حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کی وضاحت
سوال: ایک دوست نے آنحضورﷺ کے ارشاد کہ’’میں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جب حضرت آدم ابھی اپنی پیدائش کے بالکل ابتدائی مراحل میں تھے‘‘ کی ایک تشریح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر کے اس بارے میں راہنمائی چاہی نیز اس مضمون کے حوالے سے اس دوست نے دو حدیثوں کا حوالہ بھی حضور سے دریافت کیا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍مارچ 2021ء میں اس بارے میں درج ذیل ارشادات فرمائے:
جواب: آنحضورﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے غیر معمولی اور بلند مرتبہ مقام کے حوالے سے حضورﷺ کے ارشاد: إِنِّي عِنْدَ اللّٰهِ مَكْتُوْبٌ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِينَتِهٖ۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الفضائل باب فضائل سید المرسلینﷺ )کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم (علیہ السلام) ابھی اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے ہوئے تھے۔ نیز حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ۔ (روح المعانی از علامہ آلوسی جزو اوّل صفحہ 70تفسیر سورۃ الفاتحہ۔ داراحیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 1999ء) کہ اے محمد (ﷺ ) اگر تو نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا، کی تشریح میں آپ نے جو نکتہ بیان کیا ہے کہ ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھی حضورﷺ کے مقام خاتم النبیین کے بعد آئے اور زمین و آسمان بھی اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو اس مقام پر فائز کرنے کے بعد بنائے، ٹھیک ہے۔ جس کا پرانے علماء نے بھی ذکر کیا ہے اور یہ جماعتی لٹریچر میں بھی بیان ہوا ہے۔
چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بانیٔ دیو بند حضرت محمد قاسم نانوتوی کا ایک حوالہ کہ ’’اوّل معنیٰ خاتم النبیین معلوم کرنے چاہئیں تا کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو۔ سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہﷺ کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعداور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تأخر زمانی بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں وَلٰكِنْ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ فرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہوسکتا ہے۔ ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقام مدح قرار نہ دیجیے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے۔ مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارا نہ ہوگی…اگر بالفرض بعد زمانہ نبویﷺ کوئی نبی پیدا ہو توپھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘بیان کر کے اس مضمون کی وضاحت کرتے ہوئے حضورؒ فرماتے ہیں: ’یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ حضرت اقدس محمدﷺ تو اس وقت بھی خاتم تھے کہ جبکہ انسان کاابھی Blue Printتھا۔ ابھی وہ تخلیق کے تشکیلی مراحل سے گزر رہا تھا۔ تخلیق کو تشکیل دی جارہی تھی۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں مَیں اس وقت بھی خاتم النبیین تھا جبکہ آدم ابھی اپنی تخلیق کی مٹی میں لت پت تھا۔ کتنا عظیم الشان مضمون ہے۔ خاتمیت زمانہ سے بالا ہے۔ زمانہ کے ماتحت نہیں ہے۔ خاتم سے پہلے بھی کوئی نبی اس کی نبوت کا مقابلہ نہیں کر سکتا، نہ بعد میں کوئی نبی ایسا آسکتا ہے جو اس کے مقابل پر ہو۔ لیکن بعد میں ایک لازم شرط ہےکہ مطیع ہوگا تو ہوگا ورنہ بالکل نہیں ہوگا۔ غلام آسکتا ہے غیر غلام نہیں آسکتا۔ اور پہلے بھی وہی نبی ہیں جن پر آپ کی مہر تصدیق ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کی لوگ کوشش نہیں کرتے، بہت عظیم الشان مضمون ہے۔ آنحضرتﷺ کومسلمان خاتم کہہ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں بہت عظیم الشان ایک منفرد مرتبہ ہے جو کسی نبی کو حاصل نہیں۔ پوچھو کہ ثبوت کیا ہے؟ تو ان علماء سے پوچھ کے دیکھ لیجئے، کچھ ثبوت ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ کیسے پتہ چلا، کیسے دنیا پہ ثابت کر سکتے ہو؟ یہاں جب مغربی دنیا میں مجالس میں لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگوں کے پاس کیا ثبوت ہے؟ میں کہتا ہوں میں تمہیں ثبوت دکھاتا ہوں۔ اس کا جواب نکال کے دکھاؤ۔ ساری دنیا میں جتنے انبیاء آئے ہیں ایک بھی نبی ایسا نہیں جس نے اپنے سلسلہ کے علاوہ دنیا کے دوسرے نبیوں کی تصدیق کی ہو۔ چراغ لے کے ڈھونڈو، تلاش کر کے مجھے دکھاؤ۔ ایک بھی نہیں۔ آمَنْتُ بِاللّٰهِ… وَكُتُبِهِ وَ رُسُلِهِ میں تمام انبیاء پر اور سب رسولوں پر جو ایمان کو لازم قرار دیا ہےوہ ایک ہی تو ہے ہمارے آقاو مولیٰ حضرت محمد مصطفیﷺ۔ تو تصدیق کی مہر کس کے ہاتھ میں ہے۔ حضرت اقدسؐ کے سوا کوئی ہاتھ دکھاؤ تو سہی۔ یہ خاتمیت ہے۔ اس خاتمیت کے اعلیٰ اور ارفع مضمون کوچھوئے بغیر تم زمانی ختم کے اوپر آپڑے ہو اور کچھ پتہ نہیں کہ باتیں کیا کر رہے ہو۔ زمانی ختم مقام مدح میں نہیں ہے۔ مگر یہ ختم جو قرآن بیان فرما رہا ہے یہ ایسی مدح ہے کہ جس کی کوئی مثال دنیا میں دکھائی نہیں جاسکتی۔ تجربہ کر کے دیکھ لیجئے۔ میں تو سب دنیا کو بتا رہا ہوں۔ کسی دنیا کے مذہب کو چیلنج دے دیں آپ کہ تمہارا اگر نبی کوئی بھی نبی صاحب خاتم تھاتو اس کی دوسرے نبیوں پہ تصدیق تو دکھاؤ۔ محمد رسول اللہﷺ کے سوا ایک بھی نہیں جو خاتم النبیین ہو۔ تمام نبیوں کا مصدق ہو۔ پس آئندہ بھی اگر کوئی آئےتو آپ کی تصدیق کے بغیر نہیں آسکتا۔ اسی لیے ہم حقیقت میں جب کہتے ہیں کہ امتی نبی تو مراد امام مہدی اور وہ مسیح موعودہیں جن کی پیشگوئی کی گئی ہے، اس کے سوا ہماری کوئی مراد نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اس پر مہر تصدیق ثبت ہے۔ امام مہدی کے سوا ہم نے کب کسی کو نبی کہا ہے۔ پس وہی امام مہدی ہے اسی کو ہم امتی نبی کہتے ہیں۔‘(ملاقات پروگرام مورخہ31؍جنوری1994ءغیرمطبوعہ)
باقی جو آپ نے حدیثوں کے حوالے پوچھے ہیں تو مشکوٰۃ میں درج حدیث اور اس کا حوالہ اس طرح ہے: عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَؓ عَنْ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أنَّهٗ قَالَ: إِنِّي عِنْدَ اللّٰهِ مَكْتُوْبٌ: خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِيْنَتِهٖ وسَاُخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ أمْرِيْ دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ وَبَشَارَةُ عِيْسَى وَرُؤْيَا أُمِّيَ الَّتِيْ رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْنِيْ وَقَدْ خَرَجَ لَهَا نُورٌ أَضَاءَ لَهَا مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ۔ (مشکوۃ المصابیح کتاب الفضائل باب فضائل سید المرسلینﷺ )یعنی حضرت عرباض ابن ساریہؓ سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے خاتم النبیین لکھا ہوا ہوں جب آدم (علیہ السلام) اپنی گندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میراامر (یعنی میری پیدائش کے معاملے کی ابتدا)حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت اور میری والدہ کا خواب ہے جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ میری والدہ کے سامنے ایک نور ظاہر ہوا تھا جس نے شام کے محلات کو ان پر روشن کردیا تھا۔
اور حدیث قدسی لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کو علامہ آلوسی اور علامہ اسماعیل حقی نے اپنی تفاسیر میں درج کیا ہے۔ جبکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے اِنِّیْ مَعَ الْاِکْرَامِ۔ لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ کے الفاظ میں اسے الہام فرمایا۔ نیز حضور علیہ السلام نے اس کا اپنی کتب میں بھی ذکر فرمایا ہے۔ تفاسیر اور حضور علیہ السلام کی ان کتب کے حوالے حسب ذیل ہیں:
1۔ (روح المعانی از علامہ آلوسی جزو 29 صفحہ 306تفسیر سورۃ النبا زیر آیت 38۔ داراحیاء التراث العربی بیروت ایڈیشن 1999ء)2۔ (روح البیان از علامہ حقی بروسوی جلد6 صفحہ24 تفسیر سورۃ النور زیر آیت 36۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت ایڈیشن 2004ء)3۔ (تذکرہ صفحہ 525 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)4۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 102 )