حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قلم مبارک سے خلافت راشدہ کے سات امتیازات
اسلامی خلافت راشدہ کی وہ کونسی علامتیں ہیں جس سے وہ ممتاز ہوتی ہے اور اس میں اور باقی تمام اقسام اقتدار ملوکیت وغیرہ میں کھلے طور پرفرق کیا جا سکتا ہے؟
1952ء میں الفرقان کے خلافت نمبر کی اشاعت کے وقت میں نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استفسار کیا تھا کہ’’اسلامی خلافت راشدہ کی وہ کونسی علامتیں ہیں جس سے وہ ممتاز ہوتی ہے اور اس میں اور باقی تمام اقسام اقتدار ملوکیت وغیرہ میں کھلے طور پرفرق کیا جا سکتا ہے؟‘‘ حضور رضی اللہ عنہ نے اس وقت اس سوال کا جو جواب رقم فرمایا تھا اسے درج ذیل کیا جا تا ہے۔
(ایڈیٹر الفرقان، ربوه)
’’اسلام میں خلافت راشدہ کے مجموعی امتیازات سات ہیں:
اوّل۔ انتخاب
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا۔ (سورة النساء: 59)
یہاں امانت کا لفظ ہے لیکن ذکر چونکہ حکومت کا ہے اس لیے امانت سے مراد امانت حکومت ہے۔ آگے طریق انتخاب مسلمانوں پر چھوڑ دیا۔ چونکہ خلافت اس وقت سیاسی تھی مگر اس کے ساتھ مذہبی بھی، اس لیے دین کے قائم ہونے تک اس وقت کے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انتخاب صحابہ کریں کہ وہ دین اور دیندار کو بہتر سمجھتے تھے ورنہ ہر زمانہ کے لیے طریق انتخاب الگ ہوسکتا ہے۔ اگر خلافت صحابہ کے بعد چلتی تو اس پر بھی غور ہو جا تا کہ صحابہ کے بعد انتخاب کس طرح ہوا کرے۔ بہر حال خلافت انتخابی ہے اور انتخاب کے طریق کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے۔
دوم۔ شریعت
خلیفہ پر اوپر سے شریعت کا دباؤ ہے وہ مشورہ کو رد کر سکتا ہے مگر شریعت کو رد نہیں کر سکتا۔ گویا وہ کانسٹیٹیوشنل ہیڈ ہے۔ آزاد نہیں۔
سوم۔ شوریٰ
اوپر کے دباؤ کے علاوہ نیچے کا دباؤ بھی اس پر ہے یعنی اسے تمام امور میں مشورہ لینا اور جہاں تک ہو سکے اس کے ماتحت چلنا ضروری ہے۔
چہارم۔ اندرونی دباؤ یعنی اخلاقی
علاوہ شریعت اور شوریٰ کے اس پر نگران اس کا وجود بھی ہے کیونکہ وہ مذہبی رہنما بھی ہے اور نمازوں کا امام بھی۔ اس وجہ سے اس کا دماغی اور شعوری دباؤ اور نگرانی بھی اسے راہ راست پر چلانے والا ہے جو خالص سیاسی، منتخب یا غیر منتخب حاکم پرنہیں ہوتا۔
پنجم۔ مساوات
خلیفۂ اسلامی انسانی حقوق میں مساوی ہے جو دنیا میں اور کسی حاکم کو حاصل نہیں۔ وہ اپنے حقوق عدالت کے ذریعہ سے لے سکتا ہے اور اس سے بھی حقوق عدالت کے ذریعہ سےلیے جاسکتے ہیں۔
ششم۔ عصمت صغریٰ
عصمت صغریٰ اسے حاصل ہے یعنی اسے مذہبی مشین کا پرزہ قرار دیا گیا ہے۔ اور وعدہ کیا گیا ہے کہ ایسی غلطیوں سے اسے بچایا جائے گا جو تباہ کن ہوں اور خاص خطرات میں اس کی پالیسی کی اللہ تعالیٰ تائید کرے گا اور اسے دشمنوں پر فتح دے گا۔ گویا وہ مؤید من اللہ ہے اور دوسرا کسی قسم کا حاکم اس میں اس کا شریک نہیں۔
ہفتم۔ وہ سیاسیات سے بالا ہوتا ہے اس لیے اس کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہوتا
وہ ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے اس کے لیے کسی پارٹی میں شامل ہونا یا اس کی طرف مائل ہونا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ (سورة النساء: 59)یعنی جب ایسے شخص کا انتخاب ہوتو اس کا فرض ہے کہ وہ کامل انصاف سے فیصلہ کرے۔ کسی ایک طرف خواہ شخصی ہو یا قومی ہونہ جھکے۔ ‘‘
(بشکریہ ماہنامہ الفرقان ربوہ مئی 1967ء صفحہ6-7)
(مرسلہ: مولانا عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)
٭…٭…٭