خلافت کے عظیم الشان مقاصد اورپسرِ موعودؓ میں ان کی تکمیل
’’خلیفہ کا کام کوئی معمولی اور رذیل کام نہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل اور امتیاز ہے جو اس شخص کو دیاجاتا ہے جو پسند کیا جاتا ہے‘‘
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی معرکہ آرا تصنیف ’’شہادت القرآن‘‘میں خلافت کی اصل غرض بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’خلیفہ درحقیقت رسول کا ظل ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خداتعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں، ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تاقیامت قائم رکھے۔ سو اس غرض سے خداتعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکاتِ رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘(شہادت القرآن،روحانی خزائن جلد6صفحہ353)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے دَورِ خلافت کے بالکل آغاز میں 12؍اپریل1914ء کو ہندوستان بھر کے احمدی نمائندوں کی مجلس شوریٰ منعقد فرمائی اور اس میں ’’منصب خلافت‘‘کے موضوع پر ایک عظیم الشان تقریر فرمائی اور ابراہیمی دعا
رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ وَیُزَکِّیۡہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔(البقرۃ:130)
کی روشنی میں نہایت لطیف پیرایہ میں مقام خلافت اور فرائض خلافت پر سیر حاصل بحث فرمائی۔
حضور ؓفرماتے ہیں:’’وہ رسول جو مبعوث ہو، اس کا کیا کام ہو۔ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ۔ اس کا پہلا کام یہ ہو کہ وہ تیری آیات ان پر پڑھے۔ دوسرا کام
یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ
ان کو کتاب سکھائے اور تیسرا کام یہ ہو کہ حکمت سکھائے۔ چوتھا کام
وَیُزَکِّیۡہِمۡ۔
ان کو پاک کرے۔‘‘(منصب خلافت،انوار العلوم جلد 2 صفحہ23)
پھر فرمایا:’’انبیاء علیہم السلام کے اغراضِ بعثت پر غور کرنے کے بعد یہ سمجھ لینا بہت آسان ہے کہ خلفاء کا بھی یہی کام ہوتا ہے کیونکہ خلیفہ جو آتا ہے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اپنے پیش رو کے کام کو جاری کرے پس جو کام نبی کا ہوگا وہی خلیفہ کا ہوگا۔ اب اگر آپ غور اور تدبر سے اس آیت کو دیکھیں تو ایک طرف نبی کا کام اور دوسری طرف خلیفہ کا کام کھل جائے گا۔‘‘(منصب خلافت،انوارالعلوم جلد2صفحہ24)
اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’الغرض نبی کا کام بیان فرمایا تبلیغ کرنا، کافروں کو مومن کرنا، مومنوں کو شریعت پر قائم کرنا، پھر باریک در باریک راہوں کا بنانا، پھر تزکیہ نفس کرنا، یہی کام خلیفہ کے ہوتے ہیں۔ اب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے یہی کام اس وقت میرے رکھے ہیں۔‘‘(منصب خلافت،انوار العلوم جلد 2صفحہ30)
اور پھر نہایت درجہ پُر شوکت اعلان فرمایا کہ’’خلیفہ کا کام کوئی معمولی اور رذیل کام نہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل اور امتیاز ہے جو اس شخص کو دیاجاتا ہے جو پسند کیا جاتا ہے۔‘‘
(منصب خلافت،انوار العلوم جلد 2 صفحہ30)
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے یہ ارشادات اپنی خلافت کے بالکل آغاز میں بیان فرمائے تھے۔اور پھر ان فرائض کی بجاآوری کے لیے حضورؓ نے اپنے باون سالہ عہد قیادت میں نہ صرف ایک بے نظیر چومکھی لڑائی لڑی بلکہ اس کی آبیاری کے لیے اپنا مقدس خون تک پیش کردیا جس پر ربوہ کی مسجد مبارک گواہ ہے۔ع
ہمارے جسموں پہ جو ہے بیتی یہ خاکِ ربوہ نشان دے گی
حضور ؓکی ذاتِ مبارک میں خلافت کے عظیم مقاصد کی تکمیل کے مکمل نقشہ سے حضرت احدیت نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضور ؓکی پیدائش سے قبل ہی مطلع فرما دیا تھا۔چنانچہ اس عظیم اور متبرک ہستی کو کن صفات کا حامل ہونا تھا؟اس کا اجمالی خاکہ ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘میں بیان کردیا گیا ۔ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکی مقدس و مبارک زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ حضورؓ کی زندگی کا لمحہ لمحہ انہی امور کی تکمیل میں صرف ہوتا رہا۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی ذاتِ بابرکات میں خلافت کے عظیم الشان مقاصد کی تکمیل جس طرح ہوئی۔اس کی تفصیل بیان کرنا خاکسار کے بس سے باہر ہے۔ ہزارہا دفتر درکار ہیں۔ ان کے عناوین پر نظر ڈالنا بھی کافی وقت چاہتا ہے۔ آج جب کہ حضورؓ کی وفات پر بھی نصف صدی سے زائد وقت ہوچکا ہے، ان کی پوری تفصیلات سامنے نہیں آسکیںاور رہتی دنیا تک ان شاء اللہ اس کی پرتیں کھلتی چلی جائیں گی۔ بہرکیف حضورؓ کے ذریعہ جو عظیم الشان کارہائے نمایاں اور تحریکات منصہ شہود پر آئیں، ان کا ایک خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔
-فتنہ انکار خلافت کی بیخ کنی
-استحکام خلافت
٭…خدمت قرآن
-درس قرآن
-تفسیر کبیر کی اشاعت
-تفسیر صغیر کی اشاعت
-انگریزی ترجمہ قرآن کی اشاعت
-قرآن مجید اور بنیادی لٹریچر کے تراجم کی تحریک
-حضر ت سرور کائنات کی حقیقی شان کا اظہار
-محامدرسولؐ کے لیے جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ کا آغاز
-بیرونی دنیا میں شاندار طریق پر اشاعت اسلام احمدیت
-سات مراکز قائم کرنے کی تحریک
-اخبارات و رسائل کا اجرا اور ان کے ذریعہ اشاعت دین اور تعلیم و تربیت کا انتظام
-اخبار الفضل کا اجرا
-مختلف والیان حکومت اور بادشاہوں کو صداقت کا پیغام(مثلاً شاہزادہ ویلز ، نظام حیدر آبا د، امان اللہ خان شاہ افغانستان)
٭…احمدعلیہ السلام کے قائم کردہ نظام کو فوق العقل ترقی اور وسعت
-مجلس مشاورت کا باقاعدہ قیام اور اس کا طریق کار
-دارالقضاء کا قیام
-جماعتی تربیت کا تعلیمی نظام
-جماعتی تنظیمی نظام کا استحکام
-نظام ’’جلسہ سالانہ‘‘کی مضبوطی
-اسلام کی علمی جنگ میں کارنامے
-چالیس روزہ خاص دعاؤں کی تحریک
-منارۃ المسیح کی تکمیل
-ہجری شمسی کیلنڈر کااجرا
-مالی نظام کی مضبوطی کا حیرت انگیز انتظام
-کالج فنڈ کی تحریک
-ماہرین علوم پیدا کرنے کی تحریک
-وقفِ زندگی کی تحریک
-وقف جائیداد کی تحریک
-خاندان مسیح موعودؑکو وقف کرنے کی تحریک
-اسلامی معاشرہ میں عورت کوا س کا مقام دلوانے کی جدوجہد
-عورتوں کی تربیت کی تحریک
-عورتوں کے حقوق کی حفاظت
-عورت کے حقوق وراثت کی بحالی
-غرباء اور محتاجوں کی مدد کی تحریک
-دیوانہ وار تبلیغ کی تحریک
-حلف الفضول کی طرز پر معاہدہ کرنے کی تحریک
-نما ز تہجد پڑھنے کی تحریک
-اصلاحی امور میں باریک بینی
-دینی تعلیم کے لیے مدرسہ احمدیہ کی ترقی اور جامعہ احمدیہ اور جامعۃ المبشرین کا قیام
-دنیاوی تعلیم کے لیے کالجز اور سکول کا اجرا
٭…لرزہ ہ خیز مخالفت میں حیرت انگیز قیادت
-اندرونی و بیرونی فتنوں کا مقابلہ
-فتنہ احرار کا مقابلہ
-شدھی کا استحصال
-کمیونزم کے مقابلہ کی تحریک
٭…قومی و ملی خدمات
-مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ اوربہبودی کے لیے مساعی جمیلہ
-مسلمانوں کی اقتصادی بہبودی کے لیے سعئ بلیغ
-مسلمانان عالم کے لیے وسیع جذبہ ہمدردی
-ہندوستان کی پر امن اورمستقل آزادی کے لیے بےنظیرجدوجہد
-مختلف اقوام و ملل میں اتحاد پیدا کر نے کے لیے کوششیں
-دنیا بھر کے مظلومین کی امداد
-قیام امن کے لیے تجاویز
-فتنہ وفساد کی روح کو کچلنے کے لیے سرفروشانہ اقدام
-ہجرت اور پاکستان میں نیا انصرام
یہ ایک بالکل نامکمل سی فہرست ہے اور اس میں سے ہر ایک پر کئی کئی کتب تحریر کی جاسکتی ہیں۔ اس جگہ محض چند کے اجمالی تذکرے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
کلام اللہ کے مرتبہ کا شاندار اظہار
’’کلام اللہ کا مرتبہ ‘‘حضورؓ کے بابرکت وجود کے لیے ایک دفعہ پھر ظاہر ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی زندگی کا ایک ایک سانس
یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَالۡحِکۡمَۃَ
کے تتبع میں خدمت قرآن اور اشاعت قرآن کے لیے وقف رہا ۔ علوم قرآنی کے بارے میں حضورؓ کے بیان فرمودہ نکات حضور ؓکی تقاریر و تحریرات سے مترشح ہوتے ہیں۔ آپؓ نے اپنے عہد خلافت میں قرآنی مباحث کے متعلق شاندار اسلامی لٹریچرشائع کیا۔ہزاروں بصیرت افروز تقاریر فرمائیں۔ اور خطبات ارشاد فرمائے جن کا مرکزی نقطہ قرآن مجید ہی تھا۔ معرفت کا یہ لا زوال اور بیش بہا خزانہ سلسلے کے اخبارات میں بہت حد تک محفوظ ہےاور کتابی صورت میں بھی منظرعام پر آ چکا ہے۔ علاوہ ازیں حضورؓ کے قلم مبارک سے قرآن مجید کی بہت سی معرکہ آرا ایمان افروز تفاسیر شائع ہوئیں۔خصوصاً تفسیر کبیر اور تفسیر صغیر جسے علم تفسیر کا شاہکارسمجھا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر ایک ایسے گنج ہائے گراں مایہ کی حیثیت رکھتی ہیں جو ہر زمانے اور ہر قوم کے افراد کو فیض یاب کرتی رہیں گی۔
حضورؓ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے ہیں۔‘‘( تفسیر کبیر جز چہارم نصف اول صفحہ483)
آپؓ کے شائع کردہ بلند پایہ دینی و قرآنی لٹریچر کی عظمت و اہمیت کا اقرار غیر ازجماعت محقق علماء کو بھی ہے۔پاک و ہند کے مایہ ناز انشا پر داز اردو ادب کے مسلّم نقاد اور ماہنامہ’’نگار‘‘کے مدیر علامہ نیاز فتح پوری آپ کی شہرہ آفاق’’تفسیر کبیر‘‘پر ایک نگاہ ڈالتے ہی آپ کےوالہ و شیدا بن گئے اور آپ کی خدمت میںلکھا:’’اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نو عیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آ ہنگ دکھایا گیا ہے۔آپ کی تبحر علمی ،آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیر معمولی فکر و فراست،آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے۔‘‘(الفضل 17؍نومبر1963ء صفحہ3)
اسی طرح’’صدق جدید‘‘کے مدیر شہیر مولانا عبدالماجد صاحب دریاآبادی نے حضورؓ کے وصال پر تحریر فرمایا:’’قرآن و علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں، ان کا اللہ انہیں صلہ دے۔ علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح،تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں، اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ہے۔‘‘(صدق جدید،18؍نومبر1965ء)
اخبار’’الاردن‘‘21؍نومبر1948ءنے لکھا:’’(ترجمہ) لوگ تحریک احمدیت اور اس کی نتیجہ خیز کوششوں اور ساتوں برا عظموں میں تبلیغ واشاعت اسلام کے لیے جدو جہد اور قربانیوں کو اس استعجاب و پسندیدگی اور دلچسپی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ گذشتہ جنگ عالمگیر کے چند سالوں میں ان کا عظیم ترین اور نمایاں کا رنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے امام جماعت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی راہ نمائی اور آپ کی زیر ہدایت مختلف رائج الوقت کئی غیر، اہم زبانوں میںقرآن مجید کے تراجم کیے ہیں جیسے انگریزی،جرمن،روسی،اطالوی اور ہسپانوی وغیرہ ۔انگریزی ترجمہ جو زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آ چکا ہے، دیکھ کر ہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ قرآن مجید کے جتنے بھی(انگریزی) تراجم اس سے قبل شائع ہو چکے ہیں ان سب پریہ ترجمہ فوقیت لے گیاہے۔ کیا بلحاظ اپنی عمدگی اور ترتیب و با محاورہ ترجمہ ہونے کے اور کیا بلحاظ لفظی ترجمہ کی درستگی کے اور کیا بلحاظ اس کی تشریح و تفسیر کے جو جدید اسلوب اور پیرایہ میں ایک مبسوط تفسیر ہے۔ جسے پڑھ کر نمایاں طورپر محسوس ہوتا ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ علم دین کے رموز و حقائق اور اس کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم اور روحانیت سے متعلق جملہ علوم سے غیر معمولی طورپر بہرہ ور ہیں اور دین کے بارہ میں بھر پور علم رکھتے ہیں۔‘‘
اشاعت دین میں ولولہ انگیز قیادت
حضرت مصلح موعودؓ کو دین اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرنے کی غیرمعمولی تڑپ اپنے مقدس باپ علیہ السلام سے ورثہ میں ملی تھی۔ اسی تڑپ کا نتیجہ تھا کہ صرف گیارہ سال کی عمر میں آپؓ اپنے فتح نصیب والدکا جبہ پہن کر اسلام کی سربلندی کے لیے رو رو کر اپنے رب کے حضور دعائیں مانگتے رہے۔ گیارہ سالہ بچے کا یہ عزم ہی تھا جس نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔
تبلیغِ اسلام کے سلسلے میں آپ کی غیر معمولی فراست کے نتیجے میں ایک ایسا نظام تشکیل پایا کہ جس کی بدولت وہ آواز جو ہندوستان میں محدود تھی، الٰہی تائید و نصرت سے آج اکنافِ عالم میں پوری قوت کے ساتھ پھیلتی چلی جارہی ہے۔ اور حضرت مسیح موعود ؑکے الہام ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘کی عملی تفسیر سامنے آجاتی ہے ۔
استحکام خلافت کے سلسلے میں غیر معمولی جدوجہد
خلافت کی اہمیت وضرورت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’خلافت کا مسئلہ میرے نزدیک اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے بلکہ مَیں سمجھتا ہوں اگر کلمہ ٔشریفہ کی تفسیر کی جائے تو اس تفسیر میں اس مسئلہ کا مقام سب سے بلند درجہ پر ہوگا۔‘‘(خلافتِ راشدہ ،انوار العلوم جلد 15صفحہ 3)
نیز تحریر فرمایا:’’اسلام کبھی ترقی نہیں کرسکتا جب تک خلافت نہ ہو۔ہمیشہ خلافت کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا اور ہمیشہ خداتعالیٰ خلفاء مقرر کرتا رہا ہے اور آئندہ بھی خداتعالیٰ ہی خلفاء مقرر کرے گا۔‘‘(درس القرآن صفحہ 72 مطبوعہ نومبر1921ء از حضرت مصلح موعودؓ)
حضورؓ نے سلسلہ احمدیہ میں دائمی خلافت کی خوشخبری سناتےہوئے8؍ستمبر1950ءکو(یعنی ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کی ولادت باسعادت سے ایک جمعہ پہلے) خطبہ جمعہ کے دوران یہ ایمان افروز ارشاد بھی فرمایا:’’میری وفات خداتعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دن ہوگی جس دن میں خداتعالیٰ کے نزدیک کامیابی کے ساتھ اپنے کام کو ختم کر لوں گا۔…اور وہ شخص بالکل عدم علم اور جہالت کا شکار ہے جو ڈرتا ہے کہ میرے مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مَیں تو جاتا ہوں لیکن خداتمہارے لئے قدرت ثانیہ بھیج دے گا ۔مگر ہمارے خدا کے پاس قدرتِ ثانیہ ہی نہیں اس کے پاس قدرتِ ثالثہ بھی ہے اور اس کے پاس قدرتِ رابعہ بھی ہے۔ قدرتِ اولیٰ کے بعد قدرتِ ثانیہ ظاہر ہوئی اور جب تک خدا اس سلسلہ کو ساری دنیا میں نہیں پھیلا دیتا اس وقت تک قدرتِ ثانیہ کے بعد قدرتِ ثالثہ آئے گی اور قدرتِ ثالثہ کے بعد قدرتِ رابعہ آئے گی اور قدرتِ رابعہ کے بعد قدرتِ خامسہ آئے گی اور قدرتِ خامسہ کے بعد قدرتِ سادسہ آئے گی اور خداتعالیٰ کا ہاتھ لوگوں کو معجزہ دکھاتا چلا جائے گا۔‘‘(الفضل ربوہ 22؍ستمبر1950ء صفحہ 6)
الغرض سیدنا حضرت مصلح موعود ؓخلافت کے عہدےکو عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھنے، خلیفہ وقت کو قبولیت دعا کا مرکز سمجھنے، اس سے عمر بھر فقید المثال مخلصانہ تعلق قائم رکھنے، اس کے ہر لفظ پر والہانہ طور پر لبیک کہنے اور اس کے حکم پر مالی و جانی قربانیوں کے لیے ہر زمانہ بلکہ ہر لمحہ اور ہر آن تیار رہنے کی ہمیشہ پُر زور تلقین فرماتے رہے۔ یہی نہیں حضورؓ نے جماعتِ احمدیہ کو بار بار یہ نصیحت فرمائی کہ وہ ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہے۔ مثلاً 1921ءمیں فرمایا:’’تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا، وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہوگا۔ لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے توپھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کرسکے گی۔‘‘
’’بے شک افراد مریں گے، مشکلات آئیں گی، تکالیف پہنچیں گی مگر جماعت کبھی تباہ نہ ہوگی بلکہ دن بدن بڑھے گی اور اس وقت تم میں سے کسی کا…مرنا ایسا ہی ہوگا جیسا کہ مشہور ہے کہ اگر ایک دیو کٹتا ہے تو ہزاروں پیدا ہوجاتے ہیں۔ تم میں سے اگر ایک مارا جائے گا تو اس کی بجائے ہزاروں ا س کے خون کے قطروں سے پیدا ہوجائیں گے۔‘‘(درس القرآن صفحہ 73)
دینی معارف سے لبریز تحریرات و تقاریر
آپؓ علوم ظاہری وباطنی سے پُر تھے۔باوجودیکہ آپؓ بچپن میں خرابی صحت کی وجہ سے دنیاوی تعلیم کی ڈگریاں حاصل نہ کرسکے تھے اور آپ کی تعلیم میٹرک تھی پھر بھی دنیاوی علوم آپؓ کی دسترس سے باہر نہ تھے۔آپؓ نے علم و حکمت کے ایسے خزانے لٹائے کہ اپنے تو اپنے، غیر بھی ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتے۔ آپؓ ایک عظیم الشان مصنف اور شاعر تھے۔خطابت ایسی زور دار سلاست اورروانی لیے ہوئے تھی کہ سلطان البیان ٹھہرے۔آپؓ نے دینی معارف سے لبریز کتب تصنیف فرمائیں جو’’انوار العلوم ‘‘کے نام سے منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ آپؓ کی تصانیف آپ کے بارے میں خدائی وعدہ کی تکمیل کا غیر معمولی اظہار ہے۔کتب کی فہرست پر ایک نظر ڈال کر ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کتنے متنوع عناوین پر آپؓ نے اپنی توجہ منعطف فرمائی ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ کی زندہ جاوید اور دل آویز تصانیف سر چشمہ علم و بصیرت ہیں جو موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے قیامت تک مشعل راہ کاکام دیں گی۔ آپؓ خود فرماتے ہیں:’’وہ کون سا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا۔ مسئلہ نبوت،مسئلہ کفر،مسئلہ خلافت،سیاست اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا۔ مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے۔…جوشخص اسلام کی تعلیم کو پھیلانا چاہے گا۔اسے میرا خوشہ چیں ہونا پڑے گا۔‘‘(خلافت راشدہ،انوارالعلوم جلد15صفحہ587)
دین محمدؐ کے لیے بے پناہ جان نثاری
آپؓ کی دور بین نگاہوں نے اقوام عالم اور عالم اسلام کو درپیش مسائل کو بھانپا اور ان کے حل کے لیے مؤثر لائحہ عمل تجویز فرمایا اور الٰہی تائید و نصرت سے اپنے محیر العقول کارناموں سے دنیا کو باور کرا دیا کہ قوموں نے آپ سے برکت پائی۔ وہ مردِ جری ہر محاذ پر کھڑا ہوا خواہ وہ ہندوستان تھا، فلسطین تھا، افریقہ تھا کہ امریکہ۔کوئی بھی قوم اس کے فیض سے محرو م نہ رہی۔
رئیس الاحرار مولانا محمد علی صاحب جوہر نے اپنے اخبار ’’ہمدرد‘‘26؍ستمبر 1927ء میں حضرت امام جماعت احمدیہ اور آپ کی جماعت کی اسلامی خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریر فرمایا:’’ناشکر گزاری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر تو جہات بلااختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں۔ یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم، تبلیغ و تجارت میں بھی انتہائی جدو جہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے با لعموم اور ان اشخاص کے لئے با لخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمت اسلام کے بلند بانگ و درباطن ہیچ دعاوی کے خو گر ہیں، مشعل راہ ثابت ہو گا۔‘‘(ہمدرد دہلی،26؍ستمبر1927ء)
مجلس احرار کے اخبار’’زمزم‘‘نے19؍جولائی1942ء کی اشاعت میں لکھا:’’موجودہ حالات میں خلیفہ صاحب نے مصر اور حجاز مقدس کے لئے اسلامی غیرت کا جو ثبوت دیا ہے۔ وہ یقینا ًقابل قدر ہے اور انہوں نے اس غیرت کا اظہار کرکے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے۔‘‘
اسی طرح اخبار’’ مشرق‘‘ گور کھپور نے لکھا:’’جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں۔آپ ہی کی تحریک سے ’’ورتمان‘‘ پرمقدمہ چلا یا گیا۔ آپ کی ہی جماعت نے ’’رنگیلا رسول‘‘کے معاملہ کو آگے بڑھایا۔سرفروشی کی اور جیل خانے جا نے سے خوف نہیں کھایا۔…اس وقت ہندوستان میںجتنے فرقے مسلمانوں کے ہیں۔ سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں۔ صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سر انجام دے رہی ہے۔‘‘(مشرق22؍ستمبر1927ء)
احمدعلیہ السلام کے قائم کردہ نظام کو عدیم المثال ترقی اور وسعت
حضرت مصلح موعودؓ کی فہم و فراست نے جماعت کی پیش آئندہ ضرورت کے پیش نظر جماعت کی تنظیم میں نظارتوں کا قیام فرمایا اور صدرانجمن احمدیہ کی تشکیل نو فرمائی۔یہ ایک ایسا نظام ہے جس نے جماعت کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کردیا۔حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیں:’’بحیثیت امام جماعت احمدیہ ابتدائے خلافت ہی سے آپ کی توجہ جماعتی نظام کو اس طرح مستحکم کرنے کی طرف لگی ہوئی تھی کہ خلافتِ راشدہ اسلامیہ کو جن خطرات کا سامنا کرنا پڑا، اگر دوبارہ اس قسم کے خطرات خلافتِ احمدیہ کو درپیش ہوں تو جماعت ان کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرسکے۔ علاوہ ازیں قوموں کی ترقی اور تنزل کے اسباب پر نظر کرتے ہوئے آپ ایسے ذرائع استعمال کرنا چاہتے تھے جو الا ماشاءاللہ جماعت کے لئے رخنوں سے پاک اور ہمیشہ قائم رہنے والی سچی اور فعال زندگی کے ضامن ہوسکیں۔ اس پہلو سے آپ کی زندگی کا مطالعہ دلچسپی کا گہرا مواد اپنے اندر رکھتا ہے۔ نظام جماعت کی تشکیل کے سلسلہ میںآپ نے جو جو ذرائع اختیار فرمائے اور جو جو تدابیر سوچیں وہ ایک ایسے شخص سے ہی ممکن تھیں جو مؤرخ بھی ہو اور مفکر بھی۔ صاحبِ علم بھی ہو صاحبِ عمل بھی۔ فطرتِ انسانی سے بھی آشنا ہو اور مختلف انسانی طبقات کے مزاج پر بھی گہری نظر رکھتا ہو اور ان سب کے علاوہ ایک صاحبِ تجربہ روحانی وجود ہو۔ یہ تمام کمالات آپ کی ذات میں جمع تھے اور ان کے امتزاج نے اس نظام کو جنم دیا جو آج نظام جماعت احمدیہ کی شکل میں نہایت مستحکم صورت میں دنیا کے سامنے ایک مثالی نظام کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔‘‘(سوانح فضل عمر جلد دوم 126)
اس سلسلے میں حضورؓ کے ذاتی معالج حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحبؓ کی ایک دلچسپ روایت درج کی جاتی ہے:’’ایک مرتبہ حضور نے مجھے یاد فرمایا اوربتایا کہ آپ نظام جماعت میں اصلاحی تبدیلیاں کرنے پر غور فرما رہے ہیں لہٰذا چاہتے ہیں کہ انسانی جسم کے نظام کا مطالعہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایک کامل نظام کی شکل میں پیدا کیا ہے اور اس کے مطالعہ سے بہت سی مفید رہنمائی حاصل ہوسکے گی۔ چنانچہ آپ نے Anatomyاور Physiologyوغیرہ کی مختلف کتب حاصل کرکے ان کا مطالعہ فرمایا اور بہت سے مفید نتائج اخذ کئے۔‘‘(سوانح فضل عمر جلد دوم صفحہ 127)
جماعتی تنظیمی نظام کا قیام
مستقبل کی ضروریات کو بھانپتے ہوئے جماعت کے مردو زن اور بچوں کو انصار اللہ، خدام الاحمدیہ ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی زبردست تنظیموں میں اس خوبصورتی کے ساتھ پرو دیا جن سے ان کی اخلاقی، روحانی اور تعلیمی ترقی کے راستے کھل گئے اورجس کے نتیجے میں جماعت کو بہت سے مخلص اور ایثار پیشہ خدام میسر آئے اور بفضلہ تعالیٰ قیامت تک میسر آتے رہیں گے۔
مالی نظام کی مضبوطی کا حیرت انگیز انتظام
جماعت کی آئندہ مالی ضروریات اور تربیت کے پیش نظر خداتعالیٰ نے آپ کو دو عظیم الشان منصوبے القا فرمائے۔ میری مراد ’’تحریک جدید ‘‘اور ’’وقف جدید‘‘سے ہے۔ان منصوبوں کے ذریعے حضورؓ نے جن اہم مطالبات کی طرف تحریک فرمائی ان کا خلاصہ اس طرح ہے کہ
٭…سادہ زندگی اختیار کی جائے۔
٭…ہاتھ سے کام کرنے کو کسرشان نہ سمجھا جائے ۔
٭…کوئی احمدی فارغ نہ بیٹھے۔
٭…کما کر بھی دین کی راہ میں خرچ کرے وغیرہ۔
یہ تحریک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کردہ ’’نظام نو‘‘کو مزید صیقل کرنے کا موجب ہوئی اور اس کے ثمرات سے آج پوری دنیا مستفیض ہورہی ہے۔
ابراہیمی سنت میں نئے مرکز توحید کا قیام
غیر مبائعین ہمیشہ یہ طعنہ دیتے تھے کہ قادیان توایک بنا بنایا مرکز تھا جس پر میاں محمود قابض ہوگئے۔ لیکن خدائی تقدیر نے ان کے اس دعویٰ کو بھی باطل کردیا۔1947ء میں تقسیم کے وقت جماعت احمدیہ نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک بہت بڑا ابتلا تھا۔ حضورؓ کی خواہش تھی کہ جلد از جلد پاکستان میں ایک نیا مرکز آباد کیا جائے۔
حضورؓ فرماتے ہیں:’’یہاں پاکستان پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 31؍جولائی1949ء)
اللہ تعالیٰ نے ابراہیمی سنت کو از سرِنو تازہ کرتے ہوئے حضورؓ کے مقدس ہاتھوں سے ایک بے آباد اور بنجر جگہ ’’ربوہ‘‘ کو مرکزِ توحید بنا دیا اور یہ بظاہر کوردہ آج ایک گلستان بن چکا اور وہ جگہ جو کبھی حشرات الارض کا مسکن تھی، جہاں سے صبح کے وقت بھی لوگ گزرتے ہوئے خوف کھاتے تھے، جہاں میٹھا پانی تو درکنار، زراعت کےلیے بھی پانی دستیاب نہ تھا، دنیا کو آج دعوتِ نظارہ دے رہی ہے کہ خلیفہ برحق کی دعاؤں اور توکل کا نمونہ دیکھو جو اس نے اپنے خدائے لم یزل کے حضور میں کیا تھا۔
اس ضمن میں حضور ؓکی فرمودہ پیشگوئی دل میں بسانے کے لائق ہے:’’یہ کبھی وہم نہ کرنا کہ ربوہ اجڑ جائے گا۔ ربوہ کو خدا تعالیٰ نے برکت دی ہے۔ ربوہ کے چپے چپے پر اللہ اکبر کے نعرے لگے ہیں۔ ربوہ کے چپے چپے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا گیا ہے۔ خدا تعالیٰ اس زمین کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔… یہ بستی قیامت تک خدا تعالیٰ کی محبوب بستی رہے گی اور قیامت تک اس پر بر کتیں نازل ہوں گی۔ اس لئے یہ کبھی نہیں اجڑے گی۔ کبھی تباہ نہ ہو گی۔بلکہ محمد رسول اللہ ﷺ کا جھنڈا دنیا میںکھڑا کرتی رہے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔‘‘
ربوہ رہے کعبہ کی بڑائی کا دعاگو
کعبہ کی پہنچتی رہیں ربوہ کو دعائیں
اسلام کی علمی جنگ میں کارنامے
شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار ’’سیاست‘‘کے مدیر شہیر مولا نا غلام رسول صاحب مہر گواہی دیتے ہیں:’’مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں تو جناب بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدان تصنیف و تا لیف میں جو کام کیا ہے۔وہ بلحاظ ضخامت و افادہ ہر تعریف کا مستحق ہے اور سیاست میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس اصول عمل کی ابتداء کرکے اس کو اپنی قیادت میںکا میاب بنایا ہے، وہ بھی ہر منصف مزاج مسلمان اور حق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کر کے رہتا ہے۔‘‘(سیاست،2؍دسمبر1930ء)
جماعت کے شدید معاند جناب حکیم مولانا عبد الرحیم اشرف صاحب مدیر المنبر نے اعتراف کیا کہ حضرت مصلح موعودؓ کے عہد مبارک میں جماعت احمدیہ نے اشاعت قرآن اور خدمت دین کی نمایاں عالمی خدمات انجام دی ہیں۔چنانچہ کہتے ہیں:’’قادیانیت میں نفع رسانی کے جو جوہر موجود ہیں، ان میں اوّلین اہمیت اس جدو جہد کو حاصل ہے جو اسلام کے نام پر وہ غیر مسلم ممالک میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ قرآن مجید کو غیر ملکی زبانوں میں پیش کرتے ہیں۔سید المر سلین ﷺ کی سیرت طیبہ کو پیش کرتے ہیں۔ان ممالک میں مساجد بنواتے ہیں اور جہاں کہیں ممکن ہو، اسلام کو امن و سلامتی کے مذہب کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔‘‘(المنیر لائل پور،2؍مارچ1956ء صفحہ10)
ملت کے لیے بے مثال فدائیت
جماعت احمدیہ کی ملی خدمات چونکہ اپنے اثرو نتائج کے اعتبار سے ابدی رنگ رکھتی ہیں اور حضرت مصلح موعود ؓکی آسمانی قیادت میں انجام دی گئی ہیںاس لیے حضورؓ کے نام اور کام پر کبھی سورج غروب نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ آپؓ نے خود یہ پیشگوئی فرمائی کہ’’میں اُسی کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرانام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا۔ اور گو میں مرجاؤں گا مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا ہے کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا۔‘‘(خطاب فرمودہ28؍دسمبر1961ء روح پرور خطاب صفحہ14تا15)
بر صغیر کے ممتاز ادیب سید ابو ظفر نازش رضوی نے حضرت مصلح موعودؓ کے وصال پر اپنا یہ چشم دید واقعہ اخبار میں شائع کیا:’’1940ء میں مجھے ایک سیاسی مشن پر قادیان جانا پڑا۔اُس زمانے میں ہندو اپنی سنگھنیشرارتوں کا ایک خاص منصوبہ بنا رہے تھے۔ اُس موقع پر …چوٹی کے مسلم اکابر نے مجھے نمائندہ بنا کر بھیجا کہ حضرت صاحبؓ سے اس باب میں تفصیلی بات چیت کروں اور اسلام کے خلاف اس فتنے کے تدارک کے لئے ان کی ہدایات حاصل کروں۔ یہ مشن بہت خفیہ تھا کیونکہ ہندوستان کے چوٹی کے مسلمان اکابر جہاں یہ سمجھتے تھے کہ ہندوؤں کے اس ناپاک منصوبے کا موثر جواب مسلمانوں کی طرف سے صرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ ہی دے سکتے ہیں۔ وہاں وہ عام مسلمانوں پر یہ ظاہر کرنا بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ حضرت صاحبؓ کو اپنا رہبر تسلیم کرتے ہیں۔
میں اس سلسلہ میں قادیان تین دن مقیم رہا اور حضرت صاحب سے کئی تفصیلی ملا قاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں دو باتیں مجھ پر واضح ہو گئیں۔ ایک یہ کہ حضرت صاحب کو اسلام اور حضور سرور کائنات علیہ السلام سے جو عشق ہے، اس کی مثال اس دَور میں ملنا محال ہے۔دوسرے یہ کہ تحفظ اسلام کے لئے جو اہم نکات حضرت صاحب کو سوجھتے ہیں، وہ کسی دیگر مسلم لیڈر کے ذہن سے مخفی رہتے ہیں۔…
افسوس کہ وہ وجود جو انسانیت کے لئے سراپا احسان و مروت تھا۔ آج اس دنیا میں نہیں۔وہ عظیم الشان سپر آج پیوند زمین ہے جس نے مخالفین اسلام کی ہر تلوار کا وار اپنے سینے پر برداشت کیا مگریہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کو گزند پہنچے۔… آپ نے دنیا کے بے شمار ممالک میں چار سو کے قریب مساجد تعمیر کرائیں۔ تبلیغ اسلام کے لئے تقریباً یکصد مشن قائم کئے جو عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رو کے سامنے ایک آ ہنی دیوار بن گئے۔ مختصر یہ کہ حضرت صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس وقف کر رکھا تھا۔ خدا ان سے راضی ہوا وہ خداسے راضی ہوئے۔ اگر میں ایک شیعہ ہوتے ہوئے انہیں رضی اللہ عنہ لکھتا ہوں تو یہ ایک حقیقت کا اظہار ہے ۔محض اخلاقی رسم نہیں۔‘‘(الفضل ربوہ14؍اپریل1966ء صفحہ3تا5)
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
مسلمانانِ عالم کے لیے سوزو گداز میں ڈوبی ہوئی دعائیں
حضرت مصلح موعودؓ فرمایا کرتے تھے:’’جب سعودی،عراقی، شامی اور لبنانی،ترک،مصری اور یمنی سورہے ہوتےہیں مَیں ان کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں۔‘‘(رپورٹ مجلس مشاورت1955ء صفحہ9)
ملت محمدیہ کا یہ مونس و غم گسار اپنے مولیٰ سے عمر بھر رات کی خاموش تنہائیوں میں مسلمانان عالم کے لیے کیا مانگتا اور کیا طلب کرتا رہا۔اس سر بستہ راز کو خدا کے اس پیارے بندے کے پیارے الفاظ میں آ شکار کرتا ہوں۔
سیدنامحمودؓ نےفرمایا:’’ہماری اللہ تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ …دنیا میں ہر کہیں لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کے پڑھنے والے نظر آئیں۔ اور روس ،امریکہ ،برطانیہ اور فرانس کے لوگ جو آج اسلام پر ہنسی اڑا رہے ہیں ،وہ سب کے سب اسلام کو قبول کرلیں۔اور انہیں اپنی ترقی کے لئے اسلام اور مسلمانوں کا دست نگر ہونا پڑے۔…پس اللہ تعالیٰ اسلام کے غلبہ کی کوئی صورت پیدا کرے اور خلافت کی اصل غرض بھی یہی ہے کہ مسلمان نیک رہیں۔ اور اسلام کی اشاعت میںلگے رہیں یہاں تک کہ اسلام کی اشاعت دنیا کے چپہ چپہ پر ہوجائے اور کوئی غیرمسلم باقی نہ رہے۔‘‘(رپورٹ مجلس مشاورت1957ء صفحہ17تا18)
بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب
بڑھتا رہے وہ نور نبوت خدا کرے
قائم ہو پھر سے حکم محمد جہان میں
ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے
٭…٭…٭