کیا امّتِ محمدیہؐ میں نبوت کا امکان موجود ہے؟
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَمَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا۔ (ا لنساء: 70)اور جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔ (آسان ترجمۂ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی، زیر آیت سورۃ النساء: 70، مکتبہ معارف القرآن کراچی )
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ کی پیروی سے ایک انسان صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر آیت کے یہ معنے کیے جائیں کہ خدا تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کی اطاعت کرنے والے صرف ظاہری طور پر نبیوں کے ساتھ ہوں گے۔ نبی نہیں ہوں گے تو یہی تشریح دوسرے تین مدارج کے بارے میں بھی کرنی پڑے گی اور آنحضرتﷺ کے پیرو صرف بظاہر صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہوں گے خود صدیق، شہیداور صالح نہیں ہوں گے۔ یہ تشریح صحیح نہیں کیونکہ یہ معنی آنحضرتﷺ کی شانِ بزرگ کے صریح منافی ہے کہ ان کی پیروی سے کوئی شخص صدیق شہید اور صالح بھی نہیں ہو سکتا بلکہ صرف ظاہری طور پر ان کے ساتھ ہوگا حالانکہ امتِ محمدیہ میں اطاعت کرنے والوں کا اس دنیا میں زمانی اور مکانی طور پر پہلے انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ ہونا امرِ محال ہے اور آیت فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ جملہ اسمیہ ہے جو استمرار پر دلالت کرتا ہے یعنی اس دنیا میں ان کے ساتھ ہونا بھی ثابت کرتا ہے۔ پس اس دنیا میں ساتھ ہونے میں مرتبہ پانا ہی مراد ہو سکتا ہے۔
صاحبِ تفسیر بحر المحیط نے اپنی تفسیر میں امام راغب کا قول لکھا ہے جس سے انہی معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے: وَالظَّاھِر اَنَّ قَوْلَہ مِنَ النَّبِیِّیْنَ تَفْسِیْرٌ لِّلْذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ فَکَاَنَّہٗ قِیْلَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ مِنْکُمْ اَلْحَقَہٗ اللّٰہُ بِالَّذِیْنَ تَقَدَّمَھُمْ مِمَّنْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ قَالَ الرَّاغِب مِمَّنْ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ الفِرَقِ الاَرْبَعِ فِی الْمَنْزَلَۃِ وَالثَّوَابِ اَلنَّبِیُّ بِالنَّبِیِّ وَالصَّدِّیْقُ بِالصَّدِّیْقِ وَالشَّہِیْدُ بِالشَّہِیْدِ وَالصَّالِحُ بِالصَّالِحِ۔ (تفسیر البحر المحیط از محمد بن یوسف، الجزء الثالث، زیر آیت سورۃ النساء: 69، صفحہ نمبر 299، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)ترجمہ: یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ’’ مِنَ النَّبِیِّیْنَ‘‘ ’’ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ‘‘ کی تفسیر ہے۔ گویا یہ کہا گیا ہے کہ جو تم میں سے اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے ان انعام یافتہ لوگوں سے ملا دےگا جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں۔ راغب نے کہا ہے یعنی ان چار گروہوں کے ساتھ درجہ اور ثواب میں شامل کر دے گا جن پر اس نے انعام کیا ہے۔ اس طرح کہ جو تم سے نبی ہوگااس کو نبی کے ساتھ ملا دے گا اور جو صدیق ہوگا اس کو صدیق کے ساتھ ملا دے گا اور شہید کو شہید کے ساتھ ملا دے گا اور صالح کو صالح کے ساتھ ملا دے گا۔
اس عبارت میں امام راغب علیہ الرحمۃ نے’’اَلنَّبِیُّ بِالنَّبِیِّ ‘‘کہہ کر ظاہر کر دیا ہے کہ اس امت کا نبی گذشتہ انبیاء کے ساتھ شامل ہو جائے گا جس طرح اس امت کے صدیق گذشتہ صدیقوں اور اس امت کے شہید گذشتہ شہیدوں اور اس امت کے صالح گذشتہ صالحین کے ساتھ شامل ہوں گے۔ گویا ان کی تفسیر کے مطابق امت محمدیہ کے لیے آنحضرتﷺ کی اتباع میں نبوت کا دروازہ کھلا ہے۔ ورنہ وہ کون سے نبی ہوں گے جو امام راغب علیہ الرحمۃ کی اس تفسیر کے مطابق انبیاء کی صف میں شامل ہوں گے؟
عام طور پر اس آیت میں لفظ ’’مع‘‘یعنی ساتھ پر بحث ہوتی ہے۔ امام راغبؒ اپنی کتاب المفردات میں لفظ ’’مع‘‘کی وضاحت بیان کرتے ہیں کہ اس کا استعمال پانچ طرح ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مَعَ۔ اجتماع کے معنی کو چاہتا ہے۔ خواہ(۱) وہ اجتماع مکانی ہو جیسے ھُمَا مَعًا فِی الدَّارِ وہ دونوں ایک مکان میں ہیں۔ اور خواہ (۲)زمانی جیسے ھُمَا وُلِدَ مَعًا وہ دونوں ایک وقت میں پیدا ہوئے۔ اور خواہ(۳) معنوی اعتبار سے ہو جیسے اَخٌ یا اَبٌ وَغَیْرھما اسمائے اضافی ہیں کہ ایک آدمی کو اسی وقت دوسرے کا بھائی کہا جاسکتا ہے جب وہ بھی اس کا بھائی ہو۔ کبھی (۴)وہ اجتماع رتبہ اور شرف کے لحاظ سے ہوتا ہے جیسے ھُمَا مَعًا فِی الْعُلُوٍّ وہ دونوں بلند رتبہ ہونے میں برابر ہیں۔ اور کبھی (۵)معکا لفظ معنی نصرت کو چاہتا ہے…اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ بے شک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘(زیر لفظ ’’مع‘‘مفردات القرآن (اردو)از امام راغب اصفہانی، ترجمہ وحواشی مولانا محمد عبدہ فیروز پوری جلد اول، صفحہ 1003، 1004ناشر شیخ شمس الحق مطبع زاہد بشیر پرنٹرز، 1987ء )
ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کے لیے سابق نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین کے ساتھ زمانی اور مکانی معیت حاصل نہیں تھی۔ سابق منعم علیھم لوگوں کے ساتھ امت محمدیہ کی معیت صرف درجہ اور مرتبہ میں یکسانیت والی ہی ہو سکتی ہے۔ اسی قسم کی معیت آیت قرآنی وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ(آل عمران: 194) میں ہے یعنی ’’اور ہمیں نیک لوگوں میں شامل کرکے اپنے پاس بلائیے ‘‘(ترجمہ از مفتی محمد تقی عثمانی زیر آیت ھذا مکتبہ معارف القرآن کراچی ) اس کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ جب کوئی نیک مرنے لگے اس کے ساتھ ہمیں بھی وفات دے دے۔ چونکہ آیت ومن یطع اللّٰہ والرسول میں خیر امت کے مراتب اور مناقب کا ذکر ہے، اس فضل کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے مقرر فرمایا ہے اس لیے اس جگہ اشتراک رتبہ کے معنے ہی ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ ماناجائے کہ اس امت میں کوئی نبی نہیں بن سکتا تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ امت میں سے کسی کے صالح، شہید اور صدیق بننے کا بھی امکان نہیں۔
(مرسلہ: ابن قدسی)