نظامِ شوریٰ از افاضات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ (قسط نمبر 8)
مستورات کی نمائندگی کے بارے میں حضورؓ کا رائے طلب فرمانا
مستوارت کی مجلسِ مشاورت میں نمائندگی سے متعلق پہلی بار ذکر1928ء کی شوریٰ میں ہوا۔چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے 1928ء کی مجلسِ مشاورت کے اختتام پر یہ معاملہ نمائندگانِ شوریٰ کے سامنےرکھتے ہوئے فرمایا:’’اگلے سال اِس معاملہ کو مجلس مشاورت میں رکھا جائے گا۔ کل کی بحث سے مجھے یہ خیال نہیں پیدا ہوا بلکہ پہلے سے میں نے لکھا ہوا تھا اور وہ معاملہ عورتوں کی نمائندگی کا ہے۔ میں اِس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنے سے قبل دوستوں کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ سب دوستوں کو خصوصاً علماء کو اطلاع دیتا ہوں کہ وہ اِس پر غور کریں کہ مجلس مشاورت میں عورتوں کی نمائندگی ہونی چاہئے یا نہیں؟ اور اگر ہونی چاہئے تو کِس حد تک۔ عورتوں کے متعلق یہ سوال ہر جگہ پیدا ہو رہا ہے اور ہمارے ہاں تو ضرور پیدا ہونا چاہئے کہ جب اسلام نے بعض حقوق مردوں عورتوں کے مساوی رکھے ہیں تو کیوں اہم معاملات کے متعلق اِن سے مشورہ نہیں لیا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے بھی اپنے گھروں میں مشورہ لیا اِس لئے کیوں نہ عورتوں کو یہ حق دیا جائے۔ چاہئے کہ دلائل کے ساتھ اِس پر گفتگو کی جائے کہ عورتوں کو حقوق نمائندگی حاصل ہونے چاہئیں یا نہیں؟ بہرحال اس کے متعلق غور کرنا ہے۔ اگلے سال اس معاملہ کو مجلس مشاورت میں رکھا جائے گا تاکہ اس بارے میں قطعی طور پر فیصلہ کر دیا جائے۔‘‘(خطاب فرمودہ8؍اپریل1928ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 316تا317)
نمائندگانِ مجلس شوریٰ اپنے اندر خشیت اللہ پیدا کریں
’’پس میں ان دوستوں کو جو مجلس شوریٰ میں شمولیت کے لئے آئے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندرخشیت اللہ پیداکریں۔ لسّانی اور لفّاظی نہ یہاں کام آسکتی ہے اور نہ اگلے جہان میں۔ جو چیز ہمیں دنیا میں فوقیت دے سکتی ہے اور آخرت میں سُرخرو کر سکتی ہے وہ یہی ہے کہ یعنی ہم کہیں کہ رَبُّنَااللّٰہ ہمارا رب اللہ ہے۔ اگر یہ چیز ہم میں موجود نہ ہو۔ اگر رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا والی بات ہم میں موجود نہ ہو تو غور کر لو دنیا کی دوسری طاقتوں اور قوتوں اور قوموں کے مقابلہ میں ہماری ہستی ہی کیا ہے۔ایک پشہ کے پر کے برابر بھی نہیں۔ یہی اور صرف یہی چیز ہے جس پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔ یہی چیز ہے جو ہمارے قلوب پر غالب آنی چاہئے۔ ہمارے غور پر خداتعالیٰ کی خشیت حاکم ہو، ہمارے فکر پر خداتعالیٰ کا خوف حاکم ہو، ہماری زبان پر خداتعالیٰ کا خوف حاکم ہو، ہمارے دل پر خداتعالیٰ کا خوف حاکم ہو، ہمارے مشوروں پر خداتعالیٰ کا خوف غالب ہو، ہمارے فیصلوں پر خداتعالیٰ کا خوف غالب ہو، وہی چیز جس کی وجہ سے ہم دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اُسی کی قدر و منزلت ہمارے دلوں پر غالب ہو۔ پس میں امید رکھتا ہوں دوست مشوروں میں کسی قسم کی نفسانیت کو دخل انداز نہیں ہونے دیں گے۔‘‘(خطاب فرمودہ29؍مارچ1929ء مطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 322تا323)
خداتعالیٰ پر بھروسہ اور نیک نیتی کے ساتھ مشورہ میں حصہ لیا جائے
’’ہمیں اپنے علم، اپنی عقل اور اپنے تجربہ پر قطعاً بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ خداتعالیٰ پر ہی بھروسہ رکھنا چاہئے اور اُسی سے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں ایسے رنگ میں معاملات پر غور کرنے کا موقع دے کہ ہم اُس کی رضا کو حاصل کر لیں اور ایسے ذرائع سے کلام کریں جو مفید ہوں اور ایسے طریقِ بیان سے بچائے کہ جو جماعت میں شقاق اور دین میں رخنہ پیدا کرنے والا ہو۔مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جہاں خداتعالیٰ نے اِن سب باتوں کواپنے قبضہ و اختیار میں رکھا ہے وہاں اپنے بندوں پر اپنا فضل نازل کرنے کے سامان بھی رکھے ہیں اور ان سامانوں سے کام لینا ہمارا فرض ہے۔ اِنہی سامانوں میں سے ایک ضروری سامان یہ بھی ہے کہ ہم لوگ نیک نیتی کے ساتھ اور مصفّٰی ارادوں کے ساتھ مشوروں میں حصّہ لیں۔‘‘(خطاب فرمودہ25؍مارچ1932ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 477)
بحث سے بچنے کی تاکید
’’عام طور پر جب لوگ مشورے کرتے ہیں تو بحث و مباحثہ کی رَو کے ماتحت کج بحثی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ بحث اچھی چیز ہے اِس سے بہت سی حقیقتیں کُھل جاتی ہیں لیکن اِس کے ساتھ ہی اس میں یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ یہ ایک نشہ آور چیز ہے۔ جب لوگ کسی امر کے متعلق بحث کر رہے ہوتے ہیں تو وہ نشہ محسوس کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اِن سے وہ مسئلہ پوشیدہ ہو جاتا ہے جس کے متعلق بحث شروع کی جاتی ہے اور وہ کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں۔اِن کی مثال اُس چیتے کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کہیں سِل پڑی تھی جسے وہ چیتا چاٹنے لگا۔چاٹتے چاٹتے اُس کی زبان سے خون نِکل آیا۔ اِس پر اُس نے یہ سمجھا کہ سِل چاٹنے سے مزا آرہا ہے اور آخر چاٹتے چاٹتے اُس کی ساری زبان کٹ گئی۔ بحث و مباحثہ میں بھی یہی حالت ہوتی ہے۔ جب کوئی ایسا شخص اِس میں شامل ہوتا ہے جو اپنے نفس پر پوری طرح قابو نہیں رکھتا تو اِس مسئلہ کا خیال اس کے دِل سے محو ہو جاتا ہے۔ وہ بحث میں ایسی لذّت پاتا ہے کہ گویا اُس کی ساری ترقیات کا مدار اُس پر ہوتا ہے کہ اسے جیتا ہوا سمجھا جائے۔ ایسی بحث لعنت کا موجب بن جاتی ہے اور بحث کرنے والے کو تباہ کر دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس بات پر عمل کیا اور تعلیم دی ہے کہ جب آپ ﷺکسی مجلس میں تشریف لے جاتے تو متواتر استغفار پڑھتے۔ یہاں تک کہ آپؐ نے فرمایا مَیں مجلس میں جا کر ۷۰بار استغفار کرتا ہوں۔ یہ عربی محاورہ ہے جو کثرت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی آپؐ کا یہ مطلب تھا کہ آپ بکثرت استغفار کرتے تھے ہو سکتا ہے کہ کبھی آپ 70 بار نہیں بلکہ بہت زیادہ بار استغفار کرتے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ کبھی آپ 70 بار سے کم استغفار کرتے ہوں۔ اِس استغفار کی وجہ یہی تھی کہ مجلس میں لوگ جو گفتگو کرتے ہیں اس سے انسان اثر پذیر ہونے لگتا ہے اور بسا اوقات ایک انسان اپنی جگہ سے ہِل کر کہیں کا کہیں چلا جاتا ہے اور اُسے اِس کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ استغفار کے ذریعہ خداتعالیٰ سے التجاء کی جاتی ہے کہ اسے دوسروں کےمُضراور نقصان رساں اثرات سے محفوظ رکھے۔غرض جہاں بحث کسی مسئلہ کی وضاحت اور اس کے حل کا موجب ہوتی ہے وہاں اس سے ضد اور کج رَوی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں وہ مجلس جہاں یہ بات پیدا ہو تباہی کا موجب بن جاتی ہے۔
پس میں ایک نصیحت تو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ لوگ مشورہ میں شامل ہوں تو آپ میں سے ہرایک یہ بات مدنظر رکھے کہ کسی بحث میں صرف بحث کرنے کی غرض سے کبھی شامل نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں اگر دِل میں کوئی ایسی بات آئے جو مفید ہو اور کسی اور نے نہ کہی ہو تو وہ پیش کر دینی چاہئے۔ مَیں قریباً ہر سال یہ بات کہتا ہوں مگر ہر سال کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا۔ کئی لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں مگر اِس لئے نہیں کہ اُن کے ذہن میں کوئی نئی بات ہوتی ہے بلکہ اِس لئے کہ ہمیں بھی کچھ کہنا چاہئے حالانکہ ان سے پہلے کئی دوست وہی بات کہہ چکے ہوتے ہیں مگر وہ بحث کی رَو میں بہہ جاتے ہیںاور یہ محسوس نہیں کرتے کہ اِس طرح اپنا بھی اور دوسروں کا بھی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہ محض اپنی بڑائی اور اپنی قابلیت کے اظہار کے لئے بولنا ضروری سمجھتے ہیں حالانکہ یہ اجلاس کِسی بڑائی اور کسی فخر کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا بلکہ اِس میں شامل ہونے والوں کو بے حد خوف محسوس کرنا چاہئے۔‘‘(خطاب فرمودہ25؍مارچ1932ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 477تا479)
مشورہ دیتے وقت تقویٰ و طہارت سے کام لیا جائے
’’ہماری بھی یہی حالت ہے۔ ہماری غلطی بھی لاکھوں انسانوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور ہماری اچھی بات لاکھوں انسانوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ پس یہ مت سمجھو کہ تم جو یہاںجمع ہوئے ہو ایک غریب اور کمزور جماعت کے لوگ ہو اور اپنی تعداد کے لحاظ سے دُنیا کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہو اِس لئے کہ خداتعالیٰ جن جماعتوں کو قائم کرتا ہے ان کے تأثرات خود پھیلاتا ہے۔وہ جماعتیں ایک طاقت ور بیج کی طرح ہوتی ہیں جس سے بہت بڑا درخت بنتا ہے اور ساری دُنیا میں پھیل جاتا ہے۔ ایسا درخت اگر زہریلا ہو گا تو ساری دُنیا کو تباہ کر دے گا اور اگر اچھا ہو تو تمام لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ اِس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مشوروں میں تقویٰ و طہارت سے کام لو اور صفائیٔ قلب پیدا کرو۔‘‘ (خطاب فرمودہ25؍مارچ1932ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 480تا481)
خداتعالیٰ سے راہنمائی کی دعا کی جائے
’’خداتعالیٰ سے دُعا کرو کہ وہ تمہاری راہ نمائی فرمائے۔ ہر لفظ جو تمہاری زبان سے نکلے، مصفّٰی اور خالِص ہو۔ کسی قسم کی گمراہی کا اس میں شائبہ نہ ہو۔ پھر یہ بھی دُعا کرو کہ ہم ایسے نتائج پر پہنچیں جو دُنیا کے لئے فائدہ کا موجب ہوں۔ اِس دُنیا کی زندگی نہایت عارضی اور قلیل زندگی ہے۔ اِس دُنیا کے متعلق سائنس دان کہتے ہیں کہ لاکھوں سال سے چلی آرہی ہے اور یہ پتہ نہیں کہ کب تک چلی جائے گی۔ اِتنے لمبے عرصہ میں سے زیادہ سے زیادہ ۶۰یا۷۰سال کی انسانی زندگی ایک نہایت ہی قلیل زندگی ہے۔ اس میں کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے کہ جس کا بُرا خمیازہ ابدی زندگی میں اُٹھانا پڑے بلکہ اِسی بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہی کچھ کیا جائے جس کا فائدہ اُس ہمیشہ کی زندگی میں حاصل ہو سکے۔‘‘( خطاب فرمودہ25؍مارچ1932ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 481)
ذاتی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر رائے دی جائے
’’یاد رکھنا چاہئے کہ مشورہ دینے والے آپس میں اختلاف بھی رکھتے ہیں مگر مشورہ دیتے وقت معاملہ کی حقیقت کو مدّنظر رکھنا چاہئے اور یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ کس نے اسے پیش کیا ہے۔ یہ نہایت ہی ذلیل بات ہے کہ زید یا بکر سے اختلاف کی وجہ سے اُس کے پیش کردہ مسئلہ کے خلاف رائے دی جائے۔ یہ بات میں یہ فرض کر کے کہہ رہا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی کسی کو کسی سے عداوت اور دشمنی ہو سکتی ہے اگر ایسا ہو تو کسی کو کسی عداوت کی وجہ سے خلاف رائے نہیں دینی چاہئے یا کسی کے الفاظ کی ترشی کو اپنی رائے پر اثر انداز نہیں ہونے دینا چاہئے۔ اس قسم کے سب طریق گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں اور سخت نقصان پہنچانے والے ہیں۔‘‘(خطاب فرمودہ25؍مارچ1932ءمطبوعہ خطاباتِ شوریٰ جلد اول صفحہ 481)
(جاری ہے)
٭…٭…٭