قرآن کریم کے نصف میں وَلْيَتَلَطَّفْ کا لفظ آنے میں کچھ خاص حکمت ہے؟
سوال: ایک دوست نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ قرآن کریم کے نصف میں جو وَلْيَتَلَطَّفْ کا لفظ آیا ہے، اس لفظ کے قرآن کریم کے درمیان میں آنے میں کچھ خاص حکمت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 12؍فروری 2021ءمیں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آیات اور سورتوں کی شکل میں نازل فرمایا اور آنحضورﷺ نے خدا تعالیٰ سے راہنمائی پا کر اس کی موجودہ ترتیب کو قائم فرمایاہے۔ آنحضورﷺ کے بعد مختلف وقتوں میں کئی طرح سے جو قرآن کریم کی تقسیم کی گئی ہے، یہ سب ذوقی باتیں ہیں۔ اس سے قرآن کریم میں پائی جانے والی دائمی تعلیمات اور اس کے عمیق در عمیق روحانی معارف پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
قرآنی تعلیمات کا بنیادی مقصد خدا تعالیٰ کی توحید کا پرچار ہے۔ اس اعتبار سے جب ہم قرآن کریم پرغور کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ قرآن کریم کی ابتدا میں بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کے مضمون کو بیان کیا گیا اور قرآن کریم کا اختتام بھی اسی توحید باری تعالیٰ کے مضمون پر ہو رہا ہے اور قرآن کریم کے درمیان میں جو سورت آئی ہے یعنی سورۃ الکہف وہ بھی خاص طور پر توحید کے ہی مضمون پر مشتمل ہے اور پھر خود اس سورت کا آغاز اور اختتام بھی توحید ہی کے مضمون پر ہوتا ہے۔
پس قرآن کریم کی اس ترتیب میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ توحید کی تعلیم کو بیان فرما کر انسان کو یہ پیغام دیا ہےکہ اس کی کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اس عارضی زندگی کو گزارے تا کہ اخروی اور دائمی زندگی میں وہ خداتعالیٰ کے لا متناہی فضلوں کا وارث بن سکے۔