انسانی اقدار کو قائم کرنے اور مذہبی رواداری کے لئے آنحضرتﷺ کا بے مثال عملی نمونہ (حصہ دوم۔ آخری)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر اسی مذہبی رواداری اور آزادی کو قائم رکھنے کے لیے آپؐ نے نجران کے وفدکو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی اور انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی عبادت کی۔ جبکہ صحابہ کا خیال تھا کہ نہیں کرنی چاہئے ۔ آپؐ نے کہا کوئی فرق نہیں پڑتا۔
پھر اہل نجران کو جو امان نامہ آپؐ نے دیا اس کا بھی ذکر ملتا ہے اس میں آپؐ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ مسلمان فوج کے ذریعہ سے ان عیسائیوں کی (جو نجران میں آئے تھے) سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کے گرجے ان کے عبادت خانے، مسافر خانے خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہوں یا شہر وں میں ہو ں یا پہاڑوں میں ہوں یا جنگلوں میں ہوں ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہو گی اور اُن کی اس آزادی عبادت کی حفاظت بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور آنحضرت ﷺنے فرمایا کیونکہ اب یہ مسلمان حکومت کی رعایا ہیں اس لئے اس کی حفاظت اس لحاظ سے بھی مجھ پر فرض ہے کہ اب یہ میری رعایا بن چکے ہیں ۔
پھر آگے ہے کہ اسی طرح مسلمان اپنی جنگی مہموں میں انہیں (یعنی نصاریٰ کو ) ان کی مرضی کے بغیر شامل نہیں کریں گے۔ ان کے پادری اور مذہبی لیڈر جس پوزیشن اور منصب پر ہیں وہ وہاں سے معزول نہیں کئے جائیں گے ۔ اسی طرح اپنے کام کرتے رہیں گے۔ ان کی عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں ہوگی وہ کسی بھی صورت میں زیر استعمال نہیں لائی جائیں گی۔ نہ سرائے بنائی جائیںگی نہ وہاں کسی کوٹھہرایا جائے گا اور نہ کسی اور مقصد میں ان سے پوچھے بغیر استعمال میں لایا جائے گا۔ علماء اور راہب جہاں کہیں بھی ہوں ان سے جزیہ اور خراج وصول نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی مسلمان کی عیسائی بیوی ہو گی تو اسے مکمل آزادی ہو گی کہ وہ اپنے طو رپر عبادت کرے۔ اگر کوئی اپنے علماء کے پاس جا کرمسائل پوچھنا چاہے تو جائے۔گرجوں وغیرہ کی مرمت کیلئے آپؐ نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمانوں سے مالی امداد لیں اور اخلاقی امداد لیں تو مسلمانوں کو مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہتر چیز ہے اور یہ نہ قرض ہو گا اور نہ احسان ہو گا بلکہ اس معاہدے کو بہتر کرنے کی ایک صورت ہو گی کہ اس طرح کے سوشل تعلقات اور ایک دوسرے کی مدد کے کام کئے جائیں ۔
تو یہ تھے آپ ﷺ کے معیار مذہبی آزادی اور رواداری کے قیام کے لیے۔ اس کے باوجود آپ پر ظلم کرنے اور تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے کا الزام لگانا انتہائی ظالمانہ حرکت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’پس جبکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہو چکے تھے اور بدی کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے تو خدا تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ہاتھ میں عنان حکومت دے کر ان کے ہاتھ سے غریبوںکو بچانا چاہا۔ اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسر کرتا تھا‘‘۔کوئی قانون نہیں تھا کیونکہ کسی کے ماتحت نہیں تھے‘’’اور چونکہ ان کیلئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا ۔ اس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے۔ پس خدا نے اس ملک پر رحم کر کے… آنحضرت ﷺ کو اس ملک کیلئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کو ایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی، فوجداری ، مالی سب ہدایتیں ہیں۔ سو آنحضرت ﷺ بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپؐ سے فیصلہ کراتے تھے۔
قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اس کے دعویٰ کی ڈگری کی‘‘۔ اس کا ذکر مَیں کر چکا ہوں ۔’’پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت ﷺ کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزائیں خلافت یعنی بادشاہت کی حیثیت سے دی جاتی تھیں‘‘۔ یعنی یہ حکومت کا کام ہے۔
پھر فرماتے ہیں: ’’بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جدا ہوتے تھے اور بادشاہ جدا ہوتے تھے جو امور سیاست کے ذریعے سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت ﷺ کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب‘‘ ۔یعنی آنحضرت ﷺ ’’ہی کو عطا کئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کر کے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتائو تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے
وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیِّیْنَ ءَ اَسْلَمْتُمْ۔ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا۔ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغِ(الجزو 3سورۃ آل عمران)
’’اور اے پیغمبر! اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو۔ پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پا گئے۔ اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الٰہی پہنچا دو۔ اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو۔ اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کیلئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے۔اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا، نہ بحیثیت رسالت ‘‘۔یعنی کہ جب آپ حکومت کے مقتدر اعلیٰ تھے تب جنگ کرتے تھے اس لئے نہیں کرتے تھے کہ نبی ہیں ۔ ’’جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔( الجزو 2سورۃ البقرۃ)۔‘‘
( ترجمہ) تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں۔ یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو۔ خدا زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیںکرتا‘‘۔
(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ243-242)
پس جس نبی پاک ﷺ پر یہ شریعت اتری ہے کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پر اترے ہوئے احکامات کے معاملے میں زیادتی کرتا ہو۔ آپﷺ نے تو فتح مکہ کے موقع پر بغیر اس شرط کے کہ اگر اسلام میں داخل ہوئے تو امان ملے گی عام معافی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کی ایک مثال ہم دیکھ بھی چکے ہیں ۔ اس کی مختلف شکلیں تھیں لیکن اس میں یہ نہیں تھا کہ ضرور اسلام قبول کرو گے تو معافی ملے گی ۔ مختلف جگہوں میں جانے اور داخل ہونے اور کسی کے جھنڈے کے نیچے آنے اور خانہ کعبہ میں جانے اور کسی گھر میں جانے کی وجہ سے معافی کا اعلان تھا۔ اور یہ ایک ایسی اعلیٰ مثال تھی جو ہمیں کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی۔ مکمل طور پر یہ اعلان فرمادیا کہلَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمکہ جائو آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ ہزاروں درُود اور سلام ہوں آپﷺ پر جنہوں نے اپنے یہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے اور ہمیں بھی اس کی تعلیم عطا فرمائی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ا س پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے۔
٭…٭…٭