سنت محمدیﷺ …جو قرآن کے ساتھ ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ساتھ رہے گی (قسط دوم۔ آخری)
سنت کی جامعیت
یہ سنت قرآن کی طرح 23سال میں کمال کو پہنچی۔ آپؐ کے دعویٰ سے پہلے کی زندگی بھی تقویٰ و طہارت اور خلق عظیم سے عبارت تھی جس پر نور نبوت نے سورج چڑھا دیا۔ جب تک رسول اللہﷺ پر نیا حکم نازل نہ ہوتا آپؐ سابقہ شریعت پر عمل فرماتے جیسا کہ آپؐ مکہ میں اور مدینہ کے پہلے 16 یا 17ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ پھر بیت اللہ کی طرف منہ کیا۔
( صحیح البخاری کتاب الایمان باب الصلوٰۃ من الایمان حدیث نمبر 40)
شروع میں آپؐ نماز میں سلام کا جواب دے دیتے تھے بعد میں روک دیا۔
(صحیح البخاری کتاب العمل فی الصلوٰۃ باب ما ینھی من الکلام فی الصلوۃ حدیث نمبر 1199)
مکہ میں آپؐ نے حضرت زیدؓ کو متبنیٰ بنایا مگر بعد میں خدا تعالیٰ نے ایسا کرنے سے روک دیا۔
(الاحزاب: 6۔ صحیح البخاری کتاب التفسیر زیر آیت الاحزاب 6حدیث نمبر 4782)
اسی طرح ہجرت سے قبل اور بعد کے حالات بہت مختلف تھے مکہ میں تکالیف اور صبر کا دَور تھا اور مدینہ میں جہاد بالسیف اور اسلامی مملکت کا دَور تھا اس لیے آپؐ حسب حال اقدامات فرماتے رہے چونکہ آپ کو خدا تعالیٰ نے ہر انسان، ہر قوم اور ہر طبقہ اور ہر دَور کے لیے کامل نمونہ بنانا تھا اس لیے اللہ نے آپ کو دکھوں اور فتوحات ہر قسم کے حالات سے گزارا۔ اس لیے آپؐ کے تمام بدلتے ہوئے فیصلے سنت کی جامعیت اور بوقلمونی کو ظاہر کرتے ہیں ایک ایساباغ جس میں ہر قسم کے پھول پھل اپنی بہار دکھلا رہے ہیں اور ہر فرد اپنی ضرورت کے مطابق استفادہ کر سکتا ہے۔ وہ آخری عمل جس پر آپؐ نے امت کو قائم کیا وہی سنت جاریہ ہے۔
آیےاب دیکھیں سنت میں کیا کچھ ہے اور زندگی کے کن حصوں پر پھیلی ہوئی ہے۔
انسان کا خدا سے تعلق یعنی روحانیت
اس میں عبادات اور تعلق باللہ کے سارے امور شامل ہیں اور جس قدر ان پر رسول اللہﷺ نے عمل کیا اور کروایا اسی قدر ان کی اہمیت قرار پاتی ہے۔ مثلاً فرض، واجب، سنت، نوافل، مستحب۔ یاد رہے کہ یہ اصطلاحیں قرآن و حدیث میں موجود نہیں۔ قرآن و سنت اور حدیث کی روشنی میں علماء نے شریعت کو عام فہم بنانے کے لیے یہ اصطلاحات قائم کیں۔ مثلاًاللہ تعالیٰ نے نماز کا حکم دیا۔ مگر قرآن میں ان کی روزانہ معین تعداد و رکعات اوقات اور عبارات یا دعاؤں کا ذکر نہیں بلکہ رسول اللہﷺ نے نماز کو سنت سے قائم کر کے دکھایا۔ صحیح احادیث میں ہے کہ جبرئیلؑ نازل ہوئے توانہوں نے رسول اللہﷺ کو نماز کی امامت کر کے نمازوں کے اوقات بتائے اور طریق سکھایا۔
رسول اللہﷺ نے 5 نمازیں، 5 معین اوقات میں معین رکعات کے ساتھ باجماعت ادا کیں۔ ہمیشہ ان پر دوام اختیار فرمایا اور امت کو ہمیشہ اس کی تلقین کی۔ اس کی برکات بیان کیں اور نہ پڑھنے والوں پر نا راضگی کا اظہار کیا اس لیے یہ فرض قرار پائیں۔ نماز جمعہ بھی اسی میں شامل ہے۔
آپؐ نے حالتِ سفر اور جمع میں نماز کی رکعات کم کر کے پڑھیں۔ مگر فجر کی 2سنتیں، اور 3 وتر ہمیشہ ادا کیے۔ یہ انفرادی نمازیں تھیں اس لیے وہ واجب کہلائیں۔
فرض نمازوں سے قبل اور بعد آپؐ نے کچھ اور رکعات بھی ادا کیں۔ ان میں کمی بیشی بھی کی۔ پڑھنے کے فضائل بھی بیان کیے مگر نہ پڑھنے پر کوئی سختی نہیں کی اس لیے یہ نمازیں سنت کہلائیں۔ آپؐ کی توجہ کے مطابق کچھ کو سنت مؤکدہ اور کچھ کوسنت غیر مؤکدہ کہا گیا۔
کچھ اور رکعات آپؐ نے ادا کیں۔ مگر ان پر سنتوں کی نسبت زور بہت کم دیااس لیے وہ نوافل کہلائے۔ مثلاً نماز اشراق، ضحی، تحیۃ المسجد، نماز استسقاء، نماز کسوف و خسوف۔
وہ نفل نماز جو آپؐ کچھ سونے کے بعد رات کے آخری پہر ادا کرتے تھے وہ تہجد کہلائی، اس کی بھی بہت فضیلت ہے مگر سختی نہیں کی۔
جس نماز میں آپؐ نے سب لوگوں کو اکٹھا شامل ہونے کی تلقین فرمائی وہ نماز باجماعت ادا کرنی چاہیے اور جس میں یہ ہدایت نہیں وہ انفرادی ہے۔
جس نماز میں امت کے ایک حصہ کی شمولیت کو کافی سمجھا وہ فرض کفایہ کہلایا مثلاً نماز جنازہ۔
اس کے علاوہ مختلف اوقات میں جو بھی خدا کی عبادت کرنا چاہے اسے مستحب قرار دیا گیا ہے۔
ایسے اوقات جس میں رسول اللہﷺ نے نماز سے منع فرمایا، یا جن حرکات سے منع فرمایا ان کو ممنوع کہا جاتا ہے۔
یہی حال دیگر عبادات اور تمام امور مثلاً روزہ، زکوٰۃ حج وغیرہ کا ہے جن میں رسول اللہﷺ نے جامع نمونہ قائم کر دیا ہے۔
معاملات۔ اعلیٰ اخلاق
دوسرا پہلو معاملات کا ہے۔ یعنی دوسرے انسانوں سے کیا سلوک کرنا چاہیے۔ اس نظر سے جب آپؐ کی سنت کو دیکھیں تو سب سے پہلے رسول کریمﷺ کے وہ اعلیٰ اخلاق نظر آتے ہیں جو کبھی اور کسی زمانہ میں تبدیل نہیں ہوتے جن میں کسی انسان، کسی قوم، کسی زمانہ کا استثنا نہیں۔ آپ خود بھی ان پر عمل پیرا رہے اور دوسروں کو بھی ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے رہے اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ
(القلم: 5)
یعنی تو نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر قائم ہے۔
ایک ایک خلق کو رسول اللہ نے کمال کو پہنچایا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاق
(مسند البزار جلد 15 صفحہ 364 حدیث نمبر8949)
مَیں اعلیٰ ترین اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لیے مجھے مبعوث کیا گیا ہے۔
(مسند احمد۔ مسند ابی ہریرہ جز2صفحہ381)
عام طور پر لوگ اخلاق کو سنت کا حصہ نہیں سمجھتے حالانکہ یہی سنت کی جان ہے۔ ہر خلق کے متعلق عملی نمونہ بھی ہے اور کثرت سے احادیث بھی موجود ہیں۔ کن حالات میں کونسا خلق ظاہر ہو گا یہ بھی سنت ہی بتائے گی۔
قانونی معاملات
سنت کا ایک پہلو قانونی اور معاشرتی معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً نکاح، شادی، طلاق، مالی معاملات، لین دین، قرض، تجارت، وراثت، عمومی تعلیم و تربیت، ہجرت، جہاد، اسیران، اورہلاک شدگان سے سلوک، شہدا٫اوران کے لواحقین سے سلوک، جرائم، سزائیں۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقرآنی اصولی تعلیم پر عمل کیا اور اس کی تفصیل میں عرب کے مناسب رسم و رواج کو بھی ملحوظ رکھا جس کو قرآن میں عرف کے نام سے یاد کیا گیا ہے
وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ(الاعراف:200)
یعنی معاشرے کے اچھے دستور کے مطابق حکم دے۔ ہر وہ طریق جو واضح طور پر مشرکانہ ہے یا قرآن کے کسی صریح حکم کے خلاف ہے وہ ناجائز ہے مگر شرعی اصولوں کے اندر رہتے ہوئے ہر قوم کے کلچر اور ثقافت کو قرآن زندہ رہنے کا حق دیتا ہے۔
سنت ذاتی۔ عرف
سنت کا ایک حصہ انسان کی ذات سے تعلق رکھتا ہے جسے ہم سنت ذاتی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں انفرادی پسند بھی اور نا پسند بھی ہے۔ اس حصہ میں لباس، خور و نوش، آداب ملاقات، رہائش اور تعمیرات اور سفر شامل ہیں۔ ان تمام امور میں آپؐ قرآن کریم کی اصولی تعلیمات کی تعمیل فرماتے اور اپنے زمانہ کے تمام دستیاب وسائل استعمال کرتے۔ آپؐ کا لباس وہی تھا جو اہل عرب کا عام لباس تھاحتیٰ کہ بعض دفعہ پہچانے ہی نہ جاتے۔ آپ نے بعض کپڑے اور رنگ پسند فرمائے۔ لیکن اگر کوئی کپڑا نماز میں روک بنتا تو اسے دور کردیتے۔ گوشت کے کچھ حصے زیادہ پسند تھے۔ بعض جانوروں کے بارے میں صحابہؓ سے فرمایا: تم کھا لو میں نہیں کھاتا۔ آپؐ کے ذرائع سفر وہی تھے جو عربوں میں رائج تھے۔ مثلاً گھوڑا، اونٹ، گدھا۔ آپ کی کرنسی درہم ودینار تھی۔ آلات جنگ تلوار، نیزہ، تیرعرب رواج کے مطابق تھے۔
یہ طریقے شرعی معاملات نہیں۔ نہ ان کے بارے میں خدا کے حضور جواب دہی ہو گی۔ اس لیے اگر کوئی محبت کے ساتھ ان پر چلنا چاہے تو یہ اس کا عشق ہے تقویٰ یا فتویٰ نہیں۔ ایسا انسان اکثر حصوں میں سنت رسول نہیں عرب ثقافت اور کلچر کی پیروی کر رہا ہو گا۔ اور بعض معاملات میں تو وہ نا معقول متصوّر ہو گا جیسے آج کے دَور میں کوئی سنت رسولؐ سمجھ کر عرب ذرائع سفر یا آلاتِ حرب استعمال کرے۔
سنت کی روح
شرعی معاملات میں رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کر کے دکھایا اور اپنے زمانے کے مسائل کے مطابق حسب ضرورت اس کی ظاہری شکل قائم فرمائی۔ آپؐ نے خود بھی اور آپؐ کے خلفاء نے اس حکم کی رو ح کو قائم کرتے ہوئے اسے ظاہری طور پر بہتر شکل میں آگے بڑھایا۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے اپنی سنت کے ساتھ اپنے خلفاء کی سنت کو بھی واجب العمل قرار دیا۔
عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِيْنَ۔
(سنن ابوداؤد کتاب السنة باب فی لزوم السنة حدیث 3991)
اس کی سب سے بڑی مثال تو قرآن کریم کا تحریری نسخہ ہے جو حضرت ابو بکرؓ نے تیار کروایا۔ رسول اللہ کی زندگی میں قرآن سینکڑوں صحابہؓ کو حفظ تھا اور تحریری طور پر بھی موجود تھا۔ مگر مختلف کاتبین وحی اور دیگر صحابہؓ کے پاس الگ الگ آیات موجود تھیں۔ حضرت ابو بکرؓ نے حضرت عمرؓ کے اصرار پر اس تحریری مواد کو حفظ کے مطابق ایک نسخہ میں اکٹھاکروا دیا جسے بعد میں حضرت عثمانؓ نے کئی کاپیاں کروا کر عالمِ اسلام کی کئی سلطنتوں میں بھیجا اور آج وہی قرآن ساری دنیا میں رائج ہے۔ پس جمع و اشاعتِ قرآن کا یہ کام اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی منشاء کے عین مطابق تھا کیونکہ قرآن کو بار بار کتاب کہاگیا ہے اور کل عالم میں اس کے ابلاغ کا حکم دیا گیا تھا۔ آج وہی قرآن ہمارے پاس ڈیجیٹل فارم اور کمپیوٹر اور موبائلوں میں محفوظ اور منشاء نبویؐ کوپورا کر رہا ہے۔ شروع میں بعض صحابہؓ اور بزرگان قرآن کریم پر اعراب لگانے اور ترجمہ کرنے کے خلاف تھے مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ سنت کی روح کے مطابق تھے۔
رسول اللہﷺ کی مسجد نبوی کچی اور کمزور تھی۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں اس میں توسیع کی گئی اور بعد میں عالی شان مسجد میں ڈھال دیا گیا۔ مسجد کے منارے قائم کیے گئے۔ چٹائی کی جگہ قالین بچھائے گئے۔ آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ سپیکر کا انتظام کیا گیا۔ صفائی ستھرائی کا وسیع انتظام کیا گیا اور آرام دہ بنایا گیا۔
خانہ کعبہ میں مطاف میں وسعت پیدا کی گئی۔ فرش کو ٹھنڈا رکھنے کا انتظام کیا گیا۔ کوہ صفا اور مروہ کے درمیان بھی بہترین راستہ بنایا گیا بلکہ معذوروں کے لیے جدید ترین انتظام کیا گیا ہے۔ اسی طرح منیٰ، مزدلفہ، عرفات وغیرہ مقامات پر مساجد اور رمی جمار کے لیے سنت کی روح کے مطابق انتظام کیے گئے ہیں۔
رسول اللہﷺ نے رمضان میں صحابہ کو 3دن نماز تہجد باجماعت پڑھائی اور پھر بند کر دی کہ لوگ اسے لازمی نہ سمجھ لیں۔ حضرت عمرؓ نے رسول اللہؐ کی اس سنت کو بنیا د بناتے ہوئے رمضان میں تراویح کا رواج شروع کیا۔ بعد میں اس میں قرآن کا ایک دَور یا 2دَور مکمل کرنے کا سلسلہ جاری ہوا۔ حضرت عمرؓ نے تراویح کو سنت رسولؐ سے الگ قرار دینے کے لیے بدعت حسنہ کا لفظ استعمال فرمایا ورنہ رسول اللہؐ کے ارشاد کے مطابق ان کا فعل خود لفظ سنت کا متحمل ہے۔
حضرت عثمانؓ نے جمعہ کی اذان کے ساتھ ایک اور اذان کا اضافہ کیا۔
(صحیح البخاری کتاب الجمعہ باب الاذان یوم الجمعہ حدیث نمبر 861)
حضرت عمربن عبد العزیز نے جمعہ کے خطبہ ثانیہ میں آیت
اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ (النحل: 91)
پڑھنے کا رواج ڈالا۔
اسی طرح حضرت عمرؓ نے نظام حکومت چلانے کے لیے جو نئے نئے ادارے بنائے مثلاً بیت المال، پولیس، قید خانے یہ سب سنت رسول کی روح کے مطابق ہیں مگر سنت رسولؐ نہیں سنت خلفاء میں شامل ہیں اور انتظام کا حصہ ہیں۔
رسو ل کریمﷺ کی بعض سنتیں ایسی ہیں جو آپ کے ارشاد کے مطابق کسی خاص مصلحت کی وجہ سے کسی خاص وقت کے لیے اختیار کی گئیں مگر امت محمدیہ نے اپنی محبت کی وجہ سے انہیں قائم رکھا۔ مثلاً عمرۃ القضاء کے موقع پر رسول اللہﷺ نے صفا اور مروہ کے درمیان ایک مقام پر دوڑنے کا ارشاد فرمایا تا کہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ مسلمان بیماری کی وجہ سے کمزور ہو گئے ہیں۔ ( بخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضا٫ حدیث نمبر 4256)یہ معاملہ وقتی امر تھا مگر امت محمدیہ نے محبت رسولؐ میں اسے سینکڑوں سال تک حرز جان بنائے رکھا۔ اب تو وہاں صاف ہموار راستے بنا دیے گئے ہیں۔
قرآن وسنت اور غور و فکر
پس قرآن ہی ہمارا سچا راہ نما ہے اور اس کے بعد اس کا رسول جو اس کی تعلیم و تبیین کے لیے خدا کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے یہی صحابہؓ کا طرز عمل تھا۔ جامع ترمذی میں ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ كَيْفَ تَقْضِي فَقَالَ أَقْضِي بِمَا فِي كِتَابِ اللّٰهِ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي كِتَابِ اللّٰهِ قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَجْتَهِدُ رَأْيِي قَالَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔
(ترمذی کتاب الاحکام کیف یقضی القاضی حدیث نمبر 1249)
ترجمہ: حضرت معاذؓ کو آنحضرتﷺ جب یمن کا حاکم بنا کر بھیجنے لگے تو فرمایا۔ تم کس طرح فیصلے کیا کرو گے؟انہوں نے عرض کیا میں قرآن کریم کے احکامات کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ اگر ایسا معاملہ آجائے جس کے بارے میں قرآن کریم میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو تو پھر کس طرح کرو گے؟ عرض کیا آپؐ کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا۔ رسول اللہﷺ فرمانے لگے اگر میری سنت میں بھی کوئی ایسی مثال نہ ملے تو پھر کس طرح کرو گے؟ عرض کیا حضور پھر میں اجتہاد اور غور وفکر کروں گا اور پھر جو رائے بنے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ اس پر حضورﷺ نے خوش ہو کر فرمایا تمام تعریفوں کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے رسول اللہ کے ایلچی کو اس فراست اور صحیح سوچ کی ہدایت دی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ قرآن و سنت کی اطاعت کا مطلب دماغی جمود نہیں بلکہ یہ تو خود سوچ کی راہیں کھولتے ہیں اور ابدی اصولوں کے تابع روشنی دکھاتے ہیں۔ اسی کو فقہا٫ کی اصطلاح میں قیاس اور اجتہاد کہتے ہیں اور یہ امت مسلمہ کا فخر ہے اور اسی کے نتیجہ میں عظیم الشان اسلامی فقہ مرتب ہوئی ہے۔
یہی طریق خلفائے راشدین کا تھا سب سے پہلے قرآن و سنت دیکھتے اس کے بعد مسلمانوں کے معززین سے مشورہ کرتے۔ حضرت ابو بکرؓ کے متعلق تفصیل سے یہی طریق کار لکھا ہے۔
(سنن دارمی کتاب المقدمہ باب الفتیا وما فیہ من الشدۃ۔ حدیث نمبر163)
حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ کو یمن کا گورنر بناتے ہوئے جو ہدایات لکھ کر دیں ان کا خلاصہ بھی یہی ہے(حوالہ مذکورہ حدیث نمبر 169) کئی دفعہ خلفا٫نے کوئی فیصلہ کیا اور پھر پتہ چلا کہ قرآن یا سنت میں کچھ اور ہے تو فوراً اس کو بدل دیا۔ اسی لیے حضرت عمرؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ كَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللّٰهِ۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر 4276 ) وہ کتاب اللہ کا فیصلہ سن کر رک جاتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ جیسے فقیہ بےبدل نے بھی فقہ اسلامی مرتب کرتے ہوئے یہی اصول مد نظر رکھے۔
(امام ابو حنیفہ کی تدوین فقہ اسلامی صفحہ45۔ از ڈاکٹر حمید اللہ )
سنت اور بدعت
اکثر لوگ سنت اور بدعت میں امتیاز کرنے سے بھی قاصر رہتے ہیں۔ بدعت کی ایک جامع تعریف یہ ہے کہ قرب الٰہی کی تمام راہیں اور نیکی کی تمام تفصیلا ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کمال کو پہنچ گئیں۔ نیکی کا ہر وہ کام جو آپؐ کے زمانے میں ممکن تھا اور آپؐ نے نہیں کیا اس کوشریعت سمجھ کر کرنا اور دوام اختیار کرنا بدعت ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ۔
(سنن ابوداؤد کتاب السنة باب فی لزوم السنة حدیث 3991)
یعنی (دین میں ) نئے نئے امور پیدا کرنے سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں:
’’پیغمبرﷺ کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اور وظائف اور کافیاں پڑھنا یا اعمال صالحہ کی بجائے قِسم قِسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذت روح کے لئے نہیں ہے بلکہ لذت نفس کے لئے ہے۔‘‘
(الحکم 31؍جولائی 1902ء صفحہ 8)
پھر فرمایا:
’’ہمارا طریق بعینہٖ وہی ہے جو آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام کا تھا۔ آج کل فقراء نے کئی بدعتیں نکال لی ہیں۔ یہ چلے اور وِرد و ظائف جو انہوں نے رائج کر لیے ہیں ہمیں نا پسند ہیں۔ اصل طریق اسلام، قرآن مجید کو تدبر سے پڑھنا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا اور دعائیں توجہ اور انابت الی اللہ سے کرتے رہنا۔ بس نماز ہی ایسی چیز ہے جو معراج کے مراتب تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ ہے تو سب کچھ ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 432، ایڈیشن 1988ء)
مثلاً رسول اللہﷺ کے زمانے میں آپ کی ازواج، اولاد اورصحابہ فوت ہوئے مگر آپؐ نے کسی پر سوئم، چہلم، قرآن خوانی نہیں کروائی۔ تعزیت کے موقع پر فاتحہ خوانی بھی نہیں کی۔ آپؐ نے بہت سی دعائیں کیں اور سکھائیں مگروظیفے وغیرہ آپؐ کی سنت نہیں۔ اسی طرح ہر معاملہ میں بدعات کی لمبی فہرست ہے۔ اگرفیج اعوج کے زمانہ میں بعض بزرگوں نے بے عمل مسلمانوں میں دین کی رمق باقی رکھنے کے لیے کچھ ایسے امور کی اجازت دی جو براہ راست سنت سے ثابت نہیں تھے تو ہم ان اہل اللہ کی نیت کو حوالہ بخدا کرتے ہیں اوریہ ممکن نہیں کہ ہمیشہ کے لیے ان وقتی باتوں کو ابدی سنت نبوی پر ترجیح دے دیا جائے اور اصل دین کو بھلا دیا جائے خصوصا ًجب مسیح موعودؑ آ گیا اور احیائے دین اور اقامت شریعت کا وقت آگیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا دین واپس لوٹ آیا توپھر بدعات کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا لیکن اس سنت یا حکم کی روح کو سمجھتے ہوئے انتظامی طور پر اسے وسعت دی گئی تو وہ بدعت نہیں انتظام کا حصہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1891ءمیں جب جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی بنیاد ڈالی تو بعض علما ٫ نے اعتراض کیا کہ اس طرح دن مقرر کر کے جلسہ کرنا بدعت ہے کیونکہ قرآن و سنت سے اس کی کوئی تائید نہیں ملتی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے جواب میں ایک تفصیلی مضمون لکھا کہ رسول کریمﷺ نے ساری عمر اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور دفاع میں گزاری اس لیے علوم دینیہ کے پھیلاؤ اور اسلام کی خدمت کے لیے کوئی احسن انتظام سوچنا بدعت نہیں بلکہ عین سنت نبویؐ کے مطابق ہے۔ آپؑ آیت کریمہ
وَأَعِدُّوْا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ(الانفال: 61)
کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’اس آیتِ موصوفہ پر غور کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ برطبق حدیثِ نبوی
اِنَّمَا الْاَْعْمَالُ بِاالنِیَّاتِ
کوئی احسن انتظام اسلام کی خدمت کے لئے سوچنا بدعت اور ضلالت میں داخل نہیں ہے جیسے جیسے بوجہ تبدل زمانہ کے اسلام کو نئی نئی صورتیں مشکلات کی پیش آتی ہیں یا نئے نئے طور پر ہم لوگوں پر مخالفوں کے حملے ہوتے ہیں ویسی ہی ہمیں نئی تدبیریں کرنی پڑتی ہیں۔ پس اگر حالتِ موجودہ کے موافق ان حملوں کے روکنے کی کوئی تدبیر اور تدارک سوچیں تو وہ ایک تدبیر ہے۔ بدعات سے اس کو کچھ تعلق نہیں اور ممکن ہے کہ بباعث انقلابِ زمانہ کے ہمیں بعض ایسی نئی مشکلات پیش آ جائیں جو ہمارے سیّد و مولیٰ نبی کریمﷺ کو بھی اس رنگ اور طرز کی مشکلات پیش نہ آئی ہوں۔ مثلاً ہم اس وقت کی لڑائیوں میں پہلی طرز کو جو مسنون ہے اختیار نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اس زمانہ میں طریقِ جنگ و جدل بالکل بدل گیا ہے۔ اور پہلے ہتھیار بےکار ہو گئے اور نئے ہتھیار لڑائیوں کے پیدا ہوئے۔ اب اگر ان ہتھیاروں کو پکڑنا اور اٹھانا اور ان سے کام لینا ملوکِ اسلام بدعت سمجھیں اور میاں رحیم بخش جیسے مولوی کی بات پر کان دھر کے ان اسلحہ جدیدہ کا استعمال کرنا ضلالت اور معصیت خیال کریں اور یہ کہیں کہ یہ وہ طریقِ جنگ ہے کہ نہ رسول اللہﷺ نے اختیار کیا اور نہ صحابہ اور تابعین نےتو فرمائیے کہ بجز اس کے کہ ایک ذلت کے ساتھ اپنی ٹوٹی پھوٹی سلطنتوں سے الگ کئے جائیں اور دشمن فتحیاب ہو جائے کوئی اور بھی اس کا نتیجہ ہو گا۔ پس ایسے مقامات تدبیر اور انتظام میں خواہ وہ مشابہ جنگ و جدل ظاہری ہو یا باطنی اور خواہ تلوار کی لڑائی ہو یا قلم کی۔ ہماری ہدایت پانے کے لئے یہ آیت کریمہ موصوفہ بالا کافی ہے‘‘
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ609-610)
پس اشاعت اسلام اور دفاع اسلام کے لیے وہ تمام امور اور ذرائع جو جماعت احمدیہ بروئے کار لاتی ہے وہ سب سنت نبویﷺ کے تحت احسن انتظام ہے جو اس زمانہ کی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر ایجاد کیے گئے ہیں۔
اسوۂ محمدی۔ نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرٍ
الغرض سنت نبوی ایک بہت بڑی نعمت ہے جو امت محمدیہ کو عطا کی گئی ہے۔ ایک قرآن تو وہ ہے جو کتابوں اورسینوں میں موجود ہے ایک قرآن وہ ہے جو حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی ذات میں جلوہ گر ہوا۔ ہزاروں مطہر دلوں میں پروان چڑھا اور صدیوں کا سفر کرکے ہمارے پاس آج سنت محمدیؐ کی شکل میں موجود ہے۔ ایک نور دوسرے نور پر فائض ہوا اور سب کچھ نور علی نورہو گیا۔
یہ اللہ سے اس کے رسول کی محبت کی داستان ہے۔ یہ رسول اللہ کے مکارم اخلاق کا بیان ہے۔ یہ روح محمدیؐ کی دلفریب تصویر ہے۔ یہ سینہ ارض پر لکھی گئی کائنات کی سب سے انمٹ تحریر ہے۔ یہ صداقت کا آفتاب اور امانت کا ماہتاب ہے۔ یہ ایمان کی بہار اور دین کا وقار ہے۔ اس کے بغیر فلاح کا تصور بےکار ہے۔
اسوۂ محمد یؐ قرآن کی طرح زمان و مکان کی قیودسے آزاد ہے۔ یہ مشرقی ہے نہ مغربی ہے۔ اس میں اٹل اور ٹھوس قوانین بھی ہیں اور لچکدار اور ہر حالت پر منطبق ہونے والے اصول بھی ہیں جن کی روشنی میں انسان ہمیشہ ٹھوکر سے بچتا اور روشنی پاتا ہے۔ ہر سچی حدیث قرآن و سنت کی گود میں پرورش پاتی ہے اور ہر حدیث کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھا جا سکتا ہے۔ سچی حدیثیں قرآن و سنت کے لیے گواہ کے طور پر ہیں حاکم کے طور پر نہیں۔
یہ انسانوں کے باہمی تعلقات کی پُر حکمت کتاب اور جہانبانی کے آداب ہیں یہ مملکت اسلامیہ کا قانون اور مسلم معاشرے کا آئین ہے۔ یہ ایک مقدس ہستی کی آواز اور ایک منجی کی پرداز ہے۔ یہ سیرت محمدیؐ کا آئینہ اور تمام روحانی اعمال صالحہ کا دفینہ ہے۔ رسول اللہﷺ کا نمونہ ہی انسانی زندگی کی معراج اور سراج دھاج یعنی چمکتا سورج ہے۔ اس پر دن تو چڑھیں گے رات کبھی نہیں آئے گی۔ قیامت تک کوئی لمحہ ایسا نہیں جو اس کے بغیر حقیقی کامیابی کا منہ دیکھ سکے۔
آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گے
لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے
٭…٭…٭