امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ برطانیہ کے Midlands اور South-West ریجنز کی13 سے 15 سال کی ناصرات الاحمدیہ کی (آن لائن) ملاقات
اللہ تعالیٰ مجھے اس مقام (خلافت)پر لایا ہے۔ تو اب جب اللہ تعالیٰ مجھے اس مقام پر لایا ہے تو یہ اس کا کام ہے۔
اس نے مجھے بولنے اور تقاریر کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے
امام جماعت احمدیہ عالمگیرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 12؍ ستمبر 2021ء کو برطانیہ کے Midlands اور South-West ریجنز کی 13 تا 15 سال کی ناصرات الاحمدیہ سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضور انور نے اس ملاقات کو اپنے دفتر اسلام آباد (ٹلفورڈ) سے رونق بخشی جبکہ ناصرات الاحمدیہ نے مسجد دار البرکات Birminghamسے آن لائن شرکت کی۔
ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعد ناصرات الاحمدیہ کو حضور انور سے اپنے عقائد اور حالاتِ حاضرہ وغیرہ پر مشتمل امور کے بارے میں سوالات پوچھنے اور راہنمائی طلب کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ اگر آپ وقفِ نو کی تحریک میں شامل نہ ہوں تو کیا آپ کو جماعتی خدمت کرنے کی اجازت ہے؟ میری خواہش ہے کہ میں ڈاکٹر بن کر ترقی پذیر ممالک میں جماعت کی خدمت بجالاؤں۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہاں، بہت سے طلبہ ایسے ہیں جو جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں اور مبلغ بن رہے ہیں اور وہ وقفِ نو نہیں ہیں۔ پاکستان میں پچاس فیصد کے قریب جامعہ کے طلبہ وقفِ نو نہیں ہیں۔ میں بھی وقف نو نہیں ہوں۔ کیا میں ہوں؟ (تبسم کے بعد فرمایا) میں وقف نو نہیں ہوں اور جماعت کی خدمت کر رہا ہوں۔ جو لوگ میرے ساتھ یہاں بیٹھے ہیں اور میرے ساتھ کا م کر رہے ہیں وہ بھی وقف نو نہیں ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جماعت کی خدمت کے لیے آپ کو ضرور وقفِ نو ہونا چاہیے۔ اس لیے اگر آپ ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں تو ٹھیک ہے اپنی پڑھائی مکمل کریں اور جماعت کی خدمت کے لیے اپنی زندگی بطور واقفہ زندگی وقف کردیں۔ پھر انشاءاللہ آپ کا وقف منظور کر لیا جائے گا۔ اس میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اور ہم آپ کا انتظار کر رہے ہوں گے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ پرانے وقتوں میں انبیاء اور خلفاء مذہبی راہنما ہوتے تھے لیکن ساتھ ساتھ سیاسی حکومت بھی تھی۔ اس ناصرہ نے سوال کیا کہ کیا جماعت احمدیہ کے خلفاء کبھی سیاسی حکوت قبول کریں گے۔
حضور انور نے فرمایا کہ گزشتہ زمانے میں ہر نبی کو سیاسی حکومت نہیں دی گئی۔ اسلام میں آنحضرتﷺ ایک نبی تھے جو مذہبی راہنما تھے، آپﷺ خاتم النبیین تھے۔ مدینہ ہجرت کے بعد آپ ایک ریاست کے راہنما بھی تھے۔ لیکن اس سے پہلے نہیں۔ جب آپﷺ مکہ میں تھے، توآپ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا اور نہایت سفاکی سے آپﷺ کو بھی اور آپﷺ کے صحابہ کو بھی تکالیف پہنچائی جاتیں۔ پھر آپﷺکی وفات کے بعد خلفا ئے راشدین کے پاس بھی سیاسی حکومت رہی۔ لیکن اب ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور نہ ہی آپ کے خلفاء کے پاس ویسی سیاسی حکومت ہوگی۔
مستقبل کے بارے میں راہنمائی کرتے ہوئے حضورِ انور نے فرمایا کہ انشاء اللہ جب ممالک کی اکثریت احمدیت قبول کر لے گی تو ہر ملک کی حکومت اپنے انتظامات چلائے گی اور خلیفۂ وقت ان ممالک میں روحانی راہنما ہوگا۔ قرآن کریم میں یہ لکھا ہو اہے کہ اگر دو مسلمان ممالک یا فریق آپس میں لڑ پڑیں تو امن کے ساتھ ان کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرو اور اگر وہ لڑائی سے باز آجائیں تو بہت اچھی بات ہے۔ بصورت دیگر جو ظلم کر رہا ہے اور دھوکا سے ہمسایہ ملک پر حملہ کرتا ہے یا کسی مسلمان ملک پر حملہ کرتا ہے تو پھر طاقت کے ساتھ اس کے ہاتھ روکو۔ ایسے حالات میں خلیفہ وقت دیگر حکومتوں کو اس کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کرے گا۔ بہر حال خلیفۂ وقت ہمیشہ روحانی راہنما ہی رہے گا۔ اس کا ممالک کی سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ممالک کے سر براہ خلیفہ وقت سے راہنمائی طلب کریں گے۔
ایک اور بچی نے پوچھا کہ کیا حضور انور اپنے کسی مشکل وقت کا تذکرہ کر سکتے ہیں اور یہ بھی کہ آپ اس مشکل سے کیسے نکلے۔
حضور انور نے فرمایا کہ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں۔ مجھے ان کے بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر میں کہوں کہ مجھے مشکل پیش آگئی تو اس کا مطلب ہے کہ مجھے وقف کی روح سمجھ نہیں آئی۔ اس لیے میں یہ بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے کبھی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ مجھ پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا فضل رہاہے۔
ایک اور ناصرہ نے سوال کیا کہ منصب خلافت پر متمکن ہونے سے قبل حضور انور کی طبیعت میں بہت حجاب تھا اور کم گو تھے اور تقاریر نہیں کرتے تھے۔ حضور انور کے لیے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد بطور خلیفۃ المسیح ان فرائض کی انجام دہی کیسے ممکن ہوئی؟
حضور انور نے فرمایا کہ یہ خدا کے کام ہیں۔ میں اپنی مرضی اور خواہش سے اس مقام پر نہیں پہنچا۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس مقام پر لایا ہے۔ تو اب جب اللہ تعالیٰ مجھے اس مقام پر لایا ہے تو یہ اس کا کام ہے۔ اس نے مجھے بولنے اور تقاریر کرنے اور لوگوں سے بات کرنے کی اور انہیں دلیل سے خاموش کروانے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔ اگر میں خود دیکھوں کہ میں کیا ہوں، تو میں نہیں کہہ سکتا کہ میں کسی شخص کو جواب دے سکتا ہوں۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مجھے یہ سب کام کرنے کی توفیق عطا فرماتاہے۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ غیر احمدی ہمیں غیر مسلم کیوں کہتے ہیں جبکہ ہم کلمہ شہادت،پڑھتےہیںقرآن کریم اور آنحضرتﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو یہ سوال ان سے پوچھنا چاہیے۔ ہم اسی نبیﷺکو مانتے ہیں، ہم اسی کتاب کو مانتے ہیں، ہم کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں اور جملہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور صرف عمل نہیں کرتے بلکہ ان کی تبلیغ بھی کرتے ہیں۔ اسی لیے لاکھوں غیر مسلموں نے احمدیت کے ذریعہ ا سلام قبول کیا ہے۔ آپ ایسے لوگوں کے سامنے اپنی مثال پیش کر سکتی ہیں۔ انہیں بتائیں کہ میں اس پر ایمان لاتی ہوں، اور یہ عمل کرتی ہوں، اس لیے یہ آ پ کا فرض ہے کہ ان کے تمام شکوک وشبہات دور کریں۔ مثال کے طور پر گھانا میں ابتدائی احمدی عیسائیوں میں سے تھے۔ انہوں نے اسلام کیوں قبول کیا۔ اس لیے کہ انہوں نے اسلام کی خوبصورتی احمدیت کے ذریعہ دیکھی۔ اس طرح آپ ان کو تبلیغ کر سکتی ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ یقین رکھتے ہیں کہ اس زمانہ کے مسیح موعود، جن کے آنے کی پیشگوئیاں آنحضرتﷺ نے فرمائی ہیں، وہ ابھی تک تشریف نہیں لائے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی صورت میں تشریف لا چکے ہیں۔ اور یہی ایک فرق ہے۔ اور اس فرق کی وجہ سے آپ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام ایک نبی کا مقام ہے کیونکہ آپﷺ نے آپ علیہ السلام کو اپنی ایک حدیث میں ایک مرتبہ نہیں، چار مرتبہ نبی اللہ بیان فرمایا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آسکتا۔ ہم بھی یہی مانتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نیا شرعی نبی نہیں آسکتا۔ لیکن ایک امتی نبی آسکتا ہے۔ اور آپﷺ کی پیشگوئیوں کےمطابق اس نے آنا تھا۔ قرآن کریم میں سورۃالجمعہ میں یہ لکھا ہے کہ ایک نبی آئے گا۔ اس لیے یہ فرق ہے اور اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہم غیر مسلم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے تم آنحضرتﷺ کو نبی مانتے ہو لیکن آپﷺ کی خاتمیت کو نہیں مانتے، آپ کو کہنا چاہیے کہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ آپﷺ آخری نبی ہیں، جو شریعت لائے او ر قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے، ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جس نے آنحضرتﷺ کو اور جملہ سابقہ انبیاء کو بھی مبعوث کیا۔ اور ہم آنحضرتﷺ کو اللہ کا نبی مانتے ہیں ، آخری نبی مانتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم مانتےہیں کہ مسیح موعود علیہ السلام امتی نبی ہیں۔ اور ہم اس کی یہ تشریح اپنے پاس سے نہیں کرتے یہ بات آنحضرتﷺ نے نہایت واضح طور پر بیان فرمائی ہےکہ جس موعود مسیح کا آنا مقدر ہوچکا ہے وہ نبی ہوگا۔ یہی بنیادی فرق ہے جس کی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔
ایک ناصرہ نے سوال کیا کہ احمدی مسلمانوں کے لیے یہ کس قدر اہم ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف لڑیں۔
حضور انور نے فرمایا کہ یہ بہت اہم ہے۔ آپ کو تھوڑے فاصلوں کے لیے گاڑی کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ پیدل چلیں یا سائیکل استعما ل کریں۔ سائیکل چلانا آپ کی صحت کے لیے بھی اچھا ہے۔ ہر احمدی مسلمان کو یہ ٹارگٹ بنانا چاہیے کہ وہ ہر سال دو درخت لگائے۔ اس طرح آپ ماحولیاتی تبدیلی سے لڑ سکتے ہیں۔ اگر یہاں ممکن نہ ہوتو وہ جو دوسرے ممالک میں سفر کرتے ہیں تو وہ وہاں درخت لگا سکتے ہیں۔ اس طرح ہم ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
ایک سوال حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ سے متعلق ہوا کہ وہ کیسے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہ سکتے ہیں۔ جبکہ کئی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان حالات میں کسی کا زندہ رہنا ناممکن ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ان کو نگل لیا گیا تھا لیکن قرآن کریم یہ نہیں فرماتا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تین دن تک زندہ رہے۔ یہ بائبل میں ہے۔ جونہی مچھلی نے انہیں نگلا، تو وہ مچھلی انہیں باہر لے آئی۔ وہ وہاں ایک لمبے عرصہ تک نہیں رہے۔ پھر بھی، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب وہ مچھلی سے باہر نکلے تو وہ بیمار تھے۔ وہ بے ہوش تھے اور زخمی تھے اور کچھ دیر بعد وہ ہوش میں آئے اور بچ گئے۔ تو سائنسدان کہتے ہیں کہ کیونکہ بائبل کہتی ہے کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تین دن رہے اس لیے وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ یہ درست بات ہے۔ لیکن ہمارا یہ ماننا نہیں ہے کہ وہ تین دن تک وہیں رہے۔ جونہی انہیں نگلا گیا ساتھ ہی انہیں باہر نکال دیا گیا۔
ایک اور ناصرہ نے پوچھا کہ بات کرنے کے معیار بدل چکے ہیں اور کچھ بڑی عمر کے لوگ نوجوانوں کے رویہ کو بد تمیزی خیال کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے حضور انور کی راہنمائی طلب ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ ہمیں اچھے اخلاق سیکھنے چاہئیں۔ خواہ آپ اپنے والدین سے بات کر رہے ہوں، بہن بھائیوں سے یا کسی رشتہ دار سے، آپ کو اچھے اخلاق کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اچھے اخلاق کا تقاضا ہے کہ آپ دوسروں کو عزت دیں، اپنے بڑوں اور بہن بھائیوں سے عزت سے پیش آئیں۔ اپنے بہن بھائیوں، دوستوں اور والدین سے نرمی اور اچھے طریق سے بات کریں۔ تو اگر آپ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کر رہےہیں تو یہ اسلامی طریق ہے۔
آزادئ رائے کے متعلق عمومی طور پر بات کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آزادئ رائے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کسی کو گالیاں دینا شروع کر دیں، یا جیساکہ مغرب میں کہا جاتا ہے کہ چونکہ آپ کو آزادئ رائے اور اظہار ہے اس لیے آپ گستاخانہ کارٹون پرنٹ کر سکتے ہیں۔ یہ اچھے اخلاق نہیں ہیں۔ ان کے دوہرے معیار ہیں۔ جب آپﷺ کے گستاخانہ کارٹون پرنٹ ہوئے تھے (فرنچ سیاسی لیڈر) نے کہا تھا کہ یہاں آزادئ رائے اور اظہار ہے اس لیے اس کو نہیں روکا جا سکتا۔ لیکن جب انہوں نے فرنچ صدر کے کارٹون شائع کیے تو پھر بڑا شور شرابا ہوا۔ کیوں؟ اس کا مطلب ہے کہ وہ خود مانتے ہیں کہ یہ اچھی چیزیں نہیں ہیں لیکن اپنے لیے ان کے اور معیار ہیں اور دوسروں کے لیے اور معیار ہیں۔
٭…٭…٭