ختم نبوت کے کیا معنی ہیں؟ کیا امتی نبی کے آنے کادروازہ کھلا ہے؟
(قسط اوّل)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’ایسا ہی چاہئے کہ نہ تو ختمِ نبوت آنحضرت صلعم کا انکار کریں اور نہ ختم نبوت کے یہ معنے سمجھ لیں جس سے اِس امّت پر مکالمات اور مخاطبات الٰہیہ کا دروازہ بند ہوجاوے۔ اور یاد رہے کہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آخری کتاب اور آخری شریعت قرآن ہے اور بعد اس کے قیامت تک ان معنوں سے کوئی نبی نہیں ہے جو صاحبِ شریعت ہو یا بلاواسطہ متابعت آنحضرت صلعم وحی پاسکتا ہو بلکہ قیامت تک یہ دروازہ بند ہے اور متابعت نبوی سے نعمتِ وحی حاصل کرنے کے لئے قیامت تک دروازے کھلے ہیں۔ وہ وحی جو اتباع کا نتیجہ ہے کبھی منقطع نہیں ہوگی مگر نبوت شریعت والی یا نبوّت مستقلہ منقطع ہو چکی ہے‘‘(ریویو بر مباحثہ بٹالوی چکڑالوی، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 213)
ختم نبوت کے اس واضح مفہوم اور معنی کو بیان کرنے اور ماننے کے بعد بھی غیر احمدی علماء کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ احمدی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی ختم نبوت کا مطلقاً انکار نہیں کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ختم نبوت کا جو مفہوم بیان فرمایا ہے وہی مفہوم ان غیر احمدی علماء کے بڑے بزرگ اپنی کتب میں تحریر کرتے رہے ہیں۔
امام محمد بن عبد الرسول الحسینی البرزنجی اپنی کتاب ’’کتاب الاشاعۃ ‘‘میں لکھتے ہیں کہ
’’وَ أَمَّا حَدِیْثُ لَا وَحْيَ بَعدِی، بَاطِل لَا أَصْلَ لَہٗ نَعْم وَرَدَ لَانَبِيّ بَعْدِيْ وَ مَعْنَاہٗ عِنْد الْعُلَمَاء أَنَّہٗ لَا یحْدِثُ بَعدَہٗ نَبِيّ بِشَرْعِ یَنْسَخُ شَرْعَہٗ‘‘
(کتاب الاشاعۃ لاشراط الساعۃ ازامام محمد بن عبد الرسول الحسینی البَرَزَنْجِی۔ صفحہ 225 طبع ثانیہ، دارالہجرۃ دمشق، 1995ء)اور جو حدیث ہے کہ میرے بعد وحی نہیں ہے یہ باطل ہے اور اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ہاں البتہ یہ آیا ہے کہ میرے بعد نبی کوئی نہیں جس کے معنی علماء کے نزدیک یہ ہیں کہ کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جس کی شریعت نبی اکرمﷺ کی شریعت کو منسوخ کردے۔
امام جلال الدین سیوطی (پیدائش: 2؍اکتوبر 1445ء، وفات: 17؍اکتوبر 1505ء)جو ایک مفسر، محدث، فقیہ اور مؤرخ تھے۔ آپ کئی کتب کے مصنف ہیں جن کی تعداد 500 سے زائد ہے۔ ’’تفسیر جلالین‘‘ اور ’’تفسیر درمنثور‘‘ کے علاوہ قرآنیات پر ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ علماءمیں کافی مقبول ہے۔ اس کے علاوہ تاریخ اسلام پر ’’تاریخ الخلفاء‘‘ مشہور ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ
’’قَالَ زَاعِم: اَلدَّلِیْلُ عَلَیْہِ حَدِیْث لَا نَبِیَّ بَعد (قُلْنَا) یَا مسْکِیْن لَا دَلَالَۃَفِی ھذَا الْحَدِیثِ عَلٰی مَا ذُکِرَتْ بِوَجْہٍ مِّنَ الْوُجُوْہِ لِأَنَّ الْمُرَادَ لَا یُحْدِثُ بَعْدَہ بُعِثَ نَبِیّ بِشَرْعٍ یَنْسَخُ شَرْعَہٗ کَمَا فَسَّرَہٗ بِذٰلِکَ العُلَماء‘‘
(الحاوی للفتاوی فی الفقہ از جلال الدین السیوطی الجزو الثانی صفحہ 166 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1983ء)ایک زعم کرنے والا کہتا ہے کہ اس پر حدیث لا نبی بعد دلیل ہے۔ ہم نے کہا کہ اے مسکین جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان کی بنا پراس حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کیونکہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اُن کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو ان کی شریعت کو منسوخ کردے۔ پس علماء نے اس کی یہی تفسیر کی ہے۔
امام عبد الوہاب الشعرانی جو عظیم صوفی بزرگ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں صوفیاء انہیں قطب ربانی کہتے ہیں۔ آپ مصر میں 897ھ بمطابق 1493ء میں پیدا ہوئےاور 973ھ بمطابق1565ءقاہرہ میں وفات پائی۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’اور اجزائے نبوت میں سے یہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے امت پر باقی رکھا ہے کیونکہ مطلقاً فیض نبوت مرفوع نہیں ہوا۔ نبوت شریعت مرفوع ہوئی ہے…اور حضورﷺ کے اس ارشاد کہ فلا نبی بعدی ولا رسول کا مفہوم یہ ہے کہ میرے بعد کوئی اور شریعت جاری کرنے والا نہیں ‘‘(الیواقیت والجواہرفی بیان عقائد الاکابر از عبدالوہاب الشعرانی۔ اردو ترجمہ از صاحبزادہ پیر سیّد محمد محفوظ الحق۔ صفحہ410تا411نوریہ رضویہ پبلیکیشنز لاہور )
(جاری ہے)
(مرسلہ: ابن قدسی)
٭…٭…٭