حاملہ عورت پرچاندا ور سورج گرہن کے وقت چاقو چھری کے استعمال یا نیند کے نتیجہ میں اثرات ہوناتوہمات ہیں
سوال: ایک خاتون نےحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ تفسیر میں سے حاملہ عورتوں پر چاند گرہن کے اثرات کے بارے میں ایک اقتباس بھجوا کر دریافت کیا کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت حاملہ عورت نہ سوئے اور نہ ہی کوئی چھری چاقو وغیرہ استعمال کرے، اس کی کیا حقیقت ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 10؍مارچ 2021ء میں اس سوال کا درج ذیل جواب عطا فرمایا:
جواب: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے حکم سے چاند، سورج، سیاروں اور ستاروں کو انسان کی خدمت پر مقرر فرمایا ہے۔ اس لیے ان اجرام فلکی سے نکلنے والی شعاعیں اور ذرات مختلف انداز سے زمین اور زمین پر موجود اشیاء پر کئی طریقوں سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ عام زندگی میں سورج کی طرف دیکھنے سے ہماری بینائی پر کوئی بہت زیادہ بُرا اثر نہیں پڑتا لیکن سورج گرہن کے وقت بعض صورتوں میں سورج کی طرف دیکھنا انسانی بینائی کے ضائع ہونے کا باعث ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ہمارے مشاہدہ میں یہ بات بھی ہے کہ سورج کی روشنی کئی قسم کی زمینی بیماریوں کو دور کرنے کا موجب ہوتی ہے اور پھل، پھول، سبزیوں اور فصلوں پر مختلف طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ نیز چاند کی روشنی بھی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرنے اور کئی قسم کی سبزیوں اور پھل پھولوں پر اثر ڈالتی ہے۔
اگرچہ سائنس کی اب تک کی تحقیق چاند گرہن کےحاملہ عورتوں پر اثر انداز ہونے کی نفی کرتی ہے لیکن سائنسدان اس بات کے بہرحال قائل ہیں کہ چاند کی روشنی انسانی نیند پر اثر انداز ہوتی ہے، اسی طرح سورج سے نکلنے والے خاص قسم کے Neutrinosنامی لاکھوں ذرات انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں اور جسم میں موجود ایٹم ان ذرات کو جذب کرنے کی وجہ سے ایک نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن اس تغیر کا کوئی بد اثر انسانی جسم پر یا حاملہ عورت کے جنین پر نہیں ہوتا ہے۔
انسانی علم اور سائنسی تحقیقات اللہ تعالیٰ کے لا محدود علم کے مقابلہ پر بہت ہی معمولی حیثیت رکھتا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ خود سائنسی تحقیقات بھی مختلف زمانوں میں بدلتی رہی ہیں اور اب بھی ان میں رد ّو بدل ہوتا رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’گو رات اوردن ان اجرام فلکی کی تاثیرات کے ظہور کا نام ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ بھی سورج اورچاند اورستاروں کے اثرات ہیں۔ اور ان سے ایسی تاثیرات بھی دنیا پر پڑتی ہیں جو آنکھوں سے نظر آنے والی شعاعوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ جیسے برقی یامقناطیسی اثرات۔ اوران کے سوااورکئی قسم کی تاثیرات ہیں جوسائنس روز بروز دریافت کررہی ہے۔ اورکئی وہ شاید کبھی بھی دریافت نہ کرسکے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد چہار م صفحہ 138)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی مختلف تصانیف میں قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں چاند، سورج، ستاروں اور سیاروں کی زمین اور اہل زمین پر تاثیرات کے مضامین کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ تحفہ گولڑویہ میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’یہ ستار ے فقط زینت کےلئے نہیں ہیں جیسا عوام خیال کرتے ہیں بلکہ اِن میں تاثیرات ہیں۔ جیسا کہ آیت وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ حِفۡظًا(حٰم السجدۃ:13)سے، یعنی حفظًا کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اُسی قسم کا دخل جیساکہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آگے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں۔ یہ چیزیں بجز اذن الٰہی کچھ نہیں کر سکتیں۔ ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا اس انسان سے زیادہ تر کوئی دنیا میں جاہل نہیں کہ جو بنفشہ اور نیلوفر اورتربد اور سقمونیا اور خیارشنبر کی تاثیرات کا توقائل ہے مگر اُن ستاروں کی تاثیرات کا منکر ہے جو قدرت کے ہاتھ کے اوّل درجہ پر تجلی گاہ اور مظہرالعجائب ہیں جن کی نسبت خود خدا تعالیٰ نے حفظًا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لوگ جو سراپا جہالت میں غرق ہیں اس علمی سلسلہ کو شرک میں داخل کرتے ہیں۔ نہیں جانتے جو دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت یہی ہے جو کوئی چیز اس نے لغو اور بے فائدہ اور بے تاثیر پیدا نہیں کی جبکہ وہ فرماتا ہے کہ ہر ایک چیز انسان کیلئے پیدا کی گئی ہےتو اب بتلاؤ کہ سماءالدنیاکو لاکھوں ستاروں سے پُر کر دینا انسان کو اس سے کیا فائدہ ہے؟ اور خدا کایہ کہنا کہ یہ سب چیزیں انسان کےلئے پیدا کی گئی ہیں ضرور ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ان چیزوں کے اندر خاص وہ تاثیرات ہیں جو انسانی زندگی اور انسانی تمدّن پر اپنا اثر ڈالتی ہیں۔ جیسا کہ متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتدا میں بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ اس کو درست کیا ہے۔‘‘(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 282تا283،حاشیہ)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یاد رہے کہ سائنس کی موجود ہ تحقیق نے سپکٹرم کے ذریعہ سے جوایک ایساآلہ ہے جس کے ذریعہ سے روشنی کی شعاعوں کو پھا ڑ کر الگ الگ کرلیا جا تاہے۔ یہ معلومات حاصل کی ہیں کہ فلاں ستارے میں فلاں قسم کی دھاتیں ہیں اورفلاں میں فلاں قسم کی۔ جس سے معلوم ہوتاہے کہ صرف روشنی ہی نہیں بلکہ روشنی کے ساتھ مختلف دھاتوں کی تاثیرات بھی دنیا پر اُترتی رہتی ہیں اور ان سے اہل دنیا کے دماغ اورقویٰ پر مختلف اثرات نازل ہوتے رہتے ہیں۔ چاند کی شعاعوں کی تاثیرات توکئی رنگ میں دنیا پر ظاہرہوتی رہتی ہیں۔ عام طور پر ہمارے ملک میں مشہور ہے کہ چاند گرہن جب مکمل ہو توحاملہ عورتوں پر اس کابرااثر پڑتا ہے۔ چنانچہ ایسے وقت میں حاملہ عورتیں کمروں سے باہر نہیں نکلتیں۔ گوعام طور پر اسے وہم سمجھا جاتا ہے۔ مگر میں نے اس سوال پر خاص طورپر غور کیا ہے اورمعلوم کیا ہے کہ جب چاند گرہن مکمل ہو تواس کے بعد بہت سی عورتوں کی زچگی سخت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اوران میں بکثرت موتیں ہوتی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ تکلیف اٹھانے والی عورتیں وہ ہوتی ہیں جو ایسے وقت میں چاند کودیکھتی ہیں۔ یااس کے بغیر بھی ان پر یہ تاثیر عمل کرتی ہے۔ مگر بہرحال میں نے کئی دفعہ اس کا تجربہ کیا ہے اوردوسروں کو بھی بتایا ہے۔ جنہوں نے اپنے تجربہ سے اس کی تصدیق کی ہے۔‘‘(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 138تا139)
پس چاند، سورج اور دیگر سیاروں اور ستاروں کی تاثیرات کا زمین اور اہل زمین پر اثر انداز ہونا تو ثابت ہے لیکن گرہن کے وقت حاملہ عورت کے چاقو چھری وغیرہ استعمال کرنے یا اس کے اس وقت میں سونے یا نہ سونے سے اس کا کوئی تعلق نہیں، یہ محض توہمات ہیں۔