تعارف کتاب

حقیقت المہدی

(ابو سلطان)

اس میں انگریزی حکومت کی مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی جو سب مذاہب کو یکساں طور پر مہیا تھی ، کا ذکر کرکے صلیبی عقیدےکی نہایت احسن رنگ میں تردید فرمائی

تعارف

یہ رسالہ 24؍اگست 1899ء کو شائع ہوا ۔اس رسالے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسی مضمون کا اعادہ کیاہے جو تحفہ قیصریہ میں لکھا تھا اور یہ اسی رسالے کی یاددہانی ہے۔اس میں انگریزی حکومت کی مذہبی رواداری اور مذہبی آزادی جو سب مذاہب کو یکساں طور پر مہیا تھی ، کا ذکر کرکے صلیبی عقیدےکی نہایت احسن رنگ میں تردید فرمائی گئی ہے اور حضرت اقدسؑ نے اپنا دعویٰ مسیح موعود پیش فرمایا ہے۔

مضامین کا خلاصہ

اس کتاب کا ٹائیٹل پیج انگریزی زبان میں ہے جس میں اس رسالے کو جلد انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کا وعدہ کیا گیاہے تاکہ حکومت برطانیہ آنے والے مہدی کے متعلق عقائد کو خوب اچھی طرح سمجھ سکے۔

فرمایا: ’’سب سے پہلے یہ دعا ہے کہ خدائے قادر مطلق اس ہماری عالیجاہ قیصرہ ہند کی عمر میں بہت برکت بخشے اور اقبال اور جاہ جلال میں ترقی دے…اس عاجز کو بوجہ اس معرفت اور علم کے جو اس گورنمنٹ عالیہ کے حقوق کی نسبت مجھے حاصل ہے …وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت حضور ملکہ معظمہ اور اس کے معزز افسروں کی نسبت حاصل ہے …اسی محبت اور سچی اخلاص کی تحریک سے جشن شصت سالہ جوبلی کی تقریب پر میں نے ایک رسالہ تالیف کرکے تحفہ قیصریہ کے نام سے موسوم کرکے ممدوحہ کی خدمت میں بطور تحفہ ارسال کیا تھا…مگر مجھے نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمہ شاہانہ سے بھی ممنون نہیں کیا گیا۔لہٰذا اس حسن ظن نے جو میں ملکہ معظمہ کی خدمت میں رکھتا ہوں دوبارہ مجھے مجبور کیا کہ میں اس تحفہ یعنی تحفہ قیصریہ کی طرف ممدوحہ کو توجہ دلاؤں۔ اسی غرض سے یہ عریضہ روانہ کرتا ہوں۔‘‘

بعد ازاں حضور علیہ السلام نے اپنا خاندانی تعارف مفصل پیش فرمایا۔ جس میں آپ کا معزز خاندان مغلیہ میں سے ہونا، آپ کے بزرگوں کا ایک خود مختار ریاست کا ولی ہونا، پھر حضورؑ کے پر دادا صاحب مرزا گل محمد صاحب کے متعلق دہلی کے چغتائی بادشاہوں کی سلطنت کی کمزوری کے وقت بعض وزراء نے کوشش کی کہ انہیں دہلی کے تخت پر بٹھایا جائے، بعد ازاں سکھوں نے اس خاندان پر سختیاں کیں، ان کے بزرگ تمام دیہات ریاست سے بے دخل کر دیے گئے، پھر انگریز حکومت کے آنے پر ایک نعمت حاصل ہوئی اور گویا جواہرات کا خزانہ ہاتھ لگ گیا۔ اس لیے انہوں نے ایام غدر 1857ء میں پچاس گھوڑے مع سواران بہم پہنچا کر سرکار انگریز ی کو بطور مدد دیے۔پھر اس عاجز کے حق میں یہ خدمت آئی کہ میں نے پچاس ہزار کے قریب کتابیں اور رسائل اور اشتہارات چھپو اکر اس ملک اور نیز دوسرے بلاد اسلامیہ میں اس مضمون کے شائع کیے کہ گورنمنٹ انگریزی ہم مسلمانوں کی محسن ہے ۔ اور یہ کتابیں میں نے مختلف زبانوں یعنی اردو، فارسی اور عربی میں تالیف کرکے اسلامی ممالک میں پھیلا دیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں انسانوں نے جہاد کے غلط خیالات چھوڑ دیے۔

میرے خیال میں یہ غیر ممکن ہے کہ میرے جیسے دعا گو کا عاجزانہ تحفہ حضور ملکہ معظمہ کی خدمت میں پیش ہوتا اور جواب نہ آتا بلکہ ضرور آتا ۔ اس لئے مجھے بطور یاددہانی کے عریضہ لکھنا پڑا۔ پھر فرمایا: ’’میں اپنی عالی شان جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی عالی خدمت میں اس خوشخبری کو بھی پہنچانے کے لئے مامور ہوں کہ جیساکہ زمین پر …اللہ تعالیٰ نے کمال رحمت اور کمال مصلحت سے ہماری قیصرہ کی سلطنت کو اس ملک اور دیگر ممالک میں قائم کیا ہے تاکہ زمین کو عدل اور امن سے بھرے ایسا ہی آسمان سے ارادہ فرمایا ہے کہ اپنی طرف سے اور غیب سے اور آسمان سے کوئی ایسا روحانی انتظام قائم کرے جو حضور ملکہ معظمہ کے دلی اغراض کو مدد دے۔ سو اس نے اپنے قدیم وعدہ کے موافق جو مسیح موعود کے آنے کی نسبت تھا آسمان سے مجھے بھیجا ہے۔‘‘

پھر فرمایا: ’’اے قیصرہ مبارکہ خدا تجھے سلامت رکھے۔ …تیرے عہد سلطنت میں جو نیک نیتی کے نور سے بھرا ہوا ہے مسیح موعود کا آنا خدا کی طرف سے یہ گواہی ہے کہ تمام سلاطین میں سے تیرا وجود امن پسندی اور حسن انتظام اور ہمدردی رعایا اور عدل اور داد گستری میں سب سے بڑھ کر ہے۔ مسلمان اور عیسائی دونوں فریق اس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح موعود آنے والا ہے… سو خدا نے تیرے نورانی عہد میں آسمان سے ایک نور نازل کیا۔ کیونکہ نور نور کو کھینچتا ہے اور تاریکی تاریکی کو کھینچتی ہے۔ یہ قدیم سے سنت اللہ ہے کہ جب شاہ وقت نیک نیت اور رعایا کی بھلائی چاہنے والا ہو تو وہ جب اپنی طاقت کے موافق امن عامہ اور نیکی پھیلانے کے انتظام کر چکتا ہے اور رعیت کی اندرونی پاک تبدیلیوں کے لئے اس کا دل دردمند ہوتاہے تو آسمان پر اس کی مددکے لئے رحمت الٰہی جوش مارتی ہے۔ اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں ہوا کیونکہ اس وقت کا قیصر روم ایک نیک نیت انسان تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ زمین پر ظلم ہو ۔ تب آسمان کے خدا نے وہ روشنی بخشنے والا چاند ناصرہ کی زمین سے چڑھایا ۔ یعنی عیسیٰ مسیح ۔ سو یہ مسیح موعود جو دنیا میں آیا تیرے ہی وجود کی برکت اور دلی نیک نیتی اور سچی ہمدردی کا ایک نتیجہ ہے۔‘‘

ناصرہ اور اسلام پور قاضی

(قادیان کا پرانا نام)

فرمایا: ’’غرض ناصرہ اور اسلام پور قاضی کا لفظ ایک بڑے پُر معنی نام ہیں جو ایک ان میں سے روحانی سرسبزی پر دلالت کرتا ہے(ناصرہ) اور دوسرا روحانی فیصلہ پر (مسیح موعود کا بطور حکم آنا) جو مسیح موعود کا کام ہے۔‘‘

پھر فرمایا: ’’اے عالی جناب قیصرہ ہند مجھے خدا تعالیٰ کی طر ف سے علم دیا گیاہے کہ ایک عیب مسلمانوں میں اور ایک عیب عیسائیوں میں ایسا ہے جس سے وہ سچی روحانی زندگی سے دورپڑے ہوئے ہیں۔اور وہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں یہ دو مسئلے نہایت خطرناک اور سراسر غلط ہیں کہ وہ دین کے لئے تلوار کے جہاد کو اپنے مذہب کا ایک رکن سمجھتے ہیں ، دوسرا عیب یہ ہے کہ وہ ایسے خونی مسیح اور خونی مہدی کے منتظر ہیں جو ان کے زعم میں دنیا کو خون سے بھر دے گا۔

ان کے مقابل پر ایک غلطی عیسائیوں میں بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ مسیح جیسے مقدس اور بزرگوار کی نسبت جس کو انجیل شریف میں نور کہا گیا ہے ، نعوذ باللہ لعنت کا لفظ اطلاق کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ لعن اور لعنت عربی اور عبرانی میں مشترک ہے جس کے معنی ہیں کہ ملعون انسا ن کا دل خدا سے بکلی برگشتہ اور دور اور مہجور اور ناپاک ہو جائے۔ غرض مسلمانوں کے جہاد کا عقیدہ مخلوق کے حق میں ایک بد اندیشی ہے اور عیسائیوں کا عقیدہ خود خدا کے حق میں بد اندیشی ہے۔ سو میں کوشش کر رہا ہوں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا عقیدہ اصلاح پذیر ہو جائے اور میں شکر کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ان دونوں ارادوں میں کامیاب کیاہے۔ چونکہ میرے ساتھ آسمانی نشان اور خدا کے معجزات تھے۔ اس لئے مسلمانوں کے قائل کرنےکے لئے مجھے بہت تکلیف اٹھانی پڑی اور ہزار ہا مسلمان خدا کے عیب اور فوق العادت نشانوں کو دیکھ کر میرے تابع ہو گئے ہیں۔

اسی عیسائیوں کے عقیدہ کے رد کے لئے خدا نے میری مدد کی ہے اور بہت سے قطعی دلائل اور پختہ وجوہ سے ثابت ہو گیاہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ خدا نے ان کو صلیب پر سے بچا لیا۔ جیساکہ انجیلوں میں لکھا ہے کہ یونس نبی کا معجزہ دکھاؤں گا یعنی زندہ قبر میں داخل ہوئے اور زندہ ہی نکلے۔ پھر دلائل قاطعہ سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ کی قبر سری نگر کشمیر میں موجود ہے ۔ اس بارے میں، مَیں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ’مسیح ہندوستان میں‘ ہے۔ یہ ایک بڑی فتح ہے جو مجھے حاصل ہوئی ہے۔ اور میں جانتا ہو ں کہ جلد تر یا کچھ دیر سے اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دو بزرگ قومیں عیسائیوں اور مسلمانوں کی جو مدت سے بچھڑی ہوئی ہیں باہم شیرو شکر ہو جائیں گی اور بہت سے نزاعوں کو خیر باد کہہ کر محبت اور دوستی سے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں گی۔ چونکہ آسمان پر یہی ارادہ قرار پایا ہے۔‘‘

آخر پر حضور علیہ السلام نے پھر ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کے لیے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ جو زمین و آسمان کا مالک اور نیک کاموں کی جزا دیتا ہے وہ آسمان پر سے اس محسنہ قیصرہ ہند کو ہماری طر ف سے نیک جز ادے اور سچی اور دائمی خوشحالی جو آخرت کو ہوگی وہ بھی عطا فرمائے اور اس کو خوش رکھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button