دعا

تصوف کی ایک کتاب میں مذکوراللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے مانگنے کی وضاحت

سوال: ایک خاتون نے محمد بن عبدالجبار النفری کی کتاب ’’المواقف‘‘کی عبارت

’’اُدْعُنِیْ فِیْ رُوْیَتِیْ وَلَا تَسْئَالْنِیْ، وَ سَلْنِیْ فِیْ غَیْبَتِیْ وَلَا تَدْعُنِیْ‘‘

(یعنی میرے دیکھنے کی حالت ہوتے ہوئے مجھ سے دعا کرو مگرمجھ سے مانگو نہیں اور میرے غائب ہونے کی حالت میں مجھ سے مانگو اور مجھ سے دعا نہ کرو)حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کر کے دریافت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اور اس سے مانگنے میں کیا فرق ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 02؍جولائی 2020ء میں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ارشاد فرمایا۔ حضور نے فرمایا:

جواب: تصوف کی مذکوہ بالا کتاب میں بیان یہ عبارت نہ تو قرآن کریم کا کوئی حکم ہے اور نہ ہی کسی حدیث پر مبنی اصول ہے۔یہ اس کتاب کے مصنف کی بیان کردہ ایک عبارت ہے۔

قرآن کریم اور احادیث میں دعا کرنے اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرنے میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے

ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔

اس میں اللہ تعالیٰ نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری دعا کسی سوال پر مبنی نہیں ہونی چاہیے۔

پھر ایک حدیث قدسی میں حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر رات کے آخری تہائی حصہ میں نچلے آسمان پر اترتا ہے اور اعلان کرتا ہے

مَنْ يَّدْعُونِي فَأَسْتَجِيْبَ لَهُ مَنْ يَّسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ۔

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ ایک ہی موقع پر دعا کرنے اور سوال کرنے دونوں کا حکم فرما رہا ہے۔

پھر حدیث میں ہی حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ سجدے کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لیے اس موقع پر کثرت سے دعا کیا کرو۔ اس میں بھی حضورﷺ نے ایسی کوئی ممانعت نہیں فرمائی کہ تمہاری یہ دعا کسی سوال پر مبنی نہیں ہونی چاہیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے کلام میں ہمیں یہی نصیحت فرمائی ہے کہ ہمیں اپنی دینی و دنیوی تمام ضرورتیں اللہ تعالیٰ کے حضور ہی عرض کرنی چاہئیں۔ چنانچہ اپنے ایک شعر میں آپؑ فرماتے ہیں:

حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر

کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے

پھر مذکورہ بالا کتاب میں درج عبارت کے حوالے سے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ کب سامنے نہیں ہوتا؟ وہ تو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے۔

پس میرے نزدیک اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے اوراس سے سوال کرنے میں کوئی فرق نہیں۔علمی حد تک زیادہ سے زیادہ اس فقرہ کی یہ تشریح ہو سکتی ہے کہ چونکہ انسان کو جب کسی کے موجود ہونے کا ڈر ہو تو وہ برائی کرنے سے احتراز کرتا ہے۔ چنانچہ موجودہ دَور میں سی سی ٹی وی کیمروں کی مثال اس کی ایک بین دلیل ہے۔ اس لیے جب کبھی انسان کے دل میں یہ خیال آئے کہ اسے کوئی نہیں دیکھ رہا اور شیطان اسے کسی برائی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے تو اسی وقت اسے اپنے ایمان کے بارے میں فکر مند ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور اپنے ایمان کی سلامتی کےلیے اسی کے در کا سوالی بن کر اس کے سامنے جھک جانا چاہیے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button