الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
مکرم شیخ محمد یونس صاحب شہید
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 14؍جنوری 2013ء میں شامل اشاعت مکرمہ ل۔منور صاحبہ نے اپنے مضمون میں (28؍مئی کے شہدائے لاہور میں شامل) اپنے بہنوئی محترم شیخ محمد یونس صاحب شہید کا ذکرخیر کیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ شہید مرحوم تعلق باللہ، توکّل علی اللہ، انفاق فی سبیل اللہ، دینی غیرت، دوسروں کی تکلیف کا احساس، خلافت سے محبت، خدمت دین کا جذبہ، صبروقناعت، عجز، مہمان نوازی جیسے بےشمار اوصاف کے مالک تھے۔
آغاز سے ہی آپ کو خاندان کے ہر رشتے کی مرتبہ کے لحاظ سے عزت و تکریم بجالاتے دیکھا۔ چھوٹے بہن بھائیوں سے شفقت کا سلوک بجالاتے۔ میری والدہ صاحبہ کو اکثر لوگ کہتے کہ آپ خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیک سیرت داماد دیا ہے۔ ہر انسان کے مزاج کے مطابق گفتگو کرتے۔ طبیعت میں مزاح کا عنصر بھی تھا۔ بیمار پرسی کے لیے جاتے تو تسلی اور دعائوں کے ساتھ ایسے گفتگو کرتے کہ مریض کی آدھی بیماری جاتی رہتی۔
خدا تعالیٰ سے شہید مرحوم کا خاص تعلق تھا۔ کسی مسئلے یا پریشانی کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیتے اور دعا کو ہی اپنا ہتھیار قرار دیتے۔ جب آپ کی شادی ہوئی اس وقت میری عمر تقریباً نو دس سال تھی۔ میرے ساتھ بچپن ہی سے بڑا شفقت کا تعلق رہا مجھے ہمیشہ بیٹا کہہ کر بلاتے۔ ہمارا گھر میرے سکول سے زیادہ دُور تھا۔ ایک بار گرمی کی وجہ سے مجھے بخار آگیا تو آپ نے مجھے نصیحت کی کہ روزانہ سکول سے آپ کے گھر چلی جاؤں اور شام کو آپ مجھے گھر چھوڑ آتے۔ یہ سلسلہ گرمیوں کے مہینوں میں جاری رہا۔ ؎
کچھ لوگ کسی بات پہ آتے نہیں یاد
کچھ لوگ کسی طور بھلائے نہیں جاتے
گرمیوں کی شام میں اکثر بھائی اور باجی ہماری طرف آتے۔ رات کھانے کے بعد والد صاحب اور بھائی کی ایمان افروز گفتگو کا سلسلہ شروع ہو جاتا جو ہم سب بڑی توجہ اور دلچسپی کے ساتھ سنتے۔
قناعت پسندی آپ کا وصف تھا۔ سفید پوشی کا بھرم انہوں نے قائم رکھا۔ محدود آمدنی میں لباس کا بھی خیال رکھا اور مہمان نوازی بھی کی۔ جب بھی کسی نے حال پوچھا۔ ہمیشہ مسکراتے چہرہ کے ساتھ الحمد للہ کہا۔ انجمن کے دفاتر میں ملازم تھے۔ ہروقت چہرہ ہشاش بشاش رہتا اور اکثر کہتے میرے اوپر سر سے پاؤں تک اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں یہ ساری برکتیں میرے گھر میں خلیفۂ وقت کی دعاؤں سے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے آپ کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔
اکثر اوقات اپنی والدہ مرحومہ کے واقعات سناتے تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ باقاعدگی سے والدہ کی قبر پر جاتے اور وہاں جس کیفیت سے گزرتے اس کا اظہار کافی دیر تک رہتا۔ آپ کے والد صاحب جب آخری بیماری میں مبتلا ہوئے تو انہیں سہارا دے کر واش روم لے کر جاتے، ان کو نہلاتے ان کے کپڑے خود دھوتے۔ بچوں کی طرح اپنی گود میں سہارا دے کر بٹھا کر کھانا کھلاتے۔اپنے والدین کی طرح ساس سسر سے ان کا حسن سلوک بھی قابل ستائش تھا۔ چونکہ میرے دونوں بھائی امریکہ میں مقیم تھے۔ ان کے بعد انہوں نے ہم دونوں بہنوں اور والدین کا بہت خیال رکھا۔میرے والد کی وفات کے بعد والدہ کی بیماری میں اُن کے لیے کھانا بھی بناکر ساتھ لے جاتے۔ میری والدہ بتاتی تھیں کہ ایک بار جب باجی گھر پر نہیں تھیں تو روٹی بھی خود بناکر لے گئے تاکہ وہ کھانا وقت پر کھاسکیں اور دوائی وقت پر لے سکیں۔ اس کا اندازہ میری والدہ کو روٹی دیکھ کر ہوا۔
ہمارے والدین کی وفات کے بعد آپ نے ہم بہن بھائیوں کے سر پر اس طرح دست شفقت رکھا کہ ہمیں کبھی ماں باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ ہم بہن بھائی اور ہمارے بچے بھی آپ سے بے حد محبت کرتے اور آپ کی کسی بات کو رد نہ کرتے تھے۔ آپ کا گھر سب کا گھر تھا۔ محدود وسائل کے باوجود سب کو ہنستے چہرے کے ساتھ خوش آمدید کہتے۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہونے سے پہلے ہی فون کردیتے کہ چھٹیاں ہمارے پاس ہی گزارنی ہیں۔ بعض اوقات تو خود آکر لے جاتے۔ میرا بیٹا حفظ قرآن کے لیے ربوہ گیا تو آپ نے اس کی دیگر ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ اسے بڑی محنت اور توجہ سے پڑھایا اور خاص کر اُس کی نمازوں اور تربیت کا خاص خیال رکھا۔ بچوں کی کامیابی چاہے دینی ہو یا دنیاوی امتحانات میں سن کر بے حد خوش ہوتے اور بچوں کو انعامات بھی دیتے۔ فون کر کے بھی بچوں سے پڑھائی کے بارے میںپوچھتے اور نصائح کرتے۔
25؍اپریل2010ءکو آپ اور باجی میرے پاس آخری مرتبہ پنڈی آئے۔ میرے ہاں جب بھی آتے جمعہ نہ چھوڑتے۔ خلافت کے ساتھ نظام جماعت کی بھی ہمیشہ اطاعت کرتے اور ہمیشہ مجھے بھی یہی نصیحت کرتے۔ 26؍مئی کو آپ کا مجھے آخری فون آیا۔ کہنے لگے میرا ایک مقالہ مکمل ہوگیا ہے اور مَیں حیران ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی غیر معمولی فضل میرے ساتھ تھا کہ باوجود اس کے کہ میری آنکھوں کا آپریشن بھی ہوا اور پوتا مجھے مسلسل بیٹھنے بھی نہیں دیتا پھر بھی یہ مقالہ 45 دنوں میں مکمل ہوگیا ہے۔ کوئی غیبی طاقت تھی کہ قلم چلتا رہا کہ اتنے کم وقت میں مکمل ہوگیا۔
آپ نے آخری نصیحت جو مجھے کی وہ ان الفاظ میں تھی کہ بیٹا صرف ان بچوں کے لیے دعائیں نہیں کرنی جو سامنے ہیں بلکہ اُن کے لیے بھی کرنی ہیں جو ابھی اس دنیا میں نہیں آئے اور ان کی اگلی نسلوں کے لیے بھی دعائیں کرنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیک، تقویٰ کی راہوں پر چلنے والی، خلافت سے محبت کرنے والی نسلیں عطا فرمائے۔ (آمین) کیونکہ ہم نے خلافت جوبلی کے موقع پر حضور انور کے ساتھ عہد کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کو بھی خدا کے حضور پیش کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کی اور آپ کے ساتھ شہید ہونے والے تمام شہداء کی عظیم قربانی کو قبولیت کا شرف بخشے۔آمین ؎
شکر للہ کہ وفا کے پھول مرجھائے نہیں
ہیں شگفتہ موسموں کی شدتوں کے باوجود
گردش افلاک بھی ہم کو ہلا پائی نہیں
ہم رہے ثابت قدم سب گردشوں کے باوجود
………٭………٭………٭………
جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 20؍مارچ 2013ء میں مکرم طاہر احمد بھٹی صاحب کے قلم سے ممتاز ادیب اور مزاح نگار جناب مشتاق احمد یوسفی صاحب کے حوالے سے چند خوبصورت یادیں قلمبند کرکے شامل اشاعت کی گئی ہیں۔
جس طرح روشنی کا تصور اندھیرے، صبح کا شام اور خوشی کا غم کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ بالکل اسی طرح حقیقی مزاح کے سوتے بھی کسی نہ کسی گہری سنجیدگی ہی سے پھوٹتے ہیں جس کی تصدیق خود محترم مشتاق احمد یوسفی صاحب نے دسمبر 2010ء کی ایک طویل شام اپنے گھر پر فرمائی۔ لمبی اور تہ درتہ گفتگو چودھری محمد علی مضطرؔ صاحب کے اچھوتے اشعار سے شروع ہوئی اور خود چودھری محمد علی صاحب ہی کی طرح گہری ہوتی چلی گئی۔ پھر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کی تصانیف ’’پس نوشت‘‘ اور ’’پس پس نوشت‘‘ کا ذکر شروع کیا اور کہا کہ پروازی صاحب نے اتنی دُور بیٹھ کر، بےوسائل حالت میں اردو میں لکھی گئی سوانح عمریوں پہ اتنی محنت اور مشقّت سے لکھ ڈالا ہے کہ ہم یہاں جہاں اردو کی کئی لائبریریاں ہیں اور وسائل ہیں۔ شاید اتنا کام نہ کر پاتے۔ آپ نے اردو کی بہت اہم خدمت کی ہے۔
اس کے بعد میری ڈائری میں یہ دعا لکھ کر دی: ’’یااللہ! زوالِ نعمت سے پہلے، تیری نعمت کا احساس و ادراک، اس کی قدر، اس کا صحیح استعمال، تیرا شکر اور تحدیث نعمت کی توفیق عطا ہو۔‘‘
ربوہ کا ذکر آیا تو کہنے لگے: ایک زمانے میں ہمیں بھی آپ کے شہر کی زیارت کا موقع ملا تھا مگر یہ جب کی بات ہے جب حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ربوہ ہی میںتشریف رکھتے تھے۔
مَیںسوچنے لگا کہ ایسی تعظیم اور رکھ رکھاؤ سے تذکرہ کرنے کے لیے مشتاق احمد یوسفی یا فیض احمد فیض جیسے قدوقامت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس پائے کے لوگ ایک وقت میں بہت سے نہیں ہوا کرتے!
اٹھتے ہوئے میں نے عرض کیا کہ آپ کی اس ملاقات پر مشتمل ایک مضمون اگر ہم نوجوانوں کے رسالے ’’خالد‘‘ میں لکھ دیں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ اپنی مخصوص تفہیمی مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے: آپ بھلے الفضل میں چھپوا دیں۔ اعتراض کیوں ہونے لگا!
میرا دل خوش کن تاثر ہے کہ اہل علم کو میں نے ہمیشہ اور ہر جگہ ربوہ کی علمی اور فلاحی حیثیت کا معترف ہی پایا ہے۔ تو اہل ربوہ کے لیے بھی یہ بات سامنے رہے کہ ہمیں اپنے اس مقام کی گواہی باعلم اور درددل رکھنے والی نسلیں پروان چڑھا کر دیتے چلے جانا ہے۔ وماتوفیقی الاباللہ۔
………٭………٭………٭………
احمد آباد کے جھولتے مینار
احمد آباد کا شہر،ممبئی سے تقریباً پونے تین سو میل شمال میں دریائے سابرمتی کے کنارے واقع ہے۔ 1411ء میں احمدشاہ اوّل (شاہ گجرات) نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ 1572ء میں یہ شہر اکبر کے قبضے میں آیا اور تقریباً ایک صدی تک مغلوں کے ماتحت رہا۔ روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 8؍مئی 2013ء میں عجائباتِ عالم کے حوالے سے احمد آباد (بھارت) کے جھولتے میناروں کا ذکر کیا گیا ہے جو اپنی انوکھی تعمیر کے حوالے سے کسی عجوبہ سے کم نہیں۔ یہ دونوں مینار دراصل سیّدی بشیر مسجد کے ہیں جس کی تعمیر1452ء میں ہوئی۔ اس مسجد کے بارے میں قطعی علم نہیں کہ آیا یہ مسجد سیّدی بشیر نے بنائی ہے جو سلطان احمد شاہ کا غلام تھا یاپھر ملک سارنگ نے بنوائی ہے جو سلطان محمد بیگرا کے عہد میں اس علاقے کا ایک رئیس تھا۔
حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کسی بھی مینار کے سب سے بالائی حصّے سے اگر معمولی سی حرکت ملے تو یہ جھولنے لگ جاتے ہیں۔ ان دو میناروں میں سے ایک مینار کو ایک انگریز نے اس کے جھولنے کے عمل کو معلوم کرنے کے لیے توڑدیا تھا۔مگر اس راز کو وہ پھر بھی معلوم نہ کر سکا۔ ہر مینار کی تین منزلیں ہیںجو انتہائی متوازن اورعمدہ طرز تعمیر کا شاہکار ہیں۔ ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ اگر ایک مینار کو حرکت ملے تو دوسرامینار بھی خودبخود حرکت میں آجاتا ہے۔
………٭………٭………٭………