جب ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے تو خدا تعالیٰ کے احکامات کی پیروی ہم پر کیوں لازم ہے؟
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں لکھا ہے کہ بچے اکثر سوال کرتے ہیں کہ جب ہم اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوئے تو خدا تعالیٰ کے احکامات کی پیروی ہم پر کیوں لازم ہے؟ نیز لکھا کہ دعائے قنوت میں جو یہ فقرہ ہے کہ ’’ہم چھوڑتے ہیں تیرے نافرمان کو‘‘تو کیا اس سےمراد نافرمان اولاد اور افراد جماعت بھی ہو سکتے ہیں؟حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 04؍فروری 2020ءمیں ان سوالات کا درج ذیل جواب عطا فرمایا۔ حضور نے فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ ایک بچہ کو اس کے والدین کی خواہش کے مطابق پیدا کرتا ہے۔ پھر والدین کو نصیحت کرتا ہے کہ اولاد کے نیک اور صالح ہونے کےلیے دعا کرو اور اس غرض کےلیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دعا بھی سکھائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دےکر اسے سوچنے کےلیے ذہن اورزندگی گزارنے کےلیے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ پھر اسے اچھے اور بُرے کی پہچان کروا کر آزاد چھوڑ دیا اور اسے کہا کہ اگر اس دنیا کی عارضی زندگی میں اچھے کام کرو گے تو آخرت کی دائمی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے مختلف قسم کے انعامات کے وارث قرار پاؤ گے لیکن اگر بُرے کام کرو گے تو شیطان کے قبضے میں چلے جاؤ گےجس کی وجہ سے ایک تو قسما قسم کے ان انعامات سے محروم رہو گے اور دوسرا شیطان کے نقش قدم پر چلنے کی وجہ سے جن روحانی بیماریوں کا شکار ہو گےان کے علاج کےلیے اخروی زندگی کی جہنم میں جو کہ وہاں کا ہسپتال ہے طرح طرح کے تکلیف دہ علاجوں سے گزارنا پڑے گا۔قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ اور شیطان کے جس مکالمہ کو ہمارے لیے بیان کیا ہے اس میں بھی یہی مضمون ہے کہ جب شیطان نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں انسانوں کو تیری راہ سے بہکاؤں گا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے تیری بات ہرگز نہیں مانیں گے اور میں اپنے ان بندوں کو جنت جیسے انعامات سے نوازوں گا اور جو تیری بات مانیں گے تو میں ان سے جہنم کو بھروں گا۔
پس اب یہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ خود سوچے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کر کے اس کے انعامات کا وارث بننا ہے یا شیطان کی راہ اختیار کر کے جہنم کی سزاؤں کا حقدار بننا ہے۔
جہاں تک دعائے قنوت کے فقرہ کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ فاسق و فاجر کفار ہیں جنہوں نے منافقت اور دھوکے کے ساتھ مسلمانوں کا قتل و غارت کیا اور انہیں طرح طرح کے نقصان پہنچائے۔ چنانچہ بئر معونہ اور رجیع جیسے واقعات کے بعد ہی حضور ﷺ نے قنوت فرمایا۔ پس والدین کی نافرمان اولاد یا نظام جماعت سے انتظامی سزا پانے والے افراد جماعت اس سے مراد نہیں ہو سکتے۔
البتہ انتظامی سزا پانے والے ایسے افراد جماعت جن پر ان سزاؤں کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہوتا ،ان کی جھوٹی اناؤں نے انہیں اپنے قبضے میں لیا ہوتا ہے اور وہ بھول جاتے ہیں کہ نظام جماعت کی اطاعت کرنی ہے۔ ایسے لوگوں کو اس سزا کا احساس دلانے کےلیے باقی افراد جماعت کا فرض بنتا ہے کہ ان کے ساتھ مجلسوں میں نہ بیٹھیں، انہیں اپنی دعوتوں میں نہ بلائیں اور نہ انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں۔ کیونکہ جماعتی تعزیر ایک معاشرتی دباؤ کےلیے دی جاتی ہے۔ تاہم بیوی بچوں اور والدین کو ان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی اس لیے اجازت دی جاتی ہے کہ وہ انہیں سمجھائیں اور نظام جماعت کا مطیع و فرمانبرداراور صحت مند فرد بنانے کی کوشش کریں۔