تلاوت قرآن کریم کی فضیلت وبرکات (قسط سوم)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’سب سے سیدھی راہ اور بڑا ذریعہ جو انوار یقین اور تواتر سے بھرا ہوا اور ہماری روحانی بھلائی اور ترقی علمی کے لئے کامل رہنما ہے قرآن کریم ہے جو تمام دنیا کے دینی نزاعوں کے فیصل کرنے کا متکفل ہوکر آیا ہے جس کی آیت آیت اور لفظ لفظ ہزار ہا طور کا تواتر اپنے ساتھ رکھتی ہے اور جس میں بہت سا آبِ حیات ہماری زندگی کے لئے بھرا ہوا ہے اور بہت سے نادر اور بیش قیمت جواہر اپنے اندر مخفی رکھتا ہے جو ہرروز ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ یہی ایک عمدہ محک ہے جس کے ذریعہ سے ہم راستی اور ناراستی میں فرق کرسکتے ہیں۔ یہی ایک روشن چراغ ہے جو عین سچائی کی راہیں دکھاتا ہے۔ بلاشبہ جن لوگوں کو راہ راست سے مناسبت اور ایک قسم کا رشتہ ہے اُن کا دل قرآن شریف کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور خدائے کریم نے اُن کے دل ہی اس طرح کے بنا رکھے ہیں کہ وہ عاشق کی طرح اپنے اس محبوب کی طرف جھکتے ہیں اور بغیر اس کے کسی جگہ قرار نہیں پکڑتے ‘‘
(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 381)
دراصل ہدایت عطا کرنا خدا تعالیٰ کا فعل ہے اس لیے ہدایت کے عطا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اوراُسی کے حضور د عائیں کرتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ہماری راہ نمائی کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہمیں یہ دعا کثرت کے ساتھ پڑھتے رہنا چاہیے:
رَبَّنَا لَاتُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ھَدَیۡتَنَا وَھَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَھَّابُ۔ (آل عمران:9)
اے ہمارے ربّ! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو۔ اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔
دلوں میں نرمی پیدا کرنے والی
قرآن کریم کے پُر تاثیر الفاظ انسانی قلوب و اذہان پر خاص اثر ڈالتے ہیں انسان جتنے غور اور توجہ سے اللہ تعالیٰ کے کلام کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور جتنازیادہ اُس کے معارف کو تلاش کرتا ہے اُسی قدر اُس کادل رقت اور خشیت کے جذبات سے لبریز ہوتا جاتا ہے اور اُس میں نرمی پیدا ہوتی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَوۡ اَنۡزَلۡنَا ھٰذَاالۡقُرۡاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیۡتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ (الحشر:22)
اگر ہم نے اِس قرآن کو کسی پہاڑ پر اُتارا ہوتا تو تُو ضرور دیکھتا کہ وہ اللہ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف ایسے کمالات عالیہ رکھتا ہے جو اس کی تیز شعاعوں اور شوخ کرنوں کے آگے تمام صحف سابقہ کی چمک کالعدم ہورہی ہے… کوئی تقریر ایسا قوی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور پُر برکت اثر لاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیا ہے۔‘‘
(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 71)
خیرو برکت اور فلاح کا ذریعہ
قرآن کریم حکمت و معرفت کا خزانہ اور خیرو برکت عطا کرنے والی کتاب ہے۔ جس کا پڑھنا باعث خیرو برکت ہے اور اس پر عمل کرنا بھی خیروبرکت اور بھلائی کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِمبارک ہے:
یُؤۡتِی الۡحِکۡمَۃَ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا (البقرۃ:270)
وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتاہے۔ اور جو بھی حکمت دیا جائے تو یقیناً وہ خیرِ کثیر دیا گیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کریمہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کو خدا تعالیٰ نے خیر کہا ہے چنانچہ فرمایا:
وَمَنۡ یُّؤۡتَ الۡحِکۡمَۃَ فَقَدۡ اُوۡتِیَ خَیۡرًا کَثِیۡرًا۔
پس قرآن شریف معارف اور علوم کے مال کا خزانہ ہے خدا تعالیٰ نے قرآنی معارف اور علوم کا نام بھی مال رکھا ہے۔ دنیا کی برکتیں بھی اسی کے ساتھ آتی ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلداوّل صفحہ530، ایڈیشن 2003ء)
رسول کریمﷺ کے متعدد ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے سے نہ صرف دلوں کو پاکیزگی عطا ہوتی ہے بلکہ اس کی برکت سے گھروں میں خیراور بھلائی داخل ہوتی ہے اور شر سے نجات ملتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا:
أَکْثِرُوْا مِنْ تِلَاوَۃِ الْقُرْآنِ فِیْ بُیُوْتِکُمْ، فَاِنَّ الْبَیْتَ الَّذِیْ لَا یُقْرَأُ فِیْہِ الْقُرْآنُ یُقَلُّ خَیْرُہٗ وَیُکْثَرُ شَرُّہٗ وَیُضَیَّقُ عَلٰی أَھْلِہِ
(کنزالعمال، کتاب ادب المعبر، الفصل الثانی فی آداب البیت والبناء،حدیث:41496)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے گھروں میں کثرت سے تلاوتِ قرآن کریم کیا کرو۔ یقیناً وہ گھر جس میں قرآن نہ پڑھا جاتا ہو اس میں خیر کم اور شر زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ گھر اپنے رہنے والوں کے لیے تنگ پڑ جاتا ہے۔
عَنۡ اَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ اَنَّ رَسُوۡلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَجۡعَلُوۡا بُیُوۡتَکُمۡ مَقَابِرَ وَاِنَّ الۡبَیۡبَ الَّذِیۡ تُقۡرَأُ الۡبَقَرَۃُ فِیۡہِ لَا یَدۡخُلُہٗ الشَّیۡطَانُ
(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ، بَابُ مَاجَاءَ فِیۡ سُوۡرَۃِالۡبَقَرَۃِ واٰیَۃِ الۡکُرۡسِیِّ، حدیث:786)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنے گھروں کو قبریں نہ بنائو۔ اور جس گھر میں سورۃالبقرۃ پڑھی جاتی ہے وہاں شیطان داخل نہیں ہوتا۔
عَنِ ابۡنِ مَسۡعُوۡدِ الۡاَنۡصَارِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ مَنۡ قَرَأَ الۡاٰیَتَیۡنِ مِنۡ اٰخِرِ سُوۡرَۃِ الۡبَقَرَۃِ فِیۡ لَیۡلَۃٍ کَفَتَاہُ
(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ، بَابُ مَاجَاءَ فِیۡ سُوۡرَۃِالۡبَقَرَۃِ، حدیث:791)
حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے رات کے وقت سورۃالبقرۃ کی آخری دو آیتیں پڑھ لیں وہی اس کے لیے کافی ہیں۔
رسول اللہﷺ نے ایسے شخص کو قابل رشک قرار دیا ہے جو قرآن کریم کو سیکھتا اور اُس کی تلاوت میں دن رات مصروف رہتا ہے۔
عَنۡ أَبِیۡ ھُرَیۡرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِﷺ: لَا تَحَاسُدَ اِلَّا فِی اثۡنَتَیۡنِ رَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ الۡقُرۡآنَ فَھُوَیَتۡلُوۡہُ آنَاءَ اللَّیۡلِ وَآنَاءَ النَّھَارِ، فَھُوَ یَقُوۡلُ لَوۡ أُوۡتِیۡتُ مِثۡلَ مَا أُوۡتِیَ ھَذَا لَفَعَلۡتُ کَمَا یَفۡعَلُ، وَرَجُلٌ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَھُوَیُنۡفِقُہُ فِی حَقِّہِ فَیَقُوۡلُ لَوۡ أُوۡتِیۡتُ مِثۡلَ مَا أُوۡتِیَ عَمِلۡتُ فِیۡہِ مِثۡلَ مَا یَعۡمَلُ۔
(صحیح البخاری، کتاب التوحید والرد علی جھمیۃ وغیرھم، باب قَوۡلِ النَّبِیِّﷺ رَجُلٌ آتَااللّٰہُ الۡقُرۡآنَ…حدیث:7528)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قابل رشک صرف دو آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا اور وہ دن رات اس کی تلاوت میں مشغول رہتاہے تو ایک دیکھنے والا کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا قرآن کا علم ہوتا تو میں بھی اس کی طرح تلاوت کرتا رہتا اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اُسے اُس کی راہ میں خرچ کرتا ہے جسے دیکھنے والا کہتا ہے کہ کاش ! مجھے بھی اللہ اتنا مال دیتا تو میں بھی اسی طرح خرچ کرتا جس طرح یہ کرتا ہے۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے۔ اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں۔ صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو۔ دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خداﷺ کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہوگئے۔ ابتداء میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں۔ لیکن رسول اللہﷺ کی اطاعت میں گم ہوکر وہ پایا جو صدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 409۔ نظارت نشرواشاعت قادیان، ایڈیشن 2003ء)
اللہ کے نزدیک کرنے والی
قرآن کریم ایسی پر تاثیر کتاب ہے کہ اس کی تلاوت میں مشغول رہنے والے بالآخر اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتے ہیں کیونکہ اس کے حرف حرف اور لفظ لفظ میں خیروبرکت رکھ دی گئی ہے جن کو پڑھنے سے انسان کی نیکیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے:
اِذَا أَحَدُکُمۡ أَنۡ یَّحۡدَثَ رَبَّہٗ فَلۡیَقۡرَأ الۡقُرۡآنَ
(کنزالعمّال،الباب السابع فی تلاوۃ القرآن وفضائل، الفصل الاوّل فی فضائل۔ حدیث: 2257۔ ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، شارع سوریا۔ الطبعۃ الخامسۃ 1985ء)
تم میں سے جو شخص اپنے ربّ سے ہم کلام ہونا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ تلاوت قرآن میں مشغول ہوجائے۔
پس جو لوگ کلام اللہ کو دلی محبت سے پڑھتے اور اُس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنے خاص بندوں میں شامل کرلیتا ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے فرمایا: لوگوں میں سے اللہ کے بھی عزیز ہوتے ہیں پوچھا گیا کہ یارسول اللہ! ان سے کون لوگ مراد ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: یہ قرآن والے اللہ کے عزیز اور اس کے خاص بندے ہیں۔
(سنن ابن ماجہ المقدمہ، حدیث:112)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف معارف و حقائق کا ایک دریا ہے اور پیشگوئیوں کا ایک سمندر ہے اور ممکن نہیں کہ کوئی انسان بجز ذریعہ قرآن شریف کے پورے طور پر خدا تعالیٰ پر یقین لاسکے کیونکہ یہ خاصیت خاص طورپر قرآن شریف میں ہی ہے کہ اُس کی کامل پیروی سے وہ پردے جو خدا میں اور انسان میں حائل ہیں سب دور ہوجاتے ہیں۔ ہر ایک مذہب والا محض قصّہ کے طور پر خدا کا نام لیتا ہے مگر قرآن شریف اس محبوب حقیقی کا چہرہ دکھلا دیتا ہے اور یقین کا نور انسان کے دل میں داخل کردیتا ہے اور وہ خدا جو تمام دنیا سے پوشیدہ ہے وہ محض قرآن شریف کے ذریعہ سے دکھائی دیتا ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 271تا272)
سیکھنے اور یاد رکھنے والے کی فضیلت
قرآن کریم کا پڑھنا، پڑھانا، سیکھنا اورسکھانا خیروبرکت اور اجروثواب کا موجب ہے۔ قرآن کی اسی فضیلت کے سبب رسول اللہﷺ نے اُس شخص کوسب سے بہترین قرار دیا ہے جو خود بھی قرآن کریم سیکھتا ہے اور دوسروں کو سکھاتا ہے۔ اس ضمن میں رسول کریمﷺ کے چند ارشادات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
عَنۡ عُثۡمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُ عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ: خَیۡرُکُمۡ مَنۡ تَعَلَّمَ الۡقُرۡآنَ وَعَلَّمَہُ
(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب خَیۡرُکُمۡ مَنۡ تَعَلَّمَ الۡقُرۡآنَ وَعَلَّمَہُ، حدیث:5027)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے وہ شخص سب سے بہتر ہے جو قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور دوسروں کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے۔
عَنۡ عُثۡمَانَ قَالَ قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ خَیۡرُکُمۡ اَوۡ اَفۡضَلُکُمۡ مَنۡ تَعَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ وَعَلَّمَہٗ
(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُراٰن، بَابُ مَاجَاءَ فِیۡ تَعۡلِیۡمِ الۡقُرۡاٰنِ، حدیث 819)
حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین یا فرمایا: افضل ترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا پھر اور لوگوں کو بھی قرآن سکھایا۔
حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: قرآن بلند آواز سے پڑھنے والا علانیہ صدقہ دینے والے کی طرح اور قرآن کی مخفی تلاوت کرنے والا خفیہ صدقہ دینے والے کی طرح ہے۔
(جامع ترمذی، کتاب فضائل القرآن باب من قرء حرفاً حدیث نمبر 2843)
قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ تَعَلَّمُوۡا الۡقُرۡاٰنَ فَاَقۡرَءُوْہ ُوَأَقْرِئُوْہُ فَاِنَّ مَثَلَ الۡقُرۡاٰنِ لِمَنۡ تَعَلَّمَہٗ فَقَرَأَہٗ وَ قَامَ بِہِ کَمَثَلِ جِرَابٍ مَحۡشُوٍّ مِسْکًایَفُوْحُ بِرِیْحِہِ کُلُّ مَکَانً وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَہُ فَیَرۡقُدُ وَھُوَ فِیۡ جَوۡفِہٖ کَمَثَلِ جَرَابٍ اَوکِیَ عَلٰی مِسۡکٍ
(جامع ترمذی، اَبۡوَابُ فَضَائِلِ الۡقُرۡاٰنِ، مَا جاَءَ فِیۡ سُوۡرَۃِ الۡبَقَرَۃِ وَاٰیَۃِ الۡکُرۡسِیِّ، حدیث:790)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:قرآن سیکھو اور پڑھو اس لیے کہ جس نے قرآن کو سیکھا اور پھر اسے تہجد میں پڑھا اس کی مثال ایک مشک سے بھری ہوئی تھیلی کی سی ہے کہ اس کی خوشبو ہر جگہ پھیلتی رہتی ہے اور جس نے اسے یاد کیا اور پھر سوگیا تو وہ اس کے دل میں محفوظ ہے جیسے مشک کی تھیلی کو باندھ کر رکھ دیا گیا ہو۔
أَ لَا مَنۡ تَعَلَّمَ الۡقُرۡآنَ وَعَلَّمَہٗ وَعَمِلَ بِمَا فِیۡہِ فَأنَّا لَہٗ سَائِقٌ اِلَی الجَنَّۃِ وَدَلیۡلٌ اِلَی الۡجَنَّۃِ۔
(کنزالعمّال،کتاب الایمان والاسلام، الباب السابع فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ، الفصل الاوّل فی فضائل۔ حدیث: 2286)
یادرکھو! جس نے قرآن سیکھا اور اسے اوروں کو سکھایا اور اس پر عمل پیرا ہوا، پس میں اس کو جنت تک لے جانے کا ذمہ دار اور رہ نما ہوں۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے، مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 285،ایڈیشن 1988ء)
فرشتوں کی دعاؤں کا ذریعہ
قرآن کریم ایسی کتاب ہے جو زمین وآسمان دونوں جگہوں پریکساں مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک بندہ مومن محبت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو فرشتے بھی اُسے سنتے ہیں اور جب کوئی انسان قرآن کریم کا دَور مکمل کرتا ہے توہزاروں فرشتے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں اورایسے شخص کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے دعائیں کریں تو لامحالہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے درجات بلند فرمائے گا اور اُسے اپنا مقام قرب عطا کرے گا۔
عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، قَالَ بَيْنَمَا هُوَ يَقْرَأُ مِنَ اللَّيْلِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَفَرَسُهُ مَرْبُوطٌ عِنْدَهُ إِذْ جَالَتِ الْفَرَسُ فَسَكَتَ فَسَكَتَتْ فَقَرَأَ فَجَالَتِ الْفَرَسُ، فَسَكَتَ وَسَكَتَتِ الْفَرَسُ ثُمَّ قَرَأَ فَجَالَتِ الْفَرَسُ، فَانْصَرَفَ وَكَانَ ابْنُهُ يَحْيَى قَرِيبًا مِنْهَا فَأَشْفَقَ أَنْ تُصِيبَهُ فَلَمَّا اجْتَرَّهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى مَا يَرَاهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ”اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ”قَالَ فَأَشْفَقْتُ يَا رَسُولَ اللّٰهِ أَنْ تَطَأَ يَحْيَى وَكَانَ مِنْهَا قَرِيبًا فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَانْصَرَفْتُ إِلَيْهِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ الْمَصَابِيحِ فَخَرَجَتْ حَتَّى لاَ أَرَاهَا
(صحیح البخاری، کِتَابٌ فَضَائِلُ الۡقُرۡآن، بَاب نُزُولِ السَّکِیۡنَۃِ وَالۡمَلَائِکَۃِ عِنۡدَ قِرَاءَ ۃِ الۡقُرۡآنِ)
حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رات کے وقت سورۂ بقرہ کی تلاوت کررہے تھے اور ان کا گھوڑا ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا۔ اتنے میں گھوڑا بدکنے لگا تو انہوں نے تلاوت بند کردی تو گھوڑا بھی رُک گیا۔ پھر انہوں نے تلاوت شروع کی تو گھوڑا پھر بدکنے لگا۔ اس مرتبہ بھی جب انہوں نے تلاوت بند کی تو گھوڑا بھی خاموش ہوگیا۔ تیسری مرتبہ انہوں نے جب تلاوت شروع کی تو پھر گھوڑا بدکا۔ ان کے بیٹے یحییٰ چونکہ گھوڑے کے قریب ہی تھے اس لیے اس ڈر سے کہ کہیں انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ انہوں نے تلاوت بند کردی اور بچے کو وہاں سے ہٹا دیا پھر اوپر نظر اُٹھائی تو کچھ نہ دکھائی دیا۔ صبح کے وقت یہ واقعہ انہوں نے نبی کریمﷺ سے بیان کیا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا: ابن حضیر ! تم پڑھتے رہتے تلاوت بند نہ کرتے (تو بہتر تھا) انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! مجھے ڈر لگا کہ کہیں گھوڑا میرے بچے یحییٰ کو نہ کچل ڈالے، وہ اس سے بہت قریب تھا۔ میں نے سر اوپر اٹھایا اور پھر یحییٰ کی طرف گیا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف سر اُٹھایا تو ایک چھتری سی نظر آئی جس میں روشن چراغ تھے۔ پھر جب میں دوبارہ باہر آیا تو میں نے اسے نہیں دیکھا۔ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ وہ فرشتے تھے تمہاری آواز سننے کے لیے قریب ہو رہے تھے اگر تم رات بھر پڑھتے رہتے تو صبح تک اور لوگ بھی انہیں دیکھتے وہ لوگوں سے چھپتے نہیں۔
نبی کریمﷺ کا ایک اورارشادِ مبارک ہے کہ
اِذَا خَتَمَ الۡعَبۡدُ الۡقُرۡآنَ صَلِّی عَلَیۡہِ عِنۡدَ خَتۡمِہِ سِتُّوْنَ ألفَ مَلَکٍ
(کنزالعمّال،کتاب الایمان والاسلام، الباب السابع فی تلاوۃ القرآن وفضائلہ، الفصل الاوّل فی فضائل۔ حدیث: 2258)
جب کوئی بندہ قرآن کریم ختم کرتا ہے تو اُس کے لیے ساٹھ ہزار ملائکہ دعا کرتے ہیں۔
فرشتوں کا قرب عطا کرنے والی
قرآن کریم کی پیروی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر فرشتے نازل فرماتاہے جو انہیں استقامت عطا کرتے اور خوشخبریاں سناتے ہیں۔ پس کیا ہی بابرکت کلام ہے جس کی تلاوت سے انسان پر فرشتوں کا نزول ہو اور وہ اُن برکات کا وارث بنے جو اللہ کے فرشتوں کے نزول کے باعث انسان پر نازل ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
کَلَّاۤ اِنَّہَا تَذۡکِرَۃٌ۔ فَمَنۡ شَآءَ ذَکَرَہٗ۔ فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۔ مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ۔ بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ۔ کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ۔
(عبس:12تا17)
خبردار۔ یقیناً یہ ایک بڑی نصیحت ہے۔ پس جو چاہے اسے یاد رکھے۔ معزّز صحیفوں میں ہے۔ جو بلند و بالا کئے ہوئے، بہت پاک رکھے گئے ہیں۔ لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ (جو ) بہت معزّز (اور) بڑے نیک ہیں۔
قرآن کریم کے ایک اور مقام پر فرمایا:
اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡھِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ کُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ (حٰمٓ السّجدۃ:31)
یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا ربّ ہے، پھر استقامت اختیار کی، اُن پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنت (کے ملنے ) سے خوش ہوجاؤ جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو۔
رسول کریمﷺ نے مہارت اور اچھے طریق پر قرآن کریم پڑھنے والوں کومعزز فرشتوں کی معیت کی خبر سنائی ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں:
عَنۡ عَائِشَۃَ قَالَتۡ قَالَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَسَلَّمَ الۡمَاھِرُ بِالۡقُرۡآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الۡکِرَامِ الۡبَرَرَۃِ وَالَّذِی یَقۡرَأُ الۡقُرۡآنَ وَیَتَتَعۡتَعُ فِیۡہِ وَھُوَ عَلَیۡہِ شَاقٌ لَہُ أَجۡرَانِ۔
(صحیح مسلم، کتاب صلَاۃ المسافرین وقصرھا۔ بَاب: فَضۡلِ الۡمَاھِرِ فِی الۡقُرۡآنِ وَالَّذِیۡ یَتَتَعۡتَعُ فِیہِ، حدیث:1321)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ قرآن کا ماہر سَفَرۃٍ کِرَامٍ بَرَرَۃٍ کے ساتھ ہوگااور جو شخص اٹکتے ہوئے قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کے لیے مشکل ہے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔
عَنۡ عَائِشَۃَ عَنَ النَّبِیِّﷺ قَالَ:اَلَّذِیۡ یَقۡرَأُ الۡقُرۡآنَ وَھُوَ مَاھِرٌ بِہِ مَعَ السَّفَرَۃِ الۡکِرَامِ الۡبَرَرَۃِ وَالَّذِی یَقۡرؤُہُ وَھُوَ یَشۡتَدُّ عَلَیۡہِ فَلَہُ أَجۡرَانِ۔
(سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، بَابٌ فِی ثَوَابِ قِرَائَ ۃِ الۡقُرۡآنِ)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص قرآن کو اچھی طرح مہارت کے ساتھ پڑھتا ہے وہ اعمال نامہ لکھنے والے معزز اور اطاعت گزار فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔ اور جوشخص قرآن کو کوشش اور محنت کرکے پڑھتا ہے اسے دوگنا ثواب ملے گا۔
یعنی ایسے شخص کو دوہرا ثواب ملے گا جسے قرآن کریم پڑھنے میں مہارت نہیں کیونکہ اس کو اس کے لیے بڑی محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے پس اس محنت اور کوشش کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اُسے دوہرے اجر سے نوازتا ہے۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭