وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسولؐ شناخت کیا جائے
وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا۔نجوم میں نہیں تھا۔قمر میں نہیں تھا۔آفتاب میں بھی نہیں تھا۔وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔وہ لعل اور یاقوت اور زمرّد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا۔صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اُس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں … اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی اُمّی صادق مصدوق محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ160-162)
میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپؐ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اِس طرح پر کہ خود اُس کے دل میں محبتِ الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اُس کا اُنس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے تب محبتِ الٰہی کی ایک خاص تجلی اُس پر پڑتی ہے اور اُس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذباتِ نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اُس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 67، 68)
دنیا میں ایک رسولؐ آیا تاکہ ان بہروں کو کان بخشے کہ جو نہ صرف آج سے بلکہ صدہاسال سے بہرے ہیں۔ کون اندھا ہے اور کون بہرا۔ وہی جس نے توحید کو قبول نہیں کیا اور نہ اس رسولؐ کو جس نے نئے سرے سے زمین پر توحید کو قائم کیا۔ وہی رسول جس نے وحشیوں کو انسان بنایا اور انسان سے بااخلاق انسان یعنی سچے اور واقعی اخلاق کے مرکزِ اعتدال پر قائم کیا۔ اور پھر بااخلاق انسان سے باخدا ہونے کے الٰہی رنگ سے رنگین کیا۔ وہی رسولؐ، ہاں وہی آفتابِ صداقت جس کے قدموں پر ہزاروں مُردے شرک اور دہریت اور فسق اور فجور کے جی اٹھے اور عملی طور پر قیامت کا نمونہ دکھلایا۔ نہ یسوع کی طرح صرف لاف و گزاف۔ جس نے مکّہ میں ظہور فرما کر شرک اور انسان پرستی کی بہت سی تاریکی کو مٹایا۔ ہاں دنیا کا حقیقی نور وہی تھا جس نے دنیا کو تاریکی میں پا کر فی الواقع وہ روشنی عطا کی کہ اندھیری رات کو دن بنا دیا۔ اس کی پہلی دنیا کیا تھی اور پھر اس کے آنے کے بعد کیا ہوئی؟ یہ ایک سوال نہیں ہے جس کے جواب میں کچھ دقّت ہو۔ اگر ہم بے ایمانی کی راہ اختیار نہ کریں تو ہمارا کانشنس ضرور اس بات کے منوانے کے لئے ہمارادامن پکڑے گا کہ اس جنابؐ عالی سے پہلے خدا کی عظمت کو ہر ایک ملک کے لوگ بھول گئے تھے اور اس سچے معبود کی عظمت اوتاروں اور پتھروں اور ستاروں اور درختوں اور حیوانوں اور فانی انسانوں کو دی گئی تھی اور ذلیل مخلوق کو اس ذوالجلال و قدوس کی جگہ پر بٹھایا تھا اور یہ ایک سچا فیصلہ ہے کہ اگر یہ انسان اور حیوان اور درخت اور ستارے درحقیقت خدا ہی تھے جن میں سے ایک یسوع بھی تھا تو پھر اس رسول کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ لیکن اگر یہ چیزیں خدا نہیں تھیں تو وہ دعویٰ ایک عظیم الشان روشنی اپنے ساتھ رکھتا ہے جو حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّہ کے پہاڑپر کیا تھا۔ وہ کیا دعویٰ تھا وہ یہی تھا کہ آپؐ نے فرمایا کہ خدا نے دنیا کو شرک کی سخت تاریکی میں پا کر اس تاریکی کو مٹانے کے لئے مجھے بھیج دیا۔ یہ صرف دعویٰ نہ تھا بلکہ اس رسول مقبولؐ نے اس دعویٰ کو پورا کرکے دکھلا دیا۔ اگر کسی نبی کی فضیلت اس کے ان کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو! اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں۔ … اندھے مخلوق پرستوں نے اس بزرگ رسو لؐ کو شناخت نہیں کیا جس نے ہزاروں نمونے سچی ہمدردی کے دکھلائے۔ لیکن اب مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ یہ پاک رسولؐ شناخت کیا جائے۔ چاہو تو میری بات کو لکھ رکھو کہ اب کے بعد مردہ پرستی روز بروز کم ہو گی یہاں تک کہ نابود ہو جائے گی۔ کیا انسان خدا کا مقابلہ کرے گا۔ کیا ناچیز قطرہ خدا کے ارادوں کو رد کر دے گا۔ کیا فانی آدم زاد کے منصوبے الٰہی حکموں کو ذلیل کر دیں گے؟ اے سننے والو سنو! اور اے سوچنے والو سوچو! اور یاد رکھو کہ حق ظاہر ہو گا اور وہ جو سچا نور ہے چمکے گا۔
(الاشتہار مستیقنًا بوحیِ اللّٰہ القہّار،مجموعۂ اشتہارات جلد دوم صفحہ 307 تا 309 مطبوعہ 1972ء از ربوہ)