رمضان، تلاوت قرآن کریم اور تراویح
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
رسُولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان ایّام میں تلاوتِ قرآنِ کریم کو ضروری قرار دیا ہے اور صحابۂ کرام ؓ ،تابعین اور تیرہ صدیوں کے مسلمان برابر ان ایّام میں تلاوتِ قرآن کریم میں زیادتی کرتے چلے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں بھی ہم نے رمضان میں درس کا سلسلہ شروع کیا ہؤا ہے تا لوگ قرآن کریم کا ترجمہ اور معمولی تفسیر سُن سکیں۔ اِسی طرح حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے تتبّع میں قریباً تمام مساجد میں تراویح کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ مسجدوں میں لوگ جمع ہو کر اِس طرح قرآن کریم سُنتے ہیں پھر بہت سے لوگ گھروں میں قرآن کریم پڑھ لیتے ہیں اور تہجد پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا دستور تھا۔
جب اسلام بہت پھیل گیا اور کئی کمزور لوگ بھی داخل ہونے لگے تو حضرت عمرؓنے سمجھا کہ بہت سے لوگ تہجد نہیں پڑھ سکیں گے اس لئے شروع وقت میں تراویح کا طریق اختیار کیا تامسجدوں میں قرآن کریم سُن سکیں۔ گویا یہ طریق صحابہ کا جاری کردہ ہے اور تہجد کا طریق رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہے۔ جو لوگ تہجد پڑھ سکتے ہوں اور گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کر سکیں، انہیں شروع وقت میں تراویح پڑھنے کی ضرورت نہیں لیکن جو لوگ سمجھتے ہیں کہ تہجد نہیں پڑھ سکتے یا قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر سکتے یا وہ اَن پڑھ ہیں یا پڑھے ہوئے تو ہیں مگر دیکھ نہیں سکتے ان کے لئے یہ صورت ہے کہ وہ تراویح پڑھیں اور مسجد میں قرآن سُن لیں خواہ اوّل وقت میں یا آخری وقت میں۔ اِسی طرح وہ لوگ بھی اِس طریق سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ گھر پر وہ باقاعدگی کو قائم نہیں رکھ سکیں گے لیکن مسجد میں ناغہ کرنا مُشکل ہو گا۔ ایک روز جانے کے بعد دوسرے روزناغہ ہو گا تو دوست احباب دریافت کریں گے کہ کیوں نہیں آئے؟ اِس طرح نفس شرمندگی محسوس کرے گا اور وہ ناغہ سے بچ جائیں گے۔ انہیں بھی تراویح پڑھنی چاہیئے۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍اکتوبر۱۹۳۹ء۔ خطباتِ محمود جلد ۲۰ صفحہ ۴۵۰-۴۵۱)