متفرق مضامین

جنّات کی حقیقت (قسط دوم)

(لئیق احمد مشتاق ۔ مبلغ سلسلہ سرینام، جنوبی امریکہ)

علماء اور مفسّرین کے مضحکہ خیز عقائد ،تاویل و استدلال کے مقابل اِمامِ آخرالزّمانؑ اور آپ کے خلفاء کے بیان فرمودہ حقائق و معارف

جن وانس قرآنِ حکیم کے طرزِ تخاطب میں دونوں برابر ہیں،آیات قرآنیہ اور احادیث میں جنات کا ذکر

جِنّ و انس مکلّف بہ شریعہ

خالق کائنات نےاپنی پاک و برتر کتاب قرآن مجید میں ’’جِنّ و اِنْس‘‘دونوں گروہوں کو متوازی لیا ہے۔احکا م خداوندی کے ماننے میں،دنیا و دین میں ،آزمائش میں، گناہ و ثواب میں،دنیا میں اجرو ثواب میں اور آخرت کے اجر و ثواب میں۔ غرض قرآنِ حکیم کے طرزِ تخاطب میں دونوں برابر ہیں، اور اس کا نمونہ درج ذ یل آیات میں انتہائی وضاحت کے ساتھ موجودہے۔

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ۔

(الذاریات:57)

اور میں نے جِنّ و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔

وَ جَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَ خَلَقَہُمۡ وَ خَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوۡنَ۔

(الانعام:101)

اور انہوں نے جِنّوں کو اللہ کے شریک بنالیا ہے جبکہ اُسی نے انہیں پیدا کیا ہے۔ اور انہوں نے بغیر کسی علم کے اُس کے لئے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لئے ہیں۔ پاک ہے وہ اور اس سے بہت بلند ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا ؕ قَالُوۡا شَہِدۡنَا عَلٰۤی اَنۡفُسِنَا وَ غَرَّتۡہُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا وَ شَہِدُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا کٰفِرِیۡنَ۔

(الانعام:131)

اے جِنّوں اور عوام الناس کے گروہو! کیا تمہارے پاس تم ہی میں سے رسول نہیں آئے جو تمہارے سامنے میری آیات بیان کیا کرتے تھے اور تمہیں تمہاری اِس دن کی ملاقات سے ڈرایا کرتے تھے؟ تو وہ کہیں گے کہ (ہاں) ہم اپنے ہی نفوس کے خلاف گواہی دیتے ہیں۔ اور انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکہ میں مبتلا کر دیا تھا اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کفر کرنے والے تھے۔

وَ یَوۡمَ یَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ۚ یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ قَدِ اسۡتَکۡثَرۡتُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ ۚ وَ قَالَ اَوۡلِیٰٓؤُہُمۡ مِّنَ الۡاِنۡسِ رَبَّنَا اسۡتَمۡتَعَ بَعۡضُنَا بِبَعۡضٍ وَّ بَلَغۡنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیۡۤ اَجَّلۡتَ لَنَا ؕ قَالَ النَّارُ مَثۡوٰٮکُمۡ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ۔

(الانعام:129)

اور (یاد رکھ) وہ دن جب وہ ان سب کو اکٹھا کرے گا (اور کہے گا) اے جِنّوں کے گروہ ! تم نے عوام الناس کا استحصال کیا۔ اور عوام النّاس میں سے ان کے دوست کہیں گے۔ اے ہمارے ربّ! ہم میں سے بعض نے بعض دوسروں سے فائدہ اٹھایا اور ہم اپنی اس مقررہ گھڑی تک آپہنچے جو تُو نے ہمارے لئے مقرر کی تھی۔ وہ کہے گا تمہارا ٹھکانا آگ ہے (تم) اُس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہوگے سوائے اِس کے جو اللہ چاہے۔ یقیناً تیرا ربّ صاحبِ حکمت (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ کَانَ مِنَ الۡجِنِّ فَفَسَقَ عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہٖ ؕ اَفَتَتَّخِذُوۡنَہٗ وَ ذُرِّیَّتَہٗۤ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِیۡ وَ ہُمۡ لَکُمۡ عَدُوٌّ ؕ بِئۡسَ لِلظّٰلِمِیۡنَ بَدَلًا۔

(الکہف:51)

اور جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ آدم کے لئے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ جِنّوں میں سے تھا پس وہ اپنے ربّ کے حکم سے رُوگردان ہوگیا۔ تو کیا تم اُسے اور اس کے چیلوں کو میرے سوا دوست پکڑ بیٹھو گے جبکہ وہ تمہارے دشمن ہیں؟ ظالموں کے لئے یہ تو بہت ہی برا بدل ہے۔

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ۔

(الاعراف:180)

اور یقیناً ہم نے جہنم کے لئے جِنّ و اِنس میں سے ایک بڑی تعداد کو پیدا کیا۔ ان کے دل ایسے ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ایسی ہیں کہ جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ایسے ہیں کہ جن سے وہ سنتے نہیں۔ یہ لوگ تو چوپاؤں کی طرح ہیں بلکہ یہ (ان سے بھی) زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی ہیں جو غافل لوگ ہیں۔

وَ لَوۡ شَآءَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوۡنَ مُخۡتَلِفِیۡنَ۔ اِلَّا مَنۡ رَّحِمَ رَبُّکَ ؕ وَ لِذٰلِکَ خَلَقَہُمۡ ؕ وَ تَمَّتۡ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ۔

(ھود:119تا120)

اور اگر تیرا ربّ چاہتا تو لوگوں کو ایک ہی اُمّت بنا دیتا مگر وہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے۔سوائے اس کے جس پر تیرا ربّ رحم کرے اور اِسی خاطر اس نے انہیں پیدا کیا تھا۔ اور تیرے ربّ کی یہ بات بھی پوری ہوئی کہ میں ضرور جہنم کو جِنّوں اور عوام الناس سب سے بھر دوں گا۔

قُلۡ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَ الۡجِنُّ عَلٰۤی اَنۡ یَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا یَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِہٖ وَ لَوۡ کَانَ بَعۡضُہُمۡ لِبَعۡضٍ ظَہِیۡرًا۔

(بنی اسرائیل: 89)

تُو کہہ دے کہ اگر جِنّ و انس سب اکٹھے ہو جائیں کہ اس قرآن کی مثل لے آئیں تو وہ اس کی مثل نہیں لاسکیں گے خواہ ان میں سے بعض بعض کے مددگار ہوں۔

وَ قَیَّضۡنَا لَہُمۡ قُرَنَآءَ فَزَیَّنُوۡا لَہُمۡ مَّا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ وَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۚ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا خٰسِرِیۡنَ ۔

(حٰمٓ السجدۃ:26)

اور ہم نے اُن کے لئے بعض ساتھی مقرر کردیئے۔ پس انہوں نے اُن کے لئے اُسے خوب سجا کر پیش کیا جو اُن کے سامنے تھا یا اُن سے پہلے تھا۔ پس اُن پر وہی فرمان صادق آگیا جو اُن قوموں پر صادق آیا تھا جو اُن سے قبل جِنّ و اِنس میں سے گزر چکی تھیں۔ یقیناً وہ گھاٹا پانے والوں میں سے تھے۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَیۡنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ نَجۡعَلۡہُمَا تَحۡتَ اَقۡدَامِنَا لِیَکُوۡنَا مِنَ الۡاَسۡفَلِیۡنَ ۔

(حٰمٓ السجدۃ:30)

اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں جِنّ و اِنس میں سے وہ دونوں دکھا جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا۔ اِس غرض سے کہ ہم انہیں اپنے قدموں تلے روندیں تاکہ وہ انتہائی ذلیل ہو جائیں۔

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَقَّ عَلَیۡہِمُ الۡقَوۡلُ فِیۡۤ اُمَمٍ قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا خٰسِرِیۡنَ۔ وَ لِکُلٍّ دَرَجٰتٌ مِّمَّا عَمِلُوۡا ۚ وَ لِیُوَفِّیَہُمۡ اَعۡمَالَہُمۡ وَ ہُمۡ لَا یُظۡلَمُوۡنَ۔

(الاحقاف:19تا20)

یہی وہ لوگ ہیں جن پر وہ فرمان صادق آگیا جو ان سے پہلے جِنّ و انس میں سے گزری ہوئی قوموں پر صادق آیا تھا یقیناً یہ سب گھاٹا پانے والے لوگ ہیں۔اور سب کے لئے اس کے مطابق درجات ہیں جو وہ کرتے رہے تا کہ (اللہ) ان کے اعمال کی انہیں پوری پوری جزا دے اس حال میں کہ وہ ظلم نہیں کئے جائیں گے۔

(ترجمہ آیات، بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ )

احادیث مبارکہ میں جِنّات کا ذکر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلْقَمَةَ، هَلْ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ، شَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: فَقَالَ عَلْقَمَةُ : أَنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ ، فَقُلْتُ: هَلْ شَهِدَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَفَقَدْنَاهُ، فَالْتَمَسْنَاهُ فِي الأَوْدِيَةِ وَالشِّعَابِ، فَقُلْنَا اسْتُطِيرَ أَوِ اغْتِيلَ، قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ، بَاتَ بِهَا قَوْمٌ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا هُوَ، جَاءٍ مِنْ قِبَلِ حِرَاءٍ، قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، فَقَدْنَاكَ، فَطَلَبْنَاكَ فَلَمْ نَجِدْكَ، فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ، بَاتَ بِهَا قَوْمٌ، فَقَالَ: أَتَانِي، دَاعِي الْجِنِّ، فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا، فَأَرَانَا آثَارَهُمْ، وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ، وَسَأَلُوهُ الزَّادَ، فَقَالَ: لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ، ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ، يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا، وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا، فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ۔

(صحيح مسلم،كِتَاب الصَّلَاةِ۔باب الْجَهْرِ بِالْقِرَاءَةِ فِي الصُّبْحِ وَالْقِرَاءَةِ عَلَى الْجِنِّ حدیث نمبر 1007)

حضرت عامر سے روایت ہے کہ میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا ابن مسعود رضی اللہ عنہ جِنّوں والی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ لیکن ہم ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھےکہ ہم نے آپ کو موجود نہ پایا۔ پھرہم نے آپ کووادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا مگر آپ نہ ملے۔ ہم نے خیال کیا کہ یا تو آپ کو اچک لیا گیا ہے یا آپﷺ کو دھوکہ سے شہید کر دیا گیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ بد ترین رات تھی جو کسی قوم نے گزاری ہوگی۔پھر جب ہم نے صبح کی تو دیکھا کہ آپ ﷺ حرا (جبل نور پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ کے بیچ میں ہے) کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کو یہاں موجود نہ پاکر آپ کو تلاش کیا ،آپ کو نہ پا کر ہم نے بُرے طور سے رات کاٹی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جِنّوں کا قاصد میرے پاس آیا۔ میں اس کے ساتھ گیا اور جِنّوں کو قرآن سنایا۔‘‘راوی کہتے ہیں پھر آپ ہمارے ساتھ چلے۔آپ نے ہمیں ان کے نشان اور ان کی آگوں کے نشان دکھلائے، اور انہوں نے آپ ﷺ سےزاد راہ طلب کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے لیے ہر ہڈی جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو وہ تمہارے ہاتھ میں پڑے اور اس پر خوب گوشت ہو وہ تمہارے لیے ہے۔اور ہر مینگنی بھی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہڈی اور مینگنی سے استنجا مت کرو کیونکہ وہ تمہارے جِنّ بھائیوں کی خوراک ہے۔‘‘

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّلَاةَ، فَأَمْكَنَنِي اللّٰهُ مِنْهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ حَتَّى تُصْبِحُوْا وَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي، قَالَ: رَوْحٌ فَرَدَّهُ خَاسِئًا۔

(صحيح البخاري، كِتَاب الصَّلَاةِ۔ بَابُ الأَسِيرِ أَوِ الْغَرِيمِ يُرْبَطُ فِي الْمَسْجِدِ حدیث نمبر: 461)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ نبی کریمﷺ نے فرمایا : کل رات جِنّوں میں سے ایک عفریت مجھ پر ٹوٹ پڑا،یاایسا ہی کوئی اور کلمہ( فرمایا)تاکہ میری نماز توڑ دے۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا۔ میں نے چاہا کہ اسےمسجد کے ستون میں سے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں۔ تاکہ صبح کو تم سب بھی اسے دیکھو۔ پھر مجھے میرے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آ گئی (جو سورۃ صمیں مذکور ہے) اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھےایسی بادشاہت عطا کر جو میرے بعد کسی کوبھی سزاوار نہ ہو ۔ رَوح کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اُسے دھتکار دیا۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الْجِنِّ، جَعَلَ يَفْتِكُ عَلَيَّ الْبَارِحَةَ لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّلَاةَ، وَإِنَّ اللّٰهَ أَمْكَنَنِي مِنْهُ فَذَعَتُّهُ، فَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى جَنْبِ سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، حَتَّى تُصْبِحُوْا تَنْظُرُوْنَ إِلَيْهِ أَجْمَعُونَ أَوْ كُلُّكُمْ، ثُمَّ ذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي، وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي، فَرَدَّهُ اللّٰهُ خَاسِئًا ، وَقَالَ ابْنُ مَنْصُورٍ شُعْبَةُ : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ۔

(صحيح مسلم، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة۔ باب جَوَازِ لَعْنِ الشَّيْطَانِ فِي أَثْنَاءِ الصَّلاَةِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ وَجَوَازِ الْعَمَلِ الْقَلِيلِ فِي الصَّلاَةِ حدیث نمبر: 1209)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: گذشتہ رات ایک سرکش جِنّ میری نماز توڑنے کے لیے چپکے سے مجھ پر حملہ کرنے لگا۔لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے میرے قابو میں کر دیا، اور میں نے اُسے زور سے پیچھے ہٹا دیا۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ اُسے مسجد کے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں یہاں تک کہ صبح ہو، تو تم سب اُسے دیکھ لو۔ لیکن پھر مجھےاپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آئی۔ انہوں نے یہ دعا کی تھی:اے میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور مجھے ایسی بادشاہت عطا کر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو ذلیل ورُسوا کرتے ہوئے لوٹادیا۔

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْنَاهُ يَقُولُ: أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْكَ، ثُمَّ قَالَ: أَلْعَنُكَ بِلَعْنَة اللّٰهِ، ثَلَاثًا، وَبَسَطَ يَدَهُ، كَأَنَّهُ يَتَنَاوَلُ شَيْئًا، فَلَمَّا فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، قَدْ سَمِعْنَاكَ تَقُولُ فِي الصَّلَاةِ، شَيْئًا لَمْ نَسْمَعْكَ تَقُولُهُ قَبْلَ ذَلِكَ، وَرَأَيْنَاكَ بَسَطْتَ يَدَكَ، قَالَ: إِنَّ عَدُوَّ اللّٰهِ إِبْلِيسَ، جَاءَ بِشِهَابٍ مِنَ نَارٍ لِيَجْعَلَهُ فِي وَجْهِي، فَقُلْتُ: أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قُلْتُ: أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللّٰهِ التَّامَّةِ، فَلَمْ يَسْتَأْخِرْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَرَدْتُ أَخْذَهُ، وَاللّٰهِ لَوْلَا دَعْوَةُ أَخِينَا سُلَيْمَانَ، لَأَصْبَحَ مُوثَقًا يَلْعَبُ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ۔

(صحيح مسلم، كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة۔ باب جَوَازِ لَعْنِ الشَّيْطَانِ فِي أَثْنَاءِ الصَّلَاةِ وَالتَّعَوُّذِ مِنْهُ وَجَوَازِ الْعَمَلِ الْقَلِيلِ فِي الصَّلَاةِ حدیث نمبر: 1211)

حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے ۔تو ہم نے آپ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا’’أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْكَ‘‘میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ۔ پھر تین بارفرمایا ’’أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللّٰهِ‘‘میں تجھ پر اللہ کی لعنت ڈالتا ہوں ۔پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلایا، جیسے آپ ﷺ کوئی چیز پکڑ رہے ہوں۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے عرض کیا یارسول اللہ! آج ہم نے نماز میں آپ کو وہ باتیں کرتے سنا جو پہلے کبھی نہیں سنی تھیں اور ہم نے دیکھا کہ آپ نے اپنا ہاتھ بڑھایاہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا شعلہ لے کر آیا تھا تاکہ اُسے میرے منہ پرڈال دے۔تب میں نے تین بار کہا: میں تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، پھر میں نے کہا کہ میں تجھ پراللہ کی پوری لعنت ڈالتاہوں ، لیکن وہ تینوں مرتبہ پیچھے نہ ہٹا۔پھر میں نے اُسے پکڑنا چاہا ۔ اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو وہ صبح تک بندھا رہتا اور مدینے کے بچے اس سے کھیل رہے ہوتے ۔

عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:الْجِنُّ عَلَى ثَلاثَةِ أَصْنَافٍ: صِنْفٌ لَهُمْ أَجْنِحَةٌ يَطِيرُونَ فِي الْهَوَاءِ، وَصِنْفٌ حَيَّاتٌ، وَصِنْفٌ يَحِلُّونَ وَيَظْعَنُونَ.صححه الألبان۔

( المستدرک علی الصّحیحین، از امام محمد بن عبد اللّٰہ الحاکم النیسابوری۔کتاب التفسیر۔تفسیر سورۃ الاحقاف )

حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جِنّ تین قسم کے ہوتے ہیں۔ایک وہ جن کے پر ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔دوسرے زمین پر رینگنے والے سانپ وغیرہ کی ہے، اور تیسری قسم وہ لوگ جو خیمے لگاتے اور اکھاڑتے ہیں۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: اتَّبَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجَ لِحَاجَتِهِ، فَكَانَ لَا يَلْتَفِتُ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقَالَ: ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا أَوْ نَحْوَهُ، وَلَا تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلَا رَوْثٍ، فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ بِطَرَفِ ثِيَابِي فَوَضَعْتُهَا إِلَى جَنْبِهِ وَأَعْرَضْتُ عَنْهُ، فَلَمَّا قَضَى أَتْبَعَهُ بِهِنَّ۔

(صحيح البخاري، كِتَاب الْوُضُوءِ۔ بَابُ الاِسْتِنْجَاءِ بِالْحِجَارَةِ حدیث نمبر: 155)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (ایک مرتبہ) رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ (چلتے وقت) ادھر ادھر نہیں دیکھا کرتے تھے۔ تو میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے پیچھے آپ ﷺ کے قریب پہنچ گیا۔ مجھے دیکھ کرآپﷺ نے فرمایا کہ میرے لیے ڈھیلے تلاش کروتاکہ میں ان سے استنجا کروں۔ یا اس جیسا کوئی لفظ فرمایا۔ اور فرمایا کہ ہڈی اور گوبر نہ لانا۔ چنانچہ میں اپنے دامن میں پتھر بھر کر آپ ﷺ کے پاس لے گیا اور آپﷺکے پہلو میں رکھ دیے اور پیچھے ہٹ گیا، جب آپ ﷺ (قضائے حاجت سے) فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے پتھروں سے استنجا کیا۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ:أَنَّهُ كَانَ يَحْمِلُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً لِوَضُوْئِهِ وَحَاجَتِهِ، فَبَيْنَمَا هُوَ يَتْبَعُهُ بِهَا، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: أَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ، فَقَالَ:ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا،وَلَا تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثَةٍ، فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ أَحْمِلُهَا فِي طَرَفِ ثَوْبِي حَتَّى وَضَعْتُ إِلَى جَنْبِهِ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مَشَيْتُ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ الْعَظْمِ وَالرَّوْثَةِ؟ قَالَ: هُمَا مِنْ طَعَامِ الْجِنِّ وَإِنَّهُ أَتَانِي وَفْدُ جِنِّ نَصِيبِينَ وَنِعْمَ الْجِنُّ ، فَسَأَلُونِي الزَّادَ، فَدَعَوْتُ اللّٰهَ لَهُمْ أَنْ لَا يَمُرُّوا بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثَةٍ إِلَّا وَجَدُوْا عَلَيْهَا طَعَامًا۔

(صحيح البخاري،كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ۔ بَابُ ذِكْرُ الْجِنِّ حدیث نمبر: 3860)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کےساتھ وضو اور قضائے حاجت کے لیے چھاگل اٹھا کر لے جایا کرتے تھے۔ ایک بار میں چھاگل اٹھائے آپ ﷺ کے پیچھے چل رہا تھاکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کون ہے؟ بتایا کہ میں ابوہریرہ ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ استنجے کے لیے چند پتھر تلاش کر لاؤ اور ہاں ہڈی اور لید نہ لانا۔ تو میں پتھر لے کر حاضر ہوا۔ میں انہیں اپنے کپڑے میں رکھے ہوئے تھا اور لا کر میں نے آپ ﷺکے قریب رکھ دیا اور وہاں سے واپس چلا آیا۔ آپ ﷺ جب قضائے حاجت سے فارغ ہو گئے تو میں پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ ہڈی اور گوبر میں کیا بات ہے؟(کہ آپ نے ان کے لانے سے منع فرمایاہے) آپﷺنے فرمایا کہ اس لیے کہ وہ جِنّوں کی خوراک ہیں۔ میرے پاس نصیبین کے جِنّوں کا ایک وفد آیا تھا اور کیا ہی اچھے وہ جِنّ تھے۔ انہوں نے مجھ سے زادراہ مانگا اورمیں نے ان کے لیے اللہ سے یہ دعا کی کہ وہ جس ہڈی یا گوبر کے پاس سے گذریں، وہ ضرور اس میں اپنی خوراک پائیں۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَسْتَنْجُوْا بِالرَّوْثِ وَلَا بِالْعِظَامِ فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ۔وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَلْمَانَ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَغَيْرُهُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ الْحَدِيْثَ بِطُوْلِهِ، فَقَالَ الشَّعْبِيُّ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا تَسْتَنْجُوْا بِالرَّوْثِ وَلَا بِالْعِظَامِ فَإِنَّهُ زَادُ إِخْوَانِكُمْ مِنَ الْجِنِّ۔

(سنن ترمذي، كتاب الطهارة عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم۔ بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مَا يُسْتَنْجَى بِهِ حدیث نمبر: 18)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گوبر اور ہڈی سے استنجا نہ کرو کیونکہ وہ تمہارے جِنّ بھائیوں کی خوراک ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ الْجِنِّ عَلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا مُحَمَّدُ، انْهَ أُمَّتَكَ أَنْ يَسْتَنْجُوْا بِعَظْمٍ أَوْ رَوْثَةٍ أَوْ حُمَمَةٍ، فَإِنَّ اللّٰهَ تَعَالَى جَعَلَ لَنَا فِيهَا رِزْقًا، قَالَ: فَنَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ۔

(سنن ابی داؤد، كِتَاب الطَّهَارَةِ۔ باب الاِسْتِنْجَاءِ بِالْحِجَارَةِ حدیث نمبر39)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جِنّوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: آپ اپنی امت کو ہڈی، لید (گوبر، مینگنی)، اور کوئلے سے استنجاکرنے سے منع فرما دیجیےکیونکہ ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے روزی بنائی ہے، تو آپ ﷺ نے اس سے منع فرما دیا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button