کیاحضرت آدمؑ کو پہلا فتنہ ایک عورت کی وجہ سے پیش آیا؟
سوال:ایک خاتون نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا کہ حضور انور نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا ہے کہ’’سچے مومن کو اپنے بیوی بچوں کےلیے بھی دعا کرنی چاہیے، کیونکہ حضرت آدم ؑکو پہلا فتنہ بھی ایک عورت کی وجہ سے پیش آیا۔‘‘جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ یہ بائبل کا بیان ہے کہ حوّا حضرت آدم کو گمراہی کی طرف لےکر گئیں۔حضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 4؍فروری 2020ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔حضور نے فرمایا:
جواب:آپ نے میرے جس خطبہ کا حوالہ دیا ہے، اس میں بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پڑھا ہے۔اس اقتباس میں حضور علیہ السلام نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ توریت کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ پر آنے والے بلعم کے ایمان کے ضائع ہونے کی وجہ بھی اس کی بیوی ہی تھی، جسے بادشاہ نے بعض زیورات دکھا کر لالچ دی اور اس نے بلعم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف بد دعا کرنے پر اکسایا اور جس وجہ سے بلعم کا ایمان ضائع ہو گیا۔
علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بعض تصنیفات میں قرآن کریم کے حوالے سے یہ مضمون بھی بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدم نے عمداً میرے حکم کو نہیں توڑا بلکہ اس کو یہ خیال گذرا کہ حوّا نے جو یہ پھل کھایا اور مجھے دیا شائد اُس کو خدا کی اجازت ہو گئی جو اُس نے ایسا کیا۔یہی وجہ ہے کہ خدا نے اپنی کتاب میں حوّا کی بریت ظاہر نہیں فرمائی مگر آدم کی بریت ظاہر کی اور اس کی نسبت فرمایا
لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا
اور حوّا کو سخت سزا دی۔
اسی طرح ایک جگہ حضور علیہ السلام نے اس مضمون کو بھی بیان فرمایا ہے کہ جس طرح چھٹے روز کے آخری حصے میں آدم پیدا ہوا اسی طرح چھٹے ہزار کے آخری حصہ میں مسیح موعود کا پیدا ہونا مقدر کیا گیا اور جیسا کہ آدم نحّاشکے ساتھ آزمایا گیا جس کو عربی میں خنّاسکہتے ہیں جس کا دوسرا نام دجال ہے ایسا ہی اس آخری آدم کے مقابل پر نحّاش پیدا کیا گیا تا وہ زن مزاج لوگوں کو حیات ابدی کی طمع دے جیسا کہ حوّا کو اس سانپ نے دی تھی جس کا نام توریت میں نحّاشاور قرآن میں خنّاسہے۔
یہ بات بائبل کے حوالے سے بیان ہو یا قرآنی احکامات کی روشنی میں، اصل میں اس میں مرد اور عورت دونوں کی بعض فطرتی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا گیا۔چنانچہ جہاں اس میں عورت کی یہ فطرتی کمزوری بیان کی گئی ہے کہ اس میں طمع اور لالچ کا مادہ پایا جاتا ہے وہاں اس میں اپنی ادا اور چالبازی کے ساتھ مرد کو ورغلانے اور اپنی بات منوانے کا گر بھی پایا جاتا ہے۔اسی طرح جہاں مرد خود کوبہت ہوشیار اور عقلمند سمجھتا ہے وہاں اس میں یہ کمزوری بھی ہے کہ وہ بہت جلد عورت کی باتوں میں آجاتا ہے۔اور اس حقیقت کو آنحضورﷺ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ۔(صحیح بخاری)
یعنی اے عورتوں کے گروہ! دین و عقل میں نسبتاً کم ہونے کے باوجود میں نے تم سے بڑھ کر کسی چیز کو نہیں دیکھا، جو بڑے،بڑے عقلمند اور مضبوط ارادہ والے مرد کی عقل مار دے۔
عورت کے اسی فطرتی نقص اور فطرتی ہنر سے جہاں ماضی کی بعض تنظیمیں اپنا مفاد حاصل کرتی رہی ہیں وہاں آج کے اس ترقی یافتہ زمانہ میں بھی بڑے بڑے ممالک کی اکثر جاسوسی تنظیمیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔چنانچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان تنظیموں میں بہت سی عورتوں کو صرف اس لیے رکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی اداؤں اور چالاکیوں سے کام لے کر مخالف تنظیموں یا اداروں کے مردوں سے ان کے راز نکلوائیں، اور اس میں انہیں کامیابی بھی ہوتی ہے۔
پس یہ وہ امور ہیں جن کا تعلق عورت اور مرد کی اس دنیوی زندگی کے ساتھ ہے لیکن اس کے ساتھ اسلام نے یہ تعلیم بھی دی ہے کہ حقوق و فرائض کے معاملے میں نیز نیکیوں کے بجالانے پر ثواب کے ملنے میں عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں۔پس جس طرح مرد کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اس کے کچھ حقوق اور کچھ ذمہ داریاں ہیں اسی طرح عورت کی صلاحیت اور قابلیت کے مطابق اس کے بھی ایسے ہی کچھ حقوق اور کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ان حقوق و فرائض کے بارے میں ان میں کوئی فرق نہیں۔اسی طرح جہاں ایک مرد کسی نیکی کے بجالانے پر ثواب کا حقدار ہوتا ہے اسی طرح عورت بھی اس نیکی کے بجالانے پر اسی قدر اور بعض امور میں اپنی صلاحیت اور قابلیت کی بنا پر نسبتاً کم مشقت والی نیکی بجا لانے پر مرد کے برابر اور بعض صورتوں میں اس سے زیادہ ثواب کی حقدار قرار پاتی ہے۔اسلام کی یہ وہ خوبصورت تعلیم ہے جس کا مقابلہ دنیا کا کوئی اور مذہب یا دنیا کی کوئی اور تعلیم ہر گز نہیں کر سکتی۔