو ولایت روانہ کرنے کے لیے تیارکروائی گئی وہ حکیم محمدکاظم فوٹوگرافر انارکلی لاہور کی تیار کردہ ہے۔ (سیرۃالمہدی جلددوم، صفحہ108،روایت1137)۔ریویوآف ریلیجنز 1902ء میں جب حضورؑ کی یہ تصویرشائع ہوئی تو اس تصویرکے ایک جانب مذکورہ فوٹوگرافر(حکیم محمدکاظم)کانام بھی تحریرہے۔خاکسارکی ناقص رائے میں یہ ممکنات میں سے ہے کہ دوسال بعد یہی تصویرجب ریویوآف ریلیجنزکے لئے تیارکروائی گئی تواُس وقت حکیم محمدکاظم نامی فوٹوگرافرنے تیارکی ہو۔واللّٰہ اعلم

حضورؑ کی پہلی تصویرکے بارے میں اعلان

یہ تصویرحضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ نے خریدلی اور10؍اگست1899ء کو اخبارالحکم کے صفحہ اول پر اس تصویرکے متعلق درج ذیل الفاظ میں ایک اعلان شائع ہوا:

’’حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تصویر:قربان تیرے اے مجدد!اس اختلاف کاقضیہ بھی چکادیا۔ تصویرکی بحث لفظ پرستوں، معنی ناشناسوں میں دیرسے چلی آتی تھی۔ خلیفۃ اللہ نے جومصداق مَایَنْطِقُ عَنِ الھَویٰ ہے۔ اپنے عمل سے اس راہ کوصاف کردیا۔

حضرت اقدس امام علیہ السلام کی تین تصویریں

ایک بَسٹ[نصف قد۔ناقل]اورایک پورے قدکی اورایک گروپ میں۔ قیمت ذیل میں درج ہے۔ درخواستیں مشتہرکے نام جلدآنی چاہئیں۔ درخواست کی تعمیل نقدقیمت پریاوی پی کے ذریعہ ہوگی۔ المشتہرمعراج الدین عمرٹھیکیدارلنگے منڈی لاہور‘‘(الحکم 10؍اگست1899ءصفحہ1)

امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ نے حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سینہ مبارک تک اورمکمل قدمبارک کی جن تصاویرکااشتہارمیں ذکرفرمایاوہ اس صفحہ کے پہلے دو کالموں کی زینت ہیں۔

غالباً اسی تصویرمیں حضرت اقدس علیہ السلام نے جوکوٹ زیب تن فرمایاہواہے، اس کے متعلق ایک نہا یت ایمان افروزروایت بھی ملتی ہے جس کا ذکریقیناً ازدیادِ ایمان کاباعث ہے۔ نیزاس روایت کے آخرمیں حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ نے ایک وضاحت بھی فرمائی ہے:

’’شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ خاکسار نے پٹیالہ میں خواب دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں۔ دن کا وقت ہے۔ حضرت مولوی صاحب والے کمرے سے باہر نکلا ہوں کہ میرے دل میں آیا کہ اب کی دفعہ جو پٹیالہ جاؤں تو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کروں۔ جب چوک میں پہنچا تو کسی شخص نے کہاکہ حضرت صاحب مسجد اقصیٰ کی چھت پر تشریف فرماہیں۔ میری خواہش ہوئی کہ حضرت صاحبؑ سے کیوں نہ دریافت کر لیا جائے کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں تاکہ ویسا ہی تیار کروا کر بھیج دیا جائے۔ یہ بات دریافت کرنے کے لئے خاکسارمسجد کی چھت پر چڑھ گیا۔ دیکھا حضرت صاحب تشریف فرماہیں۔ اور آپؑ کے ایک طرف خواجہ کمال الدین صاحب بیٹھے ہیں۔ اور دوسری طرف ایک اور شخص بیٹھا تھا جس کو میں نہیں جانتا تھا۔ خاکسار سامنے جاکر بیٹھ گیا۔ ابھی میں کچھ عرض کرنے نہ پایا تھا کہ حضورؑ نے میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ اب کی دفعہ جو تم پٹیالہ جاؤ۔ توہمارے لئے ایک چوغہ تیار کروا کر ارسال کرنااور جو چوغہ اس وقت حضور نے پہنا ہوا تھا۔ اس کے گریبان کے نیچے سے دونوں اطراف دونوں ہاتھوں سے پکڑے اور اُن کو ملا کر فرمایا کہ ایسا ہو کہ جو سردی سے محفوظ رکھے۔ خاکسار نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ حضورابھی تھوڑا عرصہ ہوا کہ نیچے چوک میں مجھ کو یہی خیال آیا تھا کہ اس دفعہ پٹیالہ جانے پرایک چوغہ حضورکے لئے بنوا کر روانہ کروں اور حضور کے تشریف فرما ہونے کی اطلاع پر اس ارادہ سے حاضر ہو اتھا کہ حضور سے دریافت کروں کہ حضور کیسا چوغہ پسند فرماتے ہیں۔ تعجب ہے کہ ابھی میں عرض بھی کرنے نہ پایا تھا کہ حضورؑ نے خود ہی فرمادیا۔ یہ سن کر حضور نے فرمایاکہ یہ درست ہے۔ خد اتعالیٰ اپنے فضل سے بعض اوقات اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے اشخاص کے قلوب پر القا کرتا ہے۔ اس کے بعد آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں پٹیالہ میں ہی ہوں۔ چونکہ سرما کا موسم تھا۔ خاکسار نے اسی خیال سے کہ اس خواب کی جوکوئی اور تعبیر خد اکے علم میں ہو وہ ہو۔ لیکن ظاہری الفاظ کے مطابق مجھے ایک چوغہ تیار کروا کر روانہ کرنا چاہئے۔ چنانچہ ہفتہ عشرہ کے اندر ایک گرم کشمیر کا چوغہ قطع کرا کر اور اس کے ہر چہار طرف اُسی رنگ کی ریشمی ڈوری کاکام نکلوا کر جسم مبارک کا اندازہ درزی کو بتا کر ایک چوغہ تیار کروا کر بذریعہ پارسل ڈاک حضرت مولوی عبد الکریم صاحب ؓکو روانہ کردیا۔ اور خط میں مفصل لکھ دیا کہ ایک خواب کی ظاہری تعبیر پورا کرنے کے خیال سے ایسا کیا گیاہے۔ آپ پارسل پہنچنے پر یہ چوغہ میری طرف سے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کردیں۔ اس کے جواب میں مولوی صاحب مرحوم نے مجھے تحریر فرمایا کہ پارسل پہنچنے پر فوراً حضرت صاحب ؑکی خدمت میں وہ پارسل خود لے جاکر پیش کیا۔ حضور ؑنے فرمایا اسے کھولو۔ جب چوغہ نکالا گیا تو حضورؑ نے فوراً کھڑے ہوکر اپنا پہلا چوغہ اُتار کر اس مرسلہ چوغہ کو زیب تن کیا۔ اورمولوی صاحب سے فرمایاکہ خد ا کی کیا شان ہے کہ اپنے بندوں کی بعض ضروریات دوسرے لوگوں کے قلوب پرالقا فرمادیتا ہے۔ فی الواقعہ ہمارا یہ چوغہ اس قدر میلا ہوگیا تھا کہ جب کپڑے بدلتے تو چوغہ پہننے کو دل نہ چاہتا۔ اور ارادہ کرتے کہ جلدکوئی چوغہ نیا تیار کروائیں گے۔ مگر پھر سلسلہ کی ضروریات اور مصروفیات کی وجہ سے سہو ہوجاتا۔ پھر بٹنوں کو دیکھ کرفرمایا۔ کہ مولوی صاحب اس نے یہ کیسی عقل کی بات کی ہے کہ باوجود چوغہ کی طرح لمبا ہونے کے آگے بٹن لگوا دئیے ہیں۔ تاسردی سے بچاؤ ہو۔ پرانی قسم کے چوغوں میں مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ سب سے اوپر کا کپڑاآگے سے کھلا ہوا ہوتاہے۔ جس سے سردی سے حفاظت نہیں ہوسکتی۔ پھر فرمایا کہ مولوی صاحب تعجب تو یہ ہے کہ بدن پر ایسا درست آیا ہے کہ جیسے کسی نے ناپ لے کر بنوایا ہو۔ مولوی صاحب نے آخر میں خاکسار کو یہ بھی لکھا کہ آپ کاخواب صحیح اور تعبیر بھی ٹھیک ثابت ہوئی۔ کیونکہ جو الفاظ اس بارہ میں حضور نے فرمائے تھے۔ بالکل وہی الفاظ چوغہ پیش کرنے پر فرمائے۔ خد اتعالیٰ نے آپ کی سعی کو مشکور فرمایا۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ کرم الٰہی صاحبؓ نے مجھ سے یہ بھی بیان کیا کہ جہاں تک میرا خیال ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا جو فوٹو ولایت روانہ کرنے کے لئے حکیم محمدکاظم فوٹو گرافر انار کلی لاہور کا تیار کردہ ہے جس میں حضورؑ نے بٹن والا چوغہ نما لمبا کوٹ پہنا ہوا ہے وہ وہی ہے۔‘‘

(سیرۃ المہدی جلددوم صفحہ108، روایت نمبر1137)

ابتدائی گروپ فوٹونمبر 1
دائیں جانب سےکھڑےہوئے:1۔ حضرت منشی کرم علی صاحبؓ (1897ء)2۔ حضرت مولوی عبداللہ عرب صاحبؓ (1891ء تا1893ء)3۔ مولوی محمد علی صاحبؓ(1897ء) صاحب4۔ حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ (بیعت1891ء)5۔ حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ بھیروی(1891ء)6۔ حضرت حکیم محمد حسین صاحب مر ہم عیسیٰؓ (1892ء)7۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ (1892ء)8۔ حضرت منشی فضل الرحمٰن صاحبؓ (1891ء) 9۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ سابق جگت سنگھ (1894ء)

کرسیوں پربیٹھے ہوئے:1۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ (1891ء)2۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ 3۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ 4۔ سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام، 5۔ گود میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ 6۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ (1889ء)7۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی(1889ء) 8۔ حضرت پیرمنظورمحمدصاحبؓ مصنف قاعدہ یسرنالقرآن(1892ء)

فرش پر بیٹھے ہوئے:1۔ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ (1889ء)2۔ حضرت حکیم قطب الدین صاحبؓ (1892ء)3۔ حضرت ملک شیر محمد صاحبؓ بی اے جموں 4۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ (1897ء)5۔ حضرت مولوی محمدصادق صاحبؓ(موضع سرکاں تحصیل وڈاکخانہ شکرگڑھ ضلع گورداسپورمدرس جموں بیعت1892ء)

جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے کہ اس موقع پرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اپنےصحابہ کے ساتھ دو گروپ فوٹوبھی بنائی گئیں۔

دوسری گروپ فوٹو میں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہم راہ جن صحابہ کرامؓ کوشامل ہونے کااعزازحاصل ہوا، اُن میں اکثر صحابہؓ پہلے گروپ فوٹومیں بھی موجودتھے۔ صحابہؓ کے اضافہ اورترتیب کی معمولی تبدیلی کے ساتھ دوسری تصویربنائی گئی۔ ہر دو تصاویر میں شامل ہونے والے صحابہ کرامؓ کے اسماء مذکورہ فوٹوکے ذیل میں درج کر دیئے گئے ہیں۔

ابتدائی گروپ فوٹو نمبر 2
دائیں جانب سےکھڑےہوئے:1۔ حضرت ملک غلام حسین صاحبؓ رہتاسی نان پُز(1892ء)، 2۔ حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحبؓ بدوملہوی(1892ء)3۔ حضرت مہرنبی بخش صاحبؓ بٹالوی(1889ء)4۔ حضرت حکیم محمدحسین صاحبؓ مرہمِ عیسیٰ (1892ء)5۔ حضرت عبداللہ عرب صاحبؓ (1891ء تا1893ء)، 6۔ حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ بھیروی(1891ء)، 7۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ سابق جگت سنگھ(1894ء)8۔ حضرت پیرمنظورمحمدصاحبؓ (1892ء) (اُن کی گودمیں اُن کی بچی ہے)9۔ حضرت مرزاسماعیل بیگ صاحبؓ پریس مین بعدہ شیرفروش(حضورؑ کے پرانے خدام میں سے تھے۔ (بیعت 1889ء)

کرسیوں پربیٹھے ہوئے:1۔ 2۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ (1891ء)کی گودمیں 3۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ (1891ء)، 4۔ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ (1889ء)5۔ سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 6۔ گود میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ 7۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی(1889ء) 8۔ مولوی محمدعلی صاحبؓ ایم اے(1897ء)، 9۔ حضرت صاحبزادہ مرزابشیرالدین محموداحمدصاحبؓ

نیچے بیٹھے ہوئے:1۔ حضرت منشی کرم علی صاحبؓ کاتب(1897ء)2۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ (1897ء)3۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ (1892ء)4۔ حضرت ملک شیر محمد صاحبؓ بی اے جموں 5۔ حضرت پیرسراج الحق صاحب نعمانیؓ (1889ء) ان کی گود میں ان کابچہ فرقان الرحمان ہےجوکم سنی میں فوت ہوگیاتھا، 6۔ حضرت مفتی فضل الرحمان صاحبؓ (1891ء)7۔ حضرت مولوی محمدصادق صاحبؓ(موضع سرکاں تحصیل وڈاکخانہ شکرگڑھ ضلع گورداسپورمدرس جموں بیعت1892ء)

ان ابتدائی تصاویرکے متعلق حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں حضرت مولاناشیر علی صاحبؓ کی روایت ہےکہ

’’حضرت صاحبؑ مع چند خدام کے فوٹو کھینچوانے لگے تو فوٹو گرافر آپ سے عرض کرتا تھا کہ حضور ذرا آنکھیں کھو ل کر رکھیں ورنہ تصویر اچھی نہیں آئے گی اور آپ نے اس کے کہنے پر ایک دفعہ تکلف کے ساتھ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھولا بھی مگر وہ پھر اسی طرح نیم بند ہوگئیں۔ ‘‘

(سیرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ364روایت نمبر407)

حضرت شیخ محمدنصیب صاحبؓ مذکورہ ابتدائی فوٹوکے متعلق تحریرفرماتے ہیں :

’’غضِ بصرمیں حضورکوکمال حاصل تھا۔ اوریہ امرآپ کی جبلت میں داخل تھانہ کہ تصنع کے طورپر۔ باوجودآنکھیں صاف اورموٹی ہونے کے کھلی نہ رہتی تھیں۔ بلکہ بندسی معلوم ہواکرتی تھیں۔ جہاں نواب صاحب کاشہروالامکان ہے، سب سے پہلے اُسی جگہ لاہورسے ایک فوٹوگرافرغالباًلالہ شنکرداس کو فوٹو اتارنے کے لئے بلایا گیا۔ فوٹو اتروانے کی غرض غیرممالک میں تبلیغ تھی کہ جہاں حضورعلیہ السلام نہیں پہنچ سکتے یاکثرت سے وہاں کے لوگ یہاں نہیں آسکتے اُن تک حضورعلیہ السلام کافوٹوپہنچادیاجائےتاکہ قیافہ دان تصویرسے خدوخال دیکھ کراندازہ لگالیں کہ یہ شخص صادق ہے۔ فوٹولینے کے وقت فوٹوگرافرباربارعرض کرتاکہ حضورؑ آنکھیں کھولیں۔ حضورؑ بڑے تکلف سے آنکھیں کھول کراوپرنگاہ کرتے مگرپھروہ جلدہی اپنی اصل حالت میں آکربندہوجاتیں۔ حضورؑ کی ایک آنکھ کے پردہ پرنہایت سرخ رنگ کاایک تِل بھی نظرآتاتھاجوبہت ہی خوبصورت معلوم ہوتاتھا۔ ‘‘

(الفضل21؍جولائی1942ءصفحہ3تا4)

سیدناحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کےساتھ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مختلف اوقات میں کھینچے گئے 6 تاریخی اور یادگار گروپ فوٹو ملتے ہیں جن میں سے دوکاقبل ازیں ذکرکیاجاچکاہے۔

خطبہ الہامیہ کے مبارک موقع پر کھینچے گئے گروپ فوٹوز

11؍اپریل1900ء عیدالاضحی کاوہ تاریخی اوربابرکت دن جس روز حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خداتعالیٰ سے اذن پاکرعربی زبان میں خطبہ الہامیہ ارشاد فرمایا۔ اس روز بھی حضورؑ کے اپنے اصحابؓ کے ہم راہ تصاویرلی گئیں۔ یہ فوٹو ڈاکٹرحکیم نورمحمدصاحب (مالک کارخانہ ہمدم صحت)نے لیاتھا۔(تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ57)۔اس موقع پرلی گئیں دوتصاویرملتی ہیں۔ یہ تصاویر مقامِ خطبہ الہامیہ یعنی مسجداقصیٰ میں ہی لی گئی ہیں۔ پہلی تصویرمیں دیگراصحاب کے علاوہ حضرت حکیم مولانانورالدین صاحبؓ اورحضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ بھی دیگراصحاب کرامؓ کے ساتھ موجود ہیں۔

خطبہ الہامیہ کے مبارک موقع پر لیا جانے والا گروپ فوٹونمبر1
دائیں جانب سے:کھڑےہوئے:1۔ شیخ عبدالحمیدصاحب ابن شیخ رحمت اللہ صاحبؓ، 2۔ حضرت حکیم فضل الٰہی صاحبؓ (1892ء)
3۔ حضرت منشی تاج الدینؓ (1892ء)4۔ حضرت سید میر ناصر نواب صاحبؓ (1891ء) 5۔ حضرت میر حامد شاہ صاحبؓ ابن حضرت میرحکیم حسام الدین صاحب ؓ(1890ء)6۔حضرت ماسٹر غلام محمدصاحب(1891ء)،7۔حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمدصاحبؓ المصلح موعود

کرسیوں پربیٹھے ہوئے:1۔ شیخ رحمت اللہ صاحب(1891ء) 2۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ(1889ء)
3۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام4۔ حضرت مولوی غلام حسن صاحبؓ پشاوری(1890ء)5۔ 6۔ حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحبؓ (1889ء) کی گود میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ۔

نیچےبیٹھے ہوئے:1۔حضرت خلیفہ رشیداالدین صاحبؓ(1892ء) ،2۔حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ

3۔حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ(1890ء) 4۔مرزا خدا بخش صاحبؓ(1889ء)،5۔ شیخ مولابخش صاحبؓ(1892ء)،
6۔شیخ عبدالرزاق صاحبؓ(شیخ رحمت اللہ صاحب کے بھتیجے) ولدشیخ عبدالرحمان صاحب

جبکہ دوسری تصویرمیں بیشتر صحابہ ؓسیالکوٹ اوراس کی قریب کی جماعتوں سےتعلق رکھتے تھے۔ مذکورہ تصویرپہلی مرتبہ 26؍دسمبر1958ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوئی۔ اس تصویرکے متعلق ایڈیٹر صاحب الفضل نے ایک روزقبل (25دسمبر1958ء)کے اخبارمیں ان الفاظ میں ایک اعلان شائع کیا۔

’’کل مؤرخہ26دسمبرکوالفضل کاجلسہ سالانہ نمبرشائع ہورہاہے۔ الفضل کایہ خاص نمبراہم اوربیش قیمت دینی مضامین کے علاوہ بعض نہایت اعلیٰ تصاویرپرمشتمل ہے۔ اس میں سیدناحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک نایاب فوٹوبھی شامل کیاگیاہےجواس سے پہلے کبھی شائع نہیں ہوا۔ الفضل کے سائزکایہ بڑافوٹونہایت قیمتی آرٹ پیپرپرخاص اہتمام سے طبع کرایاگیاہے۔ احباب اسے فریم بھی کراسکتے ہیں …‘‘

(روزنامہ الفضل25؍دسمبر1958صفحہ1)

چنانچہ اگلے روزالفضل کے جلسہ سالانہ نمبرمیں یہ تصویر’’مسیحِ پاک علیہ السلام اپنے خالص اوردلی محبّوں کے ایک گروہ کے درمیان‘‘کے جلی الفاظ کے ساتھ شائع ہوئی۔

خطبہ الہامیہ کے مبارک موقع پر لیا جانے والا گروپ فوٹونمبر2
(اس تصویرمیں غالب اکثریت سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرامؓ کی ہے)
دائیں جانب :سےکھڑےہوئے:1۔ (نامعلوم)، 2۔ (نامعلوم)، 3۔ (نامعلوم)، 4۔ (نامعلوم)5۔ شیخ غلام حسین صاحب (حاجی پورہ سیالکوٹ)6۔ میاں بشارت احمدصاحب کلرک ڈاکخانہ سیالکوٹ7۔ سید ارشاد شاہ صاحب سیالکوٹی8۔ (نامعلوم)9۔ حضرت حکیم فضل دین صاحب بھیرویؓ (1891ء) 10۔ میاں غلام محمد صاحب کاتب(1897ء)11۔ شیخ محمداکبرصاحب (حاجی پورہ سیالکوٹ)12۔ میاں خدا بخش صاحب (سیالکوٹ چھاؤنی)13۔ شیخ مولابخش صاحب سیالکوٹی(1892ء)
کرسیوں پر بیٹھے ہوئے:1۔ (نامعلوم)، 2۔ حضرت منشی اللہ دتہ صاحبؓ ( سیالکوٹ موری دروازہ)3۔ حضرت میاں نظام دین صاحبؓ سیالکوٹ(1904ء)4۔ سیدناحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام5۔ 6۔ حضرت حکیم میر حسام الدین صاحبؓ اوراُن کی گود میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ 7۔ 8۔ میاں فضل دین صاحب زرگر سیالکوٹی(1892ء) اوراُن کی گود میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدصاحبؓ
فرش پر بیٹھے ہوئے:1۔ (نامعلوم)2۔ مستری شہاب الدین صاحب، 3۔ حضرت منشی محمد عبداللہ صاحبؓ سیالکوٹی(1899ء) 4۔ میاں محمد دین صاحب کانسٹیبل سیالکوٹی(1891ء)5۔ 6۔منشی رحیم بخش صاحب(فتوکے ضلع نارووال 1901ء)اوراُن کے سامنےحضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ 7۔ حضرت شیخ جان محمد صاحب وزیر آبادی(1891ء)8۔ حضرت قاضی ضیاالدین صاحبؓ (1889ء)

مذکورہ بالاہر دو تصاویر میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰہ والسلام کے ساتھ شامل صحابہ کرامؓ کے اسماء مع سنِ بیعت درج کر دیے گئے ہیں۔

مدرسہ تعلیم الاسلام کے صحن میں دو گروپ فوٹو

قبل ازیں ایک روایت میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے غضِ بصرکاذکرہوچکاہے۔ تصویرکھنچواتے ہوئے سیرتِ طیبہ کے اس پہلوکاذکرحضرت ملک نورخان صاحبؓ کی بھی بیان فرمودہ ایک روایت میں ملتاہے جوپہلی مرتبہ جون 1899ء میں قادیان آئے تھے۔ آپ فرماتے ہیں :

’’ایک دفعہ حضورِانورکافوٹوکھنچوانےکےلئے غالباًلاہوریاامرتسرسے فوٹوگرافربلوایاگیا۔ مدرسہ کے صحن میں فوٹوکھنچوانے کاانتظام ہوا۔ حضورِ انورکوایک کرسی پربٹھایاگیا۔ باقی دوست پیچھے کھڑے ہوگئے۔ فوٹوگرافرنے فوٹولینے سے قبل کئی دفعہ حضورکاچہرہ دیکھااورپھروہ کیمرہ کوچھوڑکرحضورعلیہ السلام کی خدمت میں آجاتااورحضورسے چہرہ مبارک کواونچاکرنے کی درخواست کرتا۔ اس کے بعدوہ کیمرہ کے پاس چلاجاتا۔ مگرجب وہ کیمرہ کے اندرسے دیکھتاتواُسے حضورعلیہ السلام کی نگاہ نیچی نظرآتی اورچہرہ مبارک بھی کچھ نیچے ہوجاتا۔ وہ پھرآکرعرض کرتا۔ تقریباًچاردفعہ اُس نے ایساہی کیااورآخرفوٹولے لیا۔ اس کے بعدحضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآنِ شریف کے درس میں غضِ بصرکی تشریح کرتے ہوئے مثال دی کہ آپ لوگوں نے حضرت صاحب کوفوٹوکے روزدیکھاتھاکہ باربارفوٹوگرافرحضورکے چہرہ کواٹھواتا۔ مگرحضورکی نظرپھرنیچے ہوجاتی تھی۔ چونکہ خداتعالیٰ کے فرستادہ لوگوں کے لئے نمونہ ہوتے ہیں۔ اس لئے اُن کی فطرت میں یہ غضِ بصرموجودہوتاہےاوراُن کی نگاہیں خودبخودنیچے رہتی ہیں۔ ‘‘

(الفضل3؍ستمبر1942ء صفحہ3)

مدرسہ تعلیم الاسلام کے صحن میں کھینچا جانے والا گروپ فوٹو نمبر 1
دائیں جانب سےکھڑےہوئے: 1۔ (نامعلوم)2۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب(1892ء)3۔ حضرت مفتی فضل الرحمن صاحبؓ (1891ء)
4۔ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ (1892ء) 5۔ حضرت حکیم فضل دین صاحبؓ بھیروی(1891ء)
کرسیوں پر بیٹھے ہوئے:1۔ (نامعلوم)2۔ حضرت چودھری مولابخش صاحبؓ آف چونڈہ (1900ء)، 3۔ 4۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مع حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمدصاحبؓ 5۔ حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ (1892ء)6۔ مستری فیض احمد صاحب جموں (1897ء)
نیچے بیٹھے ہوئے: 1۔ حضرت حکیم شمس الدین صاحبؓ سیالکوٹی، 2۔ حضرت پیر سراج الحق نعمانیؓ کے ایک عزیز،
.3۔ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانؓی(1889ء) 4۔ محمد یعقوب صاحب ابن حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی
5۔ حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ قریشی موجد مفرح عنبری لاہور(1892ء)
مدرسہ تعلیم الاسلام مدرسہ کے صحن میں کھینچا جانے والا گروپ فوٹو نمبر 2
دائیں جانب سے:کھڑےہوئے: 1۔ (نامعلوم) 2۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ (1892ء)3۔ اغلباًحضرت حکیم شمس الدین صاحبؓ سیالکوٹی ، 4۔ حضرت چوہدری مولابخش بھٹی صاحبؓ آف چونڈہ (1900ء)5۔ (نامعلوم)6۔ حضرت ڈاکٹر فیض علی صابرصاحبؓ (1900ء)
کرسیوں پر بیٹھے ہوئے:1۔ حضرت منشی عبد العزیزصاحبؓ دہلوی(1892ء)2۔حضرت ڈاکٹرمحمد اسماعیل صاحبؓ گوڑیانی(1892ء)3۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 4۔ڈاکٹرمرزا یعقوب بیگ صاحب(1892ء)5۔ مرزا نیاز بیگ صاحب کلانوری والدمرزایعقوب بیگ صاحب(1893ء)
نیچے بیٹھے ہوئے:1۔ (نامعلوم)2۔ حضرت چوہدری رستم علی صاحبؓ (1889ء)3۔ حضرت منشی اروڑے خان صاحبؓ (1889ء)4۔ حضرت منشی کرم علی صاحبؓ کاتب(1897ء) 5۔حضرت چوہدری فضل دین صاحبؓ دفتری

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنے اصحاب کے ہم راہ یہ دوتصاویربھی ایک ہی موقع پرلی گئیں۔ یہ دونوںتصاویراوران میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کے ساتھ شامل صحابہ کرامؓ کے اسماء مع سنِ بیعت تصاویر کے ذیل میں درج ہیں۔

بعض ایسی تصاویر جن میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ اکیلے موجود ہیں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تصاویرصحابہ کرامؓ کےگروپ کے علاوہ علیحدہ بھی کھینچی گئیں۔ جن میں سے دوکاذکرقبل ازیں ابتدا میں کیاجاچکاہےجوجون1899ء میں لی گئی تھیں۔ اسی طرح آپؑ کی ایک تصویرایسی بھی ملتی ہے جس میں آپ حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمدصاحبؓ کے ساتھ عصاپکڑے ہوئے قیام فرماہیں۔

امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ

اس تصویرکے بارے میں حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ نے الفضل میں ایک اعلان بعنوان ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو مطلوب ہے ‘‘شائع فرمایاجودرج ذیل ہے:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فوٹو ایسا ہے جس میں حضور پورے جسم کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں اور ہاتھ میں ایک طرف کو جھکی ہوئی ایک چھڑی ہے اور سر پر لنگی ہے۔ حضور کے ساتھ عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کھڑے ہیں۔ اور فوٹو میں ان کی عمر اس وقت قریباً سات آٹھ سال نظر آتی ہے۔ اگر کسی دوست کے پاس اس فوٹو کی صاف اور اصل تصویر موجود ہو تو چند دن کے لئے مجھے کسی معتبر ذریعہ سے ارسال فرما کر ممنون فرمائیں۔ انشاء اللہ اس کی نقل لینے کے بعد واپس بھجوا دیا جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ تصویر بہت صاف ہے اور اپنے اندر خاص روحانی اثر رکھتی ہے۔ اور پھر ہے بھی وہ پورے جسم کی۔ نہ کہ صرف چھاتی تک کا بسٹ (Bust)۔ میرا خیال ہے کہ جہاں آئندہ کسی کتاب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر چھاپنی ضروری سمجھی جائے تو چھاتی تک کی تصویر کی بجائے یہ تصویر چھاپنی زیادہ مفید ہو گی۔ ‘‘

( الفضل 11؍مارچ 1955ء)

نیزاسی تصویرسےمتعلق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ نے الفضل میں ایک وضاحت بھی بعنوان’’حضرت مسیح موعود کے ایک فوٹو کے متعلق غلط فہمی کا ازالہ‘‘شائع فرمائی۔ آپؑ نے تحریرفرمایا:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فوٹو ایسا ہے جس میں حضور کھڑے ہیں اور حضور کی دائیں جانب حضور کی طرف جھکے ہوئے ایک بچہ کھڑا ہے جس کی عمر فوٹو میں اندازاً چھ سات سال نظر آتی ہے۔ اس فوٹو کے متعلق اکثر دوستوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جو بچہ اس فوٹو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھڑا ہے وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں۔ مگر یہ خیال درست نہیں بلکہ یہ فوٹو ہمارے چھوٹے بھائی عزیزم میاں شریف احمد صاحبؓ کا ہے۔ پُرانے احباب کو تو یہ غلط فہمی نہیں ہے کیونکہ وہ حقیقتِ حال سے واقف ہیں اور ہم تینوں بھائیوں کے بچپن کی شکل و صورت سے بھی آشنا ہیں مگر نوجوان احباب اور بعد کے احمدیوں اور خصوصاً دیہات میں رہنے والے دوستوں میں یہ غلط فہمی زیادہ کثرت کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ لہٰذا اس غلط فہمی کے ازالہ کے لئے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ والا فوٹو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا نہیں ہے بلکہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کا ہے۔ جیسا کہ احباب جانتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی فوٹو ہیں۔ بعض میں حضور کے ساتھ حضور کے متعدد اصحاب حضور کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے بیٹھے یا کھڑے ہیں ( اور ایسے فوٹوؤں میں سے اکثر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور یہ خاکسار بھی شامل ہیں ) اور بعض میں حضور اکیلے ہیں۔ مگر ایسا فوٹو جس میں حضور کے ساتھ اکیلا بچہ کھڑا ہے وہ صرف ایک ہی ہے یعنی وہی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ پس اس فوٹو کے متعلق احباب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ حضور کے ساتھ والا فوٹو میاں شریف احمد صاحب کا ہے نہ کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا۔ چونکہ یہ معاملہ سلسلہ کی تاریخ سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں نے ضروری خیال کیا ہے کہ اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا جائے۔ ‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 26؍مارچ 1959ء)

اس تصویرکے علاوہ ایک مزیدتصویربھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ملتی ہے۔مذکورہ فوٹوکے معین سن کی تعیین نہیں ہوسکی۔یہ تصویراسی مضمون کے آخری کالم میں دی جا رہی ہے۔

امام الزماں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

حضور علیہ السلام کی ایک تصویر کی بابت حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب نیرؓ کی روایت

’’حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب نیرؓ روایت فرماتے ہیں:

’’حقیقۃ الوحی چھپ کر شائع ہونے والی ہی تھی چونکہ اس میں حضور کا فوٹو بھدا (غیرواضح۔ناقل)سا لگا تھا اس لئے میں نے ۲۰ مئی ۱۹۰۷ء کو حضرت کے حضور ایک خط لکھا کہ ‘‘سیدی و مولائی و امام اللہ فیوضکم۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔حضور کا عکس عربی استفتا میں ہے اردو میں نہیں۔ حقیقۃ الوحی منگوا کر ملاحظہ فرمالیں۔اگر کاغذ لگ جائے یا اصل فوٹو لگ جائے تو بہتر ہو گا ۔ اس موجودہ صورت کو عام طور پر ناپسند کیا جاتا ہے دراصل مسیح موعود کا فوٹو اور ایسا بھدا(غیرواضح۔ناقل) کم از کم میرے جیسی طبیعت کو تو اس کا نہ ہونا اچھا معلوم ہوتا آئندہ حضور بہتر سمجھ سکتے ہیں۔دعا کا خواستگار۔

حضور کا ادنیٰ غلام۔عبدالرحیم سکول ماسٹر

وہ لکھتے ہیں کہ حضورؑ نے تحریرفرمایا’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔میں حقیقۃ الوحی کو دیکھوں گا پھر جو مناسب ہوکیا جائے گا۔والسلام۔غلام احمد’’(علیہ الصلوٰۃ و السلام۔ ناقل) اس کے بعد فوٹو کے متعلق احکام صادر ہوئے۔

(رجسٹرروایات نمبر11ازروایات حضرت مولاناعبدالرحیم نیرصاحبؓ)

حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب نیرؓ نے مذکورہ بالاروایت میں حضرت اقدسؑ کے جس عکس کا ذکرفرمایا ہے یہ حقیقۃ الوحی کےا بتدائی ایڈیشن میں استفتاء صفحہ 72 پر شائع ہوا اور یہ حضورؑ کا قلمی خاکہ تھا۔ ازاں بعدیہ خاکہ اس کتاب سے حذف کردیاگیا۔

حضور علیہ السلام کی تصویرکی مغربی ممالک میں اشاعت

1902ء میں ریویو آف ریلیجنز1902ء صفحہ 423پر حضورؑ کی پورے قدمبارک کی تصویرشائع ہوئی جس کے نیچے یہ تحریرتھا

Mirza Ghulam Ahmad, Chief of Qadian, Panjab, the Promised Messiah

ایسی تصاویرجومنظرِ عام پرنہ آسکیں

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی بعض ایسی تصاویرکاذکربھی ملتاہے جومختلف مواقع پر متفرق اشخاص نے کھینچیں تاہم یہ تصاویر ابھی تک منظرِعام پرنہ آسکی ہیں۔ایسی ہی چندتصاویرکاذیل میں ذکرکیاجاتاہے۔

قادیان میں کھینچا جانے والا فوٹو

(1894ء یا 1895ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دعویٰ کے ابتدئی زمانہ کی بات ہے۔ میں چھ سات سال کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام ایک دفعہ سیر کے لئے نکلے۔ آپ مسجد مبارک کے سامنے جو چوک ہے اس میں پہنچے تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوست حضور کی تصویر لینے کی خاطر یہاں آئے ہیں۔ یہ 1894ء یا 1895ء کی بات ہے۔ اس زمانہ میں ابھی کیمرہ کا زیادہ رواج نہیں تھا۔ اس شخص نے ایک سٹینڈ کھڑا کیا اور اس کے اوپر گتے کی ایک چیز رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی فوٹو لی۔ جب آپ سیر کے لئے آگے تشریف لے گئے تو اس شخص کے متعلق بات شروع ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بتایا گیا کہ وہ شخص مڈل تک تعلیم رکھتا ہے اور اس نے بڑی محنت کے ساتھ کیمرہ کی ایجاد کی ہے اور یہ کیمرہ جس سے آپ کی فوٹو لی گئی ہے اس کا اپنا ایجاد کردہ ہے۔ اس شخص نے ایجادات کے شوق میں روس تک کا سفر بھی کیا ہے اور متعدد ایجادیں کی ہیں۔ وہ دوست جلد ہی فوت ہو گئے کیونکہ اس کے بعد وہ دکھائی نہیں دیئے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد 33 صفحہ 322،321۔خطبہ جمعہ 21؍ نومبر 1952ء بشکریہ انچارج صاحب شعبہ مخزنِ تصاویر لندن)

امرتسراسٹیشن پر انگریزنوجوانوں کاحضورؑکی تصویرکھینچنا

سیرۃ المہدی میں حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحب بیان فرماتے ہیں :

’’منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دہلی سے واپسی پر امرتسر اُترے۔ حضرت ام المومنین بھی ہمراہ تھیں۔ حضور نے ایک صاحبزادے کو جو غالباً میاں بشیر احمد صاحب (خاکسار مؤلف) تھے گود میں لیا۔ اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا اور مجھے فرمایا آپ پاندان لے لیں۔ میں نے کہا حضور مجھے یہ بیگ دے دیں۔ آپ نے فرمایا۔ نہیں۔ ایک دو دفعہ میرے کہنے پر حضور نے یہی فرمایا۔ تو میں نے پاندان اٹھا لیا اور ہم چل پڑے۔ اتنے میں دو تین جوان عمر انگریز جو اسٹیشن پر تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضور سے کہو ذرا کھڑے ہوجائیں۔ چنانچہ میں نے عرض کی کہ حضور یہ چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہوجائیں۔ حضور کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اُسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا۔ ‘‘

(سیرۃ المہدی جلددوم صفحہ58-59روایت نمبر1073)

لاہورمیں ایک انگریزعورت کاحضورؑکی تصویرلینا

15؍جنوری1903ء کوسیدناحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام مولوی کرم دین کے مقدمہ کے سلسلہ میں جہلم تشریف لے جانے کی غرض سے قادیان سے روانہ ہوئے اورایک دن لاہورمیں قیام فرمایا۔امرتسر سے لاہورتشریف لاتے وقت لاہورریلوے اسٹیشن پرایک انگریزخاتون نے حضورؑکی تصویرلینے کی سعادت حاصل کی۔اس تصویرکے بارہ میں حضرت میاں معراج الدین عمرصاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ

’’سفر جہلم میں امرتسر کے مقام سے ایک لیڈی نے حضرت صاحب کو دیکھنا شروع کیا وہ ایک جرنیل کی بیوی تھی۔ ولایت سے آرہی تھی۔ ہجوم کو دیکھ کر حیران رہ گئی لاہور آکر پھر اس نے ہجوم دیکھا ادھر ادھر پھرتی رہی۔ آخر مجھ سے انگریزی میں سوال کیا کہ یہ کون ہے اور ہجوم اس قدر کیوں ہے؟ میں نے جواب دیا کہ یہ خداوند یسوع مسیح اپنی دوسری بعثت میں آیا ہوا ہے۔ اس نے کہا یہ تو انسان ہے مگر وہ خدا تھا۔ میں نے جواب دیا کہ وہ مریم مقدسہ کا بیٹا تھا اور وہ چونکہ انسان تھی۔ اس لئے یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ عورت کے پیٹ سے خدا پیدا ہو۔ پھر اس نے کہا کہ کیا میں ان کے قریب جا سکتی ہوں۔ میں نے انتظام کر دیا اس نے قریب جا کر ہاتھ ملانا چاہا مگر حضرت صاحب نے اس کی طرف توجہ بھی نہ کی اس پر اس نے حضور کا فوٹو لے لیا۔ ‘‘

(رجسٹرروایات ازروایات حضرت میاں معراج الدین صاحب عمرؓ روایت نمبر3)

جہلم میں دو انگریزعورتوں کاحضورؑ کی تصویرلینا

حضرت میاں فیروزالدین صاحبؓ (سن بیعت 1892ء) ولدمیاں گلاب دین صاحب سکنہ سیالکوٹ روایت کرتے ہیں کہ

’’میں جہلم بھی حضور کے ساتھ گیا تھا۔ اس سفر میں بھی رستہ میں بے شمار مخلو ق تھی۔ جب جہلم پہنچے تو دو یورپین لیڈیوں نے پوچھا کہ یہ ہجوم کیوں ہے۔ کسی دوست نے کہا کہ مسیح موعود علیہ السلام ہیں انہوں نے کہا ذرا ہٹ جائو ہم فوٹو لینا چاہتی ہیں۔ چنانچہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور انہوں نے فوٹو لے لیا۔ ‘‘

(رجسٹرروایات ازروایات حضرت میاں فیروزالدین صاحبؓ )

ایک انگریزکی قادیان آمداور حضورؑ کے فوٹولینا

17؍نومبر1901ء کوحضرت اقدس مسیح موعودؑ صبح کی سیر سے واپسی پر حضرت حکیم مولانانورالدینؓ کے مطب میں تشریف فرماہوکروعظ فرمارہے تھے کہ اس اثناء میں ایک انگریزسیاح ڈی ڈی ڈکسن نامی جس کاتعلق انگلینڈسے تھا، مطب میں داخل ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ موصوف سے مختلف استفسارات فرماتے رہے۔ آپؑ کی ترجمانی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے کی۔ ڈکسن صاحب ایک روزقادیان میںٹھہرے۔ ان کی رہائش کاانتظام گول کمرے میں کیاگیا۔ اسی روزعصرکی نمازکے بعد ڈکسن صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے تین فوٹولیے۔ دوفوٹوآپؑ کے احباب کے ساتھ لیے اورایک فوٹوالگ لیا۔ 18؍نومبر1901ء کی صبح ڈکسن صاحب واپس بٹالہ روانہ ہوگئے۔ حضورؑ ڈکسن صاحب کوروانہ فرمانے کی خاطرنہرکے پل تک پیدل تشریف لے گئے۔ راستہ میں آپؑ نے ڈکسن صاحب کووعظ ونصائح بھی فرمائیں۔ حضورؑ کے ان ارشادات کی ترجمانی مولوی محمدعلی صاحب نے کی۔

(الحکم24و30؍نومبر1901ء)

حضرت نواب محمدعلی خان صاحبؓ نے بھی اپنی ڈائری میں ڈکسن صاحب کی لی گئی تصویرسے متعلق ذکرفرمایاہے۔ آپ نے 17؍نومبر1901ء کی ڈائری میں تحریرفرمایا:

’’عصرکے بعد ڈکسن نے حضرت کی مع مریدین تصویر کھینچی۔ اس سے واپس آ کر مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی نور الدین صاحب سے گفتگو کی۔ ‘‘(اصحابِ احمدجلددوم صفحہ181)

ڈکسن صاحب کے لیے گئے مذکورہ بالاتینوں فوٹوبھی دستیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

دعویٰ ماموریت سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کی ایک تصویر

دعویٰ سے قبل کے ایک نادرونایاب فوٹوکے متعلق تاریخِ احمدیت جلددوم میں ذکرہے:

’’حال ہی میں حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کے قیامِ سیالکوٹ67-1864ءکےدورکافوٹودریافت ہواہے۔ اس فوٹوکے دیکھنے والے احمدی دوست محمدفریدون خاں ولد رحمت اللہ خاں (ساکن شیخ البانڈی تحصیل ایبٹ آباد ہیڈ کلرک محکمہ امدادِ باہمی)کاحلفیہ بیان ہے کہ1958-1959ء کا ذکرہے کہ میں خان محمداصغرصاحب قریشی اسسٹنٹ رجسٹرار کواپریٹوسوسائیٹیزہزارہ کے ہمراہ بحیثیت کیمپ کلرک کے دورہ پرموضع نگری ٹوٹیال تحصیل ایبٹ آبادبرائے معائنہ انجمن امدادِ باہمی گیا۔ دورانِ گفتگوجب ہمارے میزبان ……کومعلوم ہواکہ میں جماعتِ احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتاہوں توانہوں نے فرمایاکہ میرے پاس مرزاصاحب کافوٹوہے۔ جواُن کے زمانہ ملازمت سیالکوٹ کاہےوہ میں آپ کودکھاتاہوں۔ چنانچہ بموجودگی ……، …… موصوف ایک گروپ فوٹو لے آئےجوفریم میں نہیں تھابلکہ ایک گتے پرچسپاں تھا۔ میں نے اُن کے بتانے کے بغیرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی شبیہ مبارک پہچان لی۔ حضرت اقدسؑ کھڑے تھے اورفوٹوکے دائیں جانب سے تیسرے چوتھے نمبرپرتھے۔ اس فوٹوکاسائزفل اسکیپ کے قریب دوتہائی کے برابرتھا۔ یہ ایک گروپ فوٹوتھا۔ آگے کرسیوں پرکئی اصحاب بیٹھے تھےجن میں ایک انگریزبھی تھا۔ فوٹوکارنگ پیازی تھااورنقوش نہایت واضح تھے۔ میں نے ……مذکورسے درخواست کی کہ یہ فوٹوچنددن کے لئے مجھے عنایت فرمادیں تامیں اس کی نقول تیارکرواکراصلی کاپی آپ کوواپس کردوں مگر ……نے مجھے ٹال دیا۔ اس کے بعدوہ کئی دفعہ مجھے ملےاورمیں اِس کے لئے اُن سے اکثرکہتابھی رہا۔ چنانچہ ایبٹ آبادمیں انہوں نے مجھ سے وعدہ فرمایاکہ میں فوٹودے دوں گا۔

خاکسارمرتب(مولانادوست محمدشاہدصاحب)عرض کرتاہے کہ 25؍جنوری 1961ء کومحمدفریدون خان صاحب اورخاکساردونوں نے سردارصاحب سے اُن کی رہائش گاہ واقع مری روڈراولپنڈی پرملاقات کی۔ جس پرانہوں نے مئی 1961ء میں فوٹودکھانے کاوعدہ کیا۔ مگرجب میں دوبارہ اُن کے ہاں پہنچاتواُنہوں نے بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پردکھانے سے معذرت کردی۔ حضرت مرزابشیراحمدصاحبؓ کویہ تاریخی فوٹودیکھنے کی بہت آرزوتھی۔ اللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ اس اہم تاریخی یادگارکے برآمدہونے کی کوئی غیبی صورت پیداکردے۔‘‘

(تاریخِ احمدیت جلددوم صفحہ66حاشیہ نمبر14)

اللہ تعالیٰ اس دعاکوجلدمقبول فرمائے تا حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ کی مذکورہ بالا خواہش ہم غلامانِ مسیح موعودؑاپنی زندگیوں میں پوری ہوتے دیکھ سکیں۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button