متفرق مضامین

صحابہ رسولﷺ کا رمضان

(راشد محمود منہاس۔ مبلغ سلسلہ گھانا)

ماہ رمضان مسلمانوں کے لیے خداوند تعالیٰ کی طرف سے ایک انمول تحفہ ہے۔ اس ماہ مبارک کی عظمت وشان کےلیے یہ کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اورراہ نمائی کےلیے قرآن کریم جیسی عظیم الشان کتاب کے نزول کا آغاز اسی ماہ میں فرمایا۔ اسے اللہ بزرگ و برتر کا مہینہ قراردیا گیا ہےاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مہینوں کا سردار قرار دیا ہے۔ اس میں روزے داروں کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ آگ سے نجات کا ہے۔ (شعب الایمان للبیهقی۔ باب فضائل شهر رمضان ) اس کی ایک ایک ساعت بیش بہا نعمتوں سے مالامال ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزارمہینوں سے افضل اور بہتر ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’رمضان کا مہینہ مبارک مہینہ ہے، دعاؤں کا مہینہ ہے‘‘۔ (الحکم 24؍جنوری 1901ء)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان کا استقبال کرنا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ا س مبارک مہینہ کےلیےخاص اہتمام فرماتے تھے۔ جب یہ مبارک مہینہ قریب آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے استقبال کی تیاریاں شروع فرمادیتےاور کسی عاشق کی طرح محبوب کا انتظار کرتے۔ اور اس میں عبادت و بندگی کےلیے کمرہمت کس لیتے اور ان الفاظ میں دعا فرماتے:

عَنْ أَنَسٍ، قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ، قَالَ: اللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ

(شعب الایمان للبيهقي کتاب الصیام تخصیص شهر رجب بالذکر)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔

جب یہ مقدس و مبارک ماہ اپنی رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا تو سردار دو عالم، سید کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو اس کی آمد کی مبارک باد دیتےاور اس کے فضائل اور اہمیت بیان فرماتے۔ چنانچہ امام احمد حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی روایت نقل فرماتے ہیں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَشِّرُ أَصْحَابَهُ: قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيْهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيْهِ أَبْوَابُ الْجَحِيْمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِيْنُ، فِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ

(منسد احمد بن حنبل: مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ روایت: 8991)

رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے مبارک باد دیتے کہ تم پر رمضان کا مہینہ جلوہ فگن ہواہے جو نہایت با برکت ہے، اس کے روزے تم پر اﷲ نے فرض فرمائے ہیں، اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے، اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس سے محروم ہو گیا وہ محروم ہی رہے گا۔

آپؐ رمضان کے آغاز اور دوران رمضان بھی اس ماہ کی اہمیت کے بارے میں صحابہ کو وعظ و نصیحت فرماتے رہتے تاکہ اس کے شب و روز سے خوب فائدہ اٹھایا جائے اور اس میں غفلت ہرگز نہ برتی جائے، اس کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت جانا جائے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات رمضان

یو ں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمہ وقت عبادت و بندگی اور یاد الٰہی میں مصروف رہتے لیکن رمضان المبارک میں اس میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا۔ آپؐ کے معمولات کی ایک جھلک یوں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان المبارک میں روزانہ تشریف لاتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سنا تے۔ اگلے پچھلے تمام گناہوں کی مغفرت کا وعدہ ملنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی لمبی نمازیں پڑھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک متورم ہوجاتے۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ رمضان المبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اورذکر و اذکار، تلاوت کلام پاک اور دیگر عبادتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی اور فیاض تھے لیکن اس مہینے میں سخاوت و فیاضی تیز آندھی سے بھی زیادہ ہوجاتی، کوئی سائل درِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچتا تو وہ محروم نہیں ہوتا جو کچھ بھی دولت کدے پر موجود ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم عنایت فرمادیتے۔

(صحیح بخاری كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ: أَجْوَدُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ فِي رَمَضَانَ)

پھر آپؐ کا اسی ماہ میں اعتکاف کرنا اس میں مزید اضافے کا باعث ہوتا۔

(صحیح بخاری كتاب فضل ليلة القدربَابُ فَضْلِ لَيْلَةِ القَدْرِ)

صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان

صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے رضا و خوشنودی کی سند اسی زندگی میں عطا کی گئی تھی ان کی زندگیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر گزریں۔ ہر حرکت و سکون میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو مشعل راہ کے طور پر لیتے۔ ہر وہ حکم جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملتا اسے وہ جان پر کھیل کر بھی بجا لاتے۔ اسی جذبہ کے تحت انہوں نے عبادت کے وہ اعلیٰ معیار قائم کیے ہیں جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ستاروں کی مانند قرار دیا اور ساری امت کے لیے ان کی پیروی باعث کامیابی قرار دی۔

جب ہم صحابہؓ کی رمضان المبارک میں مصروفیات وعبادات کو دیکھتے ہیں تو ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتے ہیں کہ ان کے معیار کس قدر بلند تھے۔

استقبال رمضان

جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تقریباً سارا سال رمضان کا انتظار رہتا تھا اور جیسے جیسے قریب آتا جاتا آپؐ اس کے لیے دعا بھی شروع کر دیتےتھے اسی طرح کا معمول صحابہ کرامؓ کا بھی تھا۔ وہ بھی بڑی بے چینی سے اس ماہ مبارک کا انتظار کرتے تھے اور جب یہ قریب آتا تو اس کےلیے خاص لائحہ عمل ترتیب دیتے تھے کہ کس طرح اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور برکات کو سمیٹنا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول سے اِس حکمت کی تائید بھی ہو جاتی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شعبان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معمول پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:

کَانَ الْمُسْلِمُوْنَ إِذَا دَخَلَ شَعْبَانُ أَکَبُّوْا عَلَی الْمَصَاحِفِ فَقَرَؤُوْهَا، وأَخْرَجُوْا زَکَاةَ أَمْوَالِهِمْ تقوِيَةً لِلضَّعِيْفِ وَالْمِسْکِيْنِ عَلَی صِيَامٍ وَ رَمَضَانَ۔

(لطائف المعارف ابن رجب حنبلی)

شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک پڑتے، اپنے اَموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غریب، مسکین لوگ روزے اور ماہ رمضان بہتر طور پر گزار سکیں۔

غیر ضروری کاموں سے اجتناب

صحابہ کرا مؓ کی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادات میں گزاریں۔ ان ایام میں وہ غیرضروری مصروفیات کو ترک کر دیتےتھے۔

حضرت ابوذرؓ اپنے ساتھیوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جب تم روزہ رکھو تو جتنا ہوسکے لایعنی باتوں سے محفوظ رہو۔

اس روایت کے راوی طلیق کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ روزے سے ہوتے تو اپنے گھر سے صرف نماز کے لیے نکلتے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم مَا يُؤْمَرُ بِهِ الصَّائِمُ مِنْ قِلَّةِ الْكَلَامِ، وَتَوَقِّي الْكَذِبِ)

حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا:

روزہ صرف کھانے پینے سے نہیں ہے، بلکہ روزہ جھوٹ، باطل اور لغو قسم کھانے سے بھی ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب مَا يُؤْمَرُ بِهِ الصَّائِمُ مِنْ قِلَّةِ الْكَلَامِ، وَتَوَقِّي الْكَذِبِ)

روزہ رکھنا

رمضان المبارک کے روزے رکھنا تو صحابہ کرامؓ کا معمول تھا اور بغیر کسی اشد مجبوری کے روزہ چھوڑنا ان کے نزدیک گناہ ِکبیرہ میں شمار ہوتا تھا۔ صحابہ کرام کے نفلی روزوں کا معیار بھی بہت اعلیٰ تھا۔

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کثرت سے روزے رکھتے اور حضور کی وفات کے بعد بغیر کسی بیماری کے روزہ نہ چھوڑتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب من کان یکثر الصوم و یامر بذلک )

پھر کئی ایک صحابہ کے بارے میں آتا ہے کہ ان کو روزے کا اس قدر شوق ہو تا تھا کہ جب ان کو معلوم ہوتا کہ آج گھر کھانے کو کچھ نہیں ہے تو کہتے میں روزے سے ہوں۔

حضرت ابو الدرداؓ کے بارے میں بھی یہ منقول ہے۔ اسی طرح حضرت ابو طلحہ، ؓ حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت حذیفہؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا بھی یہی حال تھا۔

(بخاری کتاب الصوم باب اذا نوی بالنهار صوما)

حضرت نافع بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضر میں صرف بیماری کی حالت میں روزہ چھوڑا کرتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب من کان یکثر الصوم و یامر بذالک )

اسی طرح بعض صحابیاتؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اس قدر نفلی روزے رکھتی تھیں جس سے ان کے خاوندں کو تکلیف ہوتی تھی۔ جب ان کو روکا گیا تو ان کو سخت ناگوار گزرا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکایت کی۔ لیکن آپؐ نے حکم دیا کہ کوئی عورت شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہیں رکھ سکتی۔

(ابو داؤد کتاب الصیام باب المراة هل تصوم بغیر اذن زوجها)

حضرت سعد بن ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمرؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت سعید بن المسیبؓ کثرت سے روزہ رکھا کرتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب من کان یکثر الصوم و یامر بذالک )

اسی طرح حضرت ابو امامہؓ کے بارے میں بھی آتا ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نفع رساں عمل کے بارے میں دریافت فرمایا تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کا حکم دیا۔ اس کے بعد انہوں نے روزوں کا اس قدر اہتمام کیا کہ اگر کسی دن ان کے گھر سے دھواں اٹھتا تو لوگ سمجھتے کہ ان کے گھر کوئی مہمان آیا ہے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب ما ذکر فی فضل الصیام و ثوابه )

وصال کے روزے

صحابہ کرامؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت وسکون کا مشاہدہ کرتے تھے اور اس کی پیروی کرنا راہ نجات خیال کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایسا ہواکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال(بغیر سحری کے روزہ رکھنا) کے روزے رکھنے شروع کیےتو صحابہؓ نے بھی آپ کی پیروی کی جو کہ بعض اصحاب کےلیے مشکل تھا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس سے منع فرمایا۔

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں وصال کے روزے رکھے۔ لوگوں نے بھی آپ کو دیکھ کر وصال کے روزے رکھنے شروع کر دیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا۔ عرض کیا گیا آپؐ وصال کے روزے رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا میں تمہارے جیسا نہیں۔ مجھے کھلایا پلایا جاتا ہے۔

(مسلم کتا ب الصیام باب النَّهْيِ عَنِ الْوِصَالِ فِي الصَّوْمِ)

مسلسل روزے رکھنے سے مناہی

صحابہ رسول رضوان اللہ علیھم اجمعین کا معیار عبادت ہر ایک لحاظ سے قابل تقلید ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے رکھنےکے بارے میں وعظ کیا اور روزے دار کا مقام ومرتبہ بیان فرمایا تو بعض صحابہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم ساری زندگی روزے سے گزاریں گے۔

حضر ت عبداللہ بن عمروؓ کے متعلق روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے عبداللہ بن عمرو مجھے پتہ چلا ہے کہ تم دن بھر روزے رکھتے ہو اور رات بھر عبادت کرتے ہو۔ ایسا نہ کرو یقیناً تمہارے جسم کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ روزہ رکھو بھی اور ناغہ بھی کرو۔ ہر ماہ تین دن روزے رکھو یہ زمانے بھرکے روزے ہوں گے۔

(صحیح مسلم کتاب الصیام بَابُ النَّهْيِ عَنْ صَوْمِ الدَّهْرِ لِمَنْ تَضَرَّرَ)

بچوں سے روزے رکھوانا

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین جس طرح خود روزے کی پابندی کرتے تھے اس کی عادت ڈالنے کے لیے اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے۔

چنانچہ بخاری میں روایت ہے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کے موقع پر مدینہ میں روزہ کے لیے منادی کروائی۔ صحابہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اپنے بچوں کو رکھواتے اور ان کے لیے اون کا ایک کھلونا بنا دیتے۔

اسی طرح حضرت عمرؓ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے رمضان میں ایک شخص کو جو شراب کے نشے میں تھا یہ کہہ کر سزا دی کہ کم بخت ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم الصبیان)

مردہ کی طرف سے روزے رکھنا

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا میری ماں فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمہ ایک ماہ کے روزے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر اس کے ذمہ کوئی قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتی؟ اس نے کہا ہاں آپؐ نے فرمایا پھر اللہ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔

(مسلم کتاب الصیام بَابُ قَضَاءِ الصِّيَامِ عَنِ الْمَيِّتِ)

رمضان میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا قیام

صحابہ کرامؓ عام دنوں میں تہجد کی پابندی کیا کرتے تھے اور رات کا ایک حصہ اللہ کی عبادت میں گزارتے تھے، البتہ رمضان میں تقریباً پوری رات عبادت میں صرف کرتے تھے۔ اپنے قیام میں طویل تلاوت کیا کرتے تھے۔ ایک تہائی، نصف یا رات کا اکثر حصہ تلاوتِ قرآن، نماز، اور ذکر واذکار واستغفار میں لگاتے تھے۔ ان کے مد نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ہوتا تھا کہ

’’جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے رمضان المبارک میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے جاتے ہیں ‘‘

(بخاری کتاب صلوٰة التراویح)

عبداللہ بن ابو بکر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم رمضان میں قیام اللیل سے واپس ہوتے تو خادموں کو کھانا لانے میں جلدی کا کہتے کہ کہیں طلوعِ فجر نہ ہو جائے۔

(موطا امام مالک کتا ب الصلوٰة فی رمضان بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ)

صلوٰۃ التراویح

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور مبارک میں صحابہؓ کا یہ طریق رہا ہے کہ ہر کوئی رات کو قیام کرتا تھا اور الگ الگ نماز پڑھتے تھے۔ یہی طریق حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دَور میں بھی جاری رہا اور حضرت عمرؓ کی خلافت کے آغاز میں بھی یہی طریق تھا کہ ہر کوئی انفرادی نماز تہجد ادا کرتا۔ پھر ایک دن حضرت عمرؓ رمضان المبارک میں مسجد کی طرف گئے اور دیکھا کہ کچھ لوگ انفرادی نماز ادا کررہےہیں اور کچھ لوگ گروہوں میں کسی ایک امام کے پیچھے نماز ادا کر رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے مشورہ سے ان سب لوگوں کو ایک امام کے پیچھے جمع کر دیا۔

(بخاری کتاب صلوٰة التراویح )

عورتوں کے لیے امام

حضرت علیؓ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے عورتوں کے لیے بھی الگ نماز تراویح کا انتظام فرمایا اور ان کے لیے الگ امام مقرر فرمایا۔

عرفجہ ثقفی بیان کرتے ہيں کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کورمضان المبارک میں قیام اللیل کا حکم دیتے اورمردوں اورعورتوں کے لیے علیحدہ علیحدہ امام مقرر کرتے تھے، راوی کہتے ہيں کہ میں عورتوں کی امامت کیا کرتا تھا۔

(شعب الایمان کتاب الصلوٰة باب صلوٰة فی شهر رمضان)

عبدالرحمٰن بن عراک بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: میں نے رمضان میں لوگوں کو پایا کہ وہ طویل قیام کی وجہ سے اپنے لیے رسیاں باندھتے تھے تا کہ اس سے سہارا لیں۔

(مصنف ابن ابی شیبه كِتَابُ صَلوٰة التَّطَوُّعِ وَالْإِمَامَةِ وَأَبْوَابٌ مُتَفَرِّقَةٌ باب فِي صَلوٰة رَمَضَانَ)

دن کے اوقات میں بھی مسجدیں آباد

رمضان کے دوران صحابہ صرف رات کو ہی قیام نہیں کرتے تھے بلکہ جب بھی وقت ہوتا وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں خدا کی یاد میں صرف کرتے تھے۔

ابن ابی شیبہ نے ابو المتوکل سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ اور آپ کے ساتھی جب روزہ رکھتے تو مسجد میں بیٹھتے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب ما یؤمر به الصائم من قلة الکلام و توقی الکذب)

تلاوت قرآن پاک

رمضان اور قرآن کریم کا گہرا تعلق ہے اور اس بابت پہلے گزر چکا ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام ماہ رمضان میں ہر روز آتے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کی دہرائی کرتے تھے۔ آپ کی اقتدا میں صحابہ بھی قرآ ن کریم کی تلاوت کثرت سے کرتے، بلکہ بعض صحابہ تو اس کے لیے فارغ ہی ہوجاتے، اور اسی کو اپنا مشغلہ بنادیتے۔

حضرت ابن مسعودؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ پورا قرآن ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک ختم کرتے تھے، اور رمضان میں ہر تین دن میں ایک دَورمکمل کرتےتھے… اور حضرت ابی بن کعبؓ کےبارے میں آتا ہے کہ وہ آٹھ دنوں میں قرآن کا ایک دَور مکمل کرتے تھے۔ حضرت تمیم داریؓ بھی سات دنوں میں مکمل کرتے تھے اور حضرت عثمان بن عفانؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ساری ساری رات قرآن کی تلاوت کرتےتھے۔ اور ایک روایت میں ہےکہ سات دنوں میں قرآن کا ایک دَور مکمل کرتے تھے۔

(السنن الکبری للبیهقی بَابُ مِقْدَارِ مَا يُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يَخْتِمَ فِيهِ الْقُرْآنَ مِنَ الْأَيَّامِ)

ام المومنین حضرت عائشہؓ کا یہ معمول تھا کہ وہ رمضان میں دن کے شروع حصے میں قرآن کی تلاوت کیا کرتی تھیں، جب سورج طلوع ہوتا تو سو جاتیں۔

(لطائف المعارف وظائف شهر رمضان المعظم)

قرآن کو سمجھ سمجھ کر پڑھنا

صحابہ کرامؓ قرآن کو سمجھ کرپڑھتے تھے اور اس پر تدبر کرتے تھے جیسا کہ روایت میں ہے:

ابو جمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نےحضرت ابن عباسؓ سے عرض کیا کہ میں جلدی جلدی تلاوت کر لیتا ہوں اور تین دن میں قرآن کا ایک دَور ختم کر لیتا ہوں۔ آپؓ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ میں ایک رات میں صرف سورہ بقرۃ کی تلاوت کروں اور اس پر غور و فکر کروں بہ نسبت اس کے کہ میں ایسے تلاوت کروں جیسے تم کرتے ہو۔

( سنن الکبری للبیھقی جماع ابواب القرائۃ بَابُ مِقْدَارِ مَا يُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يَخْتِمَ فِيهِ الْقُرْآنَ مِنَ الْأَيَّامِ)

انفاق فی سبیل اللہ

بخاری کتاب بدء الوحی میں روایت آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان میں تیز آندھی سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔

اس مبارک مہینے میں صحابہ کرامؓ کی سخاوت بھی عروج پر ہوتی۔ عام معمول یہ ہوتا کہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ خود بھوکے رہتے تھے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی اس صفت کی تعریف قرآن مجید میں کی ہے، خصوصاً جب عید کا دن ہوتا تو صدقۃ فطر کے علاوہ بھی فقراءمیں اپنا مال تقسیم کرتے تا کہ کوئی بھی اس دن کی خوشی سے محروم نہ رہے۔

صدقۃ الفطر

صحابہ کرامؓ رمضان المبارک کے مہینے میں عام طور پر سخاوت کرتے تھے لیکن صدقۃ الفطر جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےہر مسلمان پر فرض فرمایا ہے اس کو بھی التزام سے ادا کرتے تھے۔ اور اس میں اس حد تک احتیاط کرتے تھے کہ

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے آزاد کردہ غلام نافع بیان کرتے ہیں کہ آپ ان کی طرف سے بھی فطرانہ ادا کرتے بلکہ ان کے بچوں کا فطرانہ بھی رمضان المبارک میں خود ادا فرماتے۔

(بخاری کتاب الزکوٰة ابواب صدقة الفطر)

حضرت ابو سعید خدریؓ سےروایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود تھے توہم ہر چھوٹے بڑے آزاد یا غلام کی طرف سے ایک صاع غلہ یاایک صاع پنیر یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع خشک انگور صدقۃالفطر ادا کیا کرتے تھے۔

(مسلم كِتَاب الزَّكوٰةِ بَابُ زَكوٰةِ الْفِطْرِ عَلَى الْمُسْلِمِينَ مِنَ التَّمْرِ وَالشَّعِيرِ)

فقرا ءاور مہمانوں کی دعوت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور مبارک میں باقاعدہ لنگر خانہ وغیرہ کا کوئی انتظام نہ تھا لیکن مہمان کثرت سے آتےتھے اور ان مہمانوں کے علاوہ مستقل طور پر کچھ اصحاب مسجد نبوی میں مقیم تھے جن کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں میں سے معاشی لحاظ سے کمزور لوگ تھے۔ صحابہ کرامؓ اصحابِ صفہ کو کھانا پیش کرتے تھے اور رمضان المبارک میں ان کی سحری و افطاری کا انتظا م بھی حتی المقدور کرتے تھے۔

واثلہ بن اسقع سے روایت ہےکہ جب رمضان آیا تو ہم صفہ میں تھے۔ ہم نے روزہ رکھا، جب ہم افطار کرتے تو ہم میں سے ایک شخص کے پاس ایک آدمی آتا اور اپنے ساتھ لے جا کر رات کا کھانا کھلاتا۔

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء ذکر وَاثِلَةُ بْنُ الْأَسْقَعِ وَذَكَرَ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ فِي أَهْلِ الصُّفَّةِ)

صحابہ کرامؓ وفود اور مہمانوں کے لیے کھانا پکایا کرتے تھے۔ علقمہ بن سفیان بن عبداللہ ثقفی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ہم وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مغیرہ بن شعبہ کے گھر کے پاس دو خیمے لگوائے۔ بلال ہمارے پاس افطار لے کر آتے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ کبھی آپ کے شاگرد بھی سحری کھایا کرتے تھے، چاہے تھوڑا بہت کچھ بھی پاس ہوتا، اور وہ سحری تاخیر سے کیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے عامر بن مطر سے روایت کیا ہے کہ وہ حضرت عبداللہؓ کے پاس ان کے گھر گئے، تو انہوں نے اپنی سحری میں سے بچا ہوا کھانا نکالا، تو ہم نے آپ کے ساتھ سحری کھائی۔ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہم نکلے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب مَنْ كَانَ يَسْتَحِبُّ تَأْخِيرَ السَّحُورِ)

اعتکاف اور آخری عشرہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں اعتکاف کا اہتمام کرتے، حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شروع میں رمضان کے وسطی عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ اعتکاف کرتے تھے۔ جب بیسویں رمضان کو صحابہ اعتکاف سے نکلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی ہے اور بھلا دی گئی ہے پس اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ اس لیے جو اصحاب اعتکاف سے اٹھ گئے ہیں وہ واپس آئیں۔ اس طرح اس سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحابؓ نے بیس روز کا اعتکاف کیا۔

(بخاری کتاب الاعتکاف باب الاعتکاف)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر ہمت کس لیتے اور ساری رات جاگتے اور اپنے اہل کو بھی جگاتے۔

(بخاری كتاب فضل ليلة القدربَابُ العَمَلِ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کےبارے میں آتا ہے کہ وہ اپنےاہل کو تئیس رمضان کی رات کو عبادت کے لیے جگاتیں۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب مَا قَالُوا فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَاخْتِلَافِهِمْ فِيهَا)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے بارے میں آتا ہے کہ تئیس رمضان المبارک کو اپنے اہل کو پانی چھڑک کر جگاتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب مَا قَالُوا فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَاخْتِلَافِهِمْ فِيهَا)

حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بارے میں آتا ہے کہ رمضان میں آپ کی نماز سارے سال کی نمازوں کی طرح ہوتی تھی لیکن جب آخری عشرہ آتا تو آپ اس میں بہت اضافہ کرتے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم باب مَنْ كَانَ يَجْتَهِدُ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ مِنْ رَمَضَانَ)

آخری عشرے میں عبادت میں صحابہ کرامؓ کی جدوجہد بے انتہا بڑھ جاتی تھی۔ خود بھی عبادت میں مصروف ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی رات کو جگاتے۔ عبداللہ ابن عمرؓ آخری عشرے میں اپنے گھر والوں کو جگایا کرتے تھے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔

(مصنف ابن ابی شیبه کتاب الصوم مَنْ كَانَ يَجْتَهِدُ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ الْأَوَاخِرُ مِنْ رَمَضانَ)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان کو اپنے پیاروں کی طرح گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لیے اپنے پیارے مہدی کے ماننے والوں کے لیے جو آپ نے دعائیں کی تھیں ان دعاؤں کا وارث بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا حقیقی عبادت گزار بندہ بنائے۔ اے اللہ! اس رمضان کی برکات سے ہمیں بے انتہا حصہ دے۔ ہر شر سے ہمیں محفوظ رکھ اور اپنی رحمت اور فضل کی چادرمیں ہمیں ہمیشہ لپیٹے رکھ۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button