احمدیہ اسٹیٹس کے سنہری دَور کا اختتام (قسط پنجم۔ آخری)
زرعی اصلاحات کا نفاذ اور نیشنلائزیشن کی پالیسی
اراضئ سندھ اور تعلیمی ادارے سرکاری تحویل میں لینے پر جماعت احمدیہ کا پروقار رد عمل اور عالمگیر ترقیات
پاکستان کے عزت و وقار کی خاطر احمدیوں نے اپنے جذبات اور احساسات کی قربانی بخوشی قبول کر لی
1970ء کی دہائی تاریخ پاکستان میں غیر معمولی ہنگامہ خیزی، انتشاروافتراق اوراندرونی کشمکش کے حوالے سے ہمیشہ یادرکھی جائے گی۔ 1970ء میں پاکستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے۔ 1971ء میں ملک دو لخت ہوگیا اور بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ 1973ء میں پاکستان کے پہلے متفقہ آئین کا نفاذ کیا گیا،1974ء میں اس آئین میں ترمیم کرتے ہوئے جماعت احمدیہ مسلمہ کو پاکستانی پارلیمان نے غیر مسلم قرار دےدیا۔ 1977ء میں ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے آئین معطل کردیا اور 1979ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دےد ی گئی۔
1970ء کی انتخابی مہم کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے زرعی اصلاحات کے نفاذ اور صنعتوں وتعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دسمبر 1971ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد یکم مارچ 1972ء کو صدر مملکت ذوالفقار دعلی بھٹو نے ریڈیو پاکستان سے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے زرعی اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کیا۔ یہ قانون پاکستان میں The 1972 Land Reformsکہلاتا ہے۔اس قانون کی رُو سے یہ اعلان کیا گیا کہ
An Individual can under no circumstances own or possess land in excess of 150 acres of irrigated land, or 300 acres of unirrigated, or a combination of irrigated land and unirrigated land, the aggregate area of which exceeds the equivalent of 150 acres of irrigated land (one acre of irrigated land being equated to two acres of unirrigated land).
بھٹوکی ان زرعی اصلاحات کے تحت بارانی زمین کی حد 150 ایکڑ اور غیر بارانی زمین کی حد 300 ایکڑ مقررکی گئی۔ پالیسی کے نفاذ کے لیےایک فیڈرل لینڈکمیشن بنایا گیا۔ اور پیپلز پارٹی کے بانی رکن شیخ محمد رشید کو اس کمیشن کا چیئر مین مقرر کیا گیا۔
ان اصلاحات کا مقصد ملک سے جاگیردارانہ نظام اور وڈیرہ شاہی کا خاتمہ بیان کیا گیا۔ وراثت میں خواتین کو حصہ دینے کی بات ہوئی اور سرداری نظام کے ماتحت غریبوں کا ظلم و استحصال ختم ہوجانے کی نوید سنائی گئی۔ اسی طرح پاکستان کے غریب او رمحنت کش ہاریوں و کسانوں کو ملکیتی حقوق دینے کے خواب دکھائے گئے۔
ممکن ہے جماعت کے بعض مخالفین اور حاسدین کی یہ سوچ ہو کہ احمدیت کی تبلیغ و ترقی کا انحصار ان زمینوں پر ہی ہوسکتا ہے۔ بعض طبائع کو یہ فکر لاحق ہوئی ہو کہ سالہا سال کی محنت شاقہ کے نتیجے میں آباد کیا جانے والا گلشن ویران ہوگیا تو اس سے جماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔مبادااحمدی احباب میں سے بعض اس فکر وخیال میں مبتلا ہوں کہ زمینوں کے حکومتی تحویل میں چلے جانے اور تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے کے نتیجے میں اشاعتِ اسلام کی عالمگیر مہم کو کوئی دھچکا لگے گا ، حکومت وقت کی طرف سے زرعی اصلاحات کے نفاذ کا اعلان ہوتے ہی سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ نے نہایت انشراح صدراور بشاشت سے لبریز الفاظ میں پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم خیال کرتے ہوئےیہ اعلان فرمایا کہ ’’اگرچہ زرعی اصلاحات کے اعلان سے چند ہزار آدمیوں کو چبھن ضرور ہے۔ ان کو تکلیف ضرور ہوگی۔ لیکن انہیں چاہیے کہ اس تکلیف کا اندازہ لگائیں جو اس وقت کروڑوں آدمیوں کو لاحق ہے اور پھر اس نئے انتظام میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے۔ لوگوں کی ساری تکلیفیں دور نہیں ہوں گی اور نہ ہی عقلاً دور ہوسکتی ہیں۔ آپ کسی کاغذ پر حساب لگا کر دیکھ لیں کہ کتنے آدمیوں میں زمین تقسیم ہونی ہے اور ان کو کتنی زمین ملے گی۔ بڑی تھوڑی زمین ملے گی کیونکہ اب بھی ایک بڑا یونٹ جو باقی رکھا گیا ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍مارچ 1972ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 75)
قومی مفاد کو مقد م رکھنے کی نصیحت
تاریخ احمدیت کے مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ جماعت کے لیے خلیفۂ وقت کا وجودہرلمحہ اور ہر گھڑی رحمت و برکت کا منبع ثابت ہوا ہے۔ جماعت پر جب بھی کسی خوف یا ابتلاکا وقت آیا خلافت کی نعمت کی بدولت خوف امن میں بدلتا رہا اور خلفاء کی دعائیں احمدیوں کو سکینت عطا فرماتی رہیں۔ خدا داد فراست اور راہ نمائی کے ساتھ ساتھ توکل علیٰ اللہ سے لبریز قلب و روح کی بدولت خلیفۂ وقت کے الفاظ ہمیشہ ہر خوف اور ابتلاکے وقت میں گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتے اور مغموم دلوں کا سہارا بنتے رہےزرعی اصلاحات کے نفاذ کے وقت جب اس علاقے میں بسنے والے احمدی احباب کے دل ملول ہوئے اور انہیں اپنے ہاتھوں سے سینچا ہواایک آباد گلشن ویران ہوتا محسوس ہوا تو امامِ وقت کا وجود محزون دلوں کی ڈھارس ثابت ہوا۔ حضورؒ نے احمدی احباب کو نہایت شفقت و محبت سے فرمایا: ’’ان چند ہزار لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ جو زمین تمہارے پاس باقی رہ گئی ہے اس سے تم زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاؤ۔ اگر تم زیادہ سے زیادہ محنت زیادہ سے زیادہ توجہ اور زیادہ ہوشیاری سے سرمایہ لگا کر اور کھا د دے کر اور پانی کا بہتر انتظام اور نگرانی کرکے اُس کی آمد دس گنا تک لے جاؤ تو اس طرح گویا تمہاری زمین 150 ایکڑ سے دس گنا بڑھ گئی یعنی 1500 ایکڑ ہوگئی اور اسی طرح اگر تم اپنی آمد بیس گنا تک لے جاؤتو تو پھر تو تم تین ہزار ایکڑ کے مالک بن گئے اب زمین کو تو کسی نے چاٹنا نہیں۔ زمین کا مطلب وہ آمد ہے جو اس سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہ چند ہزار لوگ اپنی باقی زمین بخوشی حکومت کے حوالے کر دیں تو اس سے قوم کو بھی فائدہ ہے اور ذاتی طور پر ان کو اور ان کے خاندان کو بھی فائدہ ہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍مارچ 1972ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 75)
زرعی اصلاحات کےنفاذ کے بعد جماعت اور حضور کے خاندان کی ہزاروں ایکڑ اراضی حکومتی تحویل میں چلے جانے کے،باوصف جماعت کی طرف سےکوئی قانون شکنی سامنے آئی نہ کوئی مظاہرہ اور فساد برپا ہوا بلکہ اپنے مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دینے کی خاطر ہر قسم کی تکلیف اور قربانی کو بخوشی قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے حضورؒ نے فرمایا: ’’ان زرعی اصلاحات سے چھ کروڑ کے اس ملک میں چند ہزار آدمیوں کو (یعنی وہ لاکھوں بھی نہیں ہوں گے بلکہ ہزاروں میں گنے جا سکتے ہیں ) تھوڑی سی تکلیف ہوگی۔ انہیں اپنے بھائیوں اور پاکستان کی مضبوطی کی خاطر یہ تکلیف برداشت کرنی ہوگی‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍مارچ 1972ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 76)
حکومتِ وقت سے تعاون اور خدا تعالیٰ پر توکل کی نصیحت
تحریک پاکستان کا موقع ہو یا اس کے دفاع اور استحکام کا مسئلہ، جماعت احمدیہ خلفائےاحمدیت کی سیادت و راہ نمائی میں، حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہمیشہ صفِ اوّل میں نظر آئی ہے۔ زرعی اصلاحات کے نفاذ کی پالیسی ملک سے جاگیردارانہ نظام کے خاتمہ اور غریب عوام کو حقِ ملکیت دینے کے اعلانات پر مبنی تھی۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کی اکثریت، نیز خانقاہوں اور مذہبی اداروں کی بہت بڑی تعداد اپنے حق ملکیت سے دستبردار ہونے کو تیار نہ ہوئی مگر جماعت احمدیہ نےاپنے محبوب امام کی پیروی میں، پاکستان کے قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے نہایت بشاشت سے اس فیصلہ پر سرتسلیم خم کیا ۔حضورؒ نے اپنی جماعت کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’…میں اپنے بھائیوں کو ضرور مخاطب کرنا چاہتا ہوں۔ انہیں چاہیے کہ وہ بشاشت کے ساتھ حکومت کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ اگر آپ نے اس ملک کے شہری کی حیثیت سے با عزت زندگی گزارنی ہے تو اس ملک کو باعزت اور مضبوط بنانا پڑے گا اس کے لئے اگر تمہیں کوئی قربانی دینی پڑے تو تم ہنسی خوشی اور بشاشت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ قربانی دےدو اسی میں اللہ تعالیٰ برکت پیدا کرے گا۔ اُس پر توکل تو کرکے دیکھو تم نے کب اللہ تعالیٰ پر توکل کیا اور اس نے تمہاری انگلی چھوڑ دی؟‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍مارچ 1972ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 77)
پاکستان کی عزت میں ہی ہماری عزت ہے
پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی پہلی عوامی حکومت نے غریب عوام، کسانوں اور محنت کشوں کی فلاح و بہبود کے نام پر جن اقدامات کا اعلان کیا، بعد ازاں تاریخ نے ثابت کیا کہ وہ محض زبانی اعلانات اور کھوکھلے نعرے تھے لیکن چونکہ مقاصد یہ تھے کہ ان اقدامات سے پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا دَوردورہ ہوگا اور غریب عوام عزت و سکون سے زندگی بسر کرسکیں گے لہٰذا پاکستان کے عزت و وقار کی خاطر احمدیوں نے اپنے جذبات اور احساسات کی قربانی بخوشی قبول کر لی۔
حضورؒ نے محزون دلوں اور زخمی قلوب کو تسلی دیتے ہوئے قوی اور امین بننے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’آپ امین بنیں او ر قوی بنیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے گا۔ آپ بھوکے نہیں رہیں گے۔ آپ عزت کے ساتھ عزت کی روٹی کھائیں گے اور عزت کی زندگی گزاریں گے کیونکہ یہ سمجھنا کہ چند ہزار آدمیوں کی عزت ہو اور چند کروڑ بے عزت رہیں اور قابل نفرت سمجھے جائیں یہ غلط ہے یہ سمجھنا کہ اس طرح ان کی عزت قائم رہتی ہے یہ حماقت ہے۔ اگر دنیا کی نگاہ میں پاکستان کی عزت نہیں ( کیونکہ تم تو دنیا کو دیکھتے ہو) تو تمہاری عزت بھی نہیں خواہ ارب ہا روپیہ تمہاری جیب میں کیوں نہ ہو اور اگر تمہارے اصول کے مطابق دنیا کی نگاہ میں پاکستان قوی اور باعزت بن جائے اور عزت و احترام کا اپنا حق دنیا سے لینے کے قابل ہو تو پھر تمہاری بھی عزت ہے ورنہ تمہاری کوئی عزت نہیں۔
میں اپنے احمدی دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک عزت ملی ہے، اُس کو کھو نہ دینا اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ فرمایا ہے کہ میرا کہا مانو گے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ عزت دوں گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ3؍مارچ 1972ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 77تا78)
کیا جماعت کو حکومتی پالیسیوں کی کامیابی کا یقین تھا؟
نہایت بشاشت اور انشراح صدر سے حکومتِ وقت سے تعاون کے اعلان کے باوجود حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ اس خطرے کو محسوس فرما رہے تھے کہ عوام کی فلاح و بہبود کا نعرہ بظاہر بہت خوبصورت اور دل آویز ہے لیکن کیایہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت تھا۔ حضورؒ نے پیش آمد ہ خدشات کی بروقت نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’جہاں تک انتظامیہ کی کارکردگی کا تعلق ہے اس میں دو برائیاں پیدا ہوسکتی ہیں جن سے بچنے کے لئے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو ان سے محفوظ رکھے۔ ایک برائی یہ پیدا ہوسکتی ہے کہ جو عزم کا عملی حصہ ہے یعنی پختہ ارادہ کو پوری سنجیدگی اور ساری طاقت کے ساتھ عملی جامہ پہنانا اس میں کوئی کمزوری نہ پیدا ہوجائے…کیونکہ کوئی بھی دلی ارادہ اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ حسن عمل نہ ہو۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍اپریل 1972ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 179)
قومی وحدت کی خاطر قربانی کے لیے تیار جماعت
زرعی پالیسی کے نفاذ کے نتیجے میں جماعت کی ہزاروں ایکڑ اراضی قومی تحویل میں لے لیے جانے اور نہایت کامیاب تعلیمی ادارے قومیائے جانے کے بعد بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عشق ومحبت میں پروان چڑھنے والی جماعت اپنے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارک کی روشنی میں زمینوں اور جائیدادوں سے تو دستبردار ہوگئی مگر جذبۂ حب الوطنی میں کوئی کمی نہ آنے دی کوئی باغیانہ روش اور فاسدانہ خیال سامنے نہ آیا بلکہ ہمہ قسم کے دلی حزن و ملال کے باوصف اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوتے ہوئے اور توکل علیٰ اللہ کا شاندار نمونہ پیش کرتے ہوئے حضورؒ نے اعلان فرمایا کہ ’’پس وہ لوگ جو…وحدت اسلامی کو کمزور کرنے کی خاطر آج باتیں بنا رہے ہیں اُن کو ہم یہ کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وزیر اعظم بھٹو کی قیادت میں حکومتِ پاکستان اہلِ پاکستان سے جس قسم کی قربانی لینا چاہتی ہو اس میں جماعت احمدیہ نہ صرف یہ کہ دوسروں سے پیچھے نہیں رہے گی بلکہ یہ ثابت کردے گی کہ وہ ان قربانیوں میں دوسروں سے کہیں آگے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور اس کی بشارتوں پر ایمان رکھتے ہیں‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ19؍اکتوبر 1973ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 261تا262)
اپنے زخموں اور تکالیف کو بھلاتے ہوئے امام جماعت احمدیہ کے پیش نظر وہ غم وحزن تھے جن سے پاکستان مسلسل دوچار چلا آرہاتھا۔
ایک موقع پر حضورؒ نے نہایت درد دل سے یہ اظہار فرمایا کہ ’’پاکستان کو قائم ہوئے قریباً پچیس سال ہونے کو ہیں۔ اس عرصہ میں بڑی ہی تلخیاں نظر آتی ہیں۔ ایک حسّاس دل ان تلخیوں کو ا بھی بھولا نہیں۔ خدا کرے کہ ان تلخیوں کے بھلانے اور ان زخموں پر مرہم لگنے کے سامان پیدا ہوجائیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 21؍اپریل 1972ء مطبوعہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 171)
پاکستانی عوام کی بہتری کی خاطرحکومتی پالیسیوں کی کامیابی کے لیے دعائیں
حکومتِ وقت کی پالیسیوں پر نہایت بشاشت اور شرح صدر سے تعاون کے اعلان کے باوجود حضورؒ کی دور بین نگاہیں آنے والے حالات سے بخوبی واقف تھیں۔ آپ اس بات کے لیے سخت متفکر تھے کہ کہیں یہ نعرے محض زبانی قول و قرار ثابت نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستانی عوام کے یہ خواب ادھورے رہ جائیں۔ چنانچہ حضورؒ نے جماعت کو دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: ’’جماعت کو یہ دعا کرتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے۔ ہمارے وہ مظلوم، غریب اور مستحق بھائی جن کے حقوق کی ادائیگی کے سامان پیدا ہونے کا امکان ہمیں افقِ سیاست پر نظر آرہا ہے اُن کے حقوق کی حفاظت کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ میسر آجائیں یعنی مشاورت کے بعد صحیح عزم کا ہونا۔ پھر عزم کے دونوں پہلوؤں کا پایا جانا پھر عزم یعنی پختہ ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تکبر اور غرور کا پیدا نہ ہونا یعنی اپنے نفس پر، یا اپنی فراست پر یااپنے علم پر یا اپنے تجربہ پر یا اپنی استطاعت پر یا اپنی دولت پر بھروسہ اور تکیہ نہ کرنا بلکہ محض اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا اور یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی کامیابی عطا ہوتی ہے۔ خدا کرے کہ ہمارے مظلوم بھائیوں کی خاطر ہماری موجودہ حکومت کو یہ سامان میسر آئیں اور خدا کرے کہ ہمارے غریب اور مظلوم بھائیوں کے اندھیروں کے دن حقیقتاً ختم ہوجائیں۔ یہ محض زبانی نعرے نہ ہوں کہ ظلمت دور ہوگئی اور نور آگیا بلکہ ہر گھر میں اس نور کا اُجالا ہو جائے۔ اسلام نے ہر انسان کے جوحقوق قائم کئے ہیں خدا کرے ان حقوق کی شمعیں ہر گھر میں روشن ہو جائیں اور ہمارے ملک میں خوشحالی و خوش بختی اور روشنی و روشن خیالی کے سامان پیدا ہوجائیں اور ہر ایک آدمی کو اپنی ذمہ داریوں کے کما حقہ نباہنے کی توفیق ملتی رہے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ21؍اپریل 1972ءمطبوعہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 180)
زرعی اصلاحات کے نفاذ پر پچاس سال او رایک مختصرتجزیہ
پیپلز پارٹی کی 1972ء کی زرعی اصلاحات کی پالیسی اور تعلیمی اداروں کو قومیائے جانے کے فیصلے کاغیر جانبدارانہ تجزیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی عوام کو خوشحالی اور ترقی کے جو خواب دکھلائے گئے وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ پاکستانی معیشت کی حالتِ زار، ملک کی تعلیمی صورت حال اور زراعت کی زبوں حالی اس بات کا اعلان ہے کہ یا تو یہ پالیساں بری طرح ناکام ہوگئیں یا ان کے نفاذ میں نیک نیتی اور اخلاص کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔
پاکستان سے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہو سکا نہ مزدوروں اور کسانوں کی حالتِ زار میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی۔ 1972ء سے2021ء تک تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد ان پالیسیوں کی کامیابی اور ناکامی پر کچھ تحریر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہر گزرتا دن ترقئ معکوس کا سفر اور رجعت قہقری معلوم ہوتا ہے۔ صورت حال کی وضاحت کے لیے چند تجزیہ نگاروں کے تبصرے پیش خدمت ہیں۔
جناب قیوم نظامی لکھتے ہیں کہ ’’ذوالفقار علی بھٹو شہید نے پی پی پی کے انقلابی منشور کی روشنی میں زرعی اصلاحات نافذ کیں۔ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید مرحوم نے فیڈرل لینڈ کمیشن کے چیئرمین کی حیثیت سے زرعی اصلاحات پر عملدرآمد کی پوری کوشش کی مگر صوبوں میں جاگیردار طبقے سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعلیٰ نے زرعی اصلاحات پر مکمل طور پر عملدرآمدنہ ہونے دیا۔ جاگیردار ایک بار پھر مختلف حیلوں اور بہانوں سے اپنی زمینیں بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ جاگیردار اس قدر طاقت ور ہیں کہ انہوں نے جنرل ضیاءالحق کے دور میں فیڈرل شریعت کورٹ سے یہ فیصلہ لے لیا کہ زرعی اصلاحات غیر اسلامی ہیں اس فیصلے کے بعد علماءنے بھی مصلحت کے تحت چپ سادھ لی۔‘‘
( روزنامہ نوائے وقت 23؍اگست 2012ء)
ظہیر اختر بیدری صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ’’بھٹو کی زرعی اصلاحات بھی کاغذی زرعی اصلاحات تھیں اور پیپلزپارٹی سے ترقی پسند رہنماؤں کی علیحدگی کے بعد چونکہ فیڈرل طاقتور ہوگیا تھا، سو اس نے بھٹو کی زرعی اصلاحات کو کاغذی زرعی اصلاحات بناکر رکھ دیا۔‘‘
( روزنامہ ملت مورخہ 8؍دسمبر2016ء)
آصف جیلانی نے اس صورت حال کا تجزیہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی زرعی اصلاحات کی کوشش کی گئی اور زیادہ سے زیادہ اراضی کی ملکیت ایک سو ایکڑ مقرر کی گئی لیکن اُس زمانے میں بہت کم اراضی زمینداروں سے ضبط کر کے بے زمین کسانوں میں تقسیم کی گئی اور جب بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل ضیاء برسراقتدار آئے تو بڑے بڑے جاگیرداروں نے زرعی اصلاحات کے خلاف وفاقی شریعت عدالت سے رجوع کیا جس نے زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دیا اور ایوب خان اور بھٹو کے ادوار کی زرعی اصلاحات کو کالعدم قرار دے دیا اور جاگیرداری نظام بھرپور طریقے سے پاکستان کی معیشت اور سیاست پر مسلط ہوگیا۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت پانچ فی صد جاگیردار خاندان پاکستان کی دو تہائی زرعی زمین پر قابض ہیں۔‘‘
(روزنامہ جسارت مورخہ12؍مارچ 2020ء)
آج کی معروضی صورت حال یہ ہے کہ زرعی اصلاحات کے ان قوانین کے باوجود150؍ایکڑ سے بڑے رقبے پر مشتمل پاکستان کی 30فیصد زرعی اراضی محض 0.5فیصد زمینداروں کی تحویل میں ہےاور غریب کسانوں اور ہاریوں کی حالتِ زار ہنوز جوں کی توں ہے۔
جناب اکمل حسین اپنے تحقیقی مقالہ Land reforms in Pakistan: A reconsideration میں تحریر کرتے ہیں کہ
‘‘The land reforms of 1959 and 1972 failed to alter significantly the highly unequal distribution of landownership in Pakistan. As much as 30 percent of total farm area in Pakistan is owned by large landowners (owning 150 acres and above), yet these landowners constitute only 0.5 percent of the total number of landowners in the country.The overall picture of Pakistan’s agrarian structure has been that these large landowners have rented out most of their land to tenants with small- and medium-sized holdings.’’
(Land reforms in Pakistan: A reconsideration page 48)
1932ء میں ضلع تھرپار کر میں زمینوں کی خرید کے بعد خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی راہ نمائی اور شبانہ روز دعاؤں نے صحرائے تھر کے ویرانوں کو جو عظمت و شان اور رونق بخشی تھی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ واقفین زندگی کارکنان کی محنت شاقہ اور مزارعین کے اخلاص و وفا نے جو گلشن آباد کیا تھا آج اس کی عظمتِ رفتہ کے محض نشان اور یادیں باقی ہیں۔ اپنے زمانے میں علاقے کے بہترین سمجھے جانے والے اداروں تعلیم الاسلام ہائی سکول محمد آباد اور بشیر آباد کی زبوں حالی عہدِ رفتہ کی یاد پر نوحہ کناں ہے۔
جماعت احمدیہ کی عالمگیر ترقیات اور اشاعتِ اسلام کی جاری وساری مہم
زرعی اصلاحات کے نفاذ میں ناکامی، جاگیرداروں اور خانقاہوں کے زمینوں سے دستبردار نہ ہونے، اراضی کی غیر منصفانہ تقسیم، تعلیمی اداروں کی حالت زار، صنعت و معیشت کی زبوں حالی اور چار دہائیوں سے ترقئ معکوس کا سفر زرعی اصلاحات اور قومیائے جانے کی پالیسی کے ناکام ہونے پر وقت کی زبردست گواہی پیش کر رہے ہیں۔
چودھری منور احمد خالد اپنے مضامین کے مجموعہ ’’گر تُو برا نہ مانے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ چودھری غلام احمد صاحب کے کزن چودھری محمد اسلم صاحب جو سینیٹر تھے نے بتایا کہ جس دن شیخ رشید صاحب (چیئرمین لینڈ کمیشن)نے زرعی اصلاحات کے فیصلہ کے اعلان پر دستخط کیے تو دیگر دفتر سے باہر آتے ہوئے بڑے فخر سے کہنے لگے کہ ’’آج میں مرزائیوں کے گلے پر چھری پھیر آیا ہوں۔‘‘ اس اظہار اور زرعی اصلاحات کے نفاذ کے اعلان کے بعد ملک بھر کے جاگیرداروں کی جوق در جوق پیپلز پارٹی میں شمولیت سے ظاہر ہے کہ حکومتِ وقت کے پیش نظر محض عوام کی فلاح و بہبود نہ تھی بلکہ پس پردہ مقاصد کچھ اَور تھے۔
لیکن1972ء میں جماعت کی ہزاروں ایکڑ ملکیتی اراضی حکومتی تحویل میں لے لینے اور نہایت مؤقر تعلیمی ادارےقومیائے جانے کے بعد بھی جماعت احمدیہ کے لیے ہر آنے والا دن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے معمور نظر آیا۔ خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زیر سایہ اشاعتِ اسلام کی مہم مزید زور پکڑ تے ہوئے مشرق و مغرب پر محیط ہوگئی اور کوئی ملک و قوم ایسی نہ رہی جو اس چشمہ سے فیضیاب نہ ہوئی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اس قدر کامیابیاں عطا فرمائیں کہ ان کا ذکر ایک لمبی تفصیل کا محتاج ہے۔ ایک ایسا گلشن جسے احمدی مخلصین نے اپنی محنت اور دعاؤں سے سینچا تھا۔ اس کے چھن جانے پر وقتی طور پر ضرور دل ملول ہوئے مگر جماعت جتنی زمین سے محروم ہوئی تھی شاید اس سے کئی گنا زمین اور جماعتیں اللہ تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر عطا فرمادیں۔ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ۔
گذشتہ پچاس سالوں میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو جو وسعت اور ترقی بخشی، جس قدر نئی مساجد تعمیر ہوئیں، اشاعت اسلام کے نئے مراکز قائم ہوئے، ہسپتالوں، اسکولوں اور جلسہ گاہوں کی صورت میں جو نئی جائیدادیں خریدی گئیں، ان کا رقبہ جمع کر لیا جائے تو شاید وہ اس رقبے سے کئی گناہ بڑھ جائے جو 1972ء میں زرعی اصلاحات کے نام پر حکومتی تحویل میں لے لیا گیا تھا۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر محمد آباد اسٹیٹ کی تبلیغی مساعی پراظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اللہ کرے ان کے ذریعہ دین کی اشاعت اور تبلیغ اسلام کی خوشبو دور دور تک پھیلے‘‘ (خطبات محمود جلد 27صفحہ 130)سندھ میں اراضی کی خرید کے بعد پنجاب اور ہندوستان کے طول وعرض سے احمدی مخلصین سندھ میں آبسے اور پھر اسی سرزمین کو اپنا وطن مالوف بنا لیالیکن 1972ء کی زرعی اصلاحات کے نفاذ کے بعد جب جماعت کی ہزاروں ایکڑ اراضی سرکاری تحویل میں لے لی گئی تو ایک طرف ہرے بھرے چمن اور لہلہاتے کھیت اپنی رونقیں کھونے لگے تو دوسری طرف نئے ذرائع معاش کی تلاش میں احمدی احباب اس علاقے سے ہجرت پر مجبور ہوتے گئے۔
ہجرت کا یہ سفر سندھ سے شروع ہوکر دنیا کے ملک ملک اور کونے کونے پر محیط ہوگیا اور اس طرح خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبتوں سے غیر معمولی طور پر فیضیاب ہونے والے مخلصین دنیا بھر میں جابسے۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے واقفین زندگی، مبلغین اور معلمین کا ایک گروہِ کثیر، خلفاء کا سلطانِ نصیر بنتے ہوئے خدمتِ دین پر کمر بستہ ہے اور ان داعیان الیٰ اللہ کے ذریعہ سے اسلام احمدیت کی خوشبو دنیا کے ملک ملک اور شہر شہر میں پھیل رہی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اب اسلام کا شیرازہ احمدیت کی مضبوط رسی سے وابستہ ہے اور ہمارا فرض ہے کہ تبلیغ احمدیت پر زور دیں اور کوشش کریں کہ دنیا کا کوئی فرد ایسا نہ رہ جائے جسے ہم خدا اور اس کے رسول کا پیغام نہ پہنچا دیں اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے ساتھ ہو اور اسے صحیح رنگ میں اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍مارچ 1947ء بمقام ناصر آباد سندھ مطبوعہ خطبات محمود جلد 28صفحہ 101)
ہر روز نصرتوں کے نشاں پر نشان ہیں
برکات ہیں یہ صدقِ خلافت کے نور کی
٭…٭…٭