امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ سویڈن کی (آن لائن) ملاقات
پردے کا جو حکم ہے یہ تو قرآن کریم کا حکم ہے جس طرح نماز پڑھنا قرآن کریم کا حکم ہے ایمان بالغیب قرآن کریم کا حکم ہے اور مالی قربانی کرنا قرآن کریم کا حکم ہے
امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 20؍نومبر 2021ء کو نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ سویڈن سے آن لائن ملاقات فرمائی۔
حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں قائم ایم ٹی اے سٹوڈیوز سے رونق بخشی جبکہ ممبرات لجنہ اماء اللہ نے اس آن لائن ملاقات میں ناصر مسجد Gothenburg، سویڈن سے شرکت کی۔
دوران ملاقات حضور انور نے جملہ ممبرات مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ سے گفتگو فرمائی اور ان کے شعبہ جات کے حوالہ سے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی نیز ان کے شعبہ جات کی مساعی بہتر کرنے کے حوالہ سے ہدایات سے نوازا۔
جنرل سیکرٹری سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام رپورٹس درست طور پر درج ہوں اور پھر ان پر آپ کا تبصرہ بھی جائے۔ حضور انور نے مزید فرمایا کہ جملہ رپورٹس صحیح اور حقیقت پر مبنی ہو نی چاہئیں اور ان میں مبالغہ کا کوئی عنصر نہیں ہونا چاہیے۔
دوران ملاقات حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب الوصیت کے پڑھنے پر بھرپور زور دیا اور فرمایا کہ اس کو اس قدر پڑھنا چاہیے کہ اس کے حوالے آپ کو زبانی یاد ہوجائیں اور جب لوگ اس طرح سے باشعور ہو جائیں گے تو پھر اس پر عمل بھی کریں گے۔
اس کتاب الوصیت کے بارے میں حضور انور نے فرمایا کہ الوصیت میں سب کچھ آ گیاہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی وجوہات، خلافت کا مقصد اور اس کی ضرورت و اہمیت۔ یہ نیکی اور تقویٰ کے مضمون کا بھی احاطہ کرتی ہے۔
سیکرٹری صاحبہ تربیت سے حضور انور نے استفسار فرمایا کہ آپ کی کتنی لڑکیاں ہیں جوپندرہ سال سے تیس سال تک کی ہیں اور باقاعدہ پردہ کرتی ہیں۔ انہوں نے عرض کی کہ حضور پردے میں کمی کی طرف رجحان ہے۔
اس پر حضو ر انور نے فرمایا کہ حالانکہ یہ حکم کوئی میرا یا کسی کا نہیں ہے ، پردے کا جو حکم ہے یہ تو قرآن کریم کا حکم ہے جس طرح نماز پڑھنا قرآن کریم کا حکم ہے ایمان بالغیب قرآن کریم کا حکم ہے اور مالی قربانی کرنا قرآن کریم کا حکم ہے پردہ کرنا قرآن کریم کا حکم ہے روزے رکھنا قرآن کریم کا حکم ہے۔ تمام نبیوں پہ ایمان لانا قرآن کریم کا حکم ہے یہ جو واضح حکم ہیں ان کی تو شعبہ تربیت پابندی کروائے ۔ آپ کی عاملہ ممبرات اگر پردہ پوری طرح کرنا شروع کر دیں تو عام لجنہ ممبرات بھی شروع کر دیں گی۔
پھر ایک سوال ہوا کہ وبا کے دنوں میں ہم لوگ آن لائن کلاسز کرتے رہے ہیں تو اب جب ہماری مساجد اور سینٹرز کھلے ہیں تو اس میں ہماری حاضری ابھی اس طرح نہیں ہے جیسے توقع تھی۔
حضور انور نے فرمایا کہ لوگوں کو عادت پڑ گئی ہےگھروں میں بیٹھ کے نمازیں پڑھنے کی،گھروں میں بیٹھ کے اجلاس سننے کی، گھروں میں بیٹھ کے سارے پروگرام دیکھنے کی۔ اب آہستہ آہستہ ان کے پیچھے پڑ کے ان کو لے کے آئیں نکال کے گھروں سے باہر تو ٹھیک ہو جائیں گی۔ ویسے دوبارہ کووڈ جس طرح پھیل رہا ہے مجھے امید ہے کہ سردیوں میں پھر دوبارہ restrictions لگ جائیں گی۔ اس لیے آہستہ آہستہ ان کو عادت ڈالیں اور آن لائن کا کام بھی جاری رکھیں۔ مسجد آنے کا بھی کہتی رہیں، ساتھ ساتھ توجہ دلاتی رہیں دونوں کام ساتھ ساتھ چلاتی رہیں تاکہ تربیت اور تعلیم کا کام جو بھی آپ کے پروگرام ہیں وہ نہ رکیں۔
شوریٰ کے متعلق ایک ممبر لجنہ اماء اللہ نے سوال کیاکہ ہر سال شوریٰ کی نئی تجاویز منظور ہوتی ہیں اور ان پہ کام شروع ہوتا ہے۔ اسی طرح گذشتہ سالوں کی تجاویز پر بھی کام جاری رہتا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کتنے سال تک ہم نے ان تجاویز پہ کام کرنا ہوتا ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ سوال یہ ہے کہ جو آپ تجاویز بناتی ہیں وہ عارضی تو نہیں۔ کچھ عارضی تجاویز اگر ہوتی ہیں کہ عارضی ہم نے ایک سال کے لیے دو سال کے لیے یہ کام کرنا ہے تو ٹھیک ہے۔ اگر آپ یہ تجویز بناتی ہیں کہ ہم نے تربیت کے شعبہ میں نمازوں کی عادت ڈالنی ہے قرآن کریم کی تلاوت کی عادت ڈالنی ہے تو اس میں ایک سال یا دو سال کی بات تو نہیں ہے یہ مستقل بات ہے۔ اگر آپ لوگ تجاویز جو شوریٰ میں پیش کرتے ہیں ا ور اس پر عمل، اس کو منظوری دیتے ہیں یا سفارش کرتے ہیں منظوری کی اس کے بعد اس پہ عمل بھی تو کیا کریں۔ اس پہ عمل تو ہوتا کوئی نہیں سارا سال۔ اگلے سال یا دو سال کے بعد پھر کہہ دیتے ہیں اس پہ عمل نہیں ہو رہا ہمارے میں یہی کمزوری ہے اس کو دوبارہ پیش کیا جائے۔ پھر کہہ دیتے ہیں، ردّ کر دیتے ہیں اگلے سال پیش کرنے سےاس لیے کہ جی کیونکہ یہ پچھلے سال پیش ہو گئی تھی اس لیے دوبارہ پیش نہیں ہو سکتی یا ہم کام کر رہے ہیں اس پہ انتظامی معاملہ ہے۔ یہ دیکھا کریں واقعی انتظامی معاملہ ہے کام کر رہے ہیں یا نہیں کر رہے اور تین سال کے پیش کرنے کے بجائے اگر مستقل کوشش ہو رہی ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ یہ ایک سال دو سال کی بات نہیں جو پچھلی تجاویز ہیں ان کو بھی جاری رکھنا ہے جو نئی تجاویز آ رہی ہیں ان کو بھی جاری رکھنا ہے۔ اگر ایک ہی معاملے میں تین سال کے بعد دوبارہ تجویز آتی ہے اس پہ کوئی نئی suggestion آتی ہیں تو پرانا جو طریقہ عمل ہے لائحہ عمل ہے ان میں سے جو اچھی باتیں ہیں وہ جاری رکھیں اور نئے لائحہ عمل کو بھی بیچ میں ڈال کے تو پھر اس کو آگے جاری رکھیں۔ تو یہ ایک مسلسل processہے بہت ساری باتیں ہماری جو ہیں مسلسل رہنے والی ہیں یاددہانی کے لیے ہیں۔ یہ کہنا کہ ہم نے کتنے سال جاری رکھنا ہے سالوں کی بات نہیں۔ یہ تو زندگی کا حصہ ہے جب تک انسان زندہ ہے مسلمان ایک مومن زندہ ہے اس نے نمازیں پڑھنی ہیں اللہ کا حکم ہے قرآن کریم پڑھنا ہے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے تلاوت کرو قرآن کریم کی اور اس کا مطلب یاد کریں ترجمہ یاد کریں دینی علم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں ان کو پڑھنا ہے اور تربیتی پہلو ہیں پردہ ہے اس کے بارے میں تلقین کرنی ہے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلانی ہے اس کے علاوہ بھی کوئی بہتری کے لئے خدمت خلق کی بہتری کے لئے انسانیت کی بہتری کے لیے کوئی تجاویز آتی ہیں ان کو جاری رکھنا ہے۔ تعلیم بچیوں میںرائج کرنے کے لیے پڑھانے کے لیے لجنہ کو توجہ دلانے کے لیے کہ اپنے بچوں کو کہو تعلیم حاصل کریں اس طرف توجہ دیں یہ جاری رہنے والی چیزیں ہیں تو یہ تو ایک مسلسل، عموماً وہی باتیں ہوتی ہیں جس کو ہم نے جاری رکھنا ہے یہ کہنا کہ جی تین سال ہو گئے اس لیے یہ ختم ہو گیا۔ ختم نہیں ہوا وہ تین سال میں، اس پہ آپ نے صحیح طرح عمل نہیں کیا اس لیے اس کو دوبارہ پیش کرنے کی ضرورت آ گئی۔ ٹھیک ہے۔ اگر آپ عمل کرتے رہیں ان ساری باتوں پرجو تجاویز ماضی میں آپ کی شوریٰ میں منظور ہوئیں تو آئندہ آپ کے پاس کم تجاویز آئیں گی اور عمل زیادہ ہو گا۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ جو معیار کام کا ہونا چاہیے اس طرح جاری نہیں ہے۔ اس معیار کو آپ نےحاصل کرنا ہے ۔ معیار آپ کا یہ ہے کہ سوفیصد نتیجہ۔ جس دن سو فیصد نتیجہ حاصل کر لیں گی اس دن مجھے آپ کہیں کہ ہاں ہمارا کام بڑا اچھا ہو گیا۔
ایک ممبر لجنہ نے اپنے بچوں کے متعلق سوال کیا کہ میرے دو بیٹے وقف نو میں ہیں جو بڑا بیٹا ہے وہ سکول جاتا ہے اور اس کومیں نے کہا ہے کہ آپ زیادہ کوشش کرو کہ مسلم بچوں کے ساتھ کھیلو۔
حضور انور نے فرمایا کہ نہیں ہر ایک کے ساتھ کھیلو۔ مسلم بچے کون سے بڑے نیک ہیں۔ اس پر ممبر لجنہ نے بتایا کہ جی حضور میرا تو یہ خیال تھا لیکن جب اس کو کہا جاتا ہے کہ نماز کا ٹائم ہو گیا ہے تو وہ کہتا ہے کہ باقی مسلم بچے بھی ہیں وہ تو نماز اور قرآن کریم نہیں پڑھتے۔
حضورا نور نے فرمایا کہ اسے کہو تم مسلمان ہو اس کو ہر ایک کے ساتھ رہنا ہے ہر ایک کے ساتھ interactکرنا ہے ہر ایک کے ساتھ کھیلنا ہے۔ یہ امتیاز کرنے کی ضرورت نہیں ۔ہاں یہ اس کے دماغ میں پہلے ڈالیں کہ تم ہر ایک کے ساتھ بےشک کھیلو لیکن یہ یاد رکھو کہ تم مسلمان ہو اور ہم مسلمان جو ہیں وہ نمازوں کے وقت نماز بھی پڑھتے ہیں ہمیں اللہ میاں کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات پہ خوش ہوتا ہے۔ ہمیں انعام دیتا ہے۔ کتنی عمر کے ہیں بچے؟
ممبر لجنہ نے بتایا کہ حضور میرا ایک بیٹا دس سال کا ہے ایک چھ سال کا ہے اور ایک تین سال کی بیٹی ہے۔
حضور انورنے فرمایا کہ ٹھیک ہے ان کے ذہنوں میں ڈالیں کہ دیکھو تم مسلمان ہو اور ہم مسلمان ہیں ہمارا یہ کام ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی چیزیں دی ہوئی ہیں اس کاہم شکر ادا کریں۔ اگر دوسرے نہیں کرتے تو ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے لیکن ہم احمدی مسلمان ہیں اور ہمیں اپنا اچھا نمونہ دکھانا چاہیے اور یہی باتیں تم اپنے دوستوں کو بھی بتاؤ کہ جب ہم کھیلتے ہیں سارا کچھ کرتے ہیں پڑھتے ہیں لیکن جب نماز کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے ان کے ذہنوں میں یہ بھی ڈالتے جائیں کہ تمہاری ایک اہمیت ہے ایک احمدی مسلمان بچہ ہونے کی حیثیت سے۔ اس لیے تمہارا ایسا کام ہے جب نمازوں کا وقت آئے تو تم نے اپنے دوستوں کو بتا کے نماز پڑھنی ہے پھر دوبارہ کھیلنے لگ جاؤ اس سے ان کے دوستوں پر بھی اچھا اثر ہوگا کہ ہاں تھوڑی دیر شاید کچھ ایسے بھی ہوں جو مذاق اڑائیں تو ان سے کہنا کوئی اگر تمہارا مذاق بھی اڑائے تو تم نے اس کا برا نہیں منانا یا شرمندہ نہیں ہونا کیونکہ دین جو ہے ہمارا اصل چیز ہے۔ تو بچوں کو گھروں میں کوئی وقت لگایا کریں ناں آدھا گھنٹہ ان کی تربیت کریں ان کے ساتھ دوستانہ ماحول پیدا کریں تو وہ آپ کی باتیں سنیں گے بھی اور بات مانیں گے بھی۔ یہ تو depend کرتا ہے کتنے تعلقات ہیں آپ کے بچو ں کے ساتھ۔ اگر صرف کھانا دے دیا ان کو اور کہہ دیا جا کے سو جاؤ اور دبکا شبکا مار دیا اور تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گئے ان کے لیے تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جب بیٹھیں تو ماں باپ دونوں کا کام ہے کہ بچوں سے دوستانہ ماحول میں ڈسکشن کریں اور پوچھیں آج سکول میں تم نے کیا کیا۔ کیا پڑھا کیسا ماحول گزرا کن بچوں سے کھیلے کیا کھیلے کس طرح ہوا ان کی ایکٹویٹیز میں حصہ لیں جو اچھے کام انہوں نے کیے اس پہ ان کوencourage کریں ان کو appreciate کریں ۔ تو اس طرح پھر آپ سے دوستانہ ماحول بھی ہو گا اور ہر بات جو ہے وہ آپ کو آکے بتائیں گے بھی اور آپ کی باتیں مانیں گے بھی۔
حضور انور نے سیکرٹری محاسبہ کو ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ انہیں بڑی تفصیل سے اخراجات کو چیک کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ وہ ٹھیک جگہ خرچ ہو رہے ہوں تاکہ ان چندوں کو بہترین رنگ میں استعمال کر کے ان کے مقاصد کو حاصل کیا جا سکے۔
12 سال سے بڑی ممبرات ناصرات الاحمدیہ کی دینی اور دنیاوی تعلیم کے خیال رکھنے کی اہمیت کے حوالہ سے حضور انور نے خاص توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اگر 12 سے 15 سال تک کی بچیوں کے اندر یہ بات پیدا ہو جائے کہ وہ احمدیہ مسلم جماعت کی روایات کو اپنائیں گی اور حجاب کریں گی اور اگر وہ احمدیہ مسلم جماعت کو سمجھنا شروع کر دیں، اس کی روایات اور عقائد کو اور اس بات کو کہ ہم کیوں احمدی ہیں ، مذہب کیا ہے، اسلام اور قرآن ہمیں کیا سکھاتا ہے اور ہم کس طرح اس پر عمل پیر ا ہو رہے ہیں ، اگر اس عمر میں یہ ان سب باتوں کو سیکھ لیں اور سمجھ لیں پھر وہ بڑی عمر میں بھی ان باتوں میں ثابت قدم رہیں گی۔
سیکرٹری صحت جسمانی کو ہدایات سے نوازتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو اس شعبہ کے تحت اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ جملہ ممبرات لجنہ اماء اللہ مستقل ورزش کریں اور یہ کہ ممبرات مجلس عاملہ اپنے مثالی نمونے قائم کریں اور دو سے تین میل کی روزانہ سیر کیا کریں۔
ایک ممبر لجنہ اماءا للہ نے سوال کیا کہ حضور انور راہنمائی فرمائیں کہ رشتے ڈھونڈتے ہوئے کیسے دین کو دنیا پر ترجیح دینے کی طرف توجہ دلائی جائے؟
حضور انور نے فرمایا کہ ہمیں بہترین اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے۔ شعبہ تربیت کو نوجوان خواتین اور ماؤں کی اخلاقی طور پر راہنمائی کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے دین کو ترجیح دیں۔ اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ کو بھی راہنمائی کرنی چاہیے اور نوجوان لڑکوں کی تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ بھی اپنے دین کو ترجیح دینے والے ہوں۔ انہیں اچھی تعلیم حاصل کرنے کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہو کہ تم صرف دینی تعلیم میں ہی آگے بڑھو۔ بلکہ تمہیں دنیا کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے یعنی دنیاوی تعلیم کی طرف بھی۔ تاہم دنیا کو ترجیح مت دو۔ اپنے دین کو ترجیح دو۔ ان کی اچھی نوکریاں ہونی چاہئیں لیکن ساتھ ساتھ انہیں دینی لحاظ سے بہت اچھا ہونا چاہیے اور نمازوں کا پابند ہونا چاہیے اور اپنے دین سے مکمل آگاہی ہونی چاہیے اور احمدیہ مسلم جماعت کے ساتھ پوری طرح وابستہ ہونا چاہیے۔ یہ وہ معیار ہے جو لڑکوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہ بھی ماؤں کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ وہ بھی اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں۔
٭…٭…٭