پھر گھمنڈ کس بات کا؟
بہت اچھی بات ہے کہ انسان کامیاب ہو،شہرت پائے، بلندیوں کو چھونے کی خواہش پوری ہو۔ مگر…
ہم کیا ہیں ؟ کیوں ہیں؟ کس لیے ہیں ؟ دوسروں کے بارے میں بعد میں جاننے کی کوشش کریں گے۔ پہلے ہمیں اپنی پہچان ہونی چاہیے۔ہم خود کو سمجھ نہیں پاتے اور لوگوں کے دل و دماغ میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ نہ صرف کوشش کرتے ہیں بلکہ بسااوقات ٹانگ اڑانے سے بھی باز نہیں آتے۔ سچ ہے ہر انسان میں خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں ۔ ان خامیوں کو تسلیم کرنے کے لیے اپنے اندر جھانکنا اشد ضروری ہے۔میں اپنے مضمون میں روایتی طور پر قرآن کریم ،حدیث اور سنت بیان نہیںکروں گی کیونکہ یقیناً الفضل کا قاری قرآنی تعلیمات ،احادیث وسنت سے دل ودماغ کو روشن رکھتا ہو گا۔الفضل ایسے ہی مضامین سے صحیح سمت دکھانے کی کوشش میں لگا ہے۔میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ قرآن کریم کے وصف تحریر میں لاؤں۔
کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف اُس کا گہنا
میں بات کروں گی ان دیکھی ذہنی بیماریوں کی جو دیمک کی طرح ہمیں اندر ہی اندر ختم کر رہی ہوتی ہیں اور ہم بےخبر رہتے ہیں ۔ہم آگے بڑھنے کی دوڑ میں اور اونچی اڑان کی خواہش میں کتنے ہی معصوم، حق داروں کے حقوق روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔کتنے ہی بے گناہوں کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم اپنے کام سے ،اپنی کرسی سے انصاف کر رہے ہیں۔
جبکہ ساری قابلیت ہم تعلقات نبھانے میں ،نام بنانے میں صَرف کر دیتے ہیں۔ سارا زور ہمارا بڑوں کی نظروں میں ہیرو بننے میں لگ جاتا ہے اور اصل کام جوں کا توں رہ جاتا ہے۔ آگے بڑھنے کی اور اونچی اڑان اڑنے کی خواہش انسانی فطرت ہے، کامیابی،عزت مرتبہ اور شہرت کون حاصل نہیں کرنا چاہتا، کون تعریفی کلمات سے تسکین نہیں پاتا؟
بہت اچھی بات ہے کہ انسان کامیاب ہو،شہرت پائے، بلندیوں کو چھونے کی خواہش پوری ہو۔ مگر جب ایسی خواہشات اور ارمانوں میں ہوس پیدا ہو جائے ، تو تباہی یقینی ہے۔ کسی بھی چیز کی ہوس اس چیز کے حصول کے باوجود بےچین رکھتی ہے۔ اور سے اور کی تمنا ۔پھر اور۔ مگر پیاس نہیں بجھتی ۔ خواہشات اور جذبات کو لگام دیے رکھنا پستیوں میں گرنے سے بہتر ہے۔
ہم کیا ہیں؟ سچ میں ہم کچھ بھی نہیں۔ مٹی کا پتلا جو کسی وقت بھی مٹی میں مل جائے گا۔نہ کرسی رہے گی نہ تعلقات رہیں گے نہ کفن کی جیب ہوتی ہے۔پھر گھمنڈ کس بات کا؟ یہ رب العالمین کا احسان اور خاص عنایت ہوتی ہے کہ وہ ہمیں کسی کام کے لیے چن لیتا ہے۔ ذہین اور سمجھدار لوگ اس انتخاب پر خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر شکر بجا لاتے ہیں۔ایمان کے تقاضوں اور تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے فرائض انجام دیتے ہیں۔اپنے قدموں پر بھی اسی طرح نظر رکھتے ہیں۔ جس طرح دوسروں کی چال پر۔ایسے افراد کو یہ گمان نہیں ہوتا کہ نیکی کی باتیں صرف دوسروں کے لیے بیان کی گئی ہیں ۔اخلاق،اعمال صرف دوسروں کے اچھے ہونے چاہئیں۔
بلند عمارتیں اور اونچی دیواریں کسی انسان کے بلند معیار اور اعلیٰ کردار کی ضامن نہیں ہوتیں۔بلکہ اعلیٰ اخلاق،عمدہ سوچ اور نرم دل ایک قد آور شخصیت کی پہچان ہے۔
مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ گاڑی،بنگلہ،کھوکھلے قہقہے،جھوٹی محبت اور ظاہری عزت آج کل کے معتبر اور عظیم انسان کی پہچان ہیں مگر اصل عزت دین ودنیا میں اخلاق و کردار سے ملتی ہے۔ چاہے کوئی کچے مکانوں میں رہتا ہو۔
اگر ذرا سا غور کریں تو احساس ہو گا کہ ہم دیمک زدہ جسم کی عمارت میں اندر ہی اندر کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں۔ نیکی،سچائی،محبت،دیانت داری،انسانیت سب کی روشنی آہستہ آہستہ ماند پڑتی جا رہی ہے۔ قول و فعل کا تضاد پیچھے آنے والوں کو تذبذب میں مبتلا کر دیتا ہے۔یاد رکھیے۔الفاظ کا چناؤ، لہجے کا گھاؤ اور جذبات کا بھاؤ ایک قیمتی انسان کے لیے کڑا امتحان ہوتے ہیں۔میں اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہوںکہ انسان،حیوان اور شیطان ایک آدمی میں ان تینوں کا وجود لازم ہے۔ایک آدمی میں انسانیت نہیں تو وہ انسان کہلانے کا حقدار بھی نہیں۔ فقط سانس لینا ہی زندگی کی علامت نہیں۔ بلکہ اپنے اندر انسانیت کی روح جگائی جائے تو انسان قابل ستائش ہے، نفس امارہ کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔تو شیطان انسان پر پوری طرح قابض ہو کر اسے حیوانیت کے درجے پر فائز کر دیتا ہے۔ اس لیے اپنے خیالات،جذبات اور احساسات کی تلاشی لیتے رہنا چاہیےکہ کہیں ہم انسان سے بچھڑ کر شیطان کے ہاتھوں حیوان تو نہیں بن رہے۔ دیکھتے رہیے۔برائی کسی بھی انسان میں جنم لے سکتی ہے۔ دل کی زمین پر کبھی بھی خار دار پودے سر اٹھا سکتے ہیں۔ ایک سمجھدار،نیک دل اور صاحب ایمان شخص ایسے پودے کو تناور درخت بننے سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکتا ہے۔ اور کمزور بدنیت شخص برائی میں آگے بڑھ جاتا ہے۔پس دل کی زمین سے ایسے پودے صاف کرتے رہنا چاہیے۔ وقار عمل صرف بستیوں،محلوں،شہروں میں ہی نہیں بلکہ دل میں بھی کیجیے۔
٭…٭…٭