کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کی ہے؟
غیر احمدی علماء حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی زندہ جسم سمیت آسمان پر موجودگی ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم کی آیت کریمہ
وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ(النساء: 160)
بطور دلیل پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت تک حضرت عیسیٰ فوت نہیں ہوں گے جب تک کل اہل کتاب اُن پر ایمان نہ لے آویں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ غیر احمدی علماء کا اس آیت کریمہ سے یہ استدلال قرآن وحدیث کے خلاف ہے نیز اس آیت کا حقیقی مفہوم بیان کیا جس کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ جسم سمیت آسمان پرہونے سے تعلق نہیں۔ غیر احمدی علماء جب عاجز آجاتے ہیں تو پھر وہ اپنے استدلال کی تائید میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ایک قول صحیح بخاری سے پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیت سے نزول مسیح مراد لیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے اس قول کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ ابوہریرہ کے قول سے قرآن شریف کا باطل ہونا لازم آتا ہے کیونکہ قرآن شریف تو جابجا فرماتا ہے کہ یہود و نصاریٰ قیامت تک رہیں گے ان کا بکلی استیصال نہیں ہوگا۔ اور ابوہریرہ کہتا ہے کہ یہود کا استیصال بکلی ہوجائے گا اور یہ سراسر مخالف قرآن شریف ہے۔ جو شخص قرآن شریف پر ایمان لاتا ہے اس کو چاہیئے کہ ابوہریرہ کے قول کو ایک ردّی متاع کی طرح پھینک دے بلکہ چونکہ قراء ت ثانی حسب اصول محدثین حدیث صحیح کا حکم رکھتی ہے اور اس جگہ آیت قَبْلَ مَوْتِہٖکی دوسری قراء ت قَبْلَ مَوْتِھِمْ موجود ہے جس کو حدیث صحیح سمجھنا چاہیئے۔ اس صورت میں ابوہریرہ کا قول قرآن اور حدیث دونوں کے مخالف ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ 409تا410)
اس کے جواب میں غیر احمدی علماء بجائے دلیل سے جواب دینے کے یہ الزام لگاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ردّ کرکے ان کی شان میں گستاخی کر دی ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےجس بنیا د پر حضرت ابو ہریرہؓ کا قول رد فرمایا ہے اسی بنیاد پر دیگرکئی ایک مفسرین حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کودرست نہیں سمجھتے مثلاً ’’تفسیر مظہری‘‘مؤلفہ جناب مولوی ثناء اللہ صاحب پانی پتی میں لکھا ہے:
’’میں کہتا ہوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت سے پہلے نزول حق ہے اور آپ کے زمانہ میں اسلام کے علاوہ تمام ادیان کا ختم ہونا یہ بھی حق اور ثابت ہے جو مرفوع احادیث سے ثابت ہے لیکن اس کو اس آیت سے سمجھنا اور ضمیر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹانا درست نہیں۔ یہ صرف حضرت ابوہریرہ کا گمان ہے۔ اس ضمن میں کوئی مرفوع حدیث نہیں۔ یہ کیسے درست ہوسکتا ہے جبکہ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِکا حکم ان تمام افراد کو شامل ہے جو حضورﷺ کے زمانہ میں موجود تھے۔‘‘
(تفسیر مظہری، مؤلفہ قاضی محمد ثناء اللہ عثمانی پانی پتی، جلد دوم، صفحہ 541، مترجم: پیر محمد کرم شاہ الازہری، ضیاء القرآن پبلی کیشنز )
متقدم علماء اس بات کوبیان کرتے چلے آئے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ احادیث یاد رکھنے اور جمع کرنے کے حوالے سے اپنا ایک مقام رکھتے ہیں لیکن کسی مسئلے کے حوالے سے ان کا اپنا اجتہاد اس طرح قابل قبول نہیں کیونکہ وہ کوئی فقیہ یا مجتہد نہیں تھے۔ اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کو قرآن وحدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے رد کیا۔ اگر یہ گستاخی ہے تو اس گستاخی کا الزام تو علمائے حنفیہ(یعنی مقلدین، دیوبندی اور بریلوی وغیرہ علماء) پربھی ہے۔
ایک کتاب ’’صحابہ کرام کے بارہ میں علماء حنفیہ کی زبان درازیاں ‘‘لکھی گئی ہے۔ اس کی تالیف ایک غیر احمدی الطاف الرحمٰن الجوہر نے کی۔ ناشر المرکز الامام البخاری للتربیہ والتعلیم ملتان خورد تحصیل تلہ گنگ ہے۔ اس کتاب کے صفحہ 11تا 13پر لکھا ہے:
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی
علماء حنفیہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارہ میں جو الفاظ اپنی کتابوں میں رقم کرتے ہیں، اس کی تفصیل درج ذیل ہے
اَبُوہُرَیرہ وَاِنْ کَانَ مَعْرُوْفًا بِالْعَدَالَۃِ وَالْضَبْطِ وَلٰکِنْ لَمْ یَکُنْ فَقِیْھًا وَّ لَا مُجْتَھِدًا
سیدنا ابو ہریرہ اگرچہ عادل وضابط تھے لیکن فقیہ اور مجتہد نہ تھے۔
بلکہ بڑے واضح الفاظ میں نقل کرتے ہوئے حنفی حضرات کہتے ہیں کہ ان کی جو روایات قیاس (حنفی ) کے خلاف ہوں گی ان کو متروک ومردود ٹھہرایا جائے گا جیسا کہ مولانا عبدالعزیز البخاری الحنفی، نسفی حنفی، کاکی حنفی وغیرہ اپنی اپنی کتب میں رقمطراز ہیں:
اِنَّمَا یُقْبَلُ مَا لَا یُخَالِفُ الْقِیَاسَ فَاِمَّا خَالَفَہ فَالْقِیَاسُ مُقَدَّم عَلَیْہِ (کشف الاسرار: 3/371)
کہ ان کی روایات اس وقت تک مقبول ہیں جب تک قیاس کے مخالف نہیں ہیں۔ اگر قیاس کے مخالف آجائیں تو قیاس حنفی کو مقدم کیا جائے گا۔ ‘‘
(صحابہ کرام کے بارے میں علماء حنفیہ کی زبان درازیاں صفحہ 11تا13)
کتاب کے مؤلف نے جب پہلا حوالہ درج کیا کہ اَبُوہُرَیرہ وَاِنْ کَانَ مَعْرُوْفًا…تو نیچے حاشیہ میں ریفرنس کے طور پر مندرجہ ذیل سولہ کتب کےنام لکھے جن میں اس حوالے کا ذکر ہے۔
(1)الْغَنِیّۃُ فِی الْاُصُوْل
اَبُوْ صَالح مَنْصُور بن اسحاق السَجستانی (المتوفی: 299ھ)
(2)اَلفُصُول فی الاُصُول: 136/3
مولانا احمد بن علی ابو بکر الجَصّاص (المتوفی: 370ھ)
(3)اُصُول الشّاشِیصفحہ: 275 احمد بن محمد اسحاق ابو علی الشاشی (المتوفی: 344ھ)
(4)تقویم الاَدِلَّۃ صفحہ180
مولانا القاضی عبید اللہ بن عمر ابو زید الدَبُوسِی حَنَفی (المتوفی: 430ھ )
(5)المُغْنِی فی الاصول صفحہ207
مولانا جلال الدین عمر بن محمد الخبَازی (المتوفی: 691ھ)
(6)کشْفُ الْاَسْرَار: 26/2
مولانا ابو البرکات حافظ الدین النَسفی (المتوفی: 710ھ)
(7)جَامِعُ الْاَسْرَار فِی شُحّ الْمَنَار: 668/3
مولانا محمد بن محمد بن احمد الکَاکی (749ھ)
(8)فَتْحُ الْغَفَّار: 180/2 زَیْن الدین محمد بن عبد الواحد المعروف بِابنِ نَجِیْم (861ھ)
(9)اَلوَجِیْز فِی اُصُول الفقہ صفحہ151
مولانا یوسف بن حسین الکَرامَاستِی(المتوفی: 907ھ)
(10)اَلحُسَامِی مَعَ شَرْحِہِ المُسَمّی بِالنَّامِی اَز ابو محمد عبد الحق صفحہ148
مولانا حسام الدین محمد بن عمر الحسامی (المتوفی: 644ھ)
(11)الوَافِی شَرْحُ الحُسَامی: 171
مولانا حسین بن علی السَغنَاقِی (المتوفی: 710ھ)
(12)اِفَاضَۃُالْاَنْوَارِعَلی اُصُولِ المَنَارِ صفحہ195
مولانا علاء الدین اَلْحَصکَفِی (المتوفی: 1088ھ )
(13)نُورُ الانوار صفحہ: 179
ملا جیون (المتوفی: 1130ھ )
(14)بَذْلُ المَجْھُودِ شَرْح ابی داؤد: 16/1
مولانا خلیل احمد سَہَارَنْپُوْری (المتوفی: 1147ھ )
(15)تَقْرِیر ترمذی صفحہ36
مولانا محمود الحسن دیوبندی
(16)الشَّافی علی اصول الشاشی صفحہ222
ولی الدین بن محمد صالح الفرفور
ان کتب کے مؤلفین کازمانہ تقریباً چوتھی صدی ہجری سے شروع ہوکر حال تک آتا ہے۔ اگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو مجتہد اور فقیہ نہ ماننے سے گستاخی ہوتی ہے تو مذکورہ بالا تمام مؤلفین اس الزام کے نیچے ہیں اوراگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کو رد کرنا گستاخی شمار ہوتی ہے تو علمائے حنفیہ کو اس گستاخی کے الزام کا جواب دینا چاہیے۔ جو جواب وہ دیں گے وہی جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پرلگنے والے الزام کا جواب ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو صرف حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کو قرآن وحدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے رد کیا لیکن اسی مذکورہ کتاب میں حنفی علماء کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر علماء کسی مسئلہ میں کوئی اجتہاد کریں اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت اس کے خلاف ہوگی تو پھر علماء کا اجتہاد مقدم ہو گا اور اسے پہلے رکھا جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن وحدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے ان کے قول کو رد کیا تو گستاخی ہوئی لیکن جو علماء کے قیاس کی وجہ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کو رد کرے تو کیا وہ گستاخی نہیں؟ موجودہ زمانے کے غیر احمدی علماء کو اس کا جواب دینا چاہیے۔ جب وہ جواب دیں گے تو پھر انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لگائے گئے الزام کا بھی جواب مل جائے گا۔
(مرسلہ: ابن قدسی)