خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍جولائی 2021ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد فاروقِ اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

آنحضرتﷺ نے زور سے اللہ اکبر!کہا اور فرمایا مجھے مملکتِ شام کی کنجیاں دی گئی ہیں اور شام کے سرخ محلات میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔

پھر آپؐ نے دوسری مرتبہ ضرب لگائی اور فرمایا مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں۔اس کےبعد حضورﷺ نے تیسری مرتبہ ضرب لگائی اور فرمایا اب مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں اور صنعا کے دروازے مجھے دکھائے جارہےہیں۔ (حضرت عمرؓ کے زمانے کی جنگوں کا ذکر)

پانچ مرحومین: مکرمہ پروفیسر نسیم سعید صاحبہ اہلیہ محمد سعید صاحب، مکرم داؤد سلیمان بٹ صاحب جرمنی، مکرمہ زاہدہ پروین صاحبہ اہلیہ غلام مصطفیٰ اعوان صاحب ڈھپئی ضلع سیالکوٹ، مکرم رانا عبدالوحید صاحب لندن ابن چودھری عبدالحئی صاحب تحصیل جڑانوالہ، فیصل آباد پاکستان،مکرم الحاج میر محمدعلی صاحب کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 30؍ جولائی 2021ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد ٹلفورڈ یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 30؍جولائی 2021ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت سرفراز باجوہ صاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد، تعوذ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

حضرت عمرؓ کے زمانے کی جنگوں کا ذکر ہورہا تھا۔ مدائن کی فتح کے متعلق آنحضرتﷺ کے زمانے کی پیش گوئی کا ذکر کرتے ہوئےحضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ’سیرت خاتم النبیینﷺ‘ میں لکھتے ہیں کہ خندق کھودتے ہوئے ایک جگہ ایسا پتھر نکلا جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہ آتا تھا۔ صحابہ تین دن کے مسلسل فاقے سے نڈھال تھے آخر تنگ آکر وہ رسولِ خداﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت رسول اللہﷺ نے بھی بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھا تھا۔آپؐ فوراً وہاں تشریف لائےاور ایک کدال لےکر اللہ کا نام لیا اور پتھرپر ضرب لگائی۔ لوہے کے لگنے سے پتھر سے شعلہ نکلا جس پر آپؐ نے زور سے اللہ اکبر! کہا اور فرمایا مجھے مملکتِ شام کی کنجیاں دی گئی ہیں اور شام کے سرخ محلات میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ پھر آپؐ نے دوسری مرتبہ ضرب لگائی اور فرمایا مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے نظر آرہے ہیں۔اس کےبعد حضورﷺ نے تیسری مرتبہ ضرب لگائی اور فرمایا اب مجھے یمن کی کنجیاں دی گئی ہیں اور صنعا کے دروازے مجھے دکھائے جارہےہیں۔

حضورﷺ کے یہ نظارے عالَمِ کشف سے تعلق رکھتے تھے گویا اس تنگی کے وقت میں اللہ تعالیٰ نےآپؐ کو مسلمانوں کی آئندہ فتوحات اور فراخیوں کے مناظر دکھاکر صحابہ میں امیدو شگفتگی کی روح پیدا فرمادی۔مدائن کی فتح کا وعدہ حضرت عمرؓ کے دَورِخلافت میں حضرت سعدؓ کے ہاتھوں پورا ہوا۔قادسیہ کی فتح کےبعد موجودہ عراق کے قدیمی شہر بابل اور پھر کُوْثیٰ سے ہوتے ہوئے اسلامی لشکر بہرسیر پہنچا۔ یہاں ایرانیوں نے کسریٰ کے شکاری شیر کو لشکر پر چھوڑدیا جو گرجتا ہوا سلامی افواج پر حملہ آور ہوگیا۔ حضرت سعدؓ کےبھائی ہاشم بن ابی وقاص نے شیر پر تلوارسے وار کیا اور شیر وہیں ڈھیر ہوگیا۔

کسریٰ کا پایۂ تخت، مدائن بغداد سے بطرفِ جنوب کچھ فاصلےپر دریائے دجلہ کےکنارے واقع تھا۔مسلمان لشکرکےلیے دریا عبور کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی کہ ایک رات حضرت سعدؓ کوخواب دکھایا گیا کہ مسلمانوں کےگھوڑے پانی میں داخل ہورہے ہیں۔آپؓ نے یہ فرماتےہوئے کہ مسلمانو! آؤ اس دریا کوتیرکر پار کریں اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ آپؓ کی پیروی میں بقیہ سپاہیوں نےبھی اپنے گھوڑے دریا میں ڈال دیے۔مقابل فوج یہ منظر دیکھ کر خوف سے چیخنے لگی اور بھاگ کھڑی ہوئی۔مسلمانوں نے آگے بڑھ کر شہر اور کسریٰ کے محلات پر قبضہ کرلیا۔ حضرت سعدؓنے حکم دیاکہ شاہی خزانہ اور نوادرات جمع کیے جائیں۔مسلمان سپاہیوں نے نہایت دیانت داری کےساتھ سارا سامان اکٹھا کردیا۔مالِ غنیمت حسبِ قاعدہ تقسیم ہوکر پانچواں حصّہ دربارِ خلافت میں بھجوا دیاگیا۔

جنگِ جلولاء 16؍ہجری میں لڑی گئی۔ مدائن میں شکست کھانےکےبعد ایرانیوں نے بغداد اور خراسان کے درمیان واقع جلولاء شہر میں جمع ہوکرجنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ حضرت عمرؓ کے حکم پرحضرت سعدؓ نے ہاشم بن عتبہ کو بارہ ہزار کالشکر سپرد کرکے جلولاء روانہ کردیا۔ مسلمانوں نے مہینوں شہر کا محاصرہ کیے رکھا اس دوران لگ بھگ اسّی معرکے ہوئے۔ جلولاء کی فتح پرحضرت عمرؓ نے اہلِ عجم کے تعاقب سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں مالِ غنیمت پر مسلمانوں کی سلامتی کو ترجیح دیتا ہوں۔

جب مالِ غنیمت میں سے خُمس حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش ہوا تو آپؓ نےفرمایا یہ کسی چھت تلے سما نہیں سکتا لہٰذا مَیں بہت جلد اسے تقسیم کردوں گا۔ مالِ غنیمت میں موجود قیمتی جواہرات دیکھ کر حضرت عمرؓ رو پڑے اور فرمایا اللہ جس قوم کو یہ عطا فرماتا ہے تو اُن میں حسد اور بغض بڑھ جاتا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا یہ بڑے غور و فکر اور استغفار والی بات ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں میں حسد اور بغض دولت کے آنے کے بعد بڑھتا ہی چلا گیا۔

حضرت سعدؓ ابھی مدائن میں ہی مقیم تھے کہ انہیں ایرانی لشکر کی میدانی علاقےمیں پیش قدمی کی اطلاع ملی۔ حضرت عمرؓ کی ہدایت پر ضرار بن خطاب کی سرکردگی میں ایک لشکر مقابلےکےلیے روانہ ہوا۔ ماسبذان کے میدانی علاقے ہندف مقام پر لڑائی ہوئی اور ایرانیوں نے یہاں بھی شکست کھائی۔

14؍ہجری میں حضرت عمرؓ نے فوجی نقطۂ نظر سے بعض فوائد دیکھ کر عراق میں چھوٹے پیمانے پر ایک دوسرا محاذکھول دیا اور چھاؤنی شہر بصرہ کی داغ بیل ڈالی۔اس علاقے میں فوج بٹھانے کا بڑا مقصد یہی تھا کہ ایرانی فوج کی کمک نہ پہنچ پائے۔ مسلمانوں نے خوزستان کے معروف شہر اہواذ پر قبضہ کیا تو وہاں کے رئیس بیرواز نے مصالحت کرلی۔ اس معرکے میں مسلمانوں نے بہت سے لوگوں کو گرفتار کرکے غلام بنایا تھا مگرحضرت عمرؓ کےحکم پرسب کو رہا کردیا گیا۔اس علاقے میں ایرانی دو راستوں سے مسلمان لشکر پر باربار حملہ آور ہوتے تھے،مسلمانوں نے ان دونوں راستوں پر قبضہ کرلیا۔حضورِانور نے فرمایا کہ اکثر جگہ ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو تنگ کیا جاتا،حملےکیےجاتےوہیں مسلمانوں نے حملے کیے اور ان جگہوں پر قبضہ کیا۔

جلولاء میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایرانی ہرمزان کی قیادت میں رامَہرمز میں جمع ہوئے۔ حضرت عمرؓ کی ہدایت پر حضرت سعدؓ نے نعمان بن مقرن کو کوفہ اور ابوموسیٰ اشعری کو بصرہ سےلشکر کا سردار بنا کر روانہ کیا نیز ہدایت فرمائی کہ جب دونوں لشکر اکٹھے ہوجائیں تو ابو سبرة بن رُہم ان کے کمانڈر ہوں۔نعمان بن مقرن کی فوج سے ہرمزان کا مقابلہ ہوا اور وہ شکست کھا کر تستر کی طرف بھاگ گیا۔ طویل محاصرے کے بعد جب شہر فتح ہوا اور ہرمزان گرفتار کیا گیا تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس کا معاملہ حضرت عمرؓ پر چھوڑ دیا جائے۔جب ہرمزان گرفتار ہوکر حضرت عمرؓ کے سامنے پیش ہوا تو وہ آپؓ کی سادگی سے بہت متاثر ہوا۔ ایک دل چسپ مکالمے کےبعد ہرمزان نے اسلام قبول کرلیا اور مدینے ہی میں رہائش اختیار کرلی۔ حضرت عمرؓ نے اس کا دو ہزار وظیفہ مقرر فرمایا۔ ’عقد الفرید‘ میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ ایران پر لشکرکشی میں ہرمزان سے مشورہ کرتے اور اس کی رائے کےمطابق عمل کیا کرتے۔ یہ شبہ بھی کیا جاتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی شہادت میں ہرمزان کا ہاتھ تھا لیکن حضرت مصلح موعودؓ اس شبہ کو درست نہیں سمجھتے۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کا قاتل فیروز قتل سے پیشتر ایک روز ہرمزان سے ملا۔ فیروزکے ہاتھ میں خنجر دیکھ کر ہرمزان نے اس کی وجہ پوچھی اور خنجر کو ہاتھ میں لےکر دیکھا۔ جس وقت وہ دونوں باتیں کررہے تھے اس وقت کسی نے انہیں دیکھ لیا۔ جب حضرت عمرؓ شہید ہوگئے تو اس نے بیان دےدیا کہ مَیں نے خود ہرمزان کو یہ خنجر فیروز کو پکڑاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس پر حضرت عمرؓ کے چھوٹے بیٹے عبیداللہ نے بلا تحقیق ازخود ہرمزان کو قتل کردیا۔ جب حضرت عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو آپؓ نے ہرمزان کے بیٹے کو بلایا اور عبید اللہ کو اس کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا کہ اے میرے بیٹے! یہ تیرے باپ کا قاتل ہے پس تُو جا اور اسے قتل کردے۔ گو بعد میں ہرمزان کے بیٹے نے لوگوں کی سفارش پر عبیداللہ کو قتل نہ کیا تاہم اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاتل کو گرفتار کرنا اور سزا دینا حکومت کا کام ہے۔

حضرت عمرؓ کا ذکر آئندہ جاری رہنے کا ارشاد فرمانے کےبعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے درج ذیل مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا:

1۔ مکرمہ پروفیسر نسیم سعید صاحبہ اہلیہ محمد سعید صاحب جو گذشتہ دنوں 88 برس کی عمر میں پاکستان میں وفات پاگئیں۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ آپ حضرت الحاج حافظ ڈاکٹر سیّد شفیع صاحب محقق دہلوی کی بیٹی تھیں۔ مرحومہ کو 61 سال تک مختلف شہروں میں جماعتی خدمات کا موقع ملا۔ آپ بیس کےقریب کتب کی مصنفہ، بڑی عبادت گزار، صاحبِ عِلْم،دعاگو، مالی قربانی میں پیش پیش، صلح رحمی کرنے والی، نہایت منکسر المزاج اور خلافت کی وفادار خاتون تھیں۔ حضورِانور نے فرمایا مجھے جب ان کے خط آتے تو ان میں اخلاص ووفا کا غیرمعمولی اظہار ہوتا تھا جو صرف باتوں کی حد تک نہ تھا بلکہ نظر آتا تھا کہ انہیں خلافت سے کیسا زبردست تعلق ہے۔ مرحومہ کے پسماندگان میں چاربیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔

2۔ مکرم داؤد سلیمان بٹ صاحب جرمنی جو 46 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ مرحوم جرمنی میں حفاظتِ خاص کی ڈیوٹی بڑی بشاشت سے کیا کرتے تھے۔ان کے پسماندگان میں اہلیہ کےعلاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے شامل ہیں۔

3۔ مکرمہ زاہدہ پروین صاحبہ اہلیہ غلام مصطفیٰ اعوان صاحب ڈھپئی ضلع سیالکوٹ جو 61 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ کے تین داماد واقفِ زندگی ہیں۔ دو بیٹیاں جو مبلغین سے بیاہی ہوئی ہیں وہ اپنے خاوندوں کے ساتھ بیرونِ ملک ہونےکی وجہ سے آخری وقت میں اپنی والدہ کے پاس موجودنہ تھیں۔

4۔ مکرم رانا عبدالوحید صاحب لندن ابن چودھری عبدالحئی صاحب تحصیل جڑانوالہ، فیصل آباد پاکستان۔ آپ 26؍جون کو وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔مرحوم بڑے محنتی کارکن تھے جنہیں انصاراللہ میں بڑی تن دہی سے کام کرنے کا موقع ملا۔

5۔مکرم الحاج میر محمدعلی صاحب جو 84 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آپ 1997ء سے 2003ء تک نیشنل امیر جماعت بنگلہ دیش رہےاور 2013ء سے تادمِ وفات بطور امیر جماعت ڈھاکہ خدمت کی توفیق پارہےتھے۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button