سیدنا حضرت امیرالمومنین کے حالیہ بصیرت افروز کلمات
پیٹھ میدانِ وغا میں نہ دکھائے کوئی
منہ پہ یا عشق کا پھر نام نہ لائے کوئی
ہر کسی میں نیکی کا ایک عنصر ہوتا ہے۔ تسلی سے بات سن لی جائے اور پھر اس کے مطابق انہیں سمجھا دیا جائے، تو نیکی کا وہ پہلو اجاگر ہوجاتا ہے اور اللہ کے فضل سے بات سمجھ آجاتی ہے
خاکسار 30؍جنوری 2022ء، بروز اتوار سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خدمت میں بغرضِ ملاقات حاضر ہوا۔
اس روز علی الصبح ہی سے ذہن میں ایک عجیب کشمکش تھی۔ میں نے حاضر تو اپنی ذمہ داریوں کے حوالہ سے راہ نمائی حاصل کرنے کے لیےہونا تھا، مگر دل میں کچھ اَور سوالات بھی تھے جو حضور کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا۔ ایسے سوال جو میرے ہم عمر نوجوانوں کے حوالے سے تھے۔ معلوم نہیں تھا کہ موقع مل سکے گا یا نہیں۔
بہر حال، خاکسار اسلام آباد حاضر ہوا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد خاکسار کی باری آئی۔ خاکسار کی درخواست پر حضور نے متعلقہ معاملات پر راہ نمائی فرمائی۔ پھر ایک نہایت پرسکون ماحول میں حضور اپنے کام میں مصروف رہے۔ خاکسار نے اس موقع پر عرض کی :
’’حضور! مشکل حالات میں ہم تو حضور کے حوصلے کو دیکھ کر تسلی پالیتے ہیں۔ لیکن حضور کو کیسے تسلی حاصل ہوتی ہے؟‘‘
حضور انور نے بڑی محبت اور اتنے ہی سکون سے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ کی جماعتوں پر مشکل وقت تو آتا ہی ہے۔ دشمن حملہ آور رہتا ہے اور اب بھی حملہ آور ہے۔ پوری کوشش کررہا ہے کہ ان کی مراد پوری ہو۔
لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ جماعت کس نے بنائی ہے؟ مَیں نے بنائی ہے؟ یا کسی بھی اَور انسان نے بنائی ہے؟ حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں تو ہم کیسے گھبرا سکتے ہیں؟ اس جماعت کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں جو ہمیشہ پورے ہوئے ہیں اور ضرور پورے ہوں گے۔ پریشانی کیسی؟
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا ایک مصرعہ ہے کہ
’جب نہیں بولتا بندہ تو خدا بولتا ہے‘
تو پھر اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے، دعا کرتے ہوئے،انسان اپنی کوشش میں لگا رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو اپنی جماعت کے حق میں بولنے دے۔
اللہ تعالیٰ کی جماعتیں تو ہمیشہ جنگ ہی کی حالت میں رہتی ہیں۔ نوجوان نسل میں سے بعض جلدی پریشان ہوجاتے ہیں۔ جنہوں نے مشکل حالات دیکھے ہیں یا جن کے سامنے تاریخ ہے، وہ ان حالات میں پریشان نہیں ہوتے۔ تو اس جنگ کی حالت میں ہوش و حواس کو قائم رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ گھبرانے کی۔ دشمن تو ہمارے کچھ کہنے سے بھی تنگ ہوتا ہے۔ اور اگر ہم خاموش رہیں تو اَور بھی تنگ ہوتا ہے۔
آج کل تم خطبات میں سن ہی رہے ہو کہ آنحضورﷺ کے صحابہ ؓکس طرح جنگ میں ہوش سے مقابلہ کرتے تھے۔
اس زمانے میں تو دشمن کی جو toneہے، اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ اب انہیں خود اپنا زور ٹوٹتا محسوس ہو رہا ہے۔‘‘
خاکسارنے عرض کی کہ حضور! میری generation کے لوگ فیصلہ کرنے میں جلدی کرتے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں سن کر بدگمانیاں پال لیتے ہیں۔ ان سے کس طرح بات کی جائے؟
بڑی ہی شفقت اور محبت سے فرمایا:
’’ان سے بات کرنا بہت ضروری ہے۔ نادانی کی عمر میں مخالفوں کی الزام تراشیاں اثر تو کر سکتی ہیں، مگر ان سے بات کرنا ضروری ہے۔ بلکہ بات کرنے سے پہلے ان کی بات کو تسلی سے سننا ضروری ہے۔ ہر کسی میں نیکی کا ایک عنصر ہوتا ہے۔ تسلی سے بات سن لی جائے اور پھر اس کے مطابق انہیں سمجھا دیا جائے، تو نیکی کا وہ پہلو اجاگر ہوجاتا ہے اور اللہ کے فضل سے بات سمجھ آجاتی ہے۔‘‘
ملاقات کا اختتام ہوا اور میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دفتر سے باہر نکلا، تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے پاس ایک امانت ہے۔ جو میں حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس سے لایا ہوں، اور نوجوان نسل، ہاں میری عمر کی نسل کےاحمدیوں تک پہنچانا ضروری ہے۔ بلکہ ہر احمدی تک۔
سو یہ امانت جو میرے لیے اور میری ہم عمر نسل کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے عنایت فرمائی، ان سطور کے ذریعہ پیشِ خدمت ہے۔
ان الفاظ نے میرے دل کو یقین سے بھر دیا۔ اور ان شاءاللہ میرے ہم عمر دوستوں کے دل کو بھی ضرور اس یقین سے بھر دیں گےکہ خواہ کچھ ہو جائے ہم نے خلافت احمدیہ کے ساتھ چمٹے رہنا ہے اور حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھنا ہے۔ ان شاءاللہ۔
حضرت خلیفۃ المسیح نے ہماری بھلائی کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ ہم بھی ان شا ءاللہ خلافت احمدیہ کی راہ میں ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہیں گے۔ اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔
٭…٭…٭