امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ نارتھ یوکے کی (آن لائن) ملاقات
اسلام جملہ مذاہب کا تحفظ کرتا ہے اور اس کا انتہا پسندی، دہشت گردی یا دیگر مذاہب کو تباہ کرنے یا تلوار کے زور سے اسلام پھیلانے سے کوئی تعلق نہیں ہے
30؍اکتوبر 2021ء کو امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس، حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نارتھ انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی 13 تا 15 سالہ ناصرات الاحمدیہ کے ساتھ آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِانور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ ممبرات ناصرات الاحمدیہ نے مسجد دارالامان، مانچسٹر سے آن لائن شرکت کی۔
اس ملاقات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جس کے بعدممبرات ناصرات الاحمدیہ کو اپنے عقائد اور عصر حاضر کے مسائل کی بابت حضور انور سے چند سوالات کے متعلق راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔
ایک ناصرہ نے حضور انور سے سوال کیا کہ معاشرے میں ذہنی امراض اور ڈپریشن کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
حضور انور نے فرمایا کہ بسا اوقات (ذہنی امراض) اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ ہم بہت زیادہ مادہ پرستی میں پڑ رہے ہیں۔ ہماری خواہشات اور تمناؤں کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ بجائے اللہ کی محبت اور قربت میں بڑھنے کے، ہم دنیاوی چیزوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ یہ اس کی بنیادی وجہ ہے۔ اور جب دنیاوی خواہشات پوری نہ ہوں اور جو آپ چاہتے ہیں وہ نہ ملے تو پھر آپ کو مایوسی ہوتی ہے اور یہ مایوسی پھر بے چینی میں بڑھاتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ دلی سکون حاصل کرنے کا بہترین طریق اللہ کی یاد ہے اور ذہنی سکون ملتا ہے۔ اس لیے جب بھی آپ کو کوئی مسئلہ در پیش ہو تو اللہ کو یاد کریں، اس کے سامنے جھکیں، پنجوقتہ نماز با قاعدگی اور خلوص سے ادا کریں پھر اللہ آپ کو سکون عطا فرمائے گا اور دلی اطمینان دے گا اور نتیجۃً آپ پر سکون اور بہتر محسوس کریں گے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ آج کل کے زیادہ مریض جو بے چینی کا شکار ہو رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہ زیادہ دنیاوی چیزوں کی طرف مائل ہیں۔ اس لیے اگر آپ اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب رہنے کی کوشش کریں تو کم و بیش آپ کی 80 فیصد سے زیادہ بےچینی دور ہو جائے گی اورچلی جائے گی۔ اس لیے آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جماعت (احمدیہ) کا ممبر بننے کی توفیق عطا فرمائی ہے یعنی اس دور کے اما م مہدی کو ماننے کی جو مسیح موعود علیہ السلام ہیں جن کے آنے کی خبر آنحضرتﷺ نے دی تھی۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ بجائے دنیاوی چیزوں کے پیچھے دوڑنے کے، اپنے خالق سے قربت پکڑنے کی کوشش کرو اور یہ چیز پھر تمہیں سکون اور راحت پہنچائے گی۔
ایک ناصرہ نے پوچھا کہ جب کسی مذہب کی تقلید کیے بغیر آپ اپنے کام کرسکتے ہیںتو پھر مذہب کی کیا ضرورت ہے ؟
حضور انور نے فرمایا کہ جہاں تک اخلاق کی بات ہے تو ایک دہریہ کے بھی اچھے اخلاق ہوسکتے ہیں۔ اس میں ہمیشہ سچ بولنے کی خوبی ہوسکتی ہے جب کہ بعض ایمان لانے والے یا کسی مذہب کے پیروکار (ہمیشہ) سچ نہیں بولتے۔ وہ بسا اوقات زیادہ جھوٹے ہوتے ہیں اس طرح سے ایک دہریہ بھی ان ایمانداروں سے اچھا ہوتا ہے۔ مگر ساتھ ساتھ ایک دہریہ بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ جملہ اخلاق حسنہ جو اس دنیا میں پائے جاتے ہیں، یا انسانیت کو متعارف کروائے گئے ہیں وہ اللہ کے رسولوں اور نبیوں کے ذریعہ سے ہم تک پہنچے ہیں۔ اس لیے اس سے پتہ چلتاہے کہ یہ مذہب ہی ہے جو انسانوں کے لیے اس دنیا میں اخلاق حسنہ لایاہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دنیاوی زندگی ہی زندگی نہیں ہے۔ بلکہ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے جو جملہ انبیاء نے ہمیں بتایا ہے کہ اس عارضی زندگی کے بعد ایک مستقل زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب آپ اس دنیا میں اچھے کام کرتے ہیں اور اپنے فرائض ادا کر تے ہیں جو آپ کو اپنے خالق کے ادا کرنے چاہئیں اور اپنے ان فرائض کو بھی ادا کرتے ہیں جو آپ کو اپنے ساتھ بسنے والے انسانوں کے ادا کرنے چاہئیں پھر اللہ تعالیٰ آپ کو آخرت میں اجر عطا فرمائے گا۔ تو اس لیے ہم کہتے ہیں کہ صرف اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہی کافی نہیں ہےبلکہ ایک حقیقی پیروکار کو اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کرنے چاہئیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل کرنا چاہیے اور حقوق اللہ کی ادا ئیگی کو یقینی بنانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ہمارا اس کی عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، یہ تمہارے (انسانوں کے ) ہی فائدہ کی بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اور آخری دنیا میں بھی انہیں اجر دے گا۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اپنے ساتھ بسنے والے لوگوں کے حقوق العباد بھی ادا کرنے چاہئیں اور اس کا اجر بھی آخرت میں ملے گا۔ ایک دہریہ جو ایمان نہیں لاتا، اس کو صرف اس دنیا میں اجر ملےگا جبکہ ایک ایماندار یہاں بھی اجر پاتاہے اور آخرت میں بھی اجر پاتا ہے۔ یہ مذہب پر عمل پیرا ہونے کا فائدہ ہے۔
ایک اَور ناصرہ نے سوال کیا کہ وہ سکول میں دہشت گردی کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ وہ کس طرح لوگوں کو سمجھا سکتی ہے کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بڑی وضاحت سے فرماتا ہے کہ ایک انسان کا قتل جملہ انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور ایک انسان کی جان بچانا گویا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک معصوم انسان کا قتل تمہیں جہنم میں لے جائے گا۔ قرآن کریم فرماتا ہےکہ ایک مومن کا قتل تمہیں جہنم میں لے جائے گا۔ لیکن مسلمان کیا کر رہے ہیں؟ مسلمان ایک دوسرے کا قتل کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو ایک دوسرے کا قتل کر رہے ہیں، قرآنی تعلیمات کی رو سے اور آنحضرت ﷺ کی احادیث کی رو سے وہ سب جہنمی ہیں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ اسلام بیان کرتا ہے کہ تمہیں تلوار کے ذریعہ اسلام پھیلانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جب اسلام کے دشمنوں کے خلاف سورۃ الحج میں تلوار اٹھا نے کی اجازت دی گئی، اس میں بڑی وضاحت سے فرمایا گیاہے کہ تمہیں ان (دشمنوں) کے خلاف جہاد کی اجازت دی گئی ہے تاکہ تم اسلام کے دشمنوں سے بدلہ لے سکو، کیونکہ اگر اب تم نے انہیں چھوڑ دیا کہ وہ جو بھی کریں تو پھر تم صفحہ ہستی پر کوئی مذہب نہیں دیکھو گے۔ تم یہودیوں کے معبد، کوئی گرجا، کوئی مندر یا کوئی مسجد محفوظ نہ پاتے۔ تو یہاں جو دفاعی جنگ کا حکم دیاگیاہے، یہ اسلام کی حفاظت کے لیے نہیں ہے یا اسلام کو پھیلانے کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ خود (ہر) مذہب کی حفاظت کے لیے ہے۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ اسلام کوئی جنگجو مذہب نہیں ہے بلکہ یہ مذہب کی حفاظت کرتا ہے۔ اسلام ہر طرح کی دہشت گردی کی مخالفت کرتا ہے اور ہر طرح کی انتہا پسندی کے خلا ف ہے۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ آج کل کے لوگ اسلام کے نام پر جو بھی کر رہے ہیں، وہ دراصل اسلام کےنام کو بدنام کر رہے ہیں۔ وہ اپنے مفاد کے لیے قرآنی آیات کی غلط تشریح کر کے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ جھوٹے طور پر ثابت کر سکیں کہ جارحانہ جہاد کی اجازت ہے اور یہ اسلامی تعلیمات کاحصہ ہے۔ جیساکہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اسلام جملہ مذاہب کا تحفظ کرتا ہے اور اس کا دہشت گردی، انتہا پسندی یا دیگر مذاہب کو تباہ کرنے یا تلوار کے زور سے اسلام کو پھیلانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایک اَور ناصرہ نے حضور انور سے سوال پوچھا کہ کوئی سید طالع احمد (شہید) کی طرح کیسے بن سکتاہے جو اسلام اور جماعت احمدیہ کی خدمت میں شہید ہوگئے۔
حضور انور نےفرمایا کہ بہت محنت سے احمدیہ مسلم جماعت کے کام کریں۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام پھیلائیں۔ ایک مومنہ اور احمدی بچی کے طور پر اپنا مثالی نمونہ پیش کریں، تاکہ لوگ آپ کو دیکھیں اور کہیں کہ یہ وہ احمدی بچیاں ہیں جو حقیقی اسلامی تعلیمات پر گامزن ہیں۔ جہاں تک شہادت کا تعلق ہے کہ اس مقام کی سعادت اس نے کس کو بخشنی ہے۔ ہمیں کم از کم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئےاپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں اور اچھے مومن اور اچھے مسلمان ہونے کا مظاہرہ کرنا چاہیے