ماہ صیام میں سحر و افطار
ماہ صیام میں ظاہری بھوک پیاس برداشت کرنا لازمی امر ہے مگر وہ مقدس و مطہر وجود جو کل عالم کے لیے رحمت اور مومنوں کے لیے رؤوف و رحیم تھا اس نے سحری آخری وقت تک کھانے اور افطاری اوّل وقت میں کرنے کا اصول وضع فرمایا
رمضان! رحمتوں اور برکتوں سے معمور ایام۔ ایک مجاہدہ جو صاحب ایمان کو تقویٰ کے راستے پر چلانے، بھوک پیاس برداشت کرنے اور طبیعت میں ٹھہراؤ لانے کا ذریعہ ہے۔
روزہ! وہ عبادت جس کےبدلے میں خالقِ کُل اور مالک ِحقیقی نے ’’الصَّوْمُ لِيْ وَأَنَا أَجْزِي بِهِ‘‘کامژدہ سنایا۔
روزہ صرف ظاہری بھوک پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں، بلکہ ایک مسلمان کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے۔ رمضان نفس کے احتساب کا مہینہ ہے، اور بداعمال سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے۔ روزے جسمانی صحت کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ اسے بڑھاتے ہیں۔ روزوں سے دل کی پاکی، روح کی صفائی اورنفس کی طہارت حاصل ہوتی ہے۔
روزے، شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک سطح پر کھڑا کر دینے سے قوم میں مساوات کے اصول کو تقویت دیتے ہیں۔
روزے ملکوتی قوتوں کو قوی اور حیوانی قوتوں کو کمزور کرتے ہیں۔ روزے جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بناتے ہیں۔ قدرتی مشکلات کو حل کرنے اور آفات کو ٹالنے کے لیے روزہ بہترین ذریعہ ہے۔ ان فوائد کے علاوہ اور بہت فائدے ہیں جن کا ذکر قرآن و حدیث میں مذکو رہے۔
سرورکائناتﷺ کی زبان اطہر سے نکلے یہ کلمات تا ابد ماہ رمضان کی عظمت، اہمیت اور خیر و برکت پر گواہ رہیں گے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: …وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا وَنِيَّةًحدیث نمبر1901)حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فرمایا: جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے، اس کےاگلے گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ فَعَرَفَ حُدُوْدَهُ وَحَفِظَ مَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَحْفَظَ مِنْهُ كُفِّرَ مَا قَبْلَهُ۔ (المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي بَابٌ فِي مَنْ صَامَ رَمَضَانَ فَعَرَفَ حُدُودَهُ، حدیث نمبر504)حضرت ابو سعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے پوری شرائط کے ساتھ رکھے اور ہر اس امر کی حفاظت کی جس کی روزے کی حالت میں حفاظت ضروری ہے اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
روزہ کو عربی زبان میں ’’صوم‘‘کہتے ہیں، صوم کا لغوی معنی ’’امساک‘‘یعنی رکنےکے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور عمل مباشرت سے رک جانے کا نام روزہ ہے جیسا کہ قرآن حکیم کے احکامات سے ثابت ہے۔
روزہ طلوع فجر سے شروع ہو کر غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے، روزے کی شروعات سحری سے اور اختتام افطارسے ہوتا ہے۔ اورماہ صیام میں ظاہری بھوک پیاس برداشت کرنا لازمی امر ہے مگر وہ مقدس و مطہر وجود جو کل عالم کے لیے رحمت اور مومنوں کے لیے رؤوف و رحیم تھا اس نے سحری آخری وقت تک کھانے اور افطاری اوّل وقت میں کرنے کا اصول وضع فرمایا۔
وہ لاریب و بے عیب کتاب اور کلام ربانی جو قرآن مجید کے نام سے موسوم ہے اس میں خدا تعالیٰ نے خود سحر و افطار کے وقت کا تعین فرمایا: وَ کُلُوۡا وَ اشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ۔ (البقرۃ: 188)اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ فجر (کے ظہور) کی وجہ سے (صبح کی) سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے تمہارے لئے ممتاز ہو جائے۔ پھر روزے کو رات تک پورا کرو۔
ماہ رمضان میں روزے کی شروعات اور اختتام کے حوالے سے رسول رحمتﷺ کےچند ارشادات درج ذیل ہیں۔
صحابہ رسولﷺ کی سادگی
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ … عَمَدْتُ إِلَى عِقَالٍ أَسْوَدَ وَإِلَى عِقَالٍ أَبْيَضَ، فَجَعَلْتُهُمَا تَحْتَ وِسَادَتِي، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ فِي اللَّيْلِ فَلَا يَسْتَبِيْنُ لِي، فَغَدَوْتُ عَلَى رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ لَهُ ذٰلِكَ، فَقَالَ: إِنَّمَا ذٰلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ۔ بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ، حدیث نمبر: 1916)حضرت عدی بن حاتمؓ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’یہاں تک کہ فجر (کے ظہور) کی وجہ سے (صبح کی) سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے تمہارے لئے ممتاز ہو جائے۔‘‘تو میں نے ایک سیاہ دھاگہ لیا اور ایک سفید اور دونوں کو تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات مَیں دیکھتا رہا مجھ پر ان کے رنگ نہ کھلے۔ جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپﷺ سے اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس سے تو رات کی تاریکی (صبح کاذب) اور دن کی سفیدی (صبح صادق) مراد ہے۔
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: أُنْزِلَتْ: وَکُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ… وَلَمْ يَنْزِلْ مِنَ الْفَجْرِ، فَكَانَ رِجَالٌ إِذَا أَرَادُوْا الصَّوْمَ رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلِهِ الْخَيْطَ الْأَبْيَضَ وَالْخَيْطَ الْأَسْوَدَ، وَلَمْ يَزَلْ يَأْكُلُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رُؤْيَتُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللّٰهُ بَعْدُ ’مِنَ الْفَجْرِ‘، فَعَلِمُوْا أَنَّهُ إِنَّمَا يَعْنِي اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ۔ بَابُ قَوْلِ اللّٰهِ تَعَالَى: وَکُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الۡخَیۡطُ الۡاَبۡیَضُ مِنَ الۡخَیۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ ۪ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیۡلِ، حدیث نمبر1917)حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ’’یہاں تک کہ سفید دھاری سیاہ دھاری سے تمہارے لیے ممتاز ہو جائے۔‘‘لیکن ’’مِنَ الْفَجْرِ‘‘(صبح کی) کے الفاظ نازل نہیں ہوئے تھے۔ اس پر کچھ لوگوں نے یہ کہا کہ جب روزے کا ارادہ ہوتا تو سیاہ اور سفید دھاگہ لے کر پاؤں میں باندھ لیتے اور جب تک دونوں دھاگے پوری طرح دکھائی نہ دینے لگتے، کھانا پینا بند نہ کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ’’من الفجر‘‘کے الفاظ نازل فرمائے پھر لوگوں کو معلوم ہوا کہ اس سے مراد رات اور دن ہیں۔
سحری، بابرکت کھانا
عَنْ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ بَرَكَةِ السَّحُورِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ، حدیث نمبر1923)حضرت انس بن مالکؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سحری کھاؤ کہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الصِّيَامِ باب فَضْلِ السُّحُورِ وَتَأْكِيدِ اسْتِحْبَابِهِ وَاسْتِحْبَابِ تَأْخِيرِهِ وَتَعْجِيلِ الْفِطْرِ، حدیث نمبر 2550)حضرت عمرو بن عاصؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں سحری کے لقمہ کا فرق ہے۔
عَنْ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: دَعَانِي رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّحُورِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: هَلُمَّ إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ۔ (سنن ابي داؤد كتاب الصيام باب مَنْ سَمَّى السَّحُورَ الْغَدَاءَ، حدیث نمبر2344)حضرت عرباض بن ساریہؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ نے رمضان میں سحری کھانے کے لیے بلایا اور یوں فرمایا: بابرکت غداءپر آؤ۔
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَدْعُوْ إِلَى السَّحُورِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَقَالَ: هَلُمُّوْا إِلَى الْغَدَاءِ الْمُبَارَكِ۔ (سنن نسائي كتاب الصيام بَابُ: دَعْوَةِ السُّحُورِ۔ حدیث نمبر2165)حضرت عرباض بن ساریہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا: آپ رمضان کے مہینہ میں سحری کھانے کے لیے بلا رہے تھے اور فرما رہے تھے: آؤ صبح کے مبارک کھانے پر۔
عَنْ عَبْدِ الْحَمِيْدِ صَاحِبِ الزِّيَادِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَسَحَّرُ، فَقَالَ: إِنَّهَا بَرَكَةٌ أَعْطَاكُمُ اللّٰهُ إِيَّاهَا فَلَا تَدَعُوْهُ۔ (سنن نسائي كتاب الصيام بَابُ: فَضْلِ السُّحُورِ۔ حدیث نمبر2164)حضرت عبد اللہ بن حارثؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے اصحاب میں سے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا۔ آپ اس وقت سحری کھا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: یہ برکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے۔ اس لیے تم اسے مت چھوڑو۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَرَادَ أَنْ يَصُوْمَ فَلْيَتَسَحَّرْ وَلَوْ بِشَيْءٍ۔ (المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي۔ كتاب الصوم باب: على أي شيء يفطر الصائم۔ حدیث نمبر 509)حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس شخص نے روزہ رکھنا ہو اسے چاہیے کہ وہ کچھ نہ کچھ سحری ضرور کھائے۔
سحری اور نماز فجر
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللّٰهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ أَتَسَحَّرُ فِي أَهْلِي، ثُمَّ تَكُوْنُ سُرْعَتِي أَنْ أُدْرِكَ السُّجُودَ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ (صحيح البخاري، كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ تَأْخِيرِ السَّحُورِ، حدیث نمبر1920)حضرت سہل بن سعدؓ نے بیان کیا کہ میں سحری اپنے گھر کھاتا پھر جلدی کرتا تاکہ نماز نبی کریمﷺ کے ساتھ مل جائے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا: أَنَّ بِلَالًا كَانَ يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُوْمٍ، فَإِنَّهُ لَا يُؤَذِّنُ حَتّٰى يَطْلُعَ الْفَجْرُ، قَالَ الْقَاسِمُ: وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ أَذَانِهِمَا إِلَّا أَنْ يَرْقَى ذَا، وَيَنْزِلَ ذَا۔(صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَمْنَعَنَّكُمْ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ، حدیث نمبر1918)حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ بلالؓ کچھ رات رہے، اذان دے دیا کرتے تھے اس لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تک ابن ام مکتومؓ اذان نہ دیں تم کھاتے پیتے رہو کیونکہ وہ صبح صادق کے طلوع سے پہلے اذان نہیں دیتے۔ قاسم نے بیان کیا کہ دونوں (بلال اور ام مکتوم رضی اللہ عنہما) کی اذان کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا تھا کہ ایک چڑھتے تو دوسرے اترتے۔
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ؟ قَالَ: قَدْرُ خَمْسِيْنَ آيَةً۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ قَدْرِ كَمْ بَيْنَ السَّحُورِ وَصَلاَةِ الْفَجْرِ، حدیث نمبر1921)حضرت زید بن ثابتؓ نےبیان کیا کہ ہم نے نبی کریمﷺ کے ساتھ سحری کھائی۔ پھر آپﷺ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصل ہوتا تھا۔
آقا دو جہاں کی سحری
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نِعْمَ سَحُورُ الْمُؤْمِنِ التَّمْرُ۔ (سنن ابي داؤد كتاب الصيام باب مَنْ سَمَّى السَّحُورَ الْغَدَاءَ، حدیث نمبر2345)حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کھجور مومن کی کتنی اچھی سحری ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَرِّبِي إِلَيْنَا الْغَدَاءَ الْمُبَارَكَ يَعْنِي: السَّحُورَ وَرُبَّمَا لَمْ يَكُنْ إِلَّا تَمْرَتَيْنِ۔ (المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي۔ كتاب الصوم باب: على أي شيء يفطر الصائم۔ حدیث نمبر511)ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا: سحری کا بابرکت کھانا میرے پاس لاؤ۔ اور کبھی تو ایسا ہوتا تھا اس کے لیے دو کھجوریں ہی میسر ہوتی تھیں۔
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَسَحَّرُوْا وَلَوْ بِجُرْعَةٍ مِنْ مَاءٍ۔ (المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي۔ كتاب الصوم باب: على أي شيء يفطر الصائم۔ حدیث نمبر 510)حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: سحری کھاؤ چاہے اس وقت صرف تمہیں پانی کے چند گھونٹ ہی میسر ہوں۔
عَنْ صَخْرِ الْغَامِدِيِّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللّٰهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا۔ (تحفة الأحوذي كتاب البيوع عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، باب ما جاء في التبكير بالتجارة)حضرت صخر غامدیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ان لفاظ میں دعا مانگی: اے اللہ ! میری امت کے صبح کے وقت اٹھنے میں برکت عطا فرما۔
سحری کب تک کی جائے؟
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ۔ (سنن ابي داؤد كتاب الصيام باب فِي الرَّجُلِ يَسْمَعُ النِّدَاءَ وَالإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، حدیث نمبر2350)حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی جب صبح کی اذان سنے اور کھانے پینے کا برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کیے بغیر نہ رکھے۔
عَنْ زِرٍّ، قَالَ: قُلْنَا لِحُذَيْفَةَ: أَيَّ سَاعَةٍ تَسَحَّرْتَ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: هُوَ النَّهَارُ إِلَّا أَنَّ الشَّمْسَ لَمْ تَطْلُعْ۔ (سنن نسائي كتاب الصيام بَابُ: تَأْخِيرِ السَّحُورِ وَذِكْرِ الْاِخْتِلَافِ عَلَى زِرٍّ فِيْهِ، حدیث نمبر2154)زر حبیش بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حذیفہؓ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہﷺ کے ساتھ کس وقت سحری کھائی ہے؟ تو انہوں نے کہا: تقریباً دن کی روشنی ہونے تک مگر سورج نکلا نہیں تھا۔
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذٰلِكَ عِنْدَ السُّحُورِ:’’يَا أَنَسُ!إِنِّي أُرِيْدُ الصِّيَامَ أَطْعِمْنِي شَيْئًا‘‘، فَأَتَيْتُهُ بِتَمْرٍ وَإِنَاءٍ فِيْهِ مَاءٌ، وَذٰلِكَ بَعْدَ مَا أَذَّنَ بِلَالٌ، فَقَالَ: ’’يَا أَنَسُ!انْظُرْ رَجُلًا يَأْكُلْ مَعِي‘‘، فَدَعَوْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، فَجَاءَ فَقَالَ: ’’إِنِّي قَدْ شَرِبْتُ شَرْبَةَ سَوِيْقٍ، وَأَنَا أُرِيْدُ الصِّيَامَ‘‘، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’وَأَنَا أُرِيْدُ الصِّيَامَ‘‘، فَتَسَحَّرَ مَعَهُ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ۔ (سنن نسائي كتاب الصيام بَابُ:السُّحُورِ بِالسَّوِيْقِ وَالتَّمْرِ، حدیث نمبر2169)حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سحری کے وقت فرمایا: ’’اے انس! میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں مجھے کچھ کھلاؤ۔‘‘تو میں کچھ کھجور اور ایک برتن میں پانی لے کر آپ کے پاس آیا اور یہ بلالؓ کی اذان دینے کے بعد کا وقت تھا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے انس! کسی اور شخص کو تلاش کرو جو میرے ساتھ سحری کھائے‘‘ تو میں نے زید بن ثابتؓ کو بلایا۔ چنانچہ وہ آئے اور کہنے لگے: ’’میں نے ستو کا ایک گھونٹ پی لیا ہے اور میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں ‘‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’میں بھی روزہ رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ پھر زید بن ثابت نے آپ کے ساتھ سحری کھائی۔ پھر آپﷺ اٹھےاور فجر کی دو رکعت سنت پڑھی۔ پھر آپ فرض نماز کے لیے نکل گئے۔
روزے کی نیت
عَنْ حَفْصَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ۔ (سنن ترمذي، ابواب الصيام عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، باب مَا جَاءَ لَا صِيَامَ لِمَنْ لَمْ يَعْزِمْ مِنَ اللَّيْلِ، حدیث نمبر730)ام المومنین حضرت حفصہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے روزے کی نیت فجر سے پہلے نہیں کی اس کا روزہ نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ روزہ رکھنے کی دعا کسی حدیث مبارکہ میں منقول نہیں۔ اصل نیت فرض ہے جو دل کے ارادے کا نام ہے۔ نیت کا مطلب کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں نیت کا مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ کرنا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ جیسی عبادات میں نیت فرض ہے، لیکن الفاظ فرض نہیں۔
افطار
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ تَعْجِيلِ الإِفْطَار،حدیث نمبر1957)حضرت سہل بن سعدؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہمیشہ لوگ خیر پر رہیں گے جب تک روزہ افطارکرنے میں جلد ی کریں گے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا۔ (سنن ترمذي ابواب الصيام باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ۔ حدیث نمبر700)حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے: مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں۔
عَنْ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِيْهِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَاهُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ مَتَى يَحِلُّ فِطْرُ الصَّائِمِ حدیث نمبر1954)حضرت عاصم بن عمر بن خطاب روایت کرتے ہیں کہ میرے والدحضرت عمرؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب رات اس طرف (مشرق) سے آئے اور دن ادھر مغرب میں چلا جائے کہ سورج ڈوب جائے تو روزہ کے افطار کا وقت آ گیا۔
عَنْ عَبْدَ اللّٰهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، لَوْ أَمْسَيْتَ، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، قَالَ: انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا، فَنَزَلَ فَجَدَحَ، ثُمَّ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ أَقْبَلَ مِنْ هَاهُنَا، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ قِبَلَ الْمَشْرِقِ۔ (صحيح البخاري كِتَاب الصَّوْمِ بَابُ يُفْطِرُ بِمَا تَيَسَّرَ عَلَيْهِ بِالْمَاءِ وَغَيْرِهِ، حدیث نمبر1956)حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے۔ آپﷺ روزے سے تھے۔ جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! تھوڑی دیر اور ٹھہریے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول۔ انہوں نے پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ! ابھی تو دن باقی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اتر کر ستو ہمارے لیے گھول۔ چنانچہ انہوں نے اتر کر ستو گھولا۔ نبی کریمﷺ نے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات کی تاریکی ادھر سے آ گئی تو روزہ دار کو روزہ افطار کر لینا چاہیے۔ آپﷺ نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔
عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ، قَالَ:دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوْقٌ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِيْنَ رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ، قَالَتْ: أَيُّهُمَا الَّذِيْ يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ؟، قَالَ: قُلْنَا:عَبْدُ اللّٰهِ يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: كَذَلِكَ كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ زَادَ أَبُو كُرَيْبٍ: وَالْآخَرُ أَبُو مُوسىٰ۔ (صحيح مسلم كِتَاب الصِّيَامِ باب فَضْلِ السُّحُورِ وَتَأْكِيدِ اسْتِحْبَابِهِ وَاسْتِحْبَابِ تَأْخِيْرِهِ وَتَعْجِيلِ الْفِطْرِ، حدیث نمبر2556)ابوعطیہ سے روایت ہے کہ میں اور مسروق ام المومنین عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی اے ام المومنین! اصحاب رسول اللہﷺ میں سے دو شخص ہیں ایک تو اوّل وقت افطار کرتے ہیں اور اوّل ہی وقت نماز پڑھتے ہیں دوسرے افطار اور نماز میں دیر کرتے ہیں۔ آپؓ نے پوچھا: وہ کون ہیں جو اوّل وقت افطار کرتے ہیں اور اوّل ہی وقت نماز پڑھتے ہیں تو ہم نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعودؓ ہیں۔ آپؓ نے فرمایا: رسول اللہﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ ابوکریب بیان کرتے ہیں کہ دوسرے حضرت ابوموسیٰؓ ہیں۔
مستحب افطار
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ۔ (سنن ترمذي ابواب الصيام عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم باب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ عَلَيْهِ الإِفْطَارُ۔حدیث نمبر696)حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ مغرب پڑھنے سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ وَجَدَ تَمْرًا فَلْيُفْطِرْ عَلَيْهِ وَمَنْ لَا فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ، فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُوْرٌ۔ (سنن ترمذي ابواب الصيام عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم باب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ عَلَيْهِ الإِفْطَارُ، حدیث نمبر694)حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جسے کھجور میسر ہو، تو چاہیے کہ وہ اسی سے روزہ کھولے، اور جسے کھجور میسر نہ ہو تو چاہیے کہ وہ پانی سے کھولے کیونکہ پانی پاکیزہ چیز ہے۔
عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ الضَّبِّيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ زَادَ ابْنُ عُيَيْنَةَ فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ فَإِنَّهُ طَهُوْرٌ۔ (سنن ترمذي ابواب الصيام عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم باب مَا جَاءَ مَا يُسْتَحَبُّ عَلَيْهِ الْإِفْطَارُ، حدیث نمبر695)حضرت سلمان بن عامر ضبیؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اسے چاہیے کہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اور جسے کھجور میسر نہ ہو تو وہ پانی سے افطار کرے کیونکہ یہ پاکیزہ چیز ہے۔
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ أَنْ يُفْطِرَ عَلَى ثَلَاثِ تَمَرَاتٍ أَوْ شَيْءٍ لَمْ تُصِبْهُ النَّارُ۔ (المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي۔ كتاب الصوم باب: على أي شيء يفطر الصائم، حدیث نمبر 508)حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ طاق کھجوروں سے افطار کرنا پسند فرماتے یا کسی ایسی شے سے جسے آگ نے نہ چھوا ہو۔
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ صَلَّى صَلَاةَ الْمَغْرِبِ حَتَّى يُفْطِرَ وَلَوْ كَانَ عَلَى شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ۔ (المقصد العلي في زوائد أبي يعلى الموصلي بَابٌ: تَعْجِيلُ الإِفْطَارِ وَتَأْخِيرُ السُّحُورِ، حدیث نمبر505)حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نےکبھی رسول اللہﷺ کو افطار سے پہلے نماز مغرب پڑھتے نہیں دیکھا۔ آپﷺ پہلے روزہ افطار کرتے چاہے صرف پانی کے چند گھونٹ ہی میسر ہوں۔ پھر مغرب کی نماز ادا فرماتے۔
افطار کی دعا
حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَفْطَرَ، قَالَ: ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ۔ (سنن ابي داؤدكتاب الصيام باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ، حدیث نمبر 2357)مروان بن سالم مقفع کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھا وہ اپنی داڑھی کو مٹھی میں پکڑتے اور جو مٹھی سے زائد ہوتی اسے کاٹ دیتےاور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء اللّٰه۔ پیاس ختم ہو گئی، رگیں تر ہو گئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: اللّٰهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ۔ (سنن ابي داؤد كتاب الصيام باب الْقَوْلِ عِنْدَ الإِفْطَارِ، حدیث نمبر2357)حضرت معاذ بن زہرہ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی کریمﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: اللّٰهم لك صمت وعلى رزقك أفطرت۔ اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا۔
ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مرقاۃالمفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُ کے الفاظ کی کوئی اصل نہیں مگر یہ الفاظ درست ہیں اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے۔ لہٰذا اِس بحث کی روشنی میں اِفطار کے وقت کوئی درج ذیل مروجہ دعا: اَللّٰھُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ یعنی: اے اﷲ! مَیں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کیا۔ مسنون دعا کا حصہ نہ سمجھتے ہوئے پڑھ لے تو اس سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مرقاۃ المفاتیح، شرح اردومشکوٰۃ المصابیح۔ جلد 4صفحہ 686۔ ناشر مکتبہ رحمانیہ اردوبازار لاہور)
خدا تعالیٰ ہم سب کو ان مقدس ایام سے بھر پور برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
٭…٭…٭