متفرق

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور فارسی ادب (قسط نمبر 73)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

فرمایا:

دعا کرانے والے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ صابر ہو۔ جلد باز نہ ہو۔ جو ذرا سی بات پر دجال کہنے کو تیار ہے۔ پس وہ کیا فائدہ اٹھائے گا۔ اسے تو چاہیے کہ صبر کے ساتھ انتظار کرے۔ اور حسن ظن سے کام لے۔

جب خدا تعالیٰ نے

لَنَبْلُوَنَّکُمْ

فرمایا ہے۔ تو صبر کرنے والوں کے لیے بشارت دی اور

اُولٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰاتٌ (البقرۃ:158

)بھی فرمایا۔ میرے نزدیک اس کے یہی معنی ہیں کہ قبولیت دعا کی ایک راہ نکال دیتا ہے۔ حکام کا بھی یہی حال ہے کہ جس پر ناراض ہوتے ہیں اگر وہ صبر کے ساتھ برداشت کرتا اور شکوہ اور بدظنی نہیں کرتا تو اسے ترقی دیدیتے ہیں۔ قرآن شریف سے صاف پایا جاتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ ابتلا آویں جیسے فرمایا۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ یُّتۡرَکُوۡۤا اَنۡ یَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَ ہُمۡ لَا یُفۡتَنُوۡنَ (العنکبوت: 3)

یعنی کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف

آمنَّا

کہنے سے چھوڑے جائیں اور وہ فتنوں میں نہ پڑیں۔

انبیاء علیہم السلام کو دیکھو۔ اوائل میں کس قدر دکھ ملتے ہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف دیکھو کہ آپ کو مکی زندگی میں کس قدر دکھ اٹھانے پڑے۔ طائف میں جب آپ گئے تو اس قدر آپ کے پتھر مارے کہ خون جاری ہو گیا۔ تب آپؐ نے فرمایا کہ کیسا وقت ہے۔ میں کلام کرتا ہوں اور لوگ منہ پھیر لیتے ہیں۔ اور پھرکہا کہ اے میرے ربّ! میں اس دکھ پر صبر کروں گا جبتک کہ تو راضی ہو جاوے۔

اولیاء اور اہل اﷲ کا یہی مسلک اور عقیدہ ہوتا ہے۔ سید عبدالقادر جیلانی لکھتے ہیں کہ عشق کا خاصہ ہے کہ مصائب آتے ہیں۔

اُنہوں نے لکھا ہے۔ ؎

عشقا! برآ! تو مغز گرداں خوردی

با شیر دلاں چہ رستمی ہا کردی

اکنوں کہ بما روئے نبرد آوردی

ہر حیلہ کہ داری نکنی نا مردی

مصائب او ر تکالیف پر اگر صبر کیا جاوے اور خدا تعالیٰ کی قضا کے ساتھ رضا ظاہر کی جاوے تو وہ مشکل کشائی کا مقدمہ ہوتی ہے۔

ہر بلا کیں قوم را او دادہ است

زیر آں یک گنج ہا بنہادہ است

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تکالیف کا نتیجہ تھا کہ مکہ فتح ہو گیا۔ دعامیں خدا تعالیٰ کے ساتھ شرط باندھنا بڑی غلطی اور نادانی ہے۔ جن مقدس لوگوں نے خدا کے فضل اور فیوض کو حاصل کیا۔ انہوں نے اس طرح حاصل کیا کہ خدا کی راہ میں مر مر کر فنا ہوگئے۔ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے۔ جو دس دن کے بعد گمراہ ہو جانے والے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نفس پر خود گواہی دیتے ہیں جبکہ لوگوں سے شکوہ کرتے ہیں۔ کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 387-388)

اس حصہ میں حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ السلا م نے فارسی کے درج ذیل تین اشعار استعمال کیے ہیں۔

1۔ عِشْقَا ! بَرْ آ ! تُو مَغْزِ گُرْدَاں خُوْرْدِیْ

بَاشِیْر دِلَاں چِہْ رُسْتَمِی ہَا کَرْدِیْ

ترجمہ:۔ اے عشق سامنے آتو جو پہلوانو ں کے مغز کھا گیاہے اور شیروں جیسے دل والو ں سے رستم جیسی بہادریاں دکھائی ہیں۔

2۔ اَکْنُوْں کِہ بِمَا رُوْئے نَبَرْد آوَرْدِی

ہَرْ حِیْلِہْ کِہْ دَارِیْ نَکُنِیْ نَامَرْدِیْ

ترجمہ:۔ اب جو تو نے ہمارے مقابلہ کی ٹھانی ہے، تو اگر اپنے تمام داؤپیچ عمل میں نہ لائے تو نامرد کہلائے گا۔

3۔ ’ہَرْ بَلَا کِیْں قَوْم رَا اُوْ دَادِہ اَسْت

زِیْرِ آں یِکْ گَنْج ہَا بِنِہَادِہ اَسْت‘

ترجمہ:۔ ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لیے مقدر کی ہے اس کے نیچے رحمتوں کاخزانہ چھپا رکھاہے۔

*۔ مولانا عبدالحق صاحب رامہ کی تحقیق کے مطابق مولانا روم کے کلام میں یہ شعر اس طرح ملتاہے۔

ہَرْبَلَا کِیْں قَوْم رَا حَقْ دَادِہ اَسْت

زِیْرِآں ْ گَنْجِ کَرَمْ بِنِہَادِہْ اَسْت

اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر رقم کیا جاچکا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button