اللہ کے رسول اور خلیفۂ وقت کی طوعی اطاعت کے ثمرات
اطاعت کے جذبےکو زندہ رکھیں اور کبھی بھی مرنے نہ دیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف ہماری روحانی زندگی کی بقا ہے۔ بلکہ ہماری ساری کامیابیوں کی جڑ بھی خلافت کی اطاعت ہی ہے ۔
ایک خاتون کا قابل قدر واقعہ
حضرت مصلح موعودؓ نے جب جماعت میں تحریک جدید کے لیے مالی قربانیوں کا اجرا فرمایا تو اس موقع پر فرمایا:
’’قادیان کی عورتوں کا چندہ پہلے ہی جلسہ میں ساڑھے آٹھ ہزار تک پہنچ گیا ہےاور ابھی بڑھ رہا ہے اور غالباً کچھ تعجب نہیں کہ دس ہزار تک پہنچ جائے۔ جس اخلاص اور جوش سے انہوں نے چندہ دیا ہے۔ اس کا اندازہ غریب عورتوں کے چندہ سے کیا جاسکتا ہے۔ جن کی آمد کا کوئی ذریعہ نہیں…ایک اور پٹھان عورت جو نہایت ضعیف ہے اور چلتے وقت بالکل پاس پاس قدم رکھ کر چلتی ہے میرے پاس آئی اور اس نے دو روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیئے…اس کی زبان پشتو ہے اور وہ اردو کے چند الفاظ ہی بول سکتی ہےاپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اپنے ایک ایک کپڑے کو ہاتھ لگا کر کہنا شروع کیا۔ یہ دوپٹہ دفتر کا ہے یہ پاجامہ دفتر کا ہے۔ یہ جوتی دفتر کی ہے۔ میرا قرآن بھی دفتر کا ہے یعنی میرے پاس کچھ نہیں۔ میری ہر ایک چیز بیت المال سے مجھے ملی ہے۔اس کا ایک ایک لفظ ایک طرف تو میرے دل پر نشتر کا کام کر رہا تھا دوسری طرف میرا دل اس محسن کے احسان یاد کر کے جس نے ایک مُردہ قوم میں ایسی زندہ اورسرسبز روحیں پیدا کر دیں شکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہورہا تھا۔‘‘
(سوانح فضل عمر جلد دوم صفحہ 349)
وہ خاتون جس کے پاس کچھ بھی نہیں پھر بھی خلیفہ وقت کی جاری کردہ سکیم میں حصہ لینے اور چندہ دینے کے لیے بےتاب ہے۔ اگر وہ نہ دیتی پھر بھی ٹھیک تھا کیونکہ اس کے پاس تو کچھ بھی دینے کو نہ تھا مگر یہ اطاعت کا جذبہ تھا کہ خلیفہ وقت کی حکم کی تعمیل کی جائے۔
حضرت مرزا ناصر احمدصاحبؒ کی اطاعت کا ایک نمونہ
1929ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جلسہ گاہ حضرت مصلح موعودؓ کی افتتاحی تقریر کے وقت ہی چھوٹی پڑ گئی اور حضورؓ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ جلسہ گاہ وسیع کیوں نہ بنائی گئی۔ اس پر حضرت مرزا ناصر احمدصاحبؒ کو خیال آیا کیوں نہ ہم آج رات ہی بھرپور وقار عمل کر کے پرانی جلسہ گاہ کی سیڑھیوں جن پر گیلیاں رکھی جاتی تھیں اگر نئی جگہ وسیع جلسہ گاہ بنادیں تاکہ خلیفہ وقت کی خواہش پوری کرسکیں۔چنانچہ سابقہ تعمیر شدہ جلسہ گاہ ہٹا دی گئی۔ مستری آگئے۔ اینٹ اور گارا مستریوں کو دینا اور شہتیریاں رکھنا طلباء کی ڈیوٹی تھی۔ حضرت خلیفہ ثالثؒ ایک جفاکش مزدور کی مانند تمام رات کام کرتے رہے اور ساتھ ہی ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانا۔ پھر سردیوں کی سرد اور لمبی رات۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ خود فرماتے ہیں کہ
’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت جلسہ گاہ بڑی بنائی جاچکی تھی بس آخری شہتیری رکھی جارہی تھی تو ہمارے کانوں میں صبح کی اذان کے پہلے اللہ اکبر کی آواز آئی…جب حضرت مصلح موعودؓ تشریف لائےتو جلسہ گاہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔‘‘
(ماہنامہ مصباح خلیفہ ثالث نمبر جون جولائی 2008ء صفحہ56)
ملک صاحب خان نون کا ایک ایمان افروز واقعہ
پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم سر فیروز خان نون کے رشتہ دار ملک صاحب خان نون مخلص احمدی تھے۔ کسی سبب سے وہ اپنے دو بھائیوں یعنی سرفیروز خان اور میجر ملک سردار خان سے ناراض ہوگئےاور تعلقات منقطع کر لئے۔ سارے خاندان پر ملک صاحب خان کا رعب تھا۔ اس لئے اُن سے تو کوئی بات نہ کرسکا۔ سرفیروز خان نون حضرت مصلح موعودؓ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہماری صلح کروائیں۔ حضورؓ نے ملک صاحب خان نون کو طلب کیا اور فرمایا’’اتنی رنجش اور ناراضگی بہت نامناسب ہے۔ آپ پہلے سرفیروز خان صاحب کے پاس جاکر معذرت کریں اور پھر اپنے چھوٹے بھائی میجر سردار خان صاحب سے معافی مانگیں اور پھر آج ہی مجھے رپورٹ دیں۔‘‘ملک صاحب خان بیان کرتے ہیں کہ حضورؓ کے اس حکم سے میرے دل میں انقباض پیدا ہوا کہ حضورؓ نے ناراضگی کی وجہ دریافت فرمائے بغیر چھوٹے بھائیوں کے سامنے مجھے جھکنے کا حکم دے دیا۔ تاہم میری مجال نہ تھی کہ تعمیل ارشاد میں تاخیر کرتا۔ چنانچہ پہلے سرفیروز خان صاحب کی کوٹھی پر حاضر ہوا وہ بڑی محبت سے میری طرف لپکے اور زاروقطار روتے ہوئے کہنے لگے مَیں قربان جاؤں مرزا محمود پر جنہوں نے ہمارے خاندان پر یہ احسانِ عظیم کیا۔ جب مَیں نے ان سے معافی مانگی تو کہنے لگے آپ میرے عزیز ترین بڑے بھائی ہیں آپ مجھے خدا کے لیے معاف کردیں … پھر مَیں ان سے بمشکل اجازت لے کر میجر صاحب کے ہاں پہنچا وہ بھی خوشی اور ممنونیت کے جذبات سے مغلوب تھے۔ اُن کے اصرار پر بھی وہاں نہ رُکا کیونکہ حضورؓ نے رپورٹ دینے کا حکم دے رکھا تھا۔ چنانچہ سیدھا حضورؓ کے پاس پہنچا اور سارا ماجرا سُنایا۔ حضورؓ بہت خوش ہوئے اور اپنے پاس بٹھاکر فرمایا: آپ کے لیے میرا یہ حکم دل پسند تو شاید نہ ہوا ہوگا کہ کسی قسم کی تحقیقات کےبغیر ہی آپ کو حکم دے دیا کہ جاؤ اپنی عمر سے چھوٹے بھائیوں سے معافی مانگو، وجہ یہ تھی کہ آپ نے میری بیعت کی ہوئی ہے۔ سرفیروز خان اور میجر سردار خان کے ساتھ تو میرے معاشرتی تعلقات ہی ہیں۔ وہ میرے حکم کے پابند تو نہیں، مگر آپ پابند ہیں۔ پھر حدیث ہے کہ جو اپنے رُوٹھے ہوئے بھائی کو منانے میں پہل کرے گا وہ پانچ سو سال پہلے جنّت میں جائے گا۔ یہ استعارہ کا کلام ہے مگر بہر حال اس حدیث کی رُو سے آپ ایک ہزار سال پہلے جنّت میں جائیں گے۔ پھر سوچ لیں کہ یہ کس قدر فائدہ اور منافع کا سودا ہے۔
(روزنامہ الفضل 8 دسمبر2010ءصفحہ 5ماخوذ ماہنامہ خالد سیدنا مصلح موعود نمبر 2008صفحہ 264-265)
خلیفہ وقت کی اطاعت
مکرم حافظ عبدالحلیم صاحب لکھتے ہیں کہ
’’ہمارے محلہ میں ایک متمول اور مخلص خاندان رہتا ہے۔ مَیں نے انہیں ایک دن بے تکلفی میں یہ کہا کہ یہ جو آپ کے خاندان کو طرح طرح کی برکتیں اور نعمتیں میسر ہیں میرے خیال میں اس کے پیچھے مسجد کی تعمیر کا اجر شامل ہے۔ انہوں نے کہا اس بات میں تو کوئی شک نہیں لیکن ان فضلوں کے پیچھے ایک اَور بھی اہم بات ہے اور وہ خلیفۂ وقت کے حکم کی تابعداری اور نظام جماعت سے وابستگی کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔ کہنے لگے خلافتِ ثالثہ کے ایام کی بات ہے کہ ہمارا اپنے رشتہ دار کے ساتھ مکان کا تنازعہ چل رہا تھا۔ جب معاملہ طول پکڑ گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ہمارے والد صاحب کو پیغام بھجوایا کہ مَیں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ یہ مکان فوراًخالی کردیں۔ چنانچہ آپ فوری طور پر مکان خالی کرکے بچوں اور سامان کو لے کر گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ بظاہر کوئی منزل نہ تھی۔ آپ کی نظر ایک ایسے ویران سے گھرپر پڑی جس کے دروازے چوپٹ کھلے تھے۔ چنانچہ آپ نے چاروناچار سامان وہاں رکھ دیا۔ اس مکان کی مالکن کو جب پتہ چلا تواس نے آکر جھگڑنا شروع کر دیا۔ میرے والد نے اسے ساری تفصیل بتائی اور کہا کہ یہ خالی مکان دیکھ کر یہاں تھوڑی دیر کے لئے رُکے ہیں، آپ فکر نہ کریں ہم آپ کو کرایہ دیا کریں گے اور جلدہمارا کوئی بندو بست ہوجائے گا۔ اس پر اُس خاتون نے بخوشی مکان دینے پر آمادگی ظاہر کر دی۔ چند ماہ کے بعدحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خصوصی شفقت سے دارالعلوم غربی میں پلاٹ الاٹ ہو گیا۔ تو درحقیقت ان ساری نعما اور خوشحالی کے پیچھے امام وقت کے حکم کی اطاعت کی برکتیں ہیں۔ جس دن بظاہر ہم نے کسمپرسی کی حالت میں مکان کو خیر آباد کہا تھا دراصل وہی دن ہماری خوش بختی اور ترقی کا زینہ بن گیا تھا۔‘‘
(الفضل ربوہ 8دسمبر2010ءصفحہ5)
خاکسارکا ایک ذاتی واقعہ
اب میں ایک ایسا واقعہ لکھنے لگا ہوں جس میں صرف اور صرف تربیت کا پہلو اور خلیفہ وقت کی اطاعت کا پہلو مدنظر ہے۔ کیونکہ خلیفہ وقت ہر معاملے میں نظام جماعت کی برتری چاہتے ہیں۔ جس میں کسی چھوٹے بڑے کا سوال نہیں ہے۔ نظام جماعت اور تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے اولیت رکھتے ہیں۔ شخصیت نہیں۔
ہوا یوں کہ خاکسار 2005ء میں لاس اینجلس میں متعین تھا۔ ہمارے ایک مربی صاحب کے بیٹے کی شادی تھی۔مجھے مربی صاحب کی طرف سے بھی ولیمہ میں شامل ہونے کی دعوت تھی۔ اور دوسری طرف میرے دوست تھے جن کی بیٹی کی ان مربی صاحب کے بیٹے کے ساتھ شادی تھی اور خاکسار رخصتی اور ولیمہ دونوں میں شامل ہوا۔ ایک اور مربی صاحب بھی اس میں شامل تھے جو یہاں بطور مربی متعین تھے۔
جس دن ولیمہ تھا جو کہ ایک ریستوران میں ہوا تھا۔ وہاں پر بیک گراؤنڈ میں میوزک چل رہا تھا میں نے اس کی طرف بالکل دھیان نہیں دیا اور دوستوں کو ملنے اور ملاقات میں مصروف رہا۔ کیونکہ خاکسار یہاں پر 4 سال سے زائد مربی سلسلہ کی خدمات بجا لا چکا تھا سب سے واقفیت تھی اور وہی ایک موقع تھا جس سے سب دوستوں سے ملاقات ہو رہی تھی۔ خیر ولیمہ کی دعوت ختم ہوئی سب چلے گئے۔
کسی دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اطلاع دی کہ مربی صاحب کے بیٹے کا ولیمہ تھا اور دیگر مربی بھی تھے اور ولیمہ کے موقع پر میوزک چل رہا تھا۔ جس پر حضور انور نے ہم سے استفسار فرمایا کہ کیا ہوا ہے؟ ہم نے اپنی اپنی وضاحت لکھ کر بھیج دی جس پر مکرم عبدالماجد طاہر صاحب ایڈیشنل وکیل التبشیر لندن کی طرف سے 8؍اگست 2005ء کا لکھا ہوا خط مکرم امیر صاحب امریکہ کے نام آیا اس وقت امیر مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب تھے۔ اس میں حضور کی طرف سے ہدایت تھی کہ فلاں کو واپس پاکستان بھجوا دیں۔ حضور نے فرمایا ہے ’’دف بجانے کی اجازت سے میوزک اور فلمی گانوں کا جائز ہونا کہاں سےنکال لیا ہے۔ یہ لوگ تاویلیں نہ گھڑا کریں۔ دف تو صرف اس لئے بجائی جاتی تھی کہ نکاح کا اعلان ہو، نہ کہ فخریہ اظہار کے لئے۔ دف بجانے کے تعلق میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایاہے: ’’فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اوریہ اس لئے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے۔ ہم کو مقصود بالذ ات لینا چاہئے۔ اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا اپنی کوئی شیخی اور تعلّی کا اظہار مقصود ہے۔‘‘
فرمایا : ’’باجا بجانا اس صورت میں جائز ہے جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جائے اور نسبت محفوظ رہے ۔… البتہ ریاکاری فسق و فجور کے لئے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشاء ہو تو منع ہے۔‘‘
حضور انور نے فرمایا ہے دونوں مبلغین مکرم سید شمشاد احمد ناصر صاحب اور…… جو اس تقریب میں شامل ہوئے ہیں وہ جلسہ سالانہ یو ایس اے کے موقع پر کھڑے ہو کر اعلان کریں کہ اس ولیمہ کی تقریب میں جو میوزک اور فلمی گانوں کا پروگرام ہوا ہے یہ انتہائی غلط ہوا ہے اور ہم جو اس میں شامل ہوئے تھے ہم سے غلطی ہوئی تھی۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ہم جماعت کو بتانا چاہتے ہیں جو ہوا ہے وہ غلط ہوا ہے اور اس کو ہرگز روایت نہیں بنانا چاہئے۔‘‘
حضورنے فرمایا ہے ۔دونوں مربیان ایک لاکھ مرتبہ استغفار کریں۔
مکرم امیر صاحب کی طرف سے جب یہ خط ملا تو استغفار شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی دیتا رہا۔ اب جلسہ سالانہ پر اعلان کرنا تھا۔چنانچہ جلسہ کا پہلا دن تھا اور اجلاس کی صدارت امیر صاحب امریکہ ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب فرما رہے تھے۔ جلسے کے سیشن کے اختتام پر آپ نے ہم دونوں مبلغین کو سٹیج پر بلایا جہاں سے سب لوگ ہمیں بھی دیکھ سکتے تھے۔ پوڈیم سے تھوڑا الگ ہو کر ہم دونوں مبلغین سب کے سامنے کھڑے تھے۔محترم امیر صاحب نے چند ابتدائی کلمات کہے کہ ہمیں کیوں سٹیج پر بلایا گیا ہے اور حضور کی ہدایت سنائی۔ مجھ سے پہلے دوسرے مبلغ بھائی نے اسی طرح الفاظ پڑھ دیے جس طرح کہ خط میں ہدایت تھی اس کے بعد امیر صاحب نے خاکسار کو بلایا۔ خاکسار نے اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم اور اہدنا الصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیہم غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین پڑھا۔ اور پھر یہ کہا کہ
اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر خاص فضل اور احسان کیا ہوا ہے کہ ہمیں خلافت کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہم میں سے جب بھی کسی بڑے یا چھوٹے یا کسی سے بھی کوئی غلطی ہوتی ہے تو حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہمیں نصیحت فرماتے اور ہدایت فرماتے ہیں تا وہ غلطی درست ہو جائے اور تقویٰ پر ہم چل پڑیں اور خداتعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔
خلافت کی راہ نمائی میں جو ہدایات ہم (احمدی) لیتے ہیں وہ کسی اور کو نہیں ملتیں۔ ہم اس نعمت پر خداتعالیٰ کے شکرگزار ہیں۔اس لیے ہم میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ حضرت خلیفۃ المسیح کی ہدایات کی پوری طرح اور خوشدلی کے ساتھ مکمل اطاعت کریں۔
آج اس وقت میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ساتھ کہ یہ اعلان کروں کہ وہ شادی جس میں مَیں اور میرے دوسرے مربی بھائی شامل ہوئے تھے، میں بھی اس میں شامل تھا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا ہے کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر کھڑے ہو کر ہم یہ اعلان کریں کہ اس ولیمہ کی تقریب میں جو میوزک اور فلمی گانوں کا پروگرام ہوا ہے یہ انتہائی غلط ہوا ہے مجھے اس میں قطعاً شرکت نہیں کرنی چاہیے تھی۔اس لیے میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں اور آئندہ میں اس قسم کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوں گا۔ میرے شامل ہونے سے جماعت یہ نہ سمجھے کہ چونکہ اس قسم کی مجلس میں مربی شامل تھا اس لیے ہم بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
میں دلی طور پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اس بات سے مجھے شرم محسوس ہوئی ہے کہ میں کیوں اس میں شامل ہوا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اور میں پیارے حضور سے بھی معافی کا خواستگار ہوں کہ آئندہ کوشش کروں گا کہ حضور کی توقعات کے مطابق کام کروں۔ ان شاء اللہ۔
رب انی ظلمت نفسی واعترفت بذنبی فاغفرلی ذنوبی فانہ لا یغفر الذنوب الا انت۔
اس دعا کا ترجمہ انگریزی پڑھنے کے بعد خاکسار نے تین دفعہ خلافت احمدیہ زندہ باد کے نعرے لگائے۔
حضور انور کے ارشاد پر جلسہ کے اس سیشن پر ہم نے یہ اعلان کر دیا۔ اعلان کرنے کے بعد جوں ہی سٹیج سے میں نیچے اترا جلسہ میں شامل ہونے والوں کا ایک جم غفیر خاکسار کی طرف بڑھا۔ سب سے پہلے مجھے یاد ہے کہ مکرم شیخ فضل احمد صاحب مرحوم آف لاہور (برادر اصغر مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم) خاکسار کی طرف تیزی سے بڑھے۔ انہوں نے مجھے اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیا اور بہت پیار کیا اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ آج حضرت مصلح موعودؓ کا زمانہ یاد آگیا ہے۔ کہنے لگے کہ ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولانا درد صاحب ؓکو بھی اسی قسم کا جلسہ پر اعلان کرنے کے لیے ارشاد فرمایا تھا۔
ان کے بعد باری باری لوگ مجھے اپنی بانہوں میں لے رہے تھے اور اکثر دوستوں نے اس وقت یہ کہا کہ ہمیں آپ پر رشک آرہا ہے آپ نے حضرت امیر المومنین کی ہدایت کی پوری پوری اطاعت کی ہے۔ آج کے بعد آپ کی عزت ہماری نظروں میں پہلے سے بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ کئی لوگ دعا بھی دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آپ نے اطاعتِ امام کا زندہ ثبوت فراہم کیا۔ اس موقعہ پر میری جو کیفیت اور حالت تھی وہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں دل ہی دل میں بس۔ الحمد للہ۔ الحمد للہ۔ الحمد للہ پڑھتا جا رہا تھا۔ اور استغفار کا سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رکھا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور کی ہدایت پر عمل کرنے سے خاکسار کو مزید عزت ملی اور نہ صرف عزت بلکہ لوگوں نے جس محبت اور اخلاص کا مظاہرہ کیا اس کا میں ذکر کر چکا ہوں۔ اس پر میں اللہ تعالیٰ کا بےحد شکرگزار ہوں۔
بادی النّظر میں ہزاروں کے مجمع کے سامنے یہ کہنا کہ میں نے بھی غلط کام کیا ہے بڑا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے بھی ایک طاقت جس نے یہ سارا کام آسان کر دیا اور وہ طاقت بھی حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعاتھی۔ مجھے 100 فی صد کامل یقین ہے کہ جب پیارے حضور نے ہمارے لیے یہ ہدایات بھیجیں تو ہمارے لیے دعائیں بھی کیں۔بس ان دعاؤں سے یہ سارا کام آسان ہوا۔
پھر میرے ذہن میں حضرت مصلح موعودؓ کی دو باتیں تھیں ایک یہ جس میں آپؓ نے فرمایا:
’’خلافت کے تو معنی ہی یہ ہیں کہ جس وقت خلیفہ وقت کے منہ سے کوئی لفظ نکلے اس وقت سب سکیموں، سب تجویزوں اور سب تدبیروں کو پھینک کر رکھ دیا جائے اور سمجھ لیا جائے کہ اب وہی سکیم وہی تجویز اور وہی تدبیر مفید ہے جس کا خلیفہ وقت کی طرف سے حکم ملا ہے۔ جب تک یہ روح جماعت میں پیدا نہ ہو اس وقت تک سب خطابات رائیگاں، تمام سکیمیں باطل اور تمام تدبیریں ناکام ہیں۔‘‘
دوسری چیز جو خاکسار کے مدنظر تھی وہ یہ کہ آپؓ نے فرمایا تھا:
’’مبلغین اور واعظین کے ذریعہ بار بار جماعتوں کے کانوں میں یہ آواز پڑتی رہے کہ پانچ روپے کیا، پانچ ہزار روپیہ کیا، پانچ لاکھ روپیہ کیا، پانچ ارب روپیہ کیا، اگر ساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کر دی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور ناقابل ذکر چیز ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍جولائی 1936ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 17 صفحہ457)
چوتھے خاکسار نے یہ واقعہ اس لیے بھی لکھا ہے کہ تاہم میں سے ہر ایک احمدی مرد و عورت بچہ اس واقعہ کو پڑھ کر نصیحت حاصل کرے کہ اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے ہی اس جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ دوسرے خلیفۃ المسیح کی ہر حال میں اطاعت و فرمانبرداری کرنی ہے، تیسرے یہ کبھی نہیں سوچنا کہ اس میں ہماری بے عزتی ہے۔ عزتیں تو ساری اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں لوگوں کے پاس نہیں اور جو خدا کی خاطر احکامات پر عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ خود اس کی عزت کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔
اس سلسلے میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ والی بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا جسم خلیفہ کے ہاتھ میں میّت کی طرح ہونا چاہیے جب یہ کیفیت ہو گی تو پھر انسان عزت یا بے عزتی کا تصور نہیں کر سکتا۔
حضرت مصلح موعوؓد کا اطاعت کے بارے میں ایک ارشاد
ایک مرتبہ حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی جماعت کے جذبۂ اطاعت کا ذکر کرتے ہوئے اعلان فرمایا:
’’خدا نے مجھے وہ تلواریں بخشی ہیں جو کفر کو ایک لحظہ میں کاٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ خدا نے مجھے وہ دل بخشے ہیں جو میری آواز پر ہر قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں انہیں سمندر کی گہرائیوں میں چھلانگ لگانےکے لیے کہوں تو وہ سمندر میں چھلانگ لگانے کے لیے تیار ہیں، میں انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانے کے لیے کہوں تو وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرادیں۔ میں انہیں جلتے تنوروں میں کود جانے کا حکم دوں تو وہ جلتے ہوئے تندوروں میں کُود کر دکھادیں۔ اگر خود کشی حرام نہ ہوتی، اگر خود کشی اسلام میں ناجائز نہ ہوتی تو میں اس وقت تمہیں یہ نمونہ دکھا سکتا تھا کہ جماعت کے سو آدمیوں کو میں اپنے پیٹ میں خنجر مارکر ہلاک ہوجانے کاحکم دیتا اور وہ سو 100آدمی اسی وقت اپنے پیٹ میں خنجر مار کر مرجاتا۔خدانے ہمیں اسلام کی تائید کے لئے کھڑا کیا ہے۔ خدا نے ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے ۔‘‘
(الفضل مصلح موعود نمبر 18؍فروری 1958ء صفحہ 17، 18)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا ایک ارشاد
’’میں نے پہلے بھی یہی دیکھا تھا اور آئندہ بھی یہی ہوگا کہ اگر کسی احمدی کو منصب خلافت کا احترام نہیں ہے،اس سے سچا پیار نہیں ہے، اس سے عشق اور وارفتگی کا تعلق نہیں ہے اور صرف اپنی ضرورت کے وقت وہ دعا کے لئے حاضر ہوتا ہے تو اُس کی دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ اسی کے لئے قبول کی جائیں گی جو خاص اخلاص کے ساتھ دعا کے لئے لکھتا ہے اور اس کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے اس عہد پر قائم ہے کہ جو نیک کام مجھے فرمائیں گے، ان میں مَیں آپ کی اطاعت کروں گا…اگر وہ خلافت سے ایسا تعلق رکھتا ہے اور پوری وفاداری کے ساتھ اپنے عہد کو نبھاتا ہے اور اطاعت کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے بھی دعائیں سنی جائیں گی بلکہ اَن کہی دعائیں بھی سنی جائیں گی، اس کے دل کی کیفیت ہی دعا بن جایا کرے گی۔ ‘‘
(روزنامہ الفضل ربوہ 27؍جولائی 1982ء)
اطاعت کا ایک اور واقعہ
حضرت مولانا نورالدین (خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکا یہ ایک واقعہ ہے:
’’ایک ہندو کی بیوی بٹالہ میں سخت بیمار تھی حضرت مسیح موعودؑ کی اجازت سے آپ(حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ) بٹالہ جانے لگے تو حضور نے فرمایا کہ امید ہے آپ آج ہی واپس آجائیں گے۔ عرض کی بہت اچھا۔ بٹالہ گئے ، مریضہ کو دیکھا ، واپسی کا ارادہ کیا مگر بارش اس قدر ہوئی کہ جل تھل ایک ہوگئے۔ لوگوں نے کہا کہ راستہ خطرناک ہے، بارش بہت ہے آپ کو پیدل بھی چلنا پڑے گا آپ کل چلے جائیں مگر اطاعت کے پیکر حضرت مولانا نے فرمایا کہ نہیں میرے آقا کا ارشاد یہی ہے مجھے آج ہی قادیان پہنچنا ہے یکہ لیا، روانہ ہوئے راستے میں پیدل بھی چلنا پڑا، آپ کے پاؤں زخمی ہوگئے مگر قادیان پہنچ گئے اور فجر کی نماز پہ حاضر ہوگئے حضور نے دریافت فرمایا کہ ’’کیا مولوی صاحب آگئے ہیں؟ ‘‘آپ نے آگے بڑھ کر عرض کی ’’حضور میں واپس آگیا تھا‘‘ یہ نہیں کہا کہ حکم کی تعمیل کی وجہ سے مجھے کتنی تکلیف اٹھانی پڑی اور میرے پاؤں زخمی ہوگئے بلکہ اپنی تکلیف کا اشارۃً بھی ذکر نہ کیا۔
(روزنامہ الفضل 24؍مئی 2006ء صفحہ 8)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی بےمثل اطاعت
ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بھی اطاعت خلافت کا پیکر تھے۔
مکرم ناظر صاحب اصلاح و ارشاد مرکزیہ ربوہ تحریر کرتے ہیں کہ
’’آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے کامل عشق تھا۔ بحیثیت عہدیدار بھی جب کبھی حضور کی طرف سے کوئی ارشاد آیا اس کو من و عن تسلیم کیا اور اس پر عمل بھی کیا………کیونکہ آپ کو اطاعت کے معنی بخوبی معلوم تھے آپ تو عشق ووفا کے کھیت کے باغبان تھے اور جانتے تھے جو خلیفہ وقت نے فرما دیا وہی راستہ سیدھا ہے اور اسی میں برکت ہے۔‘‘
(تشحیذ الاذہان سیدنا مسرور ایدہ اللہ نمبر ستمبر ، اکتوبر2008ء صفحہ 25)
سیدہ محترمہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بیان فرماتی ہیں کہ
’’آپ ہر معاملے میں حضور کے ہر حکم کی پوری تعمیل کرتے اُنیس بیس کا فرق بھی نہ ہونے دیتے جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بیمار ہوئے تو آپ نے منع فرمایا تھا کہ کسی کے آنے کی ضرورت نہیں لیکن طبیعت کمزور تھی اور فکر مندی والی حالت تھی، جماعت بھی پریشان اور فکر مند تھی انتہائی گرتی ہوئی صورت دیکھ کر میاں سیفی(مرزا سفیر احمد صاحب) نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو فون کر دیا اور صورتِ حال بتا کر کہا کہ اگر آپ آجائیں تو اچھا ہے۔ چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ لندن تشریف لے آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ملاقات کے لئے گئے تو حضور نے دریافت فرمایا کہ کیسے آئے ہو۔ آپ نے جواب دیا کہ آپ کی طبیعت کی وجہ سے جماعت فکر مند ہے اس لئے پوچھنے کے لئے آیا ہوں۔ تو حضور نے فرمایا کہ حالات ایسے ہیں کہ فوراً واپس چلے جاؤ۔ چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بہت بہتر میں فوراً واپسی کی سیٹ بک کروا لیتا ہوں(اور جو پہلی فلائٹ آپ کو ملی اس پر واپس لوٹ گئے) بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح نے میاں سیفی سے پوچھا کہ اس (حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ) میں تو اتنی اطاعت ہے کہ یہ میرے کہے بغیر آہی نہیں سکتے یہ آیا کیسے؟ تب میاں سیفی نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کو بتایا کہ ان کو تو میں نے فون پر آنے کو کہا تھا اس لئے آئے ہیں۔اس پر حضور کو اطمینان ہوا کہ ان کی توقعات کے مطابق ان کے مجاہد بیٹے کی اطاعت اعلیٰ ترین معیار پر ہی تھی۔‘‘
(تشحیذالاذہان ستمبر اکتوبر 2008ء صفحہ 20، 21)
ہم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ خوش نصیب ہیں کہ جو خلافت کی برکات اور اس کی برضاو رغبت اطاعت کی وجہ سے ہر آن خدا تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹ رہے ہیں۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس اطاعت کے جذبےکو زندہ رکھیں اور کبھی بھی مرنے نہ دیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف ہماری روحانی زندگی کی بقا ہے۔ بلکہ ہماری ساری کامیابیوں کی جڑ بھی خلافت کی اطاعت ہی ہے ۔
میں آپ کو دوبارہ گذشتہ صفحات میں اس واقعہ کی طرف لیے چلتا ہوں جہاں میں نے خلافت خامسہ کے انتخاب کے موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی آواز بیٹھ جائیں۔ تو سب یکدم بیٹھ گئے۔ یہی وہ اطاعت ہے جس کی وجہ سےاس وقت جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے۔ اسی جذبہ کو زندہ رکھیں اور کامیابی کے پھل سمیٹتے چلے جائیں۔ یہی وہ چیز ہے جو دشمن کو کھٹکتی ہے اور وہ بھی چاہتا ہے کہ کسی طرح احمدیوں کی اپنے خلیفہ سے محبت اور اطاعت میں دراڑیں ڈالے۔ مگر ان شاء اللہ اسے منہ کی کھانی پڑے گی۔ اور وہ کھا رہا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
ظُہُورِ عون و نُصرت دَمبَدَم ہے
حَسد سے دشمنوں کی پُشت خَم ہے
سنو اب وقتِ توحیدِ اَتم ہے
سِتَم اب مائلِ مُلکِ عدم ہے
خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی
فَسُبحَانَ الَّذِی اَخزَی الْاعَادِی
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں خلیفۂ وقت کی اطاعت اور اس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭